پوسٹ تلاش کریں

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا! اخبار: نوشتہ دیوار

اگر گاڑی کوالٹا کرکے اسکے پہیے چلائیں تو پھر کیاگاڑی چلے گی؟ یہی حال قرآن کا کیا!

وقل انی انا النذیرالمبینOاور کہہ دیں کہ بیشک میں کھلا ڈرانے والا ہوں
کما انزلنا علی المقتسمینOجیسے ہم نے تقسیم کرنے والوں پر نازل کیا
الذین جعلوا القراٰن عضینOجن لوگوں نے قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیاہے
الحجر آیت89،90،91۔ کیاقرآن کو بوٹی بوٹی کرنے والے یہ علماء ہیں ؟
وقال الرسول یاربّ ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجوراًO”اور رسول کہیں گے کہ اے میرے رب بیشک میری قوم نے اس قران کو چھوڑتے ہوئے پکڑ رکھاتھا”۔الفرقان آیت30۔ قرآن کو تھامنا ہوگا۔

جمعیت علماء اسلام بلوچستان( درخواستی گروپ) کے امیر مولانا امیر حمزہ بادینی نے ہمیں بیان دیا تواتنی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیاکہ مدینہ منورہ استخارے کرنے پہنچ گئے۔ جب وہاں سے ڈٹ جانے کا حکم مل گیا تو پھر دوبارہ حمایت میں بیان دیا جس کو ماہنامہ ضرب حق میں شہہ سرخی سے لگادیا۔ بلوچستان جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق بلوچ نے جب ہماری حمایت میں بیان دیا تو بلوچستان کی امارت سے ہٹادئیے گئے۔ حالانکہ پروفیسر غفور ، اتحاد العلماء کے مولانا عبدالرؤف نے بھی دیا تھا۔ تمام مکاتب فکر کے بڑوں نے حمایت کی ہے۔ لیکن جماعت المسلمین پختونخواہ کے صوبائی امیر حفیظ الرحمن نے ہمیں بیان دیا کہ کھڑی گاڑی کو مسلمان ہر طرف سے دھکا لگارہے ہیں جس کی وجہ سے چل نہیں رہی ہے ۔ اگر ایک طرف سے دھکا لگادیںگے تو گاڑی چلے گی۔ قرآن و سنت اور اسلام کیلئے فرقہ پرست مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ جس پرجماعت المسلمین نے صوبائی امارت سے بیچارے کو فارغ کیاتھا۔
اصل میںگاڑی کو الٹا کردیا گیا ہے۔ مسلمان ٹائروں کو چلاکر مست ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ گاڑی کوسب مل کر چلائیں یا انفرادی مگر جب تک یہ کلٹی پڑی ہے تو چلے گی نہیں۔ قرآن میں ان یہودی علماء کی مثال گدھوں کی دی گئی جنہوں نے تورات کومسخ کردیاتھا۔ قرآنی آیات حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کی تھیں ۔ احادیث اور صحابہ کے فتوؤں اور فیصلوں میں بڑی وضاحت تھی۔مگر انہوں نے پھر حلالہ کو قرآن اور حدیث سے بر آمد کیا؟ لیکن بہت بڑی غلط فہمی اور علماء کو علی الاعلان اس سے امت کی جان چھوڑناہو گی نہیں تو ہرمیدان میں چیلنج ہوں گے۔ حلالہ سے لیکرہرچیز کو الٹا کرکے رکھ دیا ۔قرآن کی تعریف، احکام سب کو بوٹی بوٹی کردیا۔حنفی کے ہاں تحریری کتاب قرآن نہیں۔ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز ہے ۔ مصحف پر حلف نہیں ہوتا۔ غیرمتواتر آیات قرآن ہیں۔شافعی کے ہاں غیر متواتر آیات قرآن نہیں۔ جنابت سے نہانے کا حکم ہے جو ہرانسان سمجھتا ہے ائمہ نے فرائض گھڑ کرقرآن بوٹی بوٹی کردیا۔
قرآن میں عبادات کے احکام ہوں مثلاً غسل، وضو، نماز، حج یا معاشرت کے احکام ہوں مثلاً نکاح، ما ملکت ایمانکم کے حوالے سے مسیار و متعہ ، طلاق، خلع ، عورت کے حقوق ، یا پھر شرعی حدود کا مسئلہ ہو لعان ، حد زنا، جبری بدکاری، دو مردوں کی آپس میں بدکاری کی سزا، پاکدامن عورت پر تہمت کی سزا اور قتل کے بدلے قتل ، اعضاء کے بدلے اعضاء یا پھر معیشت کے مسائل ہوں جیسے سُود اور مزارعت وغیرہ سب کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ اگر ایک طرف قرآنی آیات و احادیث کو دیکھیں اور دوسری طرف فقہی مسالک کے نام پر ان احکام پر تقسیم اور فرقہ واریت کو دیکھیں تو نظر آئے گا کہ قرآن کیساتھ قصائیوں والا سلوک مذہبی طبقات نے کیا ہے۔ موجودہ سعودی حکومت سے پہلے خانہ کعبہ میں چاروں سنی مسالک کے مصلے بھی الگ الگ تھے۔ مسجد نبوی ۖ میں6محرابیں تھیں۔ جن میں ایک حنفی مسلک کے امام کا الگ سے محراب بھی تھا۔ یہ فرقہ بندی نہیں تو کیا ہے؟ قرآن کو بوٹی بوٹی بنادیا۔
قرآن میں اللہ نے ایک ایک چیز کی وضاحت کی فرمایا: وانزلنا الکتٰب تبیانًا لکل شئی ” اور ہم نے کتاب کو نازل کیا ہر چیز کو واضح کرنے کیلئے ”۔
نمبر1:حنفی وشافعی کا حلف کے کفارے پرلغو اختلاف۔ لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما کسبت قلوبکم واللہ غفور حلیمO”اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہارے لغو عہد سے مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا ہے۔ اللہ مغفرت والا اور برداشت والا ہے ”۔( آیت225البقرہ )
یمین عربی میں عہدوپیمان کو کہتے ہیں اور معاہدہ توڑنے کو بھی ۔البتہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کبھی یمین سے حلف یا قسم مراد ہوتا ہے۔کفارہ حلف پر ہی ہوتا ہے۔
لایؤاخذکم بالغو فی ایمانکم ولکن یؤاخذکم اللہ بما عقدتم الایمان فکارتہ اطعام عشرة مساکین من اوسط ما تطعمون اہلیکم أو کسوتھم أو تحریر رقبة فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایام ”ذٰلک کفارة أیمانکم اذا حلفتم” واحفظوا ایمانکم کذٰلک یبین اللہ لکم آیاتہ لعکم تشکرونO( المائدہ آیت89)
آیت میں اللہ نے واضح کیا کہ ” یہ تمہارے یمین کا کفارہ اس صورت میں ہی ہے جب تم نے حلف اٹھایا ہو”۔ اندھا بھی سمجھتا ہے کہ یمین حلف ہو تو تب کفارہ ہے ۔ یمین سے حلف مراد نہ ہوتو پھر کفارہ نہیں ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا: فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث ورباع وان خفتم ان لاتعدلوا فواحدہ او ماملکت ایمانکم ” پس تم نکاح کرو،جن کو تم عورتوں میں سے چاہو۔ دودو، تین تین اور چار چار اور اگر تمہیں خوف ہو کہ عدل نہیں کرسکوگے تو پھر ایک یا جن سے تمہارا عہدوپیمان ہوجائے ”۔ یہاں یمین سے معاہدہ مراد ہے حلف نہیں۔ کفارے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اللہ نے یمین کو عہدوپیمان اور حلف کی صورتوں کو واضح کردیا تو حنفی شافعی جھگڑوں میں آیت کے حکم میں بٹوارہ اور بوٹی بوٹی کرنا بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
سورہ مجادلہ میں60دن کے روزوں کا کفارہ متتابعات (تسلسل کیساتھ) ہے ۔ اگر حنفی مسلک اس کا حوالہ دیتے تو شافعی بھی مان جاتے مگر خبرواحد آیت کا عقیدہ قرآن میں تحریف ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے بھی متعہ یا معاہدے کی تفسیر حدیث سے لکھ دی تھی جس کو حنفی الگ آیت مانتے ہیں لیکن متعہ کو پھر کیوں جائز نہیں سمجھتے؟۔ درسِ نظامی کی تعلیم صرف یہ نہیں کہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں بلکہ فقہی مسالک کے نام پرقرآن کو بوٹی بوٹی بنایا جارہاہے۔ قرآن میں استنجوں کے ڈھیلے نہیں بلکہ کائنات کو مسخر کرنے کیلئے سائنس کی دعوت ہے۔ اللہ نے قرآن کے سائنسی حکم پر عمل سے مغرب کو بلند اور مسلمان کو پست کردیا۔
مغرب نے اپنے پادریوں کے مسخ شدہ مذہب کو گرجوں تک محدود کرکے پارلیمنٹ کے ذریعے انسانی حقوق نکاح وحق مہر اور خلع وطلاق پر قانون سازی کی تو وہاں انسانی حقوق نظر آتے ہیں۔ مغرب نے ڈکٹیٹر شپ اور بادشاہت کی جگہ جمہوری نظام کے ذریعے سیاست کو فروغ دیا تو اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنے اور انتقال اقتدار کیلئے خون خرابہ اور قتل وغارت گری کا ماحول ختم ہوگیا۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ ” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیںگے” ۔آج ہمارے مسلمانوں کی حکومتوں میں انسانی حقوق کی زبردست پامالی ہے اور مغربی ممالک پر رشک ہے تو اس کردار کی بدولت ہے۔ قرآن کے الفاظ محفوظ ہیں لیکن اس کے معانی اور احکام کی بوٹی بوٹی کرکے معنوی تحریف کی آخری حدیں پار کی گئی ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے اپنی فیض الباری میں اس معنوی تحریف کا اعتراف کیا ہے۔
سورہ بقرہ آیت224میں یمین سے مراد حلف نہیں بلکہ طلاق وایلاء کیلئے مقدمہ ہے کہ اللہ کو اپنے یمین کیلئے ڈھال مت بناؤ، کہ تم نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ شیطان سب سے زیادہ اس کارکردگی پر خوش ہوتا ہے کہ جب میاں بیوی کے درمیاں صلح میں کوئی رکاوٹ ڈال دے اور آج کل سب سے زیادہ مذہبی طبقہ علماء ومفتیان شیطان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور میاں بیوی کے درمیاں صلح میں رکاوٹ ہیں۔
آیت225البقرہ سے حلف مراد نہیں بلکہ شوہر کا ناراضگی کیلئے کوئی بھی لفظ مراد ہے جوواضح الفاظ میں طلاق کا نہ ہو۔ اللہ نے واضح کیا کہ” لغو بات پر تمہاری پکڑ نہیں ہوگی مگر تمہارے دلوں نے جو کمایا ہے اس پر اللہ پکڑتاہے”۔دل کی اس کمائی پر پکڑنے کی وضاحت اگلی آیات226،227میں بالکل واضح ہے۔
آیت226البقرہ میں واضح کیا ہے کہ ” ان لوگوں کیلئے چار ماہ ہیں جنہوں نے اپنی عورتوں سے لاتعلقی اختیار کررکھی ہے۔ پھر اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔ پھر آیت227میں واضح کیا ہے کہ ” اگر طلاق کا عزم کیاہے تو اللہ سننے جاننے والا ہے”۔ یعنی طلاق کے عزم کے باوجود بھی طلاق کا اظہار نہ کرنا دل کا گناہ ہے جو اللہ سنتااور جانتا ہے اور اس پر پکڑتا ہے۔ اسلئے کہ طلاق کا اظہار کردیا تو عورت کو 4مہینے کی جگہ3مہینے انتظار کی عدت گزارنی پڑے گی۔ جو آیت228البقرہ میںواضح ہے۔ایک مہینے اضافی عدت گزارنے پرعورت کو مجبور کرنا دل کا وہ گناہ ہے جو طلاق کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے ملتا ہے۔
آیت226البقرہ میں اللہ نے ایلاء اور ناراضگی کی ”عدت” کو واضح کیا۔ طلاق کا واضح الفاظ میں اظہار نہ ہو تو پھر کتنی مدت تک شوہر کیلئے عورت کا انتظار ہے؟۔ قرآن میں4ماہ واضح ہیں۔ قرآن کا بٹوارہ کرنے والوں نے آیت226البقرہ میں4ماہ کی عدت کو عدت سے نکال دیا۔ پھر ایک طبقہ کہتا ہے کہ چار ماہ کے بعد بھی زندگی بھر عورت کو انتظار ہی کرنا پڑے گا۔ اس طبقے میں جمہور فقہاء اور علامہ ابن تیمیہ اوراس کے شاگرد ابن قیم شامل ہیں۔ جبکہ حنفی کہتے ہیں کہ چار ماہ بعد طلاق پڑگئی۔ اس آیت کی بوٹیاں ان لوگوں نے ہوا میں اچھال دیں ہیں۔ ایک عورت چار ماہ بعد بدستور خود کو ایک شخص کے نکاح میں مقید سمجھے گی اور دوسری طرف وہ سمجھے گی کہ نکاح سے نکل چکی ؟۔ یہ عورت اور اللہ کے کلام قرآن کیساتھ بہت بڑا گھناؤنا کھلواڑ ہے جو فقہاء ومحدثین نے کردیاہے ۔ جب دنیا کو قرآن کا صحیح پیغام پہنچے گا کہ ناراضگی میں عورت کی عدت چار ماہ ہے تو بڑامعاشرتی انقلاب برپا ہوگا۔ شوہر اپنی بیویوں کی حق تلفی نہیں کریںگے۔
قرآن کو بوٹی بوٹی کرنے کی بہت مثالیں ہیں۔ اللہ نے وضو میں سر کے مسح کا حکم دیا۔ ومسحوابرء و سکم ”اورسروں کا مسح کرو” ۔ حنفی کے نزدیک سر کے ایک چوتھائی کا مسح فرض ہے اسلئے کہ ب الصاق یعنی ہاتھ لگانے کیلئے ہے۔ شافعی کے نزدیک ایک سر کے بال کا مسح کرنے پر فرض پورا ہوگا ۔ب بعض کیلئے ہے۔ مالکی کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہوگا ایک بال رہ جائے توبھی فرض پورا نہیں ہوگا۔ اسلئے ب زائدہ ہے۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چہرہ بھی دھویا جائے ، ہاتھ کہنیوں اور پیر ٹخنوں تک دھوئے جائیں تو سر پر ہاتھ پھیرنا بھی فطری بات ہے۔ جہاں تک اس کے ڈھکوسلہ فرائض اور بدعات کا تعلق ہے تو اللہ نے تیمم کی آیت میں ان کے چہروں پر کالک مل دی ہے اسلئے کہ اس ب کا استعمال کرتے ہوئے فرمایا : ومسحوا بوجوھکم ”اور چہروں کو مسح کرو”۔ اس میں تو بال برابر اور ایک چوتھائی کی تقسیم نہیں ہوسکتی ہے۔ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ مولانا انورشاہ کشمیری نے فرمایا کہ ”میں نے قرآن وسنت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنی ساری عمر ضائع کردی کیونکہ فقہ کی وکالت کی ہے”۔ مفتی محمدشفیع دارالعلوم کراچی سے قرآن وسنت کی خدمت چاہتے تھے تو پھر درس نظامی کی یہ تعلیم کیوں رائج کردی جس کی مولانا انورشاہ کشمیری نے آخرمیں مخالفت کی؟۔
مولانا یوسف بنوری نے مدرسہ ایک انقلاب کیلئے بنایا تھا اور اللہ نے مجھے وہاں تعلیم کیلئے ایک طالب علم کی حیثیت سے ڈال دیا تو ان کی خواہش بھی پوری ہوگئی۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان ان کے دوست تھے۔ کچھ لوگوں نے پیسوں کی خاطر اپنا دین ایمان بیچ کر حاجی عثمان پر فتوے لگائے اور کچھ نے مولانا محمد بنوری کو شہید کرکے ظلم کی انتہاء کردی۔ دین فروش اور ظالموں سے اللہ دین کی خدمت کا کام نہیں لیتاہے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنیکی عمدہ مثالیں یہ ہیں کہ
سورہ بقرہ کی آیت228میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ ” طلاق والی عورتیں تین ادوار تک انتظار کریں……. اور ان کے شوہر اس میں ان کو اصلاح کی شرط پر لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں”۔ ٹوکے والی سرکار حضرت نے پہلا وار یہ کیا ہے کہ شوہروں سے زیادہ مولوی کے فتوے کا حق ہے۔ دوسراوار یہ کردیا کہ طلاق رجعی ہو تو شوہر کو دومرتبہ رجوع کا غیرمشروط حق حاصل ہے۔ یعنی اللہ نے ایک دفعہ بھی صلح کے بغیر رجوع کا حق نہیں دیا اور ٹوکے والی سرکار2دفعہ رجوع کا حق دیتی ہے۔ اگلی آیت229البقرہ میں دو مرتبہ طلاق کیساتھ رجوع کیلئے معروف کی شرط ہے۔اللہ تو اپنی کتاب میں تضادات کا شکار نہیں ہے کہ ایک آیت میں عدت کے اندر اصلاح کی شرط پر رجوع کا حق دے دیا اور دوسری آیت میں پھر اس سے چھین لیا کہ ایک نہیں دومرتبہ غیرمشروط کرسکتے ہو؟۔ قرآن پر تیسراوار یہ کردیاکہ ایک ساتھ تین طلاق دئیے تو عدت میں رجوع کا حق باہمی اصلاح سے بھی ختم ہوگیا، اب حلالہ کرنا پڑیگا۔ چوتھا وار یہ کہ اللہ نے3ادوار تک انتظار کا حکم دیا تھا جس سے ایک عدت بنتی تھی مگر مولوی نے دو دفعہ طلاق رجعی کا حق دیا اور شوہر کو تین عدتوں کا حق دے دیا۔ ایک بار طلاق دی اور عدت کے آخری لمحے میں رجوع کرلیا، پھر دوسری بار طلاق دی ،پھر عدت کے آخرمیں رجوع کیا اور پھر طلاق دی تو عورت کی تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ علاوہ ازیں اگر عورت کو ایک یا دو طلاق دیکر فارغ کردیا اور پھر اس نے کسی اور شوہر سے نکاح کیا اور وہاں سے طلاق ہوگئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ نئے سرے سے پہلاشوہر3طلاق کا مالک ہوگا یا پھر جو پہلے سے ایک یا دو طلاق موجود ہیں اسی کا مالک ہوگا؟۔ اس پر امام ابوحنیفہ وجمہور کا بھی اختلاف ہے اور احناف کا آپس میں بھی؟۔ اگر ایک عورت کو10اشخاص ایک ایک طلاق دیکر فارغ کریں تو ان سب کی جیب میں اس عورت کی2،2طلاق کی ملکیت کا بھی پروانہ ہوگا۔ قرآن کو بوٹی بوٹی کیا تو یہ لوگ شیخ چلی سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ ہمیں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی سے عقیدت ومحبت اسلئے ہے کہ زمانہ طالب علمی میں علماء حق نے نصاب کے خلاف نہ صرف سپورٹ کیا تھا بلکہ کتاب لکھنے والے ملاجیون کے لطیفے بھی سنائے تھے۔
آیت229البقرہ کو بھی ایسی بوٹی بوٹی بنادیا ہے کہ جب سنتے جائیں گے تو شرماتے جائیں گے۔ اللہ نے واضح کیا کہ ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑنا ہے”۔ یہ آیت228کی تفسیر ہے کہ عدت کے تین مراحل میں سے پہلے دو مراحل میں دو مرتبہ طلاق ہے اور پھر رجوع کرنا ہو تو معروف کی شرط پر کرسکتے ہو اور چھوڑنا ہو تو تیسرا مرحلہ آخری ہی ہے۔ پھر اس کی عدت پوری ہوگی اور کسی اور شوہر سے نکاح کرسکے گی۔ جب نبی ۖ سے پوچھا گیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کونسی ہے تو فرمایا ہے کہ یہی کہ احسان کیساتھ چھوڑنا ہی تیسری طلاق ہے آیت229البقرہ میں۔ حنفی مسلک نے ٹوکا اٹھایا کہ اگر عدت میں نیت کے بغیر بھی شہوت کی نظر پڑگئی ،چاہے مرد یا عورت رجوع نہ بھی کرنا چاہتے ہوں تو یہ رجوع ہے۔ شافعی مسلک میں ہے کہ اگر رجوع کی نیت نہ ہو تو تب جماع بھی کیا جائے تو رجوع نہیں ہوگا۔ باہمی رضا مندی اور معروف رجوع کے تصورکو ٹوکے مار مار کر بوٹی بوٹی بنادیا۔ حالانکہ اس کی احادیث صحیحہ میں زبردست وضاحتیں ہیں کہ پہلے طہر میں اپنے پاس رکھو ،حتیٰ کہ حیض آجائے۔ پھر دوسرے طہر میں پاس رکھو ، حتی کہ حیض آجائے۔ تیسرے طہر میں اگر رجوع چاہتے ہو تو رجوع کرلو اور چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑ دو اور یہی وہ عدت ہے جس میں اس طرح طلاق کا اللہ نے حکم دیا ہے۔
قرآن و احادیث کی وضاحتوں کے باوجود کم عقلی کے ٹوکے سے قرآن کا حکم بوٹی بوٹی بنادیا۔ پھر اگر تینوں مراحل میں چھوڑنے کے عزم پر قائم رہے تو اللہ نے کہا کہ ”جو کچھ بھی ان کو دیا ہے ، اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں ہے مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو عورت کی طرف سے وہ چیز فدیہ کرنے میں دونوں پرحرج نہیں ”۔(البقرہ آیت229)
اللہ نے تین طلاق کے بعد یہاں عورت کے حق کی حفاظت کی کہ دی ہوئی کوئی چیز واپس نہیں لے سکتے مگر اگر خدشہ ہو کہ کوئی چیز ملاپ اور رابطے کا ذریعہ بنے گی تو پھر وہی دی ہوئی چیز فدیہ کرسکتے ہیں۔ یہ خلع نہیں ہے کہ ٹوکے والی سرکار نے اس کو خلع بنایا۔ یہاں حق مہر مراد نہیں اسلئے کہ حق مہر تو ہاتھ لگانے سے پہلے صرف نکاح کرنے سے آدھا گیا اور جب شب زفاف گزاری تو عورت کو تکلیف کے بدلے پورا حق مہر مل گیا۔ دوسری دی ہوئی چیزوں کو بھی طلاق میں نہیں لے سکتے۔ جس کی آیت20،21النساء میں بڑی وضاحت ہے۔ٹوکے والی سرکار حق مہر اور منہ مانگے خلع کی رقم مراد لیکر قرآن کو بوٹی بوٹی کررہی ہے اور عورت کی بدترین حق تلفی کررہی ہے شوہر جب بھی چاہے گا ،مارپیٹ کر اس کے باپ سے بھی پیسے نکلوائے گا اور خلع لینے پر مجبور کرے گا۔ حالانکہ خلع عورت کی اپنی چاہت سے جدائی کا نام ہے۔ آیت19النساء میں اس کی بھرپور وضاحت کی ہے لیکن ٹوکے والی سرکار نے اس آیت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے شرمناک کردار ادا کیا ہے۔ اللہ نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ جس میں سورہ بقرہ کی آیات228،229اور231،232بھی شامل ہیں اور سورہ طلاق کی آیت1اور2بھی شامل ہیں۔ ان میں یہ بھی واضح ہے کہ باہمی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔ لیکن ٹوکے والی سرکار باہمی رضامندی، معروف کی شرط اور باہمی اصلاح کی وضاحتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ اسلئے آیت230البقرہ میں یہ واضح کردیا کہ جب دونوں طرف سے جدائی کا حتمی فیصلہ ہو تو فیصلہ کرنے والے بھی فیصلہ کن جدائی پر پہنچ جائیں ، جہاں رابطے کے خوف سے بھی کوئی چیز نہیں چھوڑی جائے کہ پھر جائز نہیں ناجائز تعلقات میں مبتلاء ہوں گے۔ تواللہ نے واضح کیا کہ اس طلاق کے بعد پھر عورت پہلے کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ یہ آیت229البقرہ سے مربوط ہے لیکن قرآن کی بوٹیاں بناکر سارے حدود توڑ دئیے گئے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے ان تمام حدود کو زبردست وضاحتوں کیساتھ بیان کیا تھا لیکن قرآن کی بوٹی بوٹی بنانے والوں نے ظالموں کا ثبوت دیا۔ اس میں طلبہ کو لگادیا کہ ادوار سے مراد حیض ہے یا طہر؟ اور خلع جملہ معترضہ ہے یا تیسری طلاق کیلئے مقدمہ ؟۔ جس جاہلیت سے قرآن نے امت کو نکال دیا ،اس میں لوگوں کو دوبارہ ڈال دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز