پوسٹ تلاش کریں

علی وزیر کی تازہ تصویرکراچی سینٹرل جیل

علی وزیر کی تازہ تصویرکراچی سینٹرل جیل اخبار: نوشتہ دیوار

علی وزیر کی تازہ تصویرکراچی سینٹرل جیل

جنوبی وزیرستان کےMNAعلی وزیر کو دو سال سینٹرل جیل کراچی میں مکمل ہوگئے ہیں۔ علی وزیر کے بارے میں عوام کو درست معلومات نہیں ہیں۔ جب علی وزیر جنوبی وزیرستان سے الیکشن میں کھڑے ہوئے تو عمران خان نے تحریک انصاف کا کوئی نمائندہ ان کے سامنے کھڑا نہیں کیا بلکہ تحریک انصاف نے بھی علی وزیر کی حمایت کی۔ علی وزیر نے قومی اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ہمارے خاندان نے پاک فوج کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ یہ وہ قربانی نہیں تھی جو قبائل نے مظفر نگر تک کشمیر کو فتح کرنے کیلئے1948میں دی تھیں۔ بلکہ دہشت گردی کیخلاف موجودہ جنگ میں علی وزیر کے خاندان کے18افراد شہید کردئیے گئے۔ صحافی ارشد شہید نےARYنیوز کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ”افسوسMNAعلی وزیر اورMNAمحسن داوڑ کی قیادت میں کچھ لوگوں نے پاک فوج کی چوکی پر حملہ کردیا ، جس میں5فوجی اہلکار زخمی اور متعدد حملہ آور ہلاک ہوئے۔ ہم نے اس وقت بھی پاک فوج سے کہا تھا جب کور کمانڈر نے مجاہد نیک محمد کو ہار پہنائے تھے کہ یہ ہم ان سانپوں سے ہمدردی کا برتاؤ کرکے بہت غلط کررہے ہیں۔ آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ فوج کی چوکیوں پر حملے ہورہے ہیں”۔ ارشد شریف شہید ایک تحقیقاتی صحافی تھے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ علی وزیر کو بھی یہی شکایت تھی کہ ”دہشت گرد ایک طرف ہماری عوام کو مار رہے ہیں اور دوسری طرف پس پردہ پاک فوج ان کے ساتھ پینگیں بڑھاتی ہے”۔ علی وزیر نے ایک طرف دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہی دہشت گرد نہ صرف پاکستان کی ریاست اور پاک فوج پر حملہ آور تھے بلکہ عوام الناس ، قبائلی عمائدین اور علماء کرام میں سے کسی کو بھی معاف نہیں کررہے تھے۔MNAمولانا معراج الدین قریشی شہید اورMNAمولانا نور محمد وزیر شہید بھی دہشت گردی کی نذر ہوگئے۔ پاک فوج بھی عام لوگوں کی طرح ایک عرصے تک اس تذبذب کا شکار تھی کہ دہشت گردوں سے نرمی یا سختی سے برتاؤ کیا جائے؟۔ پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کیلئے سب سے بڑے اور معتبر نام معراج محمد خان بھی اس دور میں طالبان کی بھرپور حمایت کررہے تھے۔ پشتون قبائل ، پنجابی و بلوچ ، سندھی و مہاجر سب کے سب طالبان کے حامی تھے۔ متحدہ مجلس عمل کے صدر قاضی حسین احمد کے کہنے پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے بھی امریکہ کے خلاف طالبان کی حمایت میں ہڑتال کی تھی۔
جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کی وزیر قوم نے سب سے زیادہ مجاہدین کا ساتھ دیا تھا اور امریکہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ یہاں تک کہ جنوبی وزیرستان کے وزیروں نے ازبکوں کے ساتھ بھی رشتے تک کئے تھے۔ پھر ازبک سے وزیر قوم کا ٹکراؤ آیا تو پاک فوج نے وزیر قوم کا بھرپور ساتھ دیا۔ وزیر مجاہدین نے بھی اپنی قوم کا ساتھ دیا اور پنجابی طالبان نے بھی ازبک کیخلاف کاروائی کی۔ ازبک وزیر ایریا سے بھاگ کر محسود ایریا میں پہنچ گئے۔ پاک فوج سے وزیر قوم نہ صرف اس بنیاد پر بہت محبت رکھتی ہے بلکہ احسان مند بھی ہے۔ آج تک جنوبی وزیرستان میں علی وزیر کے حلقہ انتخاب میں کبھی کوئی گرینڈ آپریشن نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کبھی وزیر قوم کو انخلاء پر مجبور کیا گیا ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے مجاہدین کے روپ میں چھپ کر علی وزیر کے والد اور خاندان کے افراد کو بلا وجہ شہید کیا۔ پوری قوم میں اس خاندان کی شرافت مثالی ہے۔ محسود ایریا میں کوٹ کئی کے ملک خاندان اور اس کی فیملی کو بھی اسی طرح سے شرپسندوں نے بلاوجہ شہید کردیا تھا۔ جبکہ محسود علاقے میں پاک فوج نے جنرل کیانی کے دور میں راہ راست کے نام پر آپریشن کیا تھا۔ لوگوں کو علاقے سے انخلاء پر مجبور کیا گیا اور طالبان ادھر اُدھر کے علاقوں میں بھاگ گئے۔ اسلئے کہ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے باقی علاقے مجاہدین سے بھرے ہوئے تھے۔ اس وقت ازبک کی مدد سے محسود ایریا کو نہ صرف دہشت گردوں نے یرغمال بنایا تھا بلکہ ٹانک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی تک میں لوگوں کے جرگے اور فیصلے بھی طالبان کرتے تھے۔ اس آپریشن کی اجازت اور مشورہ محسود قبائل کے مشران نے خود دیا تھا۔ اگر آپریشن نہ ہوتا تو دہشت گردوں نے اپنے علاقے اور دوسرے علاقوں سے یرغمالی لالا کر محسود ایریا کو مذبح خانہ بنارکھا تھا۔ لوگوں کو سر عام ذبح کرکے ویڈیو بنائی جاتی تھی جن میں ژوب کے ایک عالم دین خونامیر مُلا بھی شامل تھے جس کو ذبح کرتے ہوئے خونامیر مُلا خنزیر مُلا کی تکبیر پڑھی گئی۔ اس طرح بیٹنی قبائل کے مولوی ظاہر شاہ کو بھی شہید کردیا گیا۔ ملک خاندان کوٹ کئی کی فیملی کو جب شہید کیا گیا تو ان میں ایک حافظہ بچی بھی تھی۔ ایک لیڈی ڈاکٹر کو بھی ٹانک سے اغوا برائے تاوان میں وزیرستان لے جایا گیا۔ کئی دن رکھنے کے بعد بھتہ وصول کیا گیا اور پھر گاڑی چھین کر چھوڑ دیا گیا۔ اگر پاک فوج راہ راست آپریشن نہ کرتی تو دہشت گردوں نے محسود خاندانوں کے شریف لوگوں کا جینا بہت دوبھر کرنا تھا لیکن دہشت گردوں کو نقصان اسلئے نہیں ہوا کہ قریب کے علاقوں میں چلے گئے اور جب لوگوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی تو دہشت گرد بھی واپس آگئے۔
البتہ جس طرح دہشت گردوں کے پیچھے پولیس پڑ گئی تھی اس طرح اس کی زد میں عام محسود بھی متاثر ہونے لگے۔ جب اس سلسلے نے بہت زور پکڑا تو پھر نقیب شہید کا واقعہ ہوا ، جس سے محسود قوم نے کروٹ بدلی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نقیب شہید کے والد کے ساتھ نقیب کے بچوں کو گود میں بٹھا کر عہد و پیمان کیا کہ راؤ انوار کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ راؤ انوار کو عدالت نے اس طرح سے ریلیف دی جیسے ہماری عدالتوں کے اندر معاملات چلتے ہیں۔ یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ مجرم تھے بھی یا نہیں؟۔ جب ہماری ریاست نواز شریف کو ایون فیلڈ کے فلیٹوں پر سزا نہیں دلواسکی تو کس کو کیسی سزا دی جاسکتی ہے؟۔ شاہ رُخ جتوئی نے پولیس افسر کے بیٹے شاہ زیب کو قتل کردیا تو عدالت نے اس کے باپ کو پکڑ کر اس کو دوبئی سے واپس آنے پر مجبور کیا۔ وارثوں نے دیت لے کر معاف کردیا مگر عدالت اور صحافت معاف کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اسلئے کہ آصف علی زرداری کے ساتھ تعلقات کا جرم تھا۔ دوسری طرف اسی طرح کے کیس میں بیوہ خاتون کے اکلوتے بیٹے کو ن لیگ کے صدیق کانجو کے بیٹے مصطفی کانجو نے قتل کیا اور بیوہ ماں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر کہا کہ مجھے بچیوں کی عصمت دری کی دھمکیاں ملی ہیں اسلئے مجبوراً بچیوں کی عزت بچانے کیلئے دستبردار ہورہی ہوں۔ لیکن میڈیا اور عدالت کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگی۔ اب بھی اگر آصف علی زرداری حکومت میں نواز شریف کے اتحاد ی نہ ہوتے تو شاہ رُخ جتوئی کی جان نہیں چھوٹنی تھی۔ ہماری صحافت و عدالت کا یہ دوہرا معیار ہے۔
جب شہباز گل اور اعظم سواتی کی چیخ و پکار دنیا نے سن لی توPTMوالوں کو یقین آگیا کہ پشتونوں کے ساتھ خصوصی مہربانی نہیں بلکہ جو بھی منہ کھولتا ہے اس کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ پھر سوشل میڈیا پر شہباز گل کی سانس بند ہوتی ویڈیو اور علی وزیر کی باوقار تصویر ایک ساتھ شیئر کی جاتی تھی کہ پشتون اتنا مضبوط ہوتا ہے۔ شہباز گل نے جس انداز میں تصویر کشی کی تھی کہ کیمرہ زوم کرکے آگے پیچھے سے میری تصویریں لی جارہی تھیں تو علی وزیر کے ساتھ ہمیں یقین ہے کہ کچھ بھی زیادتی نہیں ہوئی ہوگی۔ احمد نورانی پاک فوج کے بہت سخت خلاف یا اصلاح کیلئے ویڈیو ز بناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز گل کیساتھ تشدد نہیں ہوا ہے۔
علی وزیر کی معمر والدہ ہیں اور بیوی بچے ہیں۔ ہم پہلے بھی کئی مرتبہ درخواست کرچکے ہیں کہ علی وزیر کو با عزت رہائی دی جائے۔ اگر کوئی غلط بات کی ہے تو یہ سزا بھی کم نہیں ہے جو دو سال سے وہ بھگت رہے ہیں۔ پشتون قوم پرست اتنے چیخ و پکار مچاتے تھے کہ مسنگ پرسن کو اپنے والدین اور بیوی بچوں کیلئے رہا کرو۔ جب پاکستان کی جیلوں اور افغانستان سے ان کو لایا گیا تو اب کہتے ہیں کہ کیوں لائے ہو؟۔ دشمنی میں کچھ نہیں رکھا ہے۔ تحریک انصاف اور پاک فوج شیر و شکر تھے۔ جونہی تحریک انصاف کی حکومت گئی تو ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ کوئی کسی پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ۔ مہنگائی ختم کرنے کیلئے موجودہ حکومت میدان میں اتری تھی لیکن مہنگائی سے اس نے غریب عوام کی جان نکال دی ہے۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے بجائے مزید بحرانوں کا شکار کردیا ہے۔ ایک طرف ریاست کو تنخواہیں دینے کیلئے کچھ نہ ہو اور دوسری طرف دہشت گردوں کی طرف سے خودکش حملوں کیلئے بھرتیاں بھی جاری ہوں تواسکے نتائج کیا نکلیں گے؟۔ مایوسی کفر ہے لیکن امید کیلئے بھی کچھ نہ کچھ عوام کو چاہیے۔ عوام کے پاس اب اللہ کے سوا کوئی امید نہیں رہی ہے۔
پاک فوج سے اپیل ہے کہ علی وزیر کے خلاف تمام مقدمات واپس لیکر ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ بنوں جیل میں قیدی دہشت گردوں نے کینٹ ایریا میں موجودCTDپولیس کے تھانے کو یرغمال بنایا تو ان سے یرغمالی چھڑائے بغیر یہ قبضہ چھڑانا بڑی بات نہیں ہے۔ اگر اس کے سامنے سرنڈر ہوجاتے اور مطالبے کو مان لیتے تو اور زیادہ برا ہوتا۔ مایوسی اور بدگمانی اس حد تک پھیلی ہوئی ہے کہ یہ صفائی بعض لوگ پیش کررہے ہیں کہ یہ افواہ غلط ہے کہ ڈالر سمیٹنے کیلئے جان بوجھ کر دہشت گردوں کو قبضے کا موقع دیا گیا۔ جب تک بنیاد سے معاملات کو سمیٹنے کی کوشش نہیں کی جائے گی تب تک کوئی مائی کا لعل افراتفری پر قابو نہیں پاسکتا ہے۔
حجاز مقدس میں کوئی ریاست نہیں تھی لیکن جب قرآنی آیات کے ذریعے سے معاشرے کی اصلاح کا کام شروع ہوا تو یہ منتشر ، متکبر ، بدمزاج ، بد خلق اور بدمعاشرت لوگ کیسے سچے اور پکے مومن بن گئے؟۔ یہ محض وعظ و نصیحت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کیلئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست قسم کے ایسے قوانین وحی کے ذریعے سے نازل فرمائے کہ جس سے کمزوروں ، ضعیفوں ، عورتوں، غلاموں اور لونڈیوں کو بنیادی حقوق ملے۔ مزارعین کو کاشت کیلئے مفت میں زمینیں مل گئیں۔ پاکستان میں اگر فوجی جرنیل ، سیاستدان اور خان وڈیرے اپنی زمینیں مزارعین کو مفت فراہم کریں تو کم از کم پاکستان میں خوراک کی مہنگائی کا عوام کو سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وزیرستان سے سوات تک اور ژوب سے تربت تک اگر پہاڑی علاقوں میں محنت کشوں کو کچھ سالوں کیلئے باغات اور جنگلات کیلئے مفت میں کوئی پہاڑوں کے ٹکڑے بھی فراہم کئے جائیں تو لوگوں کو بہت بڑاروزگار مل جائیگا۔
سندھ ، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان کی زرخیز و شاداب زمینوں اور دشت و صحراؤں کو مزارعت کیلئے مفت فراہم کیا جائے تو افغانستان اور اس سے ملحقہ ممالک میں بڑے پیمانے پر اناج وغیرہ ایکسپورٹ کرکے ڈالروں کی بھی بارش آسکتی ہے اور اپنی کرنسی مضبوط کرکے ڈالروں کی قیمت کو بھی گھٹاسکتے ہیں۔
آخر میں اتنا کہوں گا کہ ہمارے پشتون بھائی غیرت میں بے مثال ہیں لیکن امریکہ ، دہشت گردوں اور پاک فوج سے گلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال پر بھی تھوڑی نظر ڈالیں۔ اپنی بیٹی کو پیسوں سے یا بہو کے بدلے میں دینے کے بجائے بہتر ہے کہ اس سے خودکش کرایا جائے۔ اسلئے کہ ساری زندگی غلامی کی طرح گزارنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی مرتبہ میں ڈھیر ہوجائے۔ علی وزیر خان ایک قابل انسان ہیں جب رہا ہوجائیں تو سب سے پہلے قوم پرست رہنماؤں اور مذہبی قیادت کو ایک ساتھ بلائیں۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کیلئے کچھ نشستیں رکھیں۔ افہام و تفہیم کی فضاء میں مسئلے مسائل کو پہلے سمجھیں اور پھر اس کیلئے ایک زبردست لائحہ عمل تشکیل دیں۔
جب بڑے بڑے مسائل پر اتفاق ہو تو تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی کو بھی سمجھائیں اور حنفی مکتبہ فکر کے ساتھ ساتھ دوسرے مکاتب فکر کو بھی ساتھ بٹھائیں اور پھر دیکھیں کہ یہ قوم، یہ ملک اور یہ خطہ کس طرح فسادو ظلم سے بچتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز