قرآن میں نبیۖ کے خواب اور شجرہ ملعونہ کا تصور کیا ہے؟
فروری 20, 2021
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
قرآن میں نبیۖ کے خواب اور شجرہ ملعونہ کا تصور کیا ہے؟۔سید ابوالاعلیٰ مودودی اور جاویداحمد غامدی میں کس بات پر اختلاف ہے؟ اور اصل حقائق کیا ہیں؟۔ علماء کرام اور قوم کے دانشورتوجہ کریںگے تو معاملہ حل کرسکتے ہیں !
رسول اللہۖ کو بیت المقدس کی دومرتبہ فتح اور اہل کتاب کی شکست کا بیداری کے عالم میں جو خواب دکھایا گیا تھا وہ پورا ہوگا تو اختلافات کے ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی
قرآن میں شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے اور یہ لوگوں کی آزمائش کیسے ہے؟۔ جنت سے نکلوانے، جنسی فتنہ سامانی کا خطرناک کھیل اورحلالہ کی لعنت کا غیرفطری تصورواقعی بڑ ی آزمائش ہے!
رسول اللہ ۖ نے آخری خطبہ میں فرمایا:” اے لوگو! وہ باتیں سن لو ! جس سے تم ٹھیک زندگی گزار سکوگے۔ خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار ظلم نہ کرنا۔
مسلمانو!تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزتیں حرمت والی ہیں۔
مسلمانو! شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ نماز پڑھنے والے اس کی پرستش کریں لیکن وہ تمہارے اندر رخنہ اندازی کرے گا۔
سب انسان ایک آدم کی اولادہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر ، عرب کو عجم پر اور عجم کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ فضیلت کا معیار تقویٰ ( کردار) ہے۔ ……….. میرا یہ پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچادو!”۔
قرآن میں ایک صحابی زید کے نام کا ذکر ہے ، نبیۖ نے اس کو اپنا منہ بولا بیٹا اور جانشین بھی نامزد کیا تھا۔ حضرت زید نے نبیۖ کی حیات طیبہ میں شہادت کا مرتبہ پایا۔ جب وصال سے پہلے نبیۖ نے اسامہ بن زید کی قیادت میں لشکر تشکیل دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کسی بڑے تجربہ کار شخصیت کو مقرر فرمائیں لیکن نبیۖ نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے اسکے باپ زید پر بھی اعتراض کیا تھا لیکن اس نے اپنی اہلیت ثابت کردی تھی۔
خطبۂ حجة الوداع میں نبیۖ نے جو قاعدہ کلیہ بتادیا تھا وہ اس بات کا تقاضہ کررہا تھا کہ رسول اللہۖ کے وصال فرمانے کے بعد انصار وقریش ، اہلبیت اور آنے والے ہردور کے حکمرانوں کو منصبِ خلافت کا حقدار تسلیم کیا جائے۔ حکمران کے تقرر پر اختلاف کا وجود باعث رحمت تھا ۔ آج تمام امت مسلمہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھارہی ہے۔
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے جس طرح سے اقتدار کا نظم ونسق سنبھالا تھا وہ قابلِ تحسین تھا۔ رسول اللہۖ سے مختلف معاملات میں صحابہ نے اختلاف کیا اور کئی مرتبہ وحی بھی انکے حق میں نازل ہوئی جیسے سورہ ٔ مجادلہ اورغزوۂ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کے معاملے میں۔ خلفاء کیلئے اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی تو پھر ان کا مقام ومرتبہ رسول اللہۖ سے بڑا تصور ہوتا۔ رسول اللہۖ کی رہنمائی وحی سے ہوتی تھی اور خلفاء کی رہنمائی باہمی مشاورت کے ذریعے سے ہورہی تھی۔ جب حضرت علی پر کسی نے اعتراض کیا کہ نظم ونسق آپ سے صحیح نہیں سنبھل پارہاہے ،آپ میں سابقہ خلفاء کی صلاحیت نہیں ہے تو حضرت علی نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر و عمر کے مشیر ہم تھے اور میرے مشیر تم لوگ ہو۔ یہ میری کمزوری نہیں بلکہ تمہاری غلط اور کمزور مشاورت کا نتیجہ ہے۔
خواب کے دو معانی ہیں۔ ایک نیند کی حالت میں خواب دیکھنا اور دوسرا مستقبل کے اندر اپنی تحریک اور مشن کے خواب دیکھنا۔ دونوں پر خواب کا اطلاق ہوتا تھا۔ بنی اسرائیل کی سورة میں جس خواب کا ذکر ہے جو نبیۖ کو بیداری کے عالم میں راتوں رات دکھایا گیا تھا۔ اس کی تعبیر اگلی آیات میں موجود ہے کہ بنی اسرائیل دو مرتبہ فساد برپا کریںگے۔ پہلی مرتبہ سخت قوم سے واسطہ پڑے گا۔ تاریخ میں روم کی سپر طاقت کو شکست دی گئی تھی ۔ یورپ کے بحر کو مسلمانوں کے جس طوفان نے آشنا کردیا تھا ، اس کی تعبیر نہ سمجھنے والے پاپڑ بیلیں یا بیچیں۔ اب دوبارہ پھر انشاء اللہ مسلمان فاتحانہ انداز میں ہی بیت المقدس میں اپنا داخلہ کرکے نبیۖ کے خواب اور قرآن کی آیات کو عملی جامہ پہنائیںگے۔
جب مسلمانوں کیخلاف ہونے والی سازشوں پر اہل کتاب کے کرتے دھرتوں کے منہ کالے ہونگے کہ کس طرح انسانیت کو تباہ وبرباد کیا۔ وسائل پر قبضہ کیا۔ ہیروئن و دیگر منشیات سمگلنگ کرنے کے جال بچھائے۔ نااہل حکمرانوں کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کئے رکھا۔ دہشت گردوں کی پشت پناہی کی۔ ریاستوں کے نظام کو تباہ کیا۔ انسانی جانوں کو بے پناہ تشدد اور جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ قرآن میں الفاظ یہ ہیں کہ
فاذا جاء وعد لاٰخرة لیسوء وجوھکم ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرة و لیتبروا ماعلوا تتبیرًاO
” جب دوسرا وعدہ آئے گا تاکہ تمہارے منہ کالے کردئیے جائیں اور تاکہ مسجد(اقصیٰ) میں داخل ہوں ، جیسے پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے، تاکہ تمہاری بڑائی خاک وخاکستر کردیں”۔ یہ شکست جسمانی تشدد اور بلڈنگوں کو تباہ کرنے کے ذریعے سے نہیں ہوگی بلکہ بہت بڑی اخلاقی شکست کا سامنا ان کو کرنا پڑے گا۔
سورۂ الحدید کے آخر میں بھی مسلمانوں کیلئے کفیلین دو حصوں کا ذکر ہے۔ پہلا حصہ گزر چکا ہے اور دوسرا حصہ باقی ہے۔ جس میں اہل کتاب کو یہ یقین ہوجائے گا کہ زمین پر ان کی اجارہ داری نہیں ہے۔ سورہ الحدید کی آخری دوتین آیات بھی دیکھ لیں۔
قرآن میں شجر ہ ملعونہ کا ذکر ہے۔ جنت سے نکلنے کا بھی یہی ذریعہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اے بنی آدم ! شیطان تمہیں ننگا نہ کرے جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوادیا تھا۔ مذہبی طبقے نے ہمیشہ عوام کا استحصال کیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عورت کے حقوق پامال ہوتے تھے۔ قابیل نے ہابیل کا خون بھی عورت کی وجہ سے کیا تھا۔ آج جنسی تشدد کے بعد بچیوں کے واقعات جس طرح سے بڑھ رہے ہیں۔ ڈارک ویب کے فتنے ہیں، عورتوں کی ہراسمنٹ کا ہر جانب فتنہ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ مولوی حلالہ کے نام پر جس طرح عورت کا شکار اور استحصال کررہاہے اس نے غیرت، عزت، ضمیر، قانون ، انسانیت اور اخلاقیات کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر لعنت کا ثبوت کیا ہوگا؟۔
قرآن میں طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ روزِ روشن کی طرح بالکل واضح ہے مگر مولوی اس کو سمجھنے کے باوجود نظرانداز کررہاہے۔ جس کے کرتوت مدارس کے طلبہ پر ہاتھ صاف کرنے سے بھی گریز نہ کرتے ہوں تو حلالہ کی لعنت پر اسکا ضمیر کیا جنبش کرے گا؟۔ ہم نے اپنی چار کتابوں اور اخبار کے بہت سے شماروں میں کافی وضاحت کردی ہے۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے ہاں حقائق نہیں پہنچے ہوں اور غلط فہمی کا شکار ہوں اسلئے بار بار مختلف شماروں میں مختلف انداز سے تھوڑی بہت وضاحت کرنی پڑتی ہے۔شجرہ ملعونہ سے کیا مراد ہے؟ ۔ قرآن میں ناجائز جنسی تعلقات کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔
الذین یجتنبون کبٰرالاثم والفواحش الا اللمم ان ربک واسع المغفرة ھو اعلم بکم اذ انشاَکم من الارض و اذا نتم اجنة فی بطون امھٰتکم فلاتزکوا انفسکم ھو اعلم بمن اتقٰیO
”جو لوگ اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگر کچھ قصور سرزد ہوجائے۔ بیشک تیرا رب وسیع مغفرت والا ہے۔ وہ تمہیں جانتا ہے جب تمہیں زمین سے نکالا اور جب تم ماں کے پیٹ میں جنین تھے پس اپنے نفس کی پاکی بیان مت کرو۔ وہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے”۔( سورۂ النجم آیت32)
انسان کی پیدائش کس غلے سے ہوئی ہے وہ بھی اللہ جانتا ہے اور جب ماں کے پیٹ میں جنین ہوتا ہے تب بھی وہ جانتا ہے۔ انسان اتنی کمزور چیز ہے کہ کھیت کی ہریالی میں بھی مست ہوجاتا ہے، اپنے بود وباش میں بھی مست ہوجاتا ہے۔ اس کے دل ودماغ میں کسی چیز کی واضح تصویریں اور نفسانی ہیجانات میں خواہشات کے رحجانات میں بہت کمزور واقع ہوتا ہے اسلئے اپنے نفس کے تزکیہ کیلئے غرور ودھوکہ دہی سے منع کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ کون تقویٰ اختیار کرتا ہے۔ اچھے لوگوں کی یہ خوبیاں بیان کی ہیں کہ وہ بڑے گناہوں اور فحاشی سے اجتناب کرتے ہیں مگر تھوڑا سا قصور سرزد ہوجائے۔
اگر اللہ تعالیٰ بڑے گناہوں اور فحاشی سے اجتناب کا حکم نہ دیتا تو معاشرہ جانوروں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر ہوجاتا۔ انسانیت شرافت کا نام ہے جانور پن کا نہیں ۔ پاکستان ، ایران کا متعہ اور سعودی عرب کا مسیار بھی شجرہ ملعونہ کی فتنہ سامانیوں کا بادَ سموم ہی ہے۔ مغرب نے معاشرے کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ محمد شاہ رنگیلا اور خلافت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کی ساڑھے چار ہزار لونڈیوں کے علاوہ سعد اللہ جان برق کی کتاب ”دختر کائنات” اور دوسری متعلقہ کتابوں میں شجرہ ملعونہ کی داستانیں دیکھ سکتے ہیں۔ دنیا میں جس طرح کی روش برپا ہے وہ کسی کی نظروں سے بالکل بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ جب اسلامی قانون سازی میں حضرت عمر فاروق اعظم کے دور میں بصرہ کے گورنرحضرت مغیرہ ابن شعبہ کے واقعہ میں بخاری کی روایات اور فقہاء کے اختلافات کاسلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے تو پھر اس بنیاد پر کسی کے اندر یہ ہمت نہیں ہوسکتی ہے کہ اس واقعہ اور اس کے حوالے سے قانون سازی کو دنیا کے سامنے کوئی پیش کرسکے۔ سب سے کمزور گواہ نے جس طرح سے گواہی دی تھی وہ بھی اتنی دلچسپ اور معانی خیز ہے کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیںگے تو شاید کسی دوسرے کو دیکھنے کی ہمت بھی نہیں ہوگی۔ اسلامی قانون سازی پر ایک اچھی پیش رفت اور قابلِ لائحۂ عمل اس وقت ممکن ہے کہ جب علماء ، دانشور اور حکام مخلص ہوکر بیٹھ جائیں اور پھر اس پر عمل بھی کریں۔ سنگساری کی سزا صرف جبری جنسی تشدد کی صورت میں ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی وضاحت بھی ہے۔ سورۂ نور میں سب کیلئے یکساں سزا کا حکم ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہورہاہے۔
طلاق اور اس سے رجوع پر جتنی وضاحت قرآن وسنت میں موجود ہے،اگر اس کی حقیقت کھل کر عوام کے سامنے آگئی تو بڑے بڑے مولانا چہرے چھپاتے پھریںگے لیکن اس شرط پر کہ وہ اس میں ملوث رہے ہوں اور ان میں شرم وحیاء کی رمق بھی باقی ہو،جو بڑی مشکل بات ہے۔ طلاق اور اس سے رجوع کو جتنا حساس معاملہ قرار دیا گیا ہے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں اس کی حساسیت اس سے بہت زیادہ ہے لیکن اس کو سمجھنے کی کوشش پر کسی نے شاید اپنا وقت ضائع کرنے کی کوشش نہیں کی اور اگر کسی نے اپنا ایجنڈا بناکر مسائل کے حل کی کوشش کی ہو تو یہ نفسِ مسئلہ کیلئے نہیں ہے بلکہ اسکے اپنے مخصوص مقاصد کیلئے ہے۔
طلاق کے حوالے سے چند بنیادی باتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
(1:) طلاق سے رجوع کیلئے اللہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن شرط یہی کہ میاں بیوی اس طلاق کے بعد کسی بھی مرحلے پر صلح کیلئے رضامند ہوں۔
(2:) ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں عدت نہیں ہے لیکن مقرر کردہ حق مہر کا نصف ہے اور اگر مقرر نہ ہو تو غریب وامیر پر اپنی اپنی وسعت کے مطابق آدھا حق مہر ہے۔
(3:) ہاتھ لگانے کے بعد طلاق کی عدت بھی ہے۔ اگر طلاق کا اظہار نہ کیا جائے تو پھر عدت چار ماہ ہے اور رجوع کیلئے شرط باہمی رضامندی ہے اور اگر طلاق کا ارادہ تھا اور پھر اظہار نہیں کیا تو یہ دل کا گناہ ہے اس پر اللہ کی پکڑ ہے۔ اسلئے کہ طلاق کے اظہار سے عدت کی مدت میں ایک ماہ کی کمی آتی ہے۔
(4:) طلاق کے بعد عورت صلح پر راضی نہ ہو تو ایک طلاق کے بعد بھی رجوع کی اجازت نہیں ہے اور عورت اس کیلئے بالکل حرام ہے۔ زبردستی سے دس حلالے کے تصور سے بھی وہ حلال نہیں ہوسکتی ہے۔ یہی طلاق کی اصل اور بنیادی بات ہے۔ جو قرآن میں واضح کی گئی ہے اور اس کو اصلاح، معروف اور باہمی رضامندی سے واضح کیا گیا ہے۔
(5:) عورت کو حیض آتا ہو تو طلاق کی عدت تین طہرو حیض ہے۔ حیض نہیں آتا ہو یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بہت جلد یاخلاف معمول دیر سے آتا ہو تو عدت تین ماہ ہے۔
(6:) عدت کے دوران کسی اور سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ عدت اللہ نے رجوع اور پشیمانی کیلئے رکھی ہے۔ طلاق کی گنتی کا اصل معاملہ صرف عدت کی گنتی کیساتھ ہے۔ رسول اللہۖ نے فرمایا کہ پہلے طہروحیض، دوسرے طہرو حیض اور تیسرے طہرو حیض کی عدت اور تین مرتبہ طلاق کا معاملہ قرآن واحادیث میں بالکل واضح ہے۔
(7:) قرآن میں اتنا بڑا تضاد تو نہیں ہوسکتا ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر باہمی اصلاح سے رجوع کی اجازت دے اور دوسری آیت میں عدت کے اندر رجوع پرپابندی بھی لگادے؟۔ علماء وفقہاء نے قرآن کریم کو تضادات کی عجیب کتاب بناکررکھ دیا ہے۔
(8:) عدت میں رجوع کرنے کی وضاحت صرف اسلئے کی گئی ہے تاکہ عورت عدت کی مدت پوری ہونے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزادی کا حق سمجھ لے۔ لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ قرآن میں بار بار وضاحت کی گئی ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع ہے۔
(9:) آیت(228)البقرہ میں یہ واضح ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی اصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے اور دس مرتبہ طلاق کے بعد بھی عدت میں رجوع ہوسکتا ہے۔ رجوع کا تعلق عدد سے نہیں بلکہ باہمی رضامندی اور عدت سے ہے۔آیت(229)میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عدت کے تین مراحل سے تین مرتبہ طلاق کا تعلق ہے اور تیسرے مرحلہ میں بھی معروف طریقے سے ہی رجوع ہوسکتا ہے جس کو باہمی اصلاح ہی کہہ سکتے ہیں۔
(10:)جب عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو پھر کسی بھی طلاق کے بعد مرد کیلئے رجوع کرنا حلال نہیں یہاں تک کہ عورت اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ لیکن اگر وہ راضی ہو تو معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت کی تکمیل کے فوراً بعد اور عرصہ بعد رجوع کا دروازہ اللہ نے نہ صرف کھلا رکھا ہے بلکہ دوسروں کو بھی رجوع میں رکاوٹ نہ بننے کا حکم دیا ہے۔ علماء ومفتیان کو تفصیل کی ضرورت ہو تو سورہ بقرہ و سورہ طلاق کی آیات دیکھ لیں اور نہیں سمجھ میں آتی ہوں تو ہماری کتابوں میں تفصیلات موجود ہیں۔
NAWISHTA E DIWAR February BreakingNews Edition 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat
لوگوں کی راۓ