پوسٹ تلاش کریں

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم اخبار: نوشتہ دیوار

اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ صحیح مسلم

قال رسول اللہ ۖ لا یزال اہل الغرب ظاہرین علی الحق حتیٰ تقوم الساعة
سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اہل مغرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کھڑی ہوجائے۔ (صحیح مسلم حدیث4843کتاب الامارة)

محترم قارئین ، علماء کرام ، مفتیان عظام، سیاسی قائدین، مجاہدین، صحافی ، دانشور اور عوام الناس!السلام علیکم ورحمة اللہ
رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کے بارے میں کم از کم کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ من گھڑت ہے۔ کوئی ایسے قرائن نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ ان مقاصد کیلئے کسی راوی نے یہ حدیث گھڑی ۔ اہل غرب میں روس، یورپ، امریکہ اور مغربی ممالک ہیں ۔ یہ تو تاریخ نے دیکھ لیا کہ کبھی فرانس اور برطانیہ کی کالونیاں دنیا بھر میں ہوا کرتی تھیں۔ پھر روس اور امریکہ نے دو سپر طاقتوں کی شکل اختیار کی۔ سقوط بغداد سے بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہوا اور پھر چنگیز خان اور ہلاکو خان کی بربریت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو ایمان سے سرفراز فرمایا اور شاعر نے یہ گایا
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
حماس نے ایک حملہ اسرائیل پر کردیا اور آج بچوں خواتین اور انسانوں کی لاشیں روز سوشل میڈیا پر دل جلانے کیلئے موجود ہیں۔ بیت المقدس پر تو یہود کا قبضہ ہوگیا ہے اور غزہ کی پٹی دور کی مسافت پر ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان اور عراق میں بڑی تباہی مچائی تو لیبیا کے لوگوں نے خود ہی کرنل قذافی کو بہت بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔ آج غیر ملکی طاقتیں بلکہ مغرب جب افغانستان ، ایران، پاکستان اور سعودی عرب کسی بھی ملک پر بمباری کرکے حکمرانوں کو تباہ کردیں تو اغیار سے زیادہ ہماری اپنی مسلم عوام سے اپنے اپنے حکمرانوں کو یلغار کا زیادہ خطرہ ہوگا اور پھر بھی ہم ایک لمحے کیلئے یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اجتماعی بقاء کیلئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔ جبکہ اہل غرب ہماری طرح بے چینی اور بے سکونی کے ساتھ نہیں رہ رہے ہیں۔ ہماری کیفیت تو قرآن ، حدیث، علماء و مشائخ اور مذہبی طبقات کی وجہ سے ایسی بن گئی ہے کہ اگر کہیں بھول کر بھی شوہر کے منہ سے 3طلاق کے الفاظ نکل گئے تو حلالہ کی لعنت کا خمار دماغ پر چڑھ جاتا ہے۔ اگر اس لعنت کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا تو عورت کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہوجاتی ہے۔ بھلا کرے اللہ تعالیٰ امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کا جس نے اکیلے یہ صدا بلند کردی کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے ورنہ تو باقی ائمہ امام مالک، امام جعفر صادق، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ کے اپنے شاگرد عبد اللہ ابن مبارک ، امام ابو یوسف، امام زفر اور امام محمد وغیرہ کا اس بات پر اتفاق تھا کہ حلالہ سے عورت اپنے شوہر کیلئے حلال نہیں ہوتی ہے۔
اگر امام ابو حنیفہ حلالہ کی لعنت سے حلال ہونے کا فتویٰ نہ دیتے تو پھر عورت کو اپنے شوہر اور اپنے بچوں سے ہمیشہ کیلئے محروم ہونا پڑتا۔ پھر پانچ چھ سو سال قبل حنفی مذہب میں مزید دو عظیم سپوت پیدا ہوئے ایک علامہ بدر الدین عینی اور دوسرے محقق ابن ھمام جنہوں نے مزید سہولت کاری فراہم کردی کہ ”ہمارے کچھ نامعلوم بزرگوں سے نقل ہے کہ اگر زبان سے حلالہ کے الفاظ ادا نہیں کئے اور دل میں حلالے کی نیت سے نکاح کیا تو حدیث میں آئی ہوئی لعنت سے بندہ بچ جائے گا”۔ اور پھر اس سے بھی زیادہ بشارت عظمیٰ یہ بھی سنادی کہ ”اگر نیت یہ ہو کہ دو خاندان آپس میں ملیں تو ہمارے نامعلوم بزرگوں نے کہا ہے کہ حلالہ سے ثواب بھی ملے گا”۔ نیت کے حوالے سے اتنا عظیم اجتہاد اہل مغرب نے تو نہیں دیکھا ہوگا لیکن یہود و نصاریٰ کی تاریخ میں بھی اس کی مثال نہیں ملے گی۔
سن2007میں جب قرآن و سنت کے حوالے سے یہ انکشاف کردیا تھا کہ قرآن و سنت میں حلالے کا غلط تصور پیش کیا گیا ہے تو بجائے خوشیوں کے کوئی شادیانے بجاتا ہمارے اخبار کو ہی بند کردیا گیا۔ پھر مذہبی طبقات کی طرف سے مشکلات کا شکار رہنے کے بعد کچھ آسانی پیدا ہوگئی تو اخبار کی دوبارہ اشاعت بھی شروع کردی اور چند کتابیں بھی لکھ ڈالیں۔ جس میں بہت مدلل انداز کے اندر قرآن و احادیث کے مؤقف سے آگاہ کیا گیا کہ دورِ جاہلیت میں حلالے کا جو تصور تھا اس کو قرآن نے ختم کیا۔ لیکن ہمارے علماء و مفتیان اپنے عقیدتمندوں کو بھی اس لعنت سے بچانے کیلئے کھل کر سامنے نہیں آئے۔ آج جماعت اسلامی کو اس بات پر شاید شرمندگی کا سامنا ہے کہ جو تحریک دنیا میں اسلام کے غلبے کیلئے مولانا مودودی نے اٹھائی تھی اور اس میں مولانا مسعود عالم ، مولانا ابوا لحسن علی ندوی اور مولانا محمد منظور نعمانی کے علاوہ بہت سارے علماء اور دانشور بھی شریک تھے ۔ لیکن پورے پاکستان سے سب سے زیادہ امید وار کھڑے کرنے کے باوجود کوئی ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی ہے۔ میں نے 2 دفعہ منصورہ لاہور میں اس غرض سے حاضری دی کہ جماعت اسلامی حلالے کے خلاف نکل کھڑی ہوگی تو لوگوں کو بہت بڑا ریلیف مل جائے گا۔ لیکن ان لوگوں کو صرف اس وقت جوش آتا ہے جب کوئی عوامی لہر کسی کی مقبولیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔
مدارس اور مذہبی جماعتوں کے قائدین اورنمائندوں تک مسلسل ہمارا اخبار اور کتابیں پہنچ رہی ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کی فکر نہیں کہ کتابوں میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جائز قرار دیا گیا ہے یا حلالے کے نام پر خواتین کی ناجائز طور سے عزتیں لٹ رہی ہیں یا پھر مدارس کے نصاب میں قرآن کی حفاظت کیخلاف تعلیمات دی جارہی ہیں۔ عمران خان کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کو وزیر اعظم بننے کیلئے دی تھی۔ دوسری طرف مولانا اعظم طارق کی ایک سیٹ تھی جو اس نے مولانا فضل الرحمن کے خلاف ظفر اللہ جمالی کو وزیر اعظم کیلئے دی اور اس ایک سیٹ سے ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ یہ نہیں بھولنا کہ جب غلام اسحاق خان کے خلاف نوابزادہ نصر اللہ خان نے صدارتی الیکشن لڑا تھا تو شہید بینظیر بھٹو نےMRDکی تحریک میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف قربانی کی تاریخ رقم کرنے والے نوابزادہ نصر اللہ خان کی بجائے غلام اسحاق خان کو ہی صدارتی ووٹ دیا تھا۔ جس نے پھر باری باری بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو چلتا کیا تھا۔ پرویز مشرف اور ق لیگ کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کے چند ووٹ اگر مولانا فضل الرحمن کے حق میں ڈال دئیے جاتے تو ق لیگ اور پرویز مشرف اس وقت اقتدار سے محروم ہوجاتے جس نے پیپلز پارٹی میں پیٹریاٹ بنا کر پارٹی کو توڑا تھا اور ن لیگ کو توڑ کر ق لیگ بنائی تھی۔ پھر جب اس خدمات کے بدلے بینظیر بھٹو کو شہادت کی منزل پر پہنچادیا گیا اور پیپلز پارٹی کو اقتدار مل گیا تو مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں شرکت اقتدار کا شرف حاصل کیا۔ محسن جگنو کے انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ اس وقت زرداری کو کیا مسئلہ تھا ؟۔ لیکن مولانا نے بات گول کی تو محسن جگنو نے بتایا کہ زرداری کی زندگی کو طاقتور حلقے سے جان کا خطرہ تھا اور وہ چند دن تک سو نہیں سکے تھے۔
اس وقت نواز شریف بھی یوسف رضاگیلانی اور زرداری کے خلاف بہت ہی آب و تاب کے ساتھ طاقتور حلقوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑرہے تھے۔ پھر جب نواز شریف کو آب و تاب کے ساتھ لایا گیا تو عمر چیمہ نے پانامہ لیکس کی خبر نشر کردی۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ میں بڑی صفائی کے ساتھ جھوٹ کی یہ تاریخ رقم کردی کہ لندن فلیٹ اللہ کے فضل و کرم سے2005میں سعودیہ کی اراضی بیچ کر2006میں خریدے۔ جس کے تمام دستاویزی ثبوت عند الطلب میڈیا اور عدالت کو دکھا سکتا ہوں۔ عدالت نے طلب کیا تو قطری خط سامنے لایا۔ پھر قطری خط میں بلا کی غلطیاں تھیں اسلئے کہ بلا کا یہ جاہل اپنے جاہل مریدوں کے غلط ڈھکوسلوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ پھر مجھے کیوں نکالا کا واویلا کیا اور ووٹ کو بھی عزت دو کا نعرہ لگایا۔ پھر2018میں محکمہ زراعت کے نام سے خلائی مخلوق کا یہ کارنامہ سامنے آیا کہ اڑن طشتری میں عمران خان کا نزول ہوا۔ دنیا جہاں کے لوگوں کو حیرت ہوگی کہ جس جنرل قمر جاوید باجوہ کو سب متفق علیہ گالی گلوچ سے نوازتے ہیں اس کو سب نے ملکر نہ صرف3سال کی ایکسٹینشن دی بلکہ قانون میں بھی ترمیم کر ڈالی اور مزید ایکسٹینشن کی بھی گنجائش موجود تھی۔
پہلے آرمی چیف کی ایکسٹینشن قانون میں بھی چور دروازے سے ہوتی تھی۔ کرائم کے دفعات میں یہ لکھا تھا کہ اگر کسی فوجی کو سزا دینی ہو تو اس کو بحال کرکے کورٹ مارشل کیا جائے گا اور اسی کے تحت جنرل ایوب ، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے تاریخی ایکسٹینشن لی تھی اور یہ اتفاق تھا کہ جب پرویز مشرف کی پیٹھ میں نواز شریف نے چھرا گھونپا تو عدالت نے پرویز مشرف کو 3سال تک قانون سازی کی اجازت بھی دی تھی۔ لیکن کسی ایک نا معلوم شخص نے جب قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کو عدالت میں چلینج کیا تو پھر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر قانون کی کتاب کھل گئی کہ آج تک جتنے بھی فوجیوں کو ایکسٹینشن دی گئی ہے وہ تو بنتی ہی نہیں ہے۔ صحافت اور سیاست کے ایک نمایاں کردار ایاز امیر صاحب جو کبھی ن لیگ کے ایم این اے بھی رہے ہیں اور ابPTIکی طرف سے آزاد حیثیت میں بھی الیکشن لڑا تو وہ بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے ایکسٹینشن کیلئے عدالت سے رجوع کرکے بڑی سنگین غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ ہر چیز قانون کے تابع نہیں ہوتی ہے۔ اس موصوف کو پھر بھی نہیں بخشا گیا حالانکہ اس کی ساری باتیں ن لیگ کے خلاف تھیں۔ وہ بھی اس وقت جب ن لیگ عقاب کے زیر عتاب تھی۔
ہمارے مذہبی ، سیاسی اور مقتدر طبقات کے کردار اور رفتار کو دیکھ کر لگتا تو یہی ہے کہ نبی ۖ نے سچ فرمایا کہ اہل غرب ہمیشہ حق کے ساتھ غالب رہیں گے۔ اگر ہم ماضی کے دریچوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھیں تو خلافت عثمانیہ کے بادشاہ کی ساڑھے 4ہزار لونڈیوں سے پتہ چلے گا کہ سقوط بغداد کیوں ہوا؟۔ بنو عباس اور بنو اُمیہ کے اکثر حکمرانوں کا کردار اور ظلم و ستم بھی اگرچہ قابل رشک نہیں ہے لیکن اگر ہم نبی رحمت ۖ کے بعد خلفاء راشدین کے دور کو دیکھیں تو اس میں بھی عشرہ مبشرہ کے مقدس صحابہ کرام حضرت طلحہ و زبیر اور علی ایکدوسرے کیخلاف جنگوں کی قیادت کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کیا گیا۔ اہل مشرق کے دانش نے مشاجرات صحابہ پر بات کرنے کی بھی پابندی لگائی ہے کہ اس سے عوام میں بدظنی کی روح بیدار ہوگی اور پھر مسئلہ خراب ہوگا۔
مولانا محمد مکی کا ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید نے ایک شخص (مالک بن نویرہ )کی بیوی سے عشق کیا تو اس کو قتل کرکے اس کی بیوی سے عدت میں شادی کرلی۔ ایک طرف عمران خان کو عدت میں شادی کے الزام سے بچانے کیلئے یہ مہم جوئی ہورہی ہے تو دوسری طرف ہماری فوج کو بھی اس سے بڑا ریلیف مل رہا ہے کہ جب حضرت ابوبکر کے دور میں یہ المناک واقعہ ہوا تھا تو ہم15ویں صدی ہجری کے انسان ہیں۔ مولانا مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت خالد بن ولید کو منصب سے سبکدوش کردیا لیکن جس کو قتل کیا تھا اس کا کیا بنا؟۔ کیا قتل کے بدلے قتل کرنا نہیں تھا؟۔ شاید مولانا مکی بھی سعودی عرب میں شاہی خاندان کے اقدامات کو جواز بخشنے کیلئے یہ حقائق اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہو۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی سہولت کاری کیلئے یہ مسئلہ لکھ دیا گیا کہ بادشاہ قتل، زنا، چوری، ڈکیتی اور جو کچھ بھی کرے اس پر کوئی حد جاری نہیں ہوگی۔ جب بادشاہوں اور علماء میں محبت کا یہ عالم تھا تو انگریز نے ایسٹ انڈین کمپنی لگاکر برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرلیا۔
اہل سنت کے چاروں اماموں نے متفقہ طور پر یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کو بتادیا کہ حضرت ابوبکر صدیق کی طرف سے جبری زکوٰة کا مسئلہ درست نہیں تھا لیکن پھر انہوں نے بے نمازی کو نہ صرف سزا دینے پر اتفاق کیا بلکہ بعضوں نے قتل تک بھی بات پہنچادی۔ ایک طرف بادشاہوں کی طرف سے عوام کو قتل کیا جاتا تھا جس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا اور دوسری طرف بے نمازی کو قتل کرنے کا فتویٰ دینا ”ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات” کے مترادف تھا۔
اگر سنی علماء جمعہ کے خطبات میں حکمرانوں کیلئے یہ حدیث پڑھتے تھے کہ السلطان ظل اللہ فی الارض من اھان سلطان اللہ فقد اھانہ اللہ ”حکمران زمین پر خدا کا سایہ ہے جس نے اللہ کے بادشاہ کی توہین کی تو بیشک اس نے اللہ کی توہین کی”۔ دوسری طرف شیعہ امامت کیلئے معصومیت کا عقیدہ رکھتے تھے اور قرآن نے جس مشاورت کا حکم دیا تھا وہ بالکل مفقود ہوچکا تھا۔ اور جس قرآن میں ایک خاتون کو بھی نبی ۖ سے اختلاف کی نہ صرف گنجائش تھی بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ نے وحی بھی نازل کی لیکن جب صحابہ و ائمہ اہل بیت کیلئے قرآن و احادیث سے بالاتر عقیدت رکھی گئی اور بادشاہوں پر تنقید کو اللہ کی توہین قرار دیا گیا تو مسلم ممالک سے ہما نے اُٹھ کر مغرب کے سر پر بیٹھنا تھا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے لکھاہے کہ نبی ۖ اور ابوبکر کا دور ایک تھا اور پھر حضرت عمر کا دور تھا جس میں سرمایہ دارانہ نظام کیلئے بنیاد فراہم کی گئی۔ جس میں وظائف کی تقسیم طبقاتی بنیادوں پر بدری اور غیر بدری صحابہ کے اندر کردی گئی۔ پھر حضرت عثمان کے دور میں خاندانی نظام کیلئے بنیادیں فراہم ہوئیں اور آخر کار اسلام ملوکیت کا شکار ہوگیا۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد پر آزادیٔ صحافت کو بھی فروغ نہیں دے سکتے۔ ایران ، سعودی عرب اور افغانستان میں اسلام کے نام پر اقتدار ہے لیکن اس آزادی کا تصور نہیں جو دنیا میں مغرب نے صحافیوں کو دی ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت باقی اسلامی دنیا کے مقابلے میں بہت مثالی ہے۔ اگر کوئی الیکٹرانک میڈیا کا صحافی یہ جھوٹ بولتا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیا جاتا تو سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی سب کو میسر ہے۔ صحافی بھی بعض سپوت ، بعض کپوت اور بعض مکس سپوت کپوت ہیں۔
جن سیاستدانوں اور صحافیوں کو مداری کے بندر کی طرح ڈنڈے پر چڑھنے کا شرف حاصل ہوتا ہے تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے ڈنڈے کا استعمال بھی بنتا ہے۔ اکثر صحافیوں کو بہت کچھ بولنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کہا جاتا ہے۔ ہماری فوج کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو بھی ہندوستان کی قید سے آزاد ہونے کے بعد ڈھول باجے کی تھاپ پر ان کا استقبال کیا گیا۔ حالانکہ کرکٹ ہارنے والوں کو بھی ٹماٹر اور انڈوں سے نشانہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اور جب میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ کی خبروں کے ذریعے سے بچے، بچیوں اور جوانوں اور خواتین و حضرات کو شیدائی بنایا جائے گا اور پوری قوم تاریخ، مذہب، تہذیب، تمدن، معاشیات، سیاست، سائنس اور تمام علوم و فنون سے عاری ہو تو اس کیلئے ایک کرکٹر ہی حقیقی لیڈر ہوسکتا ہے۔ جب ضرورت پڑی تھی تو پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور آج بھی آرمی چیف اسی کا سہارا لیتے ہیں۔
سوشل میڈیا آزادی سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بجائے جھوٹ کا بازار گرم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس کے اثرات الیکٹرانک میڈیا پر بھی پڑے ہیں اور جب تک کوئی سنسنی خیز عنوان سے جھوٹی خبر نہ لگائی جائے تو اس کی ریٹنگ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب جھوٹ اور سچ کا اختلاط ہوتا ہے تو سچ پر بھی کسی کو یقین نہیں آتا۔ جب پنڈی کے کمشنر نے پریس کانفرنس کی تو کافی دیر تک مجھے یہ خبر بھی فیک لگی اور ہوسکتا ہے کہ کچھ فیک خبروں پر سچائی کا یقین بھی آگیا ہو۔ اسلئے کہ انسان بہت کمزور ہے اور اس کمزوری کی نشاندہی سورہ نور میں بھی ہوئی ہے۔ جب ایک اُم المؤمنین کیخلاف بہتان عظیم کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک طرف غلط پروپیگنڈے کو پھیلانے سے روکا تو دوسری طرف اللہ نے فرمایا کہ اس کو اپنے لئے شر مت سمجھو بلکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ اگر آج مغرب کو یہ پتہ چل جائے کہ قرآن و سنت میں برابری کا اتنا زبردست قانون ہے کہ جب اُم المؤمنین پر بہتان لگا تو اس کی سزا بھی80کوڑے تھی اور غریب خاتون پر بہتان لگے تو اس کی بھی سزا80کوڑے ہے۔ تو دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگا۔ لیکن ہمارا دانشور اور متعصب مذہبی طبقہ یہ سوچ پھیلارہا ہے کہ حدیث میں اُم المؤمنین کے خلاف سازش کرنے کیلئے یہ بات گھڑی گئی ہے۔ اگر اُم المؤمنین کے خلاف اتنی بڑی بات کوئی کرتا تو اس کی سزا قتل ہوتی۔ عمران خان مغرب کی طرح ایک قانون کی بات کرتا تھا لیکن جب وہ حملے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ میں ایک سابق وزیر اعظم ہوں اور پنجاب میں میری حکومت ہے اور اپنی مرضی کیFIRدرج نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اپنے اقتدار میں تھانوں اور چھوٹی عدالتوں کی سطح پر انصاف کو عام کرتا تو پھر یہ شکایت کرنے کا موقع نہ ملتا۔ آج صحافی درست آئینہ دکھانے کے بجائے دیہاڑی دار ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز