مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور کی آخری سرحد پر. تحریر: عتیق گیلانی
نومبر 12, 2020
جب رحمة للعالمین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم الانبیاء و المرسلین ۖ کی بعثت ہوئی تو دنیا جہالت سے گزر رہی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام کی نسبت والے مشرکین مکہ، یہود اور نصاریٰ اصل دین سے ہٹ چکے تھے۔ مجوسی ، بدھ مت، ہندو اور دنیا بھر میں مختلف مذاہب اپنی اصل سے ہٹے تھے اور جاہلیت کی اندھیر نگری کا ڈیرہ لگا تھا۔
رسول اللہ ۖ کی 13سالہ مکی اور 10سالہ مدنی زندگی میں مسلم اُمہ بہت مشکلات سے گزر رہی تھی لیکن رسول اللہ ۖ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ ترین رول ماڈل تھے۔ قرآن کریم وقتاً فوقتاً ہر مشکل و سہولت کی گھڑی میں نازل ہوتا۔ رسول اللہ ۖ نے اکیلے طائف میں تبلیغ کا مشکل فرض ادا فرمایا۔ کفار نے توہین آمیز رویہ اپنایہ اور پتھروں سے سرکارِ دو جہاں ۖ کو لہولہان کردیا۔ آپ ۖ نے ہتک آمیز رویہ اور پتھر مارنے والوں سے کوئی گلہ نہیں کیا۔ اللہ کی بارگاہ میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا کہ الٰہی تو مجھ سے ناراض تو نہیں کہ مجھے ان لوگوں کے حوالے کیا۔ اگر آپ مجھ سے ناراض نہیں تو مجھے اس سلوک کی کوئی پرواہ نہیں۔
آج امت کھڈے لائن لگائی جارہی ہے،ہماری آزادی چھین رہی ہے اور ہماری تباہی و بربادی پر دشمنوں کے دل ٹھنڈے نہیں ہوتے مگرہم لمحہ بھر کیلئے بھی سر جوڑ کر نہیں بیٹھتے کہ ہم سے بھول چوک تو نہیں ہوئی ؟۔ افغانستان ، لیبیا ، عراق اور شام تباہ ہوگئے لیکن ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ مسئلۂ فلسطین وکشمیر حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا۔ اسرائیل کا پنجہ مضبوط تر ہوتا گیا۔ مٹھی بھر یہود نے امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور غیر مسلم و مسلم ممالک کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور شکنجہ پاکستان پر بھی کسا جارہا ہے مگر ہم ہیں کہ اپنے مستقبل کا کوئی احساس تک بھی نہیں رکھتے ۔
بڑے دانشور طبقے کی رائے ہے کہ ”یہود و نصاریٰ اور ترقی یافتہ ممالک نے عروج اسلئے حاصل کیا کہ مذہب سے جان چھڑالی ”۔ لا مذہب روس سے دنیا کو غلبے کے خطرات لاحق ہوئے۔ عالمی طاقتوں نے جہاد سے اس کا بیڑہ غرق کیا۔ چین کی ترقی کے پیچھے ماؤزے تنگ کا ہاتھ تھا ۔ شمالی جنوبی کوریا، جاپان کی ترقی بدھ مت کی مرہون منت نہیں۔ گاؤ کے پجاری بھارت کی ترقی سیکولر ازم کی مرہون منت ہے۔ سعودیہ تیل سے دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا تھا لیکن پابندشرعی سلاسل آل سعود کو بھی مذہب سے ہجرت کرنا پڑ ی۔ شیخ الحدیث و القرآن مفتی زر ولی خان نے فرمایا کہ ” مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا ، بال بال بچ گئے، شکر ہے۔ دار العلوم کراچی میں کوؤں کی بھرمار تھی۔ شیخ الاسلام کو دار العلوم سے کوؤں کو بھگانے کی توفیق نہیں۔ میں نے احسن العلوم میں باقاعدہ ایک آدمی کوؤں کو بھگانے کیلئے رکھا ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی کوا نظرنہیں آئیگا۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ پانچ چیزیں فاسق ناپاک ہیں جن کو حرم کی حدود میں بھی قتل کیا جائے۔ سانپ، بچھو، کوا، باؤلا کتا اور چیل”۔
مفتی تقی عثمانی ومفتی رفیع عثمانی کا فتویٰ ہے کہ ”کراچی و حیدر آباد کے کوے حلال ہیں”۔ پابندِشرع تھے تو شاید کوے مرغوب غذا ہو، جب شریعت چھوڑ کر سُود کو جواز فراہم کردیا تو ترقی کرلی۔ علماء نے تصویر کی حرمت کو چھوڑا توویڈیو کی ترقی کرلی۔ عمران خان لوٹوں کی مخالفت کرتا تھا تو سیٹ مشکل سے جیتتا تھا اور جب اس نے اپنا نظریہ چھوڑ دیا تو وزیر اعظم بن گیا۔ کیا ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ نکالا جائے کہ ہم اپنے دین اور نظرئیے کو چھوڑ دیں گے تو پھر ترقی کی راہیں ہموار ہوجائیں گی؟۔
پہلے توہین رسالتۖ کی خبر پر سلمان رشدی مغرب میں چھپتا پھرتا۔ پھر ڈینمارک کے کارٹوں سے جذبات کا سمندر اُبل پڑا۔ اب فرانس نے حکومتی سطح پر گستاخانہ کارٹونوں کی نمائش کرکے اُمت مسلمہ کو چیلنج کردیا مگر دھیمے لہجے میںآواز اُٹھ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ جذبہ کشمیر کی آزادی کی طرح خواب بن کر رہ جائیگا ۔ ہم نے دوسروں کی غلطیوں پر نظر رکھی۔ مولانا حسین احمد مدنی سے مولانامحمد یوسف لدھیانوی تک مولانامودودی کو علماء دیوبند نے انبیاء ، اُمہات المؤمنین اور صحابہ کاگستاخ لکھ دیا۔ ایک مودودی سو یہودی کا نعرہ لگانے کے بعد اتحاد کی ضرورت پیش آئی تو مولانا مودودی اور اسکے پیروکار بھی شامل کئے۔ جسکی وجہ سے ضمیر ڈھیٹ بن گئے اور نظریات کے ٹیٹ نکل گئے۔ مولانا منظور نعمانی کے استفتاء اور علماء دیوبند کے فتوے میں اہل تشیع کو تین وجوہات کی بنیادپر قادیانیوں سے بدتر کافر قرار دیا۔ 1:قرآن کو نہیں مانتے،2: صحابہ کو کافر کہتے ہیں،3: عقیدۂ امامت پر ختم نبوت کے منکر ہیں۔ پھر اتحاد تنظیمات المدارس، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کا حصہ بنایا۔ مذہبی طبقہ پتہ نہیں کونسے حکیم کے لونڈے سے دوا لیتاہے کہ متضاد نظریات ، عقیدے اور فتوے کے لکڑ پتھر ہضم کرلیتاہے۔ بریلوی دیوبندی،جماعت اسلامی اہلحدیث اور شیعہ سنی ایکدوسرے پر کفر، گستاخی، گمراہی انواع و اقسام کے فتوؤں سے فارغ نہیں ہوتے تو پھر کسی اور کی طرف توپوں کا رُخ کیسے ہوگا؟۔ شعور کی دنیا میں اسلام سے محبت کرنیوالا مذہبی طبقہ سب سے زیادہ اندھیر نگری اور بے شعوری کا شکار ہے۔
مذہبی طبقات کے مقابلے میں وہ لوگ زیادہ گمراہی کا شکار ہیں جنہوں نے مذہب کیساتھ جدید دانش کی شراب بھی پی ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے کہ داعش طالبان کے نام سے دہشت گردی کی فضاء گرم ہو، فرقہ واریت کی بدبو دار لہروں سے ماحول آلودہ ہو،لسانی تعصبات کی آگ بھڑک اُٹھے، سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان جنگ و جدل سے پاکستانی قوم بے یقینی کی موت مر ے اور ہماری لاشوں پر عالمی طاقتیں ڈھول بجائیں ہمیں سب کیلئے قابل قبول حقائق کی طرف آنا ہوگا۔
ملحد جس انداز میں پیغمبراسلام ۖکی توہین فیس بک پر کررہے ہیں ، فرانس کے کارٹون تو اسکے سامنے کچھ بھی نہیں۔ سیاستدان اور علماء کو عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنا آتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، مریم نوازاور عمران خان اعلان کریں کہ فرانس میں انکے لوگ اثاثے بیچ کر نیشنلیٹی چھوڑ دیں تو مذہب سے حقیقی محبت کا پتہ چلے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو کئی جیالوں نے خود سوزی کرلی۔ کیا نبیۖ کے ناموس سے علامہ خادم رضوی، شاہ محمود قریشی، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز، علامہ الیاس قادری ، علامہ شہنشاہ حسین نقوی وغیرہ کو اتنی محبت بھی نہیں کہ جتنی جیالوں کو بھٹو سے تھی اور جس طرح خود کش حملوں کو جائز قرار دیا جاتا تھا تو احتجاجاً خود کو آگ لگانے سے احتجاج کا صحیح حق ادا ہوجائیگا۔ اپنی ماچس کی تیلیوں سے اپنی رقم سے بنائے ہوئے مجسموں کو جلانا اللہ اور اسکے رسولۖ کی بارگاہ میں قبول نہیں۔
عمران خان جب اپوزیشن میں تھا تو کم ڈرامے کئے تھے؟ کہ اب اقتدار میں بھی اس کی ڈرامہ بازی ختم نہیں ہوتی ہے۔ ملاضعیف کوامریکہ کے حوالے کیا تھا اور پنجاب پولیس کے گلوبٹوںکو طالبان کے حوالے کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا تو فرانس کے سفیر کو طالبان کے حوالے کیا جائے۔ ورنہ فرانس کے سفیر کو فرانس بھیج دیا جائے اور اپنا سفیر بلالیا جائے۔ نہیں تو عوام کو بھڑکانے اوراس ڈرامہ بازی کی کیا ضرورت ہے کہ” سارے مسلمان حکمرانوںکو آخری حد تک لیجانے کی کوشش کروں گا”۔
ایک ایسی سنجیدہ کوشش کی ضرورت ہے کہ مغرب کے مسلمان بھی افغانستان، عراق ،لیبیا ، شام ، فلسطین،بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوں۔ایک ایک مسئلے کا مدبرانہ حل اسلامی تعلیمات کے عین مطابق موجود ہے مگر مسلمان حکمران اور علماء ومفتیان اسلام کی حقیقت سے بالکل بہرہ مند نہیں ہیں۔
لوگوں کی راۓ