آرتھر پاؤل کی افغانستان پر کی گئی حیران کن ریسرچ
اکتوبر 31, 2025
جاوید چوہدری نے زیرو پوائنٹ میں افغان جہاد کے حوالہ سے انکشاف کیاکہ
آرتھر پال امریکن تھا۔ اکاؤنٹس، بجٹ ، آفس مینجمنٹ کا ایکسپرٹ تھا۔ امریکی سیکریٹری آف اکنامکس کا اسسٹنٹ اور اکنامک وارفیئر کا چیف رہا۔ وہ 1960 ء میں ایشیا فاؤنڈیشن میں شامل ہوا اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا اکنامک ایڈوائزر بن گیا۔ظاہر شاہ نے 40 سال 1933ء سے 1973 تک حکومت کی ۔آنکھوں کے آپریشن کیلئے روم گیا تواس کی غیر موجودگی میں اسکے کزن سردار داؤد نے اس کا تختہ الٹ دیا۔ جسکے بعد افغانستان میں وہ خونی کھیل شروع ہوا جو آج 52 سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ آرتھر پال نے ظاہر شاہ کو آزاد معیشت کا ماڈل بنا کر دیا۔ اسکے مشورے پر خواتین کو حقوق دیے، یونیورسٹیاں اور زنانہ کالج بنائے اور معاشرے کو مزید لبرل کیا۔ آرتھر پال کی وجہ سے افغانستان روس سے دور اور امریکہ کے قریب ہونے لگا۔ یہ دوستی روس کو پسند نہیں آئی۔ چنانچہ اس نے سردار دؤاد سے سازباز کرکے تختہ الٹ دیا۔ داؤد خان افغانستان کا پہلا صدر بن گیا۔
تبدیلی کے بعد کشمکش شروع ہوئی۔1978میں سوویت یونین نے افغانستان میں داخل ہو کر داؤد خان کو قتل کر دیا۔ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ آرتھر پال ان حادثوں سے کہیں پہلے کابل آیا اور ظاہر شاہ کا مشیر بن گیا۔ بادشاہ کی قربت نے افغان آرکائیو تک رسائی دی۔ وہ تاریخی دستاویز کی تصویر یا فلم بناتا یا اہم معلومات اپنے پاس لکھ لیتا اور پھر خود یا کسی کے ذریعے اسے پاکستان بھجوا دیتا اور یہ کراچی کے راستے پی آئی اے کے ذریعے امریکہ پہنچ جاتی تھی۔ وہ روز ڈائری لکھتا جس میں افغانستان کے سفر، قبائل کی عادتوں، محل کی اندرونی صورتحال، روس کی مداخلت اور افغان معاشرے میں پلنے والی بے چینی کی روداد لکھتا تھا۔ اس نے محسوس کیا: افغان معاشرے میں استاد کی بہت عزت ہے۔ افغان سماجی طور پر کٹر مذہبی اور تاجر لوگ ہیں۔ یہ سرمائے اور مذہب دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ چنانچہ اس کا خیال تھا کہ اگر کسی نے افغانستان کو قابو کرنا ہو تو اسکے پاس تین کارڈ ہونے چاہئیں: مذہب کا کارڈ، اساتذہ کا کارڈ اور دولت کا کارڈ۔ پورا افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا۔
آرتھر پال 5 سال افغانستان میں رہا۔ افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ پوری افغان آرکائیو بھی کاپی کر لی۔ وہ 1965 میں کابل سے امریکہ واپس آ گیا۔اس کے پاس 20,000 دستاویزات تھیں۔ یہ افغانوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا۔ اس نے اس خزانے کی مدد سے 1965 میں سی آئی اے کو بتا دیا تھا کہ روسی ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیں گے جسکے بعد افغانستان میں خون کا کھیل شروع ہو جائے گا اور یہ پورے سنٹرل ایشیا کو نرغے میں لے لے گا۔ روس افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں، جبکہ پاکستان کی آرمی اور لوکیشن آئیڈیل ہیں۔ اگر یہ دونوں ملک روس کے ہاتھ آ گئے تو پھر یہ عربوں کو نگل جائے گا اور یورپ کو تین سائیڈ سے گھیر لے گا، جس کے بعد یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہوگا۔
اس کا کہنا تھا کہ ہمیں فورا افغانستان، ایران اور پاکستان پر توجہ دینی ہوگی۔ خوش قسمتی سے تینوں ملکوں کے درمیان شیعہ اور سنی اختلافات ہیں۔ اختلافات کی یہ لکیر گہری کرنی ہوگی تاکہ اگر ان ملکوں میں انقلاب آ جائے تو بھی یہ مخالف فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست و بازو نہ بن سکیں۔ افغانستان کے اساتذہ کو ہاتھ میں لینا چاہیے۔ یہ مستقبل میں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔ آرتھر پال 1976 ء میں فوت ہو گیا۔ لیکن وہ 1970 کے شروع میں 20,000 کلیکشنز پر مشتمل یہ سارا خزانہ یونیورسٹی آف نیبراسکا کے حوالے کر گیا۔
یونیورسٹی نے سی آئی اے کی مدد سے 1972 میں اپنے کیمپس میں سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز کے نام سے افغانستان پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی سینٹر بنا دیا۔ یہ سینٹر آج تک قائم ہے اور اس میں افغانستان کی تمام خفیہ ، ظاہری دستاویزات ہیں۔ ان میں کابل دربار 1842، لارڈ لیتن1879 کی افغان وار ، لارڈ کرزن کی 1883 افغان جنگ میں برطانوی سپاہیوں کی قربانیاں،1895 کابل دربار، پٹھان بارڈر لینڈ، 1921 میں چترال سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے حالات، ہرات سے لے کر خیوہ، خوارزم شاہ کا دربار، خیوہ پر روس کا قبضہ، غزنی سے کابل تک کی سیر، دوست محمد کا دربار، راجہ رنجیت سنگھ کے افغانستان سے متعلق نوٹس اور روس کی خیوہ پر 1840 کی مہم تک شامل ہے۔
آرتھر پال کی تحقیق اس حد تک سالڈ تھی کہ اس نے 1965 میں لکھاتھا کہ افغان 39 کے ہندسے کو پسند نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں یہ ماضی میں طوائفوں کے جتھے کا نمبر تھا۔ چنانچہ اگر بد قسمتی سے آپ کی پراپرٹی یا گاڑی کے نمبر میں 39 آ گیا تو پھر یہ افغانستان میں نہیں بکے گی۔ آرتھر پال کی دستاویز پر مشتمل سینٹر نے افغانستان پر امریکی اثر و نفوذ میں اہم کردار ادا کیا۔ امریکہ کی ہدایت پر ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے 16 اساتذہ کا انتخاب کیا۔ پاکستان بلایا اور جہاد کی ٹریننگ شروع کر دی۔ افغان جہاد کا بانی جنرل ضیا الحق نہیں ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ میجر جنرل نصیراللہ بابر ابتدائی مجاہدین کے ٹرینرز تھے۔ یہ 16 اساتذہ افغانستان میں امریکہ کے کمانڈر ثابت ہوئے اور انہوں نے وہاں ایسی آگ لگائی جو آج تک نہیں بجھ سکی۔ نصیراللہ بابر پکے امریکہ نواز تھے۔ یہ بھٹو صاحب کے دور میں بھی گورنرKP اور بینظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت میں وفاقی وزیرِ داخلہ رہے۔ بینظیر بھٹو انکے بیک گرانڈ سے واقف تھیں، چنانچہ وہ انتہائی اہم معلومات ان سے خفیہ رکھتی تھیں۔
مجھے جنرل حمید گل نے ایک بار بتایا کہ میں وزیرِ اعظم کی گاڑی میں انکے ساتھ بیٹھا تھا۔ نصیراللہ بابر اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ تھے۔ میں محترمہ کو افغانستان سے متعلق کچھ بتانے لگا تو بی بی نے اگلی نشست کی طرف اشارہ کرکے مجھے روکا۔ میں سمجھ گیا محترمہ اپنے وزیرِ داخلہ کی وفاداری سے مطمئن نہیں ہیں۔ اس کی تصدیق میجر عامر نے بھی کی۔ یہ ماشااللہ حیات ہیں، آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ 1978 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا۔ امریکی روس سے براہِ راست جنگ نہیں چاہتے تھے۔ جنرل ضیا الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انہیں بھی دوسرے آمروں کی طرح بڑی جنگ چاہیے تھی۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو صاحب کے ٹرینڈ کیے ہوئے 16 اساتذہ، گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، احمد شاہ مسعود، عبد الرشید دوستم اور عبد الرسول سیاف کی مدد سے افغان وار شروع کر دی۔ پھر سینیٹر چارلی ولسن کی وجہ سے امریکہ اور عرب بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔
امریکہ آج بھی افغان جنگ کو چارلی ولسن وار کہتا ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ افغان جہاد کوئی اسلامی جہاد نہیں تھا۔ یہ روس اور امریکہ کے مفادات کی جنگ تھی، جس میں نیبراسکا یونیورسٹی کے سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز اور آرتھر پال کی دستاویزات کے ذریعے اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ امریکی مفادات کی کاشت کاری میں مصر، سعودی عرب اور کینیا کے جذباتی مسلمان نوجوانوں کو بطور کھاد استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل سوویت یونین کی واپسی تک جاری رہا۔ روس کی واپسی کے بعد افغانستان کے نام نہاد مجاہدین آپس میں لڑ پڑے اور امریکی اسلحہ سے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ افغانستان میں اتنا خون بہا کہ چھینٹے امریکہ تک پہنچنے لگے۔
بینظیر بھٹو اور نصیراللہ بابر کو دوسری بار اقتدار میں لایا گیا اور انکے ذریعے آرتھر پال کا دوسرا مذہبی کارڈ کھیلا گیا۔ پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کو افغانستان میں دھکیل دیا گیا۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ امام مہدی کا ظہور قریب ہے۔ یہ خراسان میں تشریف لائیں گے، انکی آمد کیلئے فضا ہموار کرنی ہے۔ یہ اسے حکمِ ربانی سمجھ کر چل پڑے۔ افغان وار لارڈز اس وقت تک لڑ کر تھک چکے تھے۔ طالبان آئے تو یہ چپ چاپ پیچھے ہٹنے لگے۔ یوں 1996 تک افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہوا جسکے بعد امریکہ و پاکستان نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن یہ سکھ بعد ازاں عارضی ثابت ہوا۔ طالبان اپنے انقلاب کو واقعی حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ ہمیں قدرت نے پوری دنیا کی قیادت کیلئے منتخب کیا ۔ یہاں سے نیا تنازع شروع ہو گیا۔ وہ کیا تھا؟ یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔
ــــــــــ
اخبار نوشتہ دیوار کراچی، شمارہ نومبر 2025
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ