پوسٹ تلاش کریں

اہل سنت کے اتحاد کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی !

اہل سنت کے اتحاد کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی ! اخبار: نوشتہ دیوار

اہل سنت کے اتحاد کیلئے قرآن وسنت سے رہنمائی !
امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد حنبل

اہل سنت والجماعت چاراماموں کی تقلید کرتے ہیں۔دیوبندی بریلوی کاان پر اتفاق ہے۔ اگرقرآن وسنت کا ایسا آئینہ دکھا دیاجائے کہ جس پر صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کے درمیان مسلکی اختلافات کا معاملہ ختم ہوجائے تو پھر دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث اتفاقِ رائے سے متحدو متفق اور وحدت کے راستے پر چل نکلیں گے۔ پھر اس پر شیعہ کے فرقوں کا اتحاد بھی ہوجائیگا اور دنیا کے سامنے قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل ہوگا تو رشدوہدایت کا راستہ کھلے گا۔
سعودی عرب سے شائع ہونے والی کتاب ”اجتہاد الخلفاء الراشدین ” کے اندر یہ لکھا ہے کہ ”اگر کوئی اپنی بیوی کو حرام کہے تو حضرت عمر کے نزدیک یہ ایک طلاق ہے اور حضرت علی کے نزدیک یہ تین طلاقیں ہیں”۔ جب خلفاء راشدین نے اس پر اختلاف کیا ہو ،ائمہ اربعہ نے بھی آپس میں اس پر اختلاف رکھا ہو، تابعین نے بھی اس پر اختلاف کیا ہو اور صحیح بخاری میں بھی اس پر اختلافات ہوں تو کیا یہ حق نہیں بنتا کہ قرآن وسنت کی طرف اچھی طرح توجہ کی جائے؟۔
پھر اگر قرآ ن وسنت سے تمام اختلافات ختم ہوں اور صحابہ کرام کے درمیان بھی اختلاف کی جگہ اتفاق ہوجائے تو امت مسلمہ کیلئے خوشحالی کا مقام نہیں ہوگا؟ اورکیا پھربھی شیر سے بدکے ہوئے گدھوں کو بھاگنے کی کوئی ضرورت ہوگی؟۔
قرآن نے ایلاء اور طلاق کے بعد رجوع کیلئے باہمی صلح کو شرط قرار دیا۔ عورت راضی نہ ہو تو قرآن نے بار بار کہا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا ۔ رجوع کیلئے باہمی رضا ، باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع شرط ہے۔ نبی ۖ نے ایلاء کے بعد رجوع کیا تو اللہ نے حکم دیا کہ رجوع سے پہلے اپنی ازواج کو طلاق کا اختیار دے دیں۔ اگر وہ رجوع نہیں کرنا چاہتی ہیں تو رجوع نہیں ہوسکتا ۔
وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”اور انکے شوہر اس عدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں ”۔ (سورة البقرة:آیت:228) یہاں اللہ نے عدت میں اصلاح کی شرط پر رجوع کو واضح کیا۔ الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کیساتھ چھوڑ دینا ہے”۔ ( سورة البقرة:آیت:229) یہاں اللہ نے معروف کی وضاحت کیساتھ رجوع کو واضح کیا ہے ۔ اصلاح کی شرط اور معروف کیساتھ رجوع میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی عورت کی رضامندی ضروری ہے۔
مسلکِ حنفی صحابہ کرام کے فتوؤں میں تطبیق پیدا کرنا ہے۔حضرت عمر نے دیکھا کہ جب شوہر نے اپنی عورت سے حرام کہااور پھر عورت رجوع کیلئے راضی ہے اسلئے رجوع کا فتویٰ دیا اور حضرت علی نے دیکھا کہ عورت رجوع کیلئے راضی نہیں ہے اسلئے رجوع کا فتویٰ نہیں دیا ۔ عمرو علی میں مسئلے پر اختلاف نہیں تھا۔
قرآن کی سورۂ تحریم میں اللہ نے فرمایا: یاایھاالنبی لم تحرم ما احل لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیمOقدفرض اللہ تحلة ایمانکم واللہ مولاکم وھو العلیم الحکیمO’ ‘ اے نبی ! آپ اس کو اپنے لئے کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کیلئے حلال کیا ہے؟، آپ اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ نے حلال کیا ہے تمہارے عہد کو۔ اور اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ جاننے والا حکمت والا ہے”۔
جب نبی ۖ نے ماریہ قبطیہ اپنی ازواج کی وجہ سے حرام قرار دے دی اور اللہ نے قرآن سے یہ غلط مذہبی رسم ختم کردی کہ بیوی حرام قرار دینے سے حرام نہیں ہوتی تو پھر حضرت علی نے کیسے اس کو تین طلاق قرار دے دیاتھا؟۔ آج مفتی تقی عثمانی کیسے کہتا ہے کہ حرام کہنے پر بیوی کو طلاق بائن ہوجاتی ہے؟۔ جس میں نئے نکاح کی ضرورت ہوگی؟۔علامہ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے کہاں سے اس پر20اجتہادی مذاہب نقل کرکے مسائل کے ڈھیر لگادئیے؟
صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ بیوی کو حرام کہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ نہ قسم ،نہ طلا ق اور نہ کفارہ۔ یہی نبیۖ کی سیرت کا تقاضا ہے۔
صحیح بخاری میں حسن بصری نے کہا کہ ” حرام سے جو نیت کی جائے وہی حکم نافذہوجاتا ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے ۔ اور یہ کھانے پینے کی طرح نہیں ہے۔ کیونکہ کھانے پینے کو حرام قرار دینے کے بعد وہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجاتی ہیں۔ تیسری طلاق سے بیوی حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوتی ہے۔ (بخاری میں یہ دو نوں متضادروایات موجود ہیں )
حسن بصری تابعی تھے اور حضرت علی کی شاگرد ی کا شرف حاصل تھا یا نہیں؟ مگر علماء کی طرف اس اجتہاد کے منسوب کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حضرت علی کے شاگرد مجتہدین علماء سے یہ نقل کررہے ہیں کہ ” بیوی کو حرام کہنا تیسری طلاق ہے”۔ اسلئے کہ حضرت علی کی طرف منسوب ہے کہ وہ تین طلاق سمجھتے تھے۔
اگر شیعہ اور ان کے ائمہ حضرت علی کی طرف یہ نسبت کرتے تو ان کے پھر مولا علی وہی تھے اور تقلید کے پابند تھے لیکن اہل سنت کا مولا قرآن میں اللہ ہے اور اللہ نے جو فیصلہ کیا ہے ، امام ابوحنیفہ نے بھی فرمایا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو بھی نہیں مانیں گے اور جب صحیح حدیث کی قرآن کے مقابلے میں تقلید نہیں ہے تو پھر کسی صحابی اور امام مجتہد کی تقلید کیسے جائز ہوسکتی ہے؟۔
اگر اللہ کی کتاب کے مقابلے میں حرام و حلال یہودونصاریٰ تبدیل کریں تو ان پر اتخذوھم احبارھم ورھبانھم اربابًا من دون اللہ کا اطلاق ہوتا ہے تو کیا ہم پر نہیں ہوگا کہ اگر اللہ کی کتاب کے مقابلے میں مولانا تقی عثمانی یا کسی بھی مولانا کی بات قرآن وسنت کے مقابلے میں حلال وحرام کا معیار بنالیں؟۔
حسن بصری ایک مخلص تابعی ، راوی تھے مگر کیاان کی بات غلط نہیں ہوسکتی؟ یہ تو کوئی نہیں کہتا!۔ حسن بصری نے کہا کہ” ایک مستند شخص نے بتایاکہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں( جس پر رسول ۖ نے رجوع کا حکم دیا )20سال تک کوئی اور مستندشخص نہیں ملا ، جو اس کی تردیدکرتا۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی”۔( صحیح مسلم)
جب حضرت علیکے شاگردوں کی طرف سے یہ بات مل گئی کہ حرام کے لفظ کو تیسری طلاق قرار دیا تو پھر کسی اور مستند شخص کی بات بھی حسن بصری نے مان لی کہ رسول اللہ ۖ نے اکٹھی تین طلاق پر عبداللہ بن عمر کو رجوع کا حکم نہیں فرمایا ہوگا بلکہ وہ ایک طلاق دی تھی۔ایک روایت ہے کہ حضرت علی کے بعد امام حسن کو خلافت پر اس کی بیوی نے مبارک باد دی تو امام حسن نے کہا کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر فرمایا کہ اگر میں نے اپنے نانا ۖ سے نہ سنا ہوتا کہ رجوع نہیں ہوسکتا تو میں رجوع کرلیتا۔پیرکرم شاہ الازہری نے اپنی کتاب ” دعوت فکر” میں نقل کیا ہے کہ اس کا راوی رافضی ہے جسکے بارے میں لکھا گیا کہ جرو کلب یعنی کتے کا بچہ۔ اگر سنی علماء نے صرف توجہ کی تو مسائل کے حل نکالنے میں ایک رات لگے گی ۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز