علماء و مفتیان کی قرآن فہمی کی تصویر کا دوسرا رُخ اور حقیقت ۔ عتیق گیلانی
جون 14, 2020
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
مُلاؤں نے ایک طرف فرض روزوں پر جس طرح کا حملہ کیا ہے اس کی جھلکیاں تصویر کے پہلے رُخ میں موجود ہیں۔اب ہم سفر کی نماز میں تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہیں تاکہ علماء حق اور حق کے طالب عوام الناس کی آنکھیں کھلیں اور قرآن کریم کی طرف اُمت مسلمہ بخوبی متوجہ ہوجائے۔
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروامن الصلوٰة ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا ان الکافرین کانوا لکم عدوًا مبیناO و اذا کنت فیہم فاقمت لھم الصلوٰة فلتقم طآئفة منھم معک ولیأخذوا اسلحتھم فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتأت طآئفة اُخرٰی لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم ود الذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة ولا جناح علیکم ان کان بکم اذًی من مطرٍ او کنتم مرضیٰ ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ان اللہ اعد للکٰفرین عذاب مھیناO فاذا قضیتم الصلوٰة فاذکروااللہ قیٰما و قعودًا و علیٰ جنوبکم فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوٰة ان الصلوٰة کانت علی المؤمنین کتٰباً موقوتاًO (آیات ١٠١، ١٠٢، ١٠٣ ، سورة البقرہ)
اور جب تم سفر کرو زمین میں تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کرلو۔ اگر تمہیں ڈر ہو کہ فتنہ میں ڈالیں گے وہ لوگ جو کافر ہیں ۔ بیشک کافر تمہارے لئے کھلے دشمن ہیں۔ اور جب آپ ان میں موجود ہوں اور آپ ان کیلئے (باجماعت ) نماز قائم کریں تو ضرور ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے اور وہ اپنے ہتھیار بھی پاس رکھیں اور جب سجدہ کرلیں تو یہ لوگ آپ کے پیچھے ہوجائیں اور آئے دوسرا گروہ جنہوں نے نماز نہیں پڑھی تو وہ آپ کے ساتھ نماز پڑھیں اور حاضر دماغ رہیں اور اپنا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ لیں۔ جو لوگ کافر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اگر تم اپنے اسلحہ اور اپنے سامان سے غافل ہوجاؤ تو ایک دم تم پر حملہ کردیں۔ اور تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر تمہیں بارش کی وجہ سے تکلیف ہو یا تم بیمار ہو کہ اپنا اسلحہ رکھ لو۔ مگر حاضر دماغی سے کام لو۔ بیشک اللہ نے کافروں کیلئے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اور جب تم نماز پوری کرچکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ پس جب تمہیں اطمینان ہوجائے تو نماز قائم کرو۔ بیشک نماز مؤمنوں پر مقررہ وقتوں پرفرض ہے۔(النساء 103-102-101)
ان آیات میں سفر کی نماز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ جس میں واضح الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے اوپر کوئی حرج نہیں کہ اگر سفر میں نماز میں سے کچھ کم کرو۔ جس کا مطلب آسانی سے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ قصر کرنا اللہ نے فرض نہیں قرار دیا ہے بلکہ اس کی اجازت دی ہے۔ علماء کا حال یہ ہے کہ مقتدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی ہے اور وہ سب کے سب مسافر نہیں مقیم ہوتے ہیں مگر کوئی امام مسافر ہوتا ہے تو وہ اپنی قصر پڑھ کر فارغ ہوجاتا ہے جسکے بعد مقتدیوں کو اپنی نماز خود پوری کرنی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دوسرے مسالک کے نزدیک سفر میں قصر کرنا جائز ہے اور احناف کے نزدیک فرض ہے۔ حالانکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے سفر کی حالت میں پوری نماز بھی پڑھی ہے اور قصر بھی پڑھی ہے۔
پھر احناف کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ مسافر امام اپنی قصر نماز کے بعد سلام پھیرے گا اور مقیم مقتدی اپنی نماز پوری کریں گے اور بقیہ نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بجائے خاموش ہی رہیں گے۔ عام طور پر نماز جنازہ اور نماز عید کا طریقہ کار بتایا جاتا ہے مگر مسافر امام کے پیچھے مقیم مقتدیوں کو کسی قسم کی تلقین بھی نہیں ہوتی ہے۔ شاید وہ اس سردردی کا احساس بھی رکھتے ہیں۔ فرض روزوں کو ایک ایک مسکین کا کھانا کھلانے کی بنیاد پر ساقط کرنے والے کیا ہی اچھا کرتے کہ مسافر امام صاحبان قرآنی آیات کو دیکھ کر قصر کے بجائے مقتدیوں کی خاطر پوری ہی نماز پڑھ لیتے۔ اگر ان پر دباؤ پڑ جائے تو دوسرے مسالک پر عمل بھی کرگزریں گے۔
سفر کی نماز کے حوالے سے قرآن میں جہاں قصر کا ذکر ہے وہاں نمازِ خوف کا بھی ذکر ہے۔ نمازِ خوف کیا ہے؟ تو اس کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیا ہے۔فرمایا کہ
حٰفظوا علی الصلوٰت و الصلوٰة الوسطیٰ وقوموا للہ قانتینO فان خفتم فرجالاً اورُکباناً فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم مالم تکونوا تعلمونO البقرہ 140-139
نمازوں کی محافظت کرو خاص طور پر بیچ کی نماز کی اور اللہ کے آگے تواضع سے کھڑے ہوجاؤ۔ پھر اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل چلتے چلتے پڑھ لو یا سوار ہوکر پڑھ لو۔ پھر جب تم خوف سے امن پالو تو اللہ کو یاد کرو (نماز) جس طرح سے تمہیں سکھایا گیا جو تم نہیں جانتے تھے۔( البقرہ)
ان آیات کے سیاق و سباق میں کسی جنگ کا ماحول نہیں بلکہ جس قسم کا بھی خوف ہو اس میں باقاعدہ سجدہ اور رکوع وغیرہ کے بجائے پیدل یا سوار ہوکر چلتے چلتے نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ عام طور پرسفر میں امن کی حالت ہو تو پھر نماز قصر کی گنجائش ہے اور جب خوف کا عالم ہو تو پھر اس کا بیان ہوچکا ہے جس میں قیام رکوع سجود کا تصور نہیں۔
سورہ نساء میں بھی سفر کی نماز میں قصر کے بعد خوف کی نماز کا ذکر ہے جس کا حکم سورہ بقرہ میں پہلے سے واضح تھا۔ پھر سفر کی حالت میں یہ تلقین ہے کہ جب نبی ۖ نماز کے قیام کا اہتمام فرمائیں تو صحابہ دو گروہوں میں تقسیم ہوں۔ ایک گروہ مستقل حفاظت کررہا ہو جس کیلئے اسلحہ اٹھانا ایک فطری بات ہے۔ مگر جو گروہ نبی ۖ کے ساتھ نماز میں شریک ہو تو اس کو بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پھر جب وہ ایک رکعت مکمل کرلیں تو پھر پیچھے ہٹ جائیں اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ نماز میں شریک ہوں۔ جس کیلئے نماز کے اندر بھی حاضر دماغی اور اسلحہ ساتھ رکھنے کی وضاحت ہے۔ کیونکہ کافر تاک میں رہتے تھے کہ موقع ملے اور ایک دم حملہ کردیں۔ ایک ہائی ویلیو سیکیورٹی کا تقاضہ یہی تھا کہ سفر میں بھی پہلے تو باجماعت نماز نہ پڑھی جائے۔ نبی ۖ نے انفرادی نمازیں پڑھی ہیں جبھی تو حضرت عائشہ نے قصر اور غیر قصر کا ذکر کیا ہے۔
اگر نبی ۖ نماز پڑھانے کا فیصلہ کریں تو ساری توجہ آپۖ کی حفاظت پر مرکوز کرنے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پھر بارش کی وجہ سے اذیت یا مریض ہونے کی حالت میں اسلحہ رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم نماز پوری کرچکو تو قیام ، بیٹھنے کی حالت اور لیٹنے کی حالت میں اللہ کا ذکر کرو۔ اسلئے کہ خلاف معمول خوف کی نماز میں قیام و رکوع و سجود کا اہتمام نہیں ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ جب تم اطمینان کی حالت میں آجاؤ تو معمول کے مطابق نماز کو قائم کرو۔ اسلئے کہ وقت کے مطابق نماز مؤمنوں پر فرض کی گئی ہے۔ یہ آیات لڑائی اور جنگ سے متعلق نہیں کیونکہ یہ خلاف فطرت ہے کہ دشمن قتل و غارت کررہا ہو اور آدمی پھر بھی اس کے سامنے قیام و رکوع اور سجود کا فرض ادا کرے۔
خوف کا کوئی تعین نہیں۔ لٹیروں کا خوف ہو ، بیماری کا خوف ہو، جنگلی جانوروں کا خوف ہو اور کسی قسم کا بھی خوف ہو ، جس میں قیام ، رکوع اور سجود کرتے وقت خدشات بڑھ جائیں ۔ یہ نماز فرض کرنیوالے کی طرف سے وضاحت ہے۔ رسول اللہ ۖ اور صحابہ کرام موجودہ مذہبی لوگوں کی طرح جاہل نہیں تھے کہ بدر و اُحد میں باقاعدگی سے نماز کا اہتمام کرتے اور دشمنوں کو موقع دیتے بلکہ خندق کھودتے وقت بھی نمازیں قضاء ہوئی تھیں جب باقاعدہ جنگ شروع نہیں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کیلئے بھی جن لوگوں نے کہانیاں گھڑی ہیں وہ قرآنی آیات کو غور سے دیکھیں اور سمجھ کر اپنے مؤقف پر نظر ثانی کریں۔ علامہ اقبال مجاہد نہیں ایک شاعر تھے۔ اسلئے شاعرانہ کلام میں جذبات کی لڑیاں باندھنے کیلئے عین لڑائی میں وقت نماز اور سر بسجود ہونے کی بات کی ہے۔ مفتی منیب الرحمن نے کورونا کے حوالے سے میڈیا پر جو بیان دیا تھا کہ عین لڑائی میں بھی نماز فرض ہے تو یہ اس کی جہالت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ خدارا ! علماء کرام اور مفتیان عظام قرآن دیکھ کر عوام کی رہنمائی کریں۔
لوگوں کی راۓ