آدم نے بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کیا چاہتا ہوں۔ جس کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ’’میں امن چاہتا ہوں‘‘۔
جنوری 21, 2022
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ (النور:55)
اللہ نے وعدہ کیا ہے تم میں ان لوگوں سے جو ایمان والے ہیں اور عمل صالح کرنے والے ہیں کہ وہ ان کو ضرور زمین میں ایسی خلافت دے دے گاکہ جیسے ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی گئی تھی اور ان کیلئے ضرورانکے دین کو ٹھکانا بخشے گا جو دین ان کیلئے اللہ نے پسند کیا ہے اور ضرور بدل دے گاان کیلئے خوف کے بعد امن۔جو میری عبادت کرتے ہیں اورکسی چیزکو میرے ساتھ شریک نہیں کرتے اور جس نے اس سے کفر کیا تووہی لوگ فاسق ہیں۔( سورۂ النور:آیت55)
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
جب اللہ نے زمین میں اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں نے اعتراض اٹھادیا کہ ایسی مخلوق کو کیوں پیدا کررہے ہو جو زمین میں فساد پھیلائے اور خون بہائے لیکن اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ پھر آدم علیہ السلام کی فضیلت کو علم کے ذریعے سے منوایا تھااور فرشتوں سے سجدہ بھی کروایا مگر ابلیس کو سجدے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے بنایا ہے تو میں اس خاک سے بنے ہوئے انسان کو کیوں سجدہ کروں؟۔
مولانا فضل الرحمن نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب بیان کیا تھا کہ حضرت آدم نے فون کیا ہے اور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا چاہتے ہو۔ جس کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ” مجھے امن چاہیے”۔ حدیث میں خوابوں کو نبوت کا وہ حصہ قرار دیا گیا ہے جس کا کچھ حصہ مبشرات کی صورت میں رہ گیا ہے اور مبشرات سے مراد صحیح سلامت خواب ہیں جو الائش سے پاک ہوں اور نبوت سے مراد اصطلاحی نبوت نہیں ہے کیونکہ نبیۖ اس نبوت کی آخری اینٹ ہیں اور آپ ۖ کے بعد نبوت کے کچھ حصے کے باقی رہنے کا عقیدہ ختم نبوت کے خلاف ہے۔ نبوت سے مراد غیب کی خبریں ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا خواب بھی غیبانی خبر ہے لیکن بشرط یہ کہ اس میں کوئی حقیقت ہو اور حقیقت اس وقت ہوگی کہ جب اس کا کوئی نتیجہ بھی نکل کے سامنے آجائے۔
خوابوں کی دنیا میں عرب وعجم کے اندر خلافت علی منہاج النبوت دوبارہ قائم ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں انشاء اللہ عنقریب خلافت بھی ضرور قائم ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نے امن مانگنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ واقعی ان کو امن چاہیے یا پھر اس کی منزل اقتدار میں حصہ بقدر جثہ ہے؟۔PDMکے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعتوں کیساتھ چل سکتا ہے تو اسلامی احکام کیلئے کوئی ایک پلیٹ فارم پر تیار کیوں نہیں ہوسکتا ہے جس سے جمہوری انداز کی بنیاد پر خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھ دی جائے۔ ہمارا اللہ، ہمارے رسولۖ اور ہمارادین کسی ایک ملک اور خطے کیلئے نہیں بلکہ بین الاقوامی اور تمام جہانوں کیلئے ہے اسلئے مقامی سطح پر نمائندگی کیلئے کوئی مخلص اور ایکسپرٹ سامنے آجائے تو اس کو آگے لانے میں ہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دیوبندی ، بریلوی، شیعہ ،اہلحدیث اور پختون، پنجابی، سندھی ، بلوچ ، مہاجر اور کشمیری ہمارے حامی ہیں۔ الیکشن اور سلیکشن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب حضرت عمر کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ اپنے بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کردیں تو حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو اسلئے نااہل قرار دیا کہ وہ طلاق کے مسئلے کو بھی نہیں سمجھ رہاتھا۔ قرآن وسنت میں طلاق اور اس سے رجوع کے مسائل بہت واضح ہیں لیکن علماء ومفتیان نے اتنا الجھاؤ پیدا کردیا تھا کہ سبھی اس مسئلے میں خلافت کی مسند کیلئے نااہل تھے۔ جب علماء کی بڑی تعداد منتخب ہوئی تھی تو مولانا فضل الرحمن نے اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ بنوایا تھا اور باقی سارے علماء اس منصب کیلئے بالکل ہی نااہل تھے۔ پشاور کے حاجی غلام علی اور حاجی غلام احمد بلور میں کیا فرق ہے؟۔ اگر نواب اسلم رئیسانی نے جمعیت علماء اسلام میں شمولیت اختیار کرلی تو کسی عالم دین کے مقابلے میں وہ بھی اکرم خان درانی کی طرح بلوچستان کے وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں۔ اگر پارٹیوں میں یہی فرق ہو تو پھر قوم کا بٹوارہ کرنے کیلئے مختلف طرح کی سنسنی خیزی پھیلا کر امن اور امان کے مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ جس سے دہشتگردوں کو پھرمزید خوف وہراس پھیلانے کے مواقع مل جائیں؟۔
صدر اور وزیر میں فرق ہے۔ صدر اور ناظم اعلیٰ میں بھی فرق ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلیٰ پر مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبیداللہ انور میں اختلاف ہوا تھا۔ پھر مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن میں اسی عہدے پر اختلاف تھا اور آخر میں مولانا فضل الرحمن نے امیر کے عہدے کو اپنے لئے پسند کیا تھا اسلئے کہ جماعت میں جنرل سیکرٹری کی جگہ احادیث میں امارت کی اہمیت ہم نے ہی اس کے سامنے اجاگر کی تھی لیکن جنرل سیکرٹری کے عہدے پر حافظ حسین احمد اور مولانا عبدالغفور حیدری کے درمیان مولانا فضل الرحمن نے اپنا وزن حیدری کے حق میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے حافظ صاحب ہارگئے تھے۔ جنرل سیکرٹری کا متبادل ملک میں وزیراعظم ہوتا ہے۔ پہلے جمعیت میں امیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی ہوتی تھی جس طرح اب ملک میں صدر کی حیثیت ہے لیکن پھر جمعیت علماء اسلام میں امیر کی حیثیت اصل کی اور جنرل سیکرٹری کی حیثیت کٹھ پتلی کی بن گئی ہے۔
اسلامی جمہوری آئین کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت و ریاست میں صدر وامیر کی حیثیت کٹھ پتلی کی نہ ہو۔ وزیراعظم دوسرے وزیروں کی نسبت بڑا ہوتا ہے مگر پھر بھی بہرحال وہ ایک وزیر ہی ہوتا ہے۔ جب سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار نے اپنا اجلاس رکھا تھا تو مہاجرین کے بعض افراد بھی وہاں پہنچ گئے تھے۔ انصار نے انہیں کہا کہ ایک امیر ہم سے ہو اور ایک تم میں سے لیکن مہاجرین نے کہا کہ ہم امیر بنیں گے اور آپ لوگ وزیرومشیر بن جائیں۔ جب حضرت عمر نے خلافت کیلئے ایک شوریٰ تشکیل دی تھی تو اس میں کوئی بھی انصار ی صحابی نہ تھا۔ اگرانصار بھی مشاورت میں شریک ہوتے تو مدینہ میں شاید حضرت عثمان کی شہادت میں بیرونی باغی اتنے جریح نہ ہوتے اور نہ حضرت علی کو کوفہ اپنا مرکز بنانا پڑتا۔
پاکستان کے ابتدائی سالوں میںگورنر قائداعظم ،وزیراعظم لیاقت علی خان، پہلے دو انگریزآرمی چیف اور بعد میں آنے والے محمد علی بوگرہ سے لیکر شوکت عزیز تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک جتنے حکمران آئے ہیں وہ سب کے سب بیرون ممالک سے بلائے گئے نام نہاد پاکستانی تھے یا پھر کٹھ پتلی کی طرح بنائے گئے ۔ پاکستان پہلے بھی دولخت ہوا تھا اور اس میں سب کا مشترکہ کردار تھا اور اب بھی بیرونی اور اندرونی خطرات میں گھراہواہے جس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ قرآن کی تعلیمات سے ہم اپنی معاشرتی اور معاشی تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن مفادات کی سیاست سے ہمارے کرتے دھرتوں کو وقت نہیں ملتا ہے۔ امریکہ میں صدارتی جمہوریت ہے ، برطانیہ میں پارلیمانی جمہوریت ہے اور پاکستان میں کبھی صدر طاقت کا محور بنا اور کبھی وزیراعظم طاقت کا منبع بنا ہے۔ اگر صدر کے وسیع اختیارات ہوں اور لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے تو یہ تجربہ بھی برا نہیں ہوگا۔ عوام بھی براہِ راست صدر کو ووٹ دیں گے تو لوٹوں کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ خلافت راشدہ میں خاندانی سیاست نہیں تھی لیکن جب بنوامیہ اور بنوعباس کی طرح خلافت عثمانیہ اور مغل بادشاہت قائم ہوتی رہی اور عرب میں بادشاہت کا تصور قائم ہوگیا تو اسلام اجنبی بنتاگیا ،مسلمانوں پر زوال آگیا اور اغیار نے ترقی وعروج کی منزل طے کی۔
جب عمران خان دھڑلے سے کہتا تھا کہ ” ہمارے بے غیرت حکمران بھیک مانگتے ہیں۔ میں ڈوب کرمرجاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا ”توہمارے فوجی بھائی تو ہوتے ہی فوجی سری والے ہیں۔ پنجاب میں بغیر مغز کی سری کو فوجی سری کہا جاتا ہے لیکن بڑے بڑے سیاستدانوں اور دانشوروں نے بھی حماقت کا ثبوت دیدیا اسلئے کہ عمران خان کے پلے میں شوکت خانم ہسپتال کو بھیک سے بنانے کے سوا کیا تھا؟۔ سمجھ دار لوگوں نے سوچا تھا کہ یہودکا دامادعالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز لاکر شوکت خانم ہسپتال کی طرح پاکستان کو بھی چلائے گا لیکن جب یہ ساری چیزیں ٹھس ہوگئیں تو اب یہ رونا رویا جاتا ہے کہ عمران خان کی گالیاں اپنی جگہ تھیں لیکن ہرچیز میں الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔
نوازشریف اور مریم نوازکو عدالت نے عمران خان کو اقتدار میں آنے سے پہلے قید کرلیا تھا ،ایک کو بیماری کے بہانے چھوڑ دیا اور دوسری کو تیمار داری کا بہانہ بناکر چھوڑ دیا۔ اب بیماری ہے اور نہ تیمارداری مگرپھر بھی ” میں نہیں چھوڑوں گا” کی رٹ جاری ہے۔ یہ مدینہ کی ریاست ہے یا یہود کی خباثت ہے؟۔ اگر مریم نواز کیلئے قانون الگ ہے اور دوسری سزا یافتہ عوام کیلئے الگ ہے تو پہلی قوموں کی تباہی کا باعث امیر غریب اور باحیثیت اور بے حیثیت کیلئے یہی فرق تھا جس کا عمران خان اپنی رٹی رٹائی تقریروں میں تذکرے کرتا رہتا ہے۔
ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ نے مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کو خرید ا تھا جس کا خمیازہ سقوطِ ڈھاکہ میں بھگتنا پڑا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹر شپ میں امریکہ اور روس کی جنگ میں ہم نے اپنا وزن امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے امریکہ سپر طاقت بن گیا۔ پرویزمشرف کی ڈکٹیٹر شپ میں ہمارا کردار امریکہ کیلئے تھا جس کی وجہ سے پاکستان ، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام عدمِ استحکام اور فتنہ وفساد اور قتل وغارت گری کے شکار ہوگئے ۔ اب طالبان نے ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ چھیڑا تو پھر بڑے پیمانے پر قتل وغارتگری کے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان بھی کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ سیاسی قیادت سے بھی عوام کا اعتماد اُٹھ گیا۔BBC،وائس آف امریکہ ،DWجرمنی، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر تسلسل کیساتھ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ چل رہاہے ۔
پاکستان کا فی الحال یہ واحد ادارہ ہے جو ملک کو استحکام بخشنے میں بنیادی کردار ادا کررہاہے مگر ہر محاذ پر اس کے قبضے کی خواہش نے اس کو کمزور سے کمزور تربھی بنادیاہے۔ نقیب اللہ محسود کیلئے اسلام آباد میں دھرنا تھا تو وزیراعظم شاہد خاقان نے قبائلی عمائدین اورمنظور پشتین سے کہا تھا کہ ” اس ملک میں فوج کے سوا کسی کی طاقت نہیں ہے۔ ہماری حکومت کو ختم کرکے نوازشریف اور شہبازشریف کو پکڑ کر بکریوں کی طرح باندھ دیا گیا اور پھر سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا”۔ کیا نوازشریف نے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے ذریعے فوج کے کہنے پر قتل وغارت کی تھی؟۔ کیا پارلیمنٹ میں تحریری بیان بھی فوج کے کہنے پر پڑھ کر سنایا تھا اور کیا قطری خط بھی کسی کرنل یا میجر نے لکھ کر دیا اور پھر لاتعلقی کا اعلان بھی فوج کے حکم سے کیا تھا؟۔ ہم فریق نہیں لیکن انصاف چاہتے ہیں۔ جب شاہدخاقان عباسی کے کہنے پر قبائل کی اکثریت نے دھرنا ختم کیا تھا تو دھرنے ختم کرنے میں بنیادی کردار شیرپاؤ محسود ایڈوکیٹ کا تھا۔ منظور پشتین اور شیرپاؤ محسود متضاد تھے لیکن آج شیرپاؤ محسود نے بھی اپنی پٹڑی تبدیل کرکے اپنا لہجہ بدل دیا ہے۔
امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں جب وزیرستان میں فضاء بن گئی تو اس میں تحصیلدار مطیع اللہ برکی، گلشاہ عالم برکی ، خاندان ملک کوٹکئی کی پوری فیملی اور علی وزیر کی پوری فیملی کے علاوہ مولانا حسن جان پشاور، مولانا معراج الدین، مولانا نور محمد اور سردار امان الدین کے علاوہ سینکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہوئے اور ایک لیڈی ڈاکٹر کو اغواء کرکے اس سے تاوان وصول کیا گیا جو مرد ہوکر چوتڑ تک بال رکھ سکتے تھے ان سے ہر قسم کی واردات اور بدکرداری کی توقع ہوسکتی تھی لیکن محسود قوم نے ان کو اس وقت اپنے گھروں میں تحفظ فراہم کیا ۔ یہ شوق سے تھا یا خوف سے تھا لیکن اس جرم کی سزا ان کو یہی ملی جو شیرپاؤ ایڈوکیٹ محسود کہتا ہے کہ افغان طالبان جیت گئے،GHQجیت گیا ، تحریک طالبان پاکستان جیت گئی لیکن ہماری عورتیں پھلادی گئی ہیں۔ کیا پنجابی مجاہدین ایسا کرنے کی بھی ہدایت اور ٹریننگ دیتے تھے جو اپنے لوگوں کیساتھ کیا گیا؟۔ اگر محسود اتنے زیادہ بیوقوف تھے تو بھی اپنے انجام تک ان کو پہنچانا بہت ضروری تھا۔
سوشل میڈیا پرہے کہ فوج نے اپنا ایک ریٹائرڈ افسر پکڑلیا ہے جس کے ساتھ ایک خٹک کو بھی گرفتار کیا جو امریکہ کو اطلاع دیکر دہشتگردوں کی جگہ عوام ، بچوں اور خواتین کو مرواتا تھا۔ امریکہ خود بھی دہشت گردوں کی جگہ عوام کو مارتاتھا اور دہشت گرد بھی امریکہ کے بجائے عوام کو مارتے تھے۔جبکہ ایک فوجی افسر نے اپنا مقدمہ سپریم کورٹ میں لڑا ہے جس میں اس نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے خلاف سارے الزام غلط ہیں۔ سب اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور توبہ کرکے ایک نئی منزل کی طرف چلیں، جس میں امن وامان اور سکون ہو اور ملک وقوم اپنی ترقی کی منزل پر گامزن ہوجائے ورنہ خیر کسی کی بھی نہیں ہوگی۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ اور اپنی اپنی حیثیت سے بہت گناہگار اور ناشکرے ضرور بن گئے ہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv
لوگوں کی راۓ