پوسٹ تلاش کریں

شیطانی القا کے مقابلے میں قرآن اور حدیث کی وضاحتیںاور اُمت مسلمہ کا بتدریج فتنے کا شکار ہونے کے مراحل کی وجوہات کا زبردست ، معقول اور قابلِ قبول جائزہ۔ جس دن اُمت مسلمہ نے شیطانی القا کی جگہ قرآنی آیات کو دیکھا تو انقلاب آجائے گا!

شیطانی القا کے مقابلے میں قرآن اور حدیث کی وضاحتیںاور اُمت مسلمہ کا بتدریج فتنے کا شکار ہونے کے مراحل کی وجوہات کا زبردست ، معقول اور قابلِ قبول جائزہ۔ جس دن اُمت مسلمہ نے شیطانی القا کی جگہ قرآنی آیات کو دیکھا تو انقلاب آجائے گا! اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حلالہ کی لعنت اللہ کی سنت نہیں شیطان کی کنت ہے، قرآن میں اللہ نے اس کو مٹادیا ہے مگر رسول اللہۖ کی تمنا میں شیطان نے اپنا القا کرکے اُمت کو سابقہ اُمتوں کی طرح گمراہ کردیا

ہندوستان کی ہندو خاتون رکن پارلیمنٹ نے قرآن پڑھ کر طلاق اور اس سے رجوع کا معاملہ سمجھ لیا لیکن مریم نواز کا سرپرست مولانا فضل الرحمن اس کو سمجھنے کیلئے جان بوجھ کر تیار نہیں ہوتا

اب سوال یہ ہے کہ مسئلہ طلاق پر قرآن کی طرح احادیث میں بھی یہ وضاحتیں موجود ہیں؟۔ تو جواب یہ ہے کہ قرآن میں مسائل کی وضاحت کے بعد کیا احادیث کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟۔ قرآن تسلسل کیساتھ صحابہ کرام و تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں موجود تھا جبکہ احادیث کے ذخائر مدینہ کے سات مشہور فقہاء قاسم بن محمد بن حضرت ابوبکر، عروہ بن عبداللہ بن حضرت زبیر ، سعید بن المسیب وغیرہ کے دور میں بھی نہیں تھے جن میں ایک حضرت ابوبکر کے پوتے اور دوسرے حضرت ابوبکر کے نواسے تھے۔ ان کے بعد پھر ائمہ اربعہ کے دور میں احادیث مرتب ہونا شروع ہوگئیں ۔ ائمہ اربعہ کے عرصہ بعد صحاح ستہ احادیث کی چھ کتابیں مرتب ہوئی ہیں۔ قرآن کو اولیت دینے پر اتفاق ہے۔
حضرت عمر نے نبیۖ کو خبر دی کہ ابن عمر نے حیض کی حالت میں طلاق دی ہے تو رسول اللہۖ غضبناک ہوگئے اور پھر اس کو رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ پاکی کے دنوں میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر پاکی کے دنوں میں رجوع کرنا چاہو تو رجوع کرلو اور طلاق دینا چاہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح طلاق کا امر کیا ہے”۔( بخاری کتاب التفسیر سورۂ طلاق)۔
ابورکانہنے ام رکانہ کو طلاق دی اور دوسری خاتون سے نکاح کیا تو اس نے نبیۖ سے اسکے نامرد ہونے کی شکایت کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ یہ اسکے بچے کس قدر ابورکانہ سے مشابہت رکھتے ہیں؟۔ اس خاتون کو طلاق کا حکم دیا اور اُم رکانہ سے رجوع کا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا وہ تین طلاق دے چکا ، نبی ۖ نے فرمایا مجھے معلوم ہے اور سورۂ طلاق کی آیات کی تلاوت فرمائی۔ (ابوداؤد)
قرآن اور احادیث میں بالکل بھی کوئی تضاد نہیں ہے۔ابن عباس نے کہا ہے کہ رسول ۖ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور میں ابتدائی تین سال تک ایک ساتھ تین طلاق کو ہم ایک شمار کرتے تھے۔ پھر حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ آئندہ جو بھی ایک ساتھ تین طلاق دے گا تو اس پر تین ہی جاری کروں گا،جس چیز میں اللہ نے تمہیں سہولت دی ،اسکا تم غلط فائدہ اُٹھارہے ہو۔ (صحیح مسلم)
صحیح بخاری کی احادیث میں تین مرتبہ طلاق کو عدت کے تین مراحل کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ بخاری کی کتاب التفسیر سے واضح ہے کہ قرآن کی یہ تفسیر ہے۔ کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت بخاری میں بھی یہ حدیث ہے جس کامطلب یہی ہے کہ قرآن وسنت میں تین مرتبہ طلاق عدت کافعل ہے۔
امام ابوبکر جصاص حنفی رازی نے طلاق سنت کی وضاحت میں لکھ دیا ہے کہ ”قرآن میں الطلاق مرتان (طلاق دو مرتبہ ہے ) سے یہ واضح ہے کہ طلاق عدد نہیں فعل ہے۔ عدد اور فعل میں فرق واضح ہے۔ 2 روپیہ کو 2مرتبہ روپیہ نہیں کہا جاسکتا ۔2مرتبہ حلوہ کھانے کو 2حلوہ کھانا نہیں کہاجاسکتا ۔( الاحکام القرآن)
نکاح فعل ہے۔ تین (3)بار قبول کیا، قبول کیا، قبول کیا کہنے پرتین (3) نکاح نہیں ہوتے اور تین (3)بار حلوہ کھایا، حلوہ ، حلوہ کھایا سے تین حلوئے کھانے نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح تین (3) طلاق کہنے سے تین مرتبہ طلاق کے الگ الگ فعل کا تصور نہیں ہوتا۔
اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کا حکم کیسے جاری کیا؟، کیا آپ نے قرآن وسنت اور عربی لغت کو نہیں سمجھاتھا؟۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ حضرت عمر اقتدار میں تھے اور اقتدار میں فریقین کا جھگڑا سامنے آتا ہے۔ حضرت عمر نے جھگڑے میں فیصلہ دیا اسلئے کہ قرآن میں تنازع کی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے بلکہ صلح کی شرط پر رجوع ہے۔
بہت بڑا سوال یہ ہے کہ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو اس پر نبیۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا کہ میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب سے کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اسے قتل کردوں؟۔
اگر اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا تھا تو نبیۖ غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم دیتے۔ رسول اللہۖ کے ”غضبناک ” ہونے کا یہی مطلب نکلتا ہے کہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تھا؟۔ یہ بات معتبرعلماء اور مفتیان نے اپنی اپنی کتابوں میں حلالہ کے حوالے سے لکھ دی ہے؟۔
جواب یہ ہے کہ اللہ نے فرمایا:” آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں آیا مگر جب اس نے تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں القا کردیا، پس اللہ مٹادیتا ہے جو شیطان نے القا کیا اورپھراپنی آیات کو استحکام بخش دیتا ہے ”۔(الحج:52)
نبیۖ کا غضبناک ہونا اس وجہ سے نہیں تھا کہ اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تھا۔ نبیۖ کی یہ تمنا تھی کہ قرآن کے مطابق مرحلہ وار طلاق دی جائے۔ جنہوں نے کہاکہ نبیۖ کا غضبنا ک ہونا دلیل ہے کہ پھر رجوع نہیں ہوسکتا ہے انہوں نے شیطانی القا کو مذہب بناکر دین کا تحفظ نہیں کیا بلکہ دین کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور پہلے انبیاء کرام کی تمناؤں کا بھی شیطانی القاؤں نے بیڑا غرق کیا ۔ اگر نبیۖ کا غضبناک ہونا اسلئے تھا کہ رجوع نہیں ہوسکتا تو پھر عبداللہ بن عمر پر غضبناک ہونے کے بعد رجوع کا کیوں حکم دیا تھا؟۔
جس شخص نے نبیۖ سے عرض کیا تھا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ تووہ حضرت عمر ہی تھے اور جس شخص کے بارے میں خبر دی تھی کہ اس نے اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں تو وہ حضرت عبداللہ بن عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت محمود بن لبید کی روایت سے زیادہ مضبوط اور واضح ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے اکٹھی تین طلاق دی تھیں اور بیس سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جو اس بات کی تردید کرتا۔
ایک مضبوط سوال یہ ہے کہ چاروں اماموں نے اس پر کیوں اتفاق کیا تھا کہ ایک ساتھ تین طلاق واقع ہوجاتی ہیں؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اصل مسئلہ تو تنازع میں رجوع کے حق کا تھا لیکن پھر شیطان نے اپنے القا سے معاملہ بگاڑ دیا۔ شیعہ اور اہلحدیث کہتے ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق کے بعد شوہر کو رجوع کا حق ہے اور یہ قرآن کی روح کے خلاف ہے ، حضرت عمر اور ائمہ اربعہ کے مؤقف کی تائید قرآن سے ہوتی ہے کہ تنازع کی صورت میں رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جہاں تک باہمی صلح معروف طریقے سے رجوع کا تعلق ہے تو قرآن میں اللہ نے اس شیطانی القا کو مٹادیا ہے اور اپنی آیات کو استحکام بخش دیا ہے۔ قرآن کے مقابلے میں شیطانی القا کچھ نہیں ہے۔
قرآنی آیات میں بڑے تسلسل کیساتھ طلاق کے بعد رجوع کیلئے عورت کی رضامندی ، صلح کی شرط اور معروف طریقے کی وضاحت ہے لیکن شیطانی القا نے قرآنی آیات کی روح کے خلاف عورت سے ناراضگی ،ایک یا دومرتبہ طلاق کے بعد باہمی اصلاح اور معروف رجوع کا حق چھین کر مسائل کا ستیاناس کردیا ہے۔ ان آیات کی تفاسیر میںشرمناک فقہی اختلافات اور تضادات کو بیان کردیا جائے تو علماء ومفتیان خود بھی اس بیوقوفی کی تعلیمات پر ہنس پڑیںگے۔
سورہ حج آیت (53) میں علماء سو کا ذکر ہے ”تاکہ جنکے دلوں میں مرض ہے ان کیلئے شیطانی القا اور مستحکم آیات فتنہ بن جائیںاور جنکے دل سخت ہوچکے ہیں اور جوبدبخت دور کی گمراہی میں جاپڑے ہیں” ۔ اور سورۂ حج آیت (54) میں علماء حق اہل علم کا ذکر ہے ” تاکہ اہل علم جان لیں کہ حق نبیۖ کے رب کی طرف سے ہے اور مؤمنوں کیلئے اس فتنے میں صراط مستقیم کی رہنمائی مل جائے”۔
قرآن سورۂ طلاق میں فحاشی پر عورت کو ایک دم فارغ کرنے کی اجازت ہے۔ حضرت عویمرعجلانی نے بیوی سے لعان کا معاملہ کرنے کے بعد اکٹھی تین طلاق دینے کا اظہار کیا۔ ظاہر ہے کہ فحاشی کے بغیر اکٹھی تین طلاق دینا قرآن کے منافی اور غلط ہے۔ البتہ اگر ایک ساتھ فارغ کیا جائے تو گناہ اور غلط ہونے کے باجود اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ پھر رجوع بھی نہیں ہوسکتا ہے۔ دونوں باتیں افراط وتفریط کی انتہاء اور شیطانی القا ہے۔ یہ بھی غلط ہے کہ فارغ نہیں ہوسکتی ہے اور ایک ساتھ تین طلاق واقع نہیں ہوسکتی ہیں اور یہ بھی غلط ہے کہ اس کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ جب عورت صلح کیلئے راضی نہ ہو تو ایک ساتھ تین طلاق تو اپنی جگہ پر ایک مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ اور جب عورت راضی ہو تو اکٹھی تین طلاق کے بعد عدت میں رجوع کا ہونا تو بہت معمولی بات ہے جو قرآن میں بالکل واضح ہے بلکہ اگر مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دی ہو ، عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی اللہ نے رجوع کو واضح کیا ہے۔
جہاں تک رفاعة القرظی سے طلاق کے بعد عبدالرحمن بن زبیرالقرظی سے نکاح کے بعد اس عورت کے واقعے کا تعلق ہے جس سے نبیۖ نے فرمایا کہ ”آپ رفاعة کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں لوٹ سکتی ،یہاں تک کہ دوسرا شوہر تمہارا شہد( ذائقہ) چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لو”۔ ( صحیح بخاری) تو یہ روایت بھی صحیح بخاری میں پوری تفصیل کیساتھ موجود ہے۔ جب یہ عورت اپنی شکایت لیکر نبیۖ کے پاس پہنچی تھی تو حضرت عائشہ نے اس کے جسم پر مارنے کے نشانات دیکھے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جسم پر تشدد سے نیل کے نشانات پڑگئے تھے۔ اس نے اپنے شوہر کے نامرد ہونے کی شکایت کی تو اس کا شوہر عبدالرحمن بن زبیر القرظی اپنے بچوں کو لیکر پہنچ گئے۔ نبیۖ سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہیں، میں نامرد نہیں ہوں۔ مباشرت میں اس کی چمڑی ادھیڑ کے رکھ دیتا ہوں۔ ان کے بچوں کو دیکھ کر اور ان کی بات سن کر نبیۖ نے فیصلہ کیا کہ عورت اس کے ساتھ رہے۔ (صحیح بخاری)
روایت کی تفصیل سے یہ واضح ہے کہ معاملہ حلالہ کروانے کا نہیں تھا بلکہ شوہر کی طرف سے تشدد اور عورت کی طرف سے نامرد کے جھوٹے الزام کا تھا۔ نبیۖ نے تشدد سے روکا تھا اور میاں بیوی کے درمیان صلح صفائی کروائی تھی۔ ہمارے ساتھیوں میں بھی یہ واقع ہوا تھا کہ عورت نے اپنے شوہر پر نامرد ہونے کا جھوٹا الزام لگادیا اور طلاق کا مطالبہ کیا۔ شوہر نے طلاق دیدی اور پھر عورت نے بعد میں اپنے جھوٹ کا اعتراف کیا اور پھر دونوں کی آپس میں صلح ہوگئی۔ ان کی طلاق سے پہلے بھی ایک بچی تھی اورصلح کے بعد بھی کئی بچے پیدا ہوگئے ۔ اس حدیث کو میاں بیوی کے درمیان صلح کی آخری حد تک کوشش پر محمول کرنا چاہیے تھا لیکن حلالہ کے خوگروں نے قرآن وسنت کی حدود پھلانگتے ہوئے شیطان کو خوش کیا ہوا ہے اور خود بھی سراپا شیطان بنے ہوئے ہیں۔
محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا ہے کہ ” یہ روایت خبر واحد ہے اور اس میں اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ قرآن کے لفظ نکاح پر جماع کا بھی اضافہ کیا جاسکے ۔ حنفی فقہاء اس حدیث کی بنیاد پر جماع کا فتویٰ نہیں دیتے ہیں بلکہ نکاح کو جماع کے معنی میں لیتے ہیں”۔( کشف الباری شرح صحیح البخاری)
امام ابوحنیفہ کے مسلک میں جہاں تک ہوسکے تو ضعیف حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور اگر قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث ہو تو بھی اس کو ناقابل عمل قرار دیا جائے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس کے متعلق صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ ان کو الگ الگ مراحل میں تین طلاقیں دی گئیں تھیں اور ضعیف روایت میں ہے کہ اکٹھی تیں طلاقیں دی گئیں تھیں۔ دونوں میں تطبیق یہی ہوسکتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہوں اور پھر ان کا ایک شمار کیا ہو۔اسلئے الگ الگ بھی تین مرتبہ میںتین طلاق دی گئی ہوں۔ بعض روایات تو بالکل من گھڑت بھی ہیں جن میں ایک ساتھ تین طلاق کے عجیب الفاظ ہیں ۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ حلالہ کیلئے راہیں ہموار کرنے والوں نے اتنا زور لگادیا کہ نبیۖ پر جھوٹ باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ علاوہ ازیں مسئلہ یہ بھی تھا کہ حضرت عمر کیخلاف بدعت کی طلاق ایجاد کرنے والوں کو جواب دینا تھا لیکن من گھڑت احادیث میں بدعت کی طلاق جاری ہونے کے الفاظ بھی بنائے گئے ہیں۔بہت ساری احادیث میں زمین کو مزارعت پر دینا سود قرار دیا گیا جس پر چاروں اماموں کا اتفاق بھی تھا لیکن بعد کے فقہاء نے احادیث اور ائمہ اربعہ سے کھلم کھلا انحراف کیا ہے۔

NAWISHTA E DIWAR May Edition. 2021
Chief Editor: Syed Atiq Ur Rehman Gilani
www.zarbehaq.com www.zarbehaq.tv
#zarbehaq #nawishta_e_diwar #ittehad_e_ummat

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز