پوسٹ تلاش کریں

اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر

اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر اخبار: نوشتہ دیوار

اللہ کی یاد سے اطمیان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔عتیق گیلانی

”اللہ کی یاد سے اطمیان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر ”
اور اس پر تبصرہ
”عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا ”
”ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔”

زندگی کے بیشمار مسائل میںتنگی و عسرت غم کا شکار ہیں ہم۔ آپ کو اطمینان چاہیے بھی۔ خدا بتابھی رہا ہے کہ اس طرح اطمینان ملے گا۔ اب یہ ذکر و اذکار جو ہیں کبھی ان میں دل لگتا ہے کبھی نہیں لگتا۔ یاد واحد ایسی چیز ہے جو جبراً نہیں بلکہ محبت سے کی جاتی ہے۔ جو زیادہ یاد آئے گا اسی سے زیادہ محبت ہوگی۔ انس سے رفاقت سے محبت سے مجھے بھی ایسے ہی یاد کرو جیسے آباو اجداد کو چاہتے ہو۔ پروردگار نے فرمایا کہ میں اپنے اولیاء کو ایک انعام دیتا ہوں۔ الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔کہ بلا شبہ سن لو کہ میرے دوستوں پر خوف و حزن نہیں ہوتا۔ خوف وحزن ماڈرن لائف میںEqualentہیںFearاورFrustrationکیساتھ کہ میرے دوستوں کوFearsنہیں ہوں گے۔Frustrationنہیں ہوں گے۔ خوف نہیں ہوں گے غم نہیں ہوں گے۔اللہ سے پوچھا جاتا ہے کہ اے پروردگار عالم خوف و حزن کیفیت قلب ہے تو کیفیت قلب کا اطمینان کس طرح ہے ؟ فرمایا الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کہ سن لو میرے ذکر کے بغیر اطمینان قلب نہیں ہوگا۔ توحضرات محترم! اصول یہ ہوا کہ اللہ اپنے بندوں کو خوف و حزن سے بے نیاز کرتا ہے ۔ خوف و غم سے بے نیازی کیفیت قلب ہے۔ کیفیت قلب بغیر یاد خدا کے اطمینان آہی نہیں سکتا۔ اب آپ کو اطمینان چاہئے بھی ۔ تمام معاشرے کو چاہیے خوف و حزن سے بے نیازی ۔ ہم سب
fearfull, We are all frustated
زندگی کے بیشمار مسائل میںتنگی و عسرت غم کا شکار ہیں ہم اور ہمیں امن چاہیے بھی اطمینان قلب چاہیے بھی اور ہم اسے ڈھونڈ بھی رہے ہیں مگر ذکر الٰہی سے گریزاں ہیں۔ خدا کی یاد سے گریزاں ہیں اور خدا کہتا ہے کہ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب کہ سن لو خبردار ! میری یاد کے بغیر تمہیں اطمینان قلب نصیب نہ ہوگا۔ (پروفیسر احمد رفیق اخترکا بیان سوشل میڈیا پر)

*****************************************
”عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا ”
”ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔”
*****************************************
پروفیسر احمد رفیق اختر سے جنرل اشفاق پرویز کیانی ، فوجی و سول بیورو کریٹ اور صحافی استفادہ کرتے ہیں۔ معیشت سودی قرضوں پر ہو ، ظلم و جبر سے طاقتور طبقہ کمزور کو دبوچ رہا ہو اور غیر ملکی حملوں کیلئے مقتدر طبقہ سہولت کار ہو۔ سفیر ملا سلام ضعیف کو ننگا کرکے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ کو حوالہ کریں تو کیا ذکر کے وظائف سے اطمینان ہوگا؟۔ قوم محنت مزدوری ، تجارت و نوکری کرکے بھی ننگی، بھوکی، افلاس و احساس کمتری کا شکار ہو۔ اشرافیہ سُودی قرضہ پر بیرون ملک تعلیم اور نوکری کا دھندہ کریں تو کیا اشرافیہ کو اللہ کے ذکر سے اطمینان ملے گا اور خوف و حزن سے نجات پاسکے گا؟۔عمران خان کو گھڑی پر سزادی باقی کو گاڑیاں معاف ہیں؟۔ عمران خان کا راستہ نہ روکو، بے اطمینانی اور خوف وحزن ختم ہوگا۔
آرمی چیف حافظ سید عاصم منیر یا کسی جرنیل کو ولی بنادو ، یا خود وزیرستان کی بدامنی میں بے خوفی کی زندگی گزار کر دکھاؤ۔ منظور پشتین جھوٹ بکتا ہے کہ وہ نہیں ڈرتا۔ ذبح کرنے والے طالب کے سامنے چوں بھی نہیں کرسکتاہے۔
سورہ الرعد کی آیت میں اللہ کے ذکر سے اطمینان ملتاہے تو ذکر سے قرآن مراد ہے۔ جس دن پاکستان اور وزیرستان میں قرآن کا نفاذ ہوگا تو مؤمنوں کو اطمینان ملے گا۔ پروفیسر کے مرید کفار کی طرح چمتکار کے انتظار میں رہتے ہیں۔
ویقول الذین کفروالولا انزل علیہ آےة من ربہ قل ان اللہ یضل من یشاء ویھدی الیہ من انابOالذین امنواوتطمئن قلوبھم بذکر اللہ الا بذکراللہ تطمئن القلوبOآیت:27،28
ترجمہ ” اور کافر کہتے ہیں کہ کوئی چمتکار اترتا نبی پر اپنے رب کی طرف سے ۔ کہہ دیں کہ بیشک اللہ جس کو چاہے گمراہ کرے اور ہدایت دے جو اس کی طرف جھکے۔ جو لوگ ایمان لائے اور انکا دل اللہ کے ذکر(قرآن) سے مطمئن ہے۔ خبردار ! اللہ کے ذکر (قرآن ہی) سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے” ۔سورہ الرعد
چمتکارکا طالب گمراہ اور جو قرآن کی طرف جھکے مہدی ہے۔ سورۂ کے شروع سے آخر تک اللہ کے نازل کردہ کا ذکر ہے۔ جہاں اللہ جواب دیتاہے بندہ بھی جواب دہ۔ مستجاب الدعوات لہ دعوة الحق” اس کیلئے پکار حق ہے” ۔مندر ، بھکشو عبادتگاہ ، یہودی خانقاہ اور نصاریٰ گرجا میں کثرت سے اللہ کا نام یاد کیا جاتا ہے۔لولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لوھدمت صوامع وبیع و صلوٰت ومسٰجد یذ کر فیھا اسم اللہ کثیرًا ”اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے دفع نہ فرماتا تو ڈھا دی جاتیں خانقاہیں، گرجا، کلیسااور مسجدیں جن میں اللہ کا بکثرت نام لیا جاتا ہے۔ (سورہ حج آیت40) ۔
المرٰ تلک اٰیات الکتاب و الذی انزل الیک من ربک الحق ولٰکن اکثر الناس لایؤمنونO( الرعد: آیت :1)ترجمہ :”ال م ر : یہ کتاب کی آیتیں ہیں اور جو کچھ تجھ پرتیرے رب کی طرف سے اترا وہ حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ”۔لہ دعوة الحق والذین یدعون من دونہ لایستجیبون لھم بشی ئٍ الا کباسط کفیہ الی الماء لیبلغ فاہ وماھو ببالغہ ومادعآء الکافرین الا فی ضلالO(آیت:14سورۂ رعد) ۔ترجمہ: ”اور اسی کیلئے حق کی پکار ہے اورجو اس کے سوا جن لوگوں کوپکارتے ہیں تو وہ کسی چیز کا جواب نہیں دیتے۔ مگر جیسے کوئی اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے پانی کی طرف تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ وہ اس کے منہ تک نہیں پہنچتا اور کافروں کی پکار نہیں ہے مگر محض گمراہی میں ”۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ بت اور مزار والے پکارکا جواب نہیں دیتے۔ تو اللہ بھی جواب نہیںدیتا ؟۔ بس فرق یہ ہے کہ کوئی مندر میں رام رام کرتا ہے، کوئی عیسیٰ یسوع مسیح کو پکارتا ہے ، کوئی عبدالقادر جیلانی غوث اعظم کو پکارتا ہے، کوئی مشکل کشا علی کو پکارتا ہے اور کوئی اللہ کو پکارتا ہے لیکن جواب تو کوئی بھی نہیں دیتا ؟۔ اقبال نے خود شکوہ ، جواب شکوہ لکھ دیا تو یہ اور بات ہے۔ حق یہ ہے کہ اللہ کو پکارا جائے تو قرآن جواب دیتا ہے اور ہر مسئلے کا حل بتاتا ہے اور وہی نفع بخش ہے۔ رام کو پکارنے والے کا منہ پانی تک نہیں پہنچتا،تو اللہ کو پکارنے والوں کا منہ پانی تک نہیں پہنچتا ہے؟۔ اللہ کو پکارا جائے تو وہ قرآن کے ذریعے جواب دیتا ہے۔ کافر سمجھتا تھا کہ نبی ۖ اور قرآن کافی نہیں!۔ معجزہ چمتکار لائیں لیکن مؤمنوں کے لئے قرآن اطمینان کا باعث ہے۔ حضرت ابراہیم کو محض اللہ کے ذکر سے اطمینان نہیں ملا ، پرندوں کو چار ٹکڑے کرکے زندہ دیکھ لیا تو اطمینان حاصل ہوا۔ دیوبندی ، بریلوی، اہلحدیث اور شیعہ میں تقسیم ہوکر مرچکے ۔ قرآن زندہ کرے تو مسلمان کو اطمینان ملے گا۔ ذکر صبح گاہی کی مستی سے شیطان فائدہ اٹھاتا ہے۔
مرید چمتکار کے چکر اور پیر سرمایہ دار اور طاقتور مرید کے چکر میںخوشحال زندگی کو پیر اطمینان سمجھتاہے۔ حرام خور ظالم مریدوں کو پیر وظائف پر لگاتا ہے کہ دل کو اطمینان ملے گا اور قرآنی آیات سے استدلال پیش کرتا ہے کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے اور اولیاء اللہ پر خوف اور حزن نہیں ہے۔ پروفیسر رفیق اختر فوجی مرید کو قرآن نافذ کرنے کی دعوت نہیں دیتا۔ اور نہ معاشرے کی اصلاح کیلئے قرآن کے قانونی نکات بیان کرتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ وظائف سے ظلم وحرام ہضم ہوجائے گا؟۔ ضعف الطالب والمطلوب ”مرید اور پیر دونوں ہی کمزور ہیں”۔یہ خودکو اور عوام کوبھی تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔
ان الذین قالوا ربنااللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکة الا تخافوا ولاتخزنوا وابشروا بالجنة التی توعدون ” بیشک جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر استقامت اختیار کی تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف مت کھاؤاور حزن مت کھاؤ اوراس جنت کی خوشخبری پر خوش ہوجاؤ جس کا تم لوگوں سے وعدہ ہے”۔ جب شیطان خوف کے وسوسے ڈالتا ہے جن کا تعلق خناس جنات اورانسانوں سے ہوتا ہے کہ انجام خطرناک ہوگا تو فرشتے بھی اترکر حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ خوف اور حزن مت کرو۔ جیت گئے تو جیت گئے اور ہارے بھی توبازی مات نہیں ۔ دنیا نہیں تو جنت مل جائے گی۔
اللہ کے احکام کو دنیا میں معاشرے پر نافذ کرنے والے ہی اولیاء اللہ ہیں۔ اس ولایت کا فریضہ پورا کرنے پر ہی خوشخبری ہے کہ الا ان اولیاء اللہ لاخوف علہیم ولا ھم یحزنوں ” خبردار! اللہ کے اولیاء پر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ اطمینان معاشرتی فرائض ادا کرنے پر ملے گا۔
سورۂ مائدہ میں تین طبقات کا ذکر ہے۔ اللہ کے حکم پر فیصلہ نہ کرنے والے علماء ومشائخ کو کافر قرار دیا گیا ہے اور حکمرانوں کو ظالم قرار دیا گیا ہے اور عوام کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ ان میں سے کوئی طبقہ بھی اولیاء اللہ کیسے بن سکتا ہے؟۔
مجھے معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ایک عورت کی شادی ہوتی ہے تو اگر وہ شوہر سے خلع چاہتی ہے لیکن مولوی اس کو حق نہیں دیتا ۔حالانکہ اللہ نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ مولوی کی ناجائز طرفداری کرنیوالا اپنا رب اللہ کو نہیں علماء ومشائخ کو بناتا ہے۔ جب شوہر اپنی بیوی سے دس بچے جنوانے کے بعد طلاق دیتا ہے تو عورت کو حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ، بچے بھی چھین لئے جاتے ہیں جن کو9ماہ پیٹ میں گھمایا۔موت کے کنویں میں چھلانگ لگاکر جنا ۔ زچگی میں بھی رات دن بچوں کی خدمت کی تھی۔ جونہی رات کو بچہ رویا نیند سے اُٹھ کر پہلے چوما اور پھر سینے سے لگاکر دودھ پلایا ۔ پوٹی و پیشاب کو صاف کیا اور خود پیشاب کے گیلے بستر پر لیٹ گئی ۔ بچے کو سوکھی جگہ پر لوریاں دینے کے بعد سلادیا۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ بچہ ماں کا نہیں ہے؟۔ کیا اس ماں کو وظائف سے اطمینان ملے گا یا پھرقرآن کے مطابق حقو ق سے؟۔
سورہ رعد میں جتنی تفصیلات دیکھ لی جائیں اتنا دماغ بھی کھلے گا۔ اصل موضوع اللہ کی ذات کے حوالہ سے قرآن کے احکام پر عمل کی ولایت ہے۔
فرمایا: ” کہہ دیجئے کہ کون آسمانوں اور زمین کا رب ہے؟۔ کہہ دو کہ اللہ !۔ کہہ دو کہ کیا تم نے اس کے علاوہ اولیاء پکڑ رکھے ہیں؟۔جو اپنی جانوں کے لئے بھی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہو سکتا ہے؟۔یا اندھیرے اور نور برابر ہوسکتے ہیں؟۔ یا تم نے اللہ کے شریک بنارکھے ہیں۔ وہ بھی تخلیق کرتے ہیں اللہ کی تخلیق کی طرح۔پس ان پر مشابہت ہوگئی ۔ کہو کہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ اکیلا قہار ہے ۔اس نے آسمان سے پانی برسایا اور اس سے اپنی مقدار میں نالے بہنے لگے پھر سیلاب پھولا ہوا جھاگ اوپر لایا اور جس چیز کو آگ میں زیور یا کسی اور اسباب بنانے کیلئے پگھلاتے ہیں اس پر اسی طرح کا جھاگ ہوتا ہے، اس طرح اللہ حق اور باطل کی مثال دیتا ہے۔ پھر جو جاگ ہے تو خشک ہوکر جاتا رہتا ہے اور جو لوگوں کیلئے نفع بخش ہے تو وہ زمین میں اپنا ٹھکانہ بنالیتا ہے۔ اسی طرح اللہ مثالیں دیتا ہے۔ جنہوں نے اپنے رب کیلئے جواب دیا تو ان کے لئے اچھائی ہے اور جنہوں نے اس کو جواب نہیں دیا ۔ اگر ان کے پاس جو کچھ سب زمین میں ہے اور اتنا ہی اور بھی ہو۔اور اس کو فدیہ بھی کردیں تو ان کے لئے حساب برا ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ ٹھکانہ برا ہے۔ بھلا جو شخص جانتا ہے کہ بیشک جو تیری طرف تیرے رب کی طرف سے اترا ،حق ہے کیا وہ اندھے کی طرح ہوسکتا ہے؟۔ بیشک وہی نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔( سورہ الرعدآیت:16،17،18،19)
اگرخانقاہوں ، گرجا گھروں، مندروں اور مسلمان مکاتب فکر ، فرقوں اور عقائد رکھنے والوں کا طریقہ کار بھی ایک ہو اور ان میں سے قرآن کے احکام کی طرف ٍ رجوع نہ کرتا ہو تو ان میں اللہ کو جواب دینے اور اللہ کا جواب دینے میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ قرآن میں اللہ نے قرآن کو بھی ”الذکر” قراردیا ہے اور قرآن تذکیر ہے۔ اللہ سے پوچھنے اور اللہ کے حکم کا جواب دینے کی بات ہے۔
مجھے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر تمام مدارس سے محبت اسلئے ہے کہ اللہ کے احکام مدارس اور علماء کرام ومفتیان عظام سے سیکھنے کا موقع مل گیا ہے۔ ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان سے بھی محبت اسلئے ہے کہ صبح وشام وہاں ذکر کی محفل سے قرآنی احکام کی عزیمت پر عمل کرنے کی ہمت مل گئی ۔ مدارس اور خانقاہوں کی بے توقیری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے لیکن جب تک اللہ کے احکام کو سمجھ کر معاشرہ اس پر عمل نہیں کرے گا تو خانقاہیں اور مدارس مسائل کا حل نہیں ہیں۔
مغرب کی ترقی کا راز اپنے مذاہب کو پھینک کر سیکولر ازم کا راستہ ہے اور رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” اہل غرب ہمیشہ حق پر رہیں گے” ۔(صحیح مسلم)
مغرب نے جمہوری نظام کے ذریعے عورت اور مرد کویکساں حقوق دئیے۔ شوہر کو طلاق کا حق اور بیوی کو بھی طلاق کا حق ہے۔ دونوں کی جائیداد برابر برابر تقسیم ہوتی ہے۔ بیوی ارب پتی اور شوہر لکھ پتی یا شوہر ارب پتی اور بیوی کنگال ہو تو طلاق میں دونوں کا مال برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا قانون ہے۔ نکاح کیلئے شناختی کارڈ کی عمر تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ دونوں کے نام پر جائیداد ہو۔ بالغ لڑکی کو مکمل اختیار حاصل ہے۔ جب مالدار مرد یا عورت کو کسی غریب جوڑی دار پر اعتماد نہیں ہوتا ہے تو وہ شادی کی جگہ دوستی کو ترجیح دیتے ہیں۔ گرل یا بوائے فرینڈز کا تصور نکاح کے سخت قانون کی وجہ سے پروان چڑھ گیا ہے۔
اسلام میں نکاح ، خلع اور طلاق کا قانون فطرت کے مطابق تھا لیکن فقہاء نے اس کی شکل بگاڑ دی ،جیسے یہوونصاریٰ نے بگاڑ دی تھی۔قرآن میں نکاح پرعورت کیلئے مرد کی وسعت کے مطابق حق مہر ہے۔ ہم نے قرآن پر تدبر کرکے اس کو اپنے معاشرے میں رائج نہیں کیا ۔ قرآن میں عورت کو خلع کا حق ہے اور خلع میں شوہرکی دی ہوئی اشیاء کو لے جانے کا حق ہے ۔ کپڑے، زیور، گاڑی ، برتن، نقدی ، بینک بیلنس، موبائل اور ہر وہ چیز جو منتقل کی جاسکتی ہو لیکن غیر منقولہ جائیدادگھر، دکان، فیکٹری،باغ ، پلاٹ اور زمین سے دستبردار ہونا پڑے گا۔
مرد کو قرآن نے طلاق کااختیار دیا لیکن بیوی کو دی ہوئی منقولہ وغیر منقولہ چیزوں سے شوہر محروم نہیں کرسکتا ۔ چاہے خزانے دئیے ہوں۔ خلع و طلاق اور عورت کے حقوق کی سورہ النساء کی آیات19،20اور21میں وضاحت ہے۔
ارب پتی استطاعت کے مطابق ایک ارب روپے حق مہر کا پابند ہے۔ اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو حق مہر کا نصف50کروڑاس کو دینا پڑے گا۔
اللہ نے فرمایا:”اور اگر تم عورتوں کو انہیں چھونے سے پہلے طلاق دیدو،اور تم نے حق مہر مقرر کیا ہو تو اس کا آدھا ہے جو تم نے مقرر کیا ہے۔مگر یہ کہ عورتیں کچھ معاف کریں یا وہ معاف کرے جسکے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے۔اے مردو! تمہارا معاف کرنا تقویٰ کے زیاہ قریب ہے۔اور آپس میں ایک دوسرے پر فضل (احسان) کو مت بھولو، بیشک اللہ تمہارا کام دیکھ رہاہے ۔ (سورة البقرہ:237)
قرآن پس منظر واضح کررہاہے کہ یہ خلع نہیں مرد طلاق دے رہاہے تو جسکے ہاتھ میں طلاق کا گرہ ہے اس کو اپنے حق سے زیادہ دینا مناسب ہے۔ فقہاء نے یہ بات پکڑ کر شریعت بنادی کہ ”عورت کو خلع کا حق نہیں ”۔ حالانکہ قرآن مالی حق کو واضح کر رہاہے ۔اس سے یہ مراد لینا کہ طلاق کا حق صرف مرد کوہے جہالت اور قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ بیدہ عقدة نکاحسے زیادہ نکاح کی نسبت اللہ نے عورت کی طرف کی ہے کہ واخذن منکم میثاقًا غلیظًا ”اور ان عورتوں نے تم سے پکا عہد لیا ”۔ تو کیا اس سے عورت کا اختیار ثابت ہوگا؟ ۔ اس میں بھی اللہ نے مرد کو غیرت دلائی ہے کہ عورت کی اتنی بڑی قربانی ہے تواس پر فحاشی کا جھوٹا الزام لگاکر اپنے حق سے محروم کرنا بہت بڑی بے غیرتی ہے۔
عورت کے حقوق پر قرآنی معاشرہ قائم ہوتاتو بہت اطمینا ن حاصل ہوتا۔
ایک آدمی چار لاکھ کا جوتا پہنتا ہے لیکن کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو اس کا حق مہر50ہزار روپے سے زیادہ نہیں لکھواتا اسلئے کہ یہی رسم ورواج ہے۔ ایک شخص کی جان لی جائے تو اس کا قصاص قاتلوں کو قتل کرنا ہے۔ اگر دیت رکھی جائے تو ایک شخص کی دیت100اونٹ اور عورت کی دیت50اونٹ ہے۔ شوہر قتل کیا جائے تو اس کی بیوی کو100اونٹ ملیں گے اور بیوی قتل کی جائے تو اس کے شوہر کو50اونٹ ملیں گے۔ اگر قرآن وسنت اور اسلام کے قانون پر عمل کیا جاتا تو نسلوں کو بھی لوگ وصیت کرتے کہ ناحق کسی کی جان مت لو۔ جب وہ اسلامی قانون کے تحت قتل کیا جاتا یا پھر دیت دیتا تو بہت پکی توبہ کرلیتا۔
فوج اور پولیس بھی مارتی ہے اور طالبان ، دہشت گرد، بدمعاش، غنڈے، جاگیردار اور پیر بھی مارتے ہیں۔ عوام بھی مارتی ہے۔ سب سے زیادہ اختیارات فوج کے پاس ہیں اسلئے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کا مقابلہ طالبان کرتے ہیںاسلئے ان کو خوارج کہا جاتا ہے۔ سلیم صافی نے جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن سے پوچھا تھا کہ جب افغانستان کی حکومت امریکہ کی حمایت کرتی ہے اور وہاں کے حکمرانوں کے خلاف جہاد ہے تو کیا ہماری فوج امریکہ کی حمایت کے باوجود شہید ہوتی ہے؟ سید منور حسن نے جواب دیا کہ یہی سوال تو مجھے آپ سے پوچھنا ہے ۔ظاہر ہے کہ امریکی شہید نہیں تو ہماری فوج بھی شہید نہیں ہے۔
سلیم صافی نے حکیم اللہ محسود کی وہ تقریر نشر کی تھی جو اس نے قاضی حسین احمد کے خلاف کی تھی ۔پھر جماعت اسلامی نے سوشل میڈیا پرسلیم صافی کو برا بھلا کہا تھا اور سید منور حسن سے امارت کی خدمات واپس لے کر سراج الحق کو امیر بنادیا۔
عورت کے حق مہر کے بارے میں ہے کہ جس امام کے نزدیک جتنی مقدار میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اتنی مقدارکم ازکم عورت کے حق مہر کی ہے۔
مولانا سلیم اللہ خان نے لکھاکہ” امام بخاری اس باب میں”مسئلہ اقل حق” کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات پر توسب کا اتفاق ہے کہ مہر شرائط نکاح میں داخل ہے البتہ اس میں اختلاف ہے کہ اقل مہر کیا ہونا چاہیے؟۔
1:ظاہریہ اور علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ ہرشئی حق مہر بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک جو کا دانہ بھی مہر بن سکتا ہے۔ (المحلی لابن حزم)
2:ابن شبرمہ فرماتے ہیں کہ اقل مہر پانچ درہم ہے۔( فتح الباری)
3:مالکیہ اقل مہر ربع دینار ہے۔1/4یعنی دینار کا ایک چوتھا ئی حصہ۔یہی سرقہ میں ان کے نزدیک قطع ید کا نصاب ہے۔ربع دینار میں چور کا ایک عضوء کاٹا جاتا ہے اور عورت کی ایک عضو ء کا بھی اس میں شوہر مالک بن جاتا ہے۔
4:امام شافعی کے نزدیک جو چیز بھی قیمت رکھتی ہے ۔وہ مہر بن سکتی ہے۔ امام بخاری کا رحجان بھی اسی طرف معلوم ہوتاہے۔
5:حضرات حنفیہ کے نزدیک اقل مہر دس درہم ہے اور یہ حد سرقہ بھی ہے۔
کشف الباری صفحہ262۔ کتاب فضائل قرآن ، کتاب النکاح ، طلاق
اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں قرآن میں ہاتھ لگانے سے پہلے کی طلاق میں امیر وغریب پر اس کی وسعت کے مطابق نصف حق مہر واضح ہے وہاں انہوں نے کس قسم کے لطیفوں کو مذہب بناڈالا ہے۔ چور کاہاتھ کم مقدار میں کٹ سکتا ہے لیکن ایک ہاتھ کی دیت50اونٹ بھی تو ہے۔ عورت کے عضوء کی ملکیت کوچور کے ہاتھ سے تشبیہ دی گئی ہے؟۔ یہ عورت کی سخت تذلیل ہے۔
ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔ جب معاشرے میں عورت کو اپنے حقوق نہیں ملتے اور نہ قرآن سے سیکھا اور سکھایا جاتا ہے تو اس کے قدموں کے نیچے رہنے والی دنیا کو کیسے اطمینان ہوگا؟ اور خوف وحزن سے نجأت ملے گی؟۔
*****************************************

ماہ ستمبر2023کے اخبار میں مندرجہ ذیل عنوان کے تحت آرٹیکل ضرور پڑھیں:
1:14اگست کو مزارِ قائد کراچی سے اغوا ہونے والی رکشہ ڈرائیور کی بچی تاحال لاپتہ
زیادتی پھر بچی قتل، افغانی گرفتار ،دوسراملزم بچی کا چچازاد:پشاورپولیس تجھے سلام
2: اللہ کی یاد سے اطمینان قلب کا حصول: پروفیسر احمد رفیق اختر
اور اس پر تبصرہ
عمران خان کو حکومت دیدو تو اطمینان ہوگا اورخوف وحزن ختم ہوگا
ذکر کے وظیفے سے اطمینان نہیں ملتا بلکہ قرآن مراد ہے۔
3: ایک ڈالر کے بدلے میں14ڈالر جاتے ہیں: ڈاکٹر لال خان
اور اس پر تبصرہ پڑھیں۔
بھارت، افغانستان اور ایران کو ٹیکس فری کردو: سید عتیق الرحمن گیلانی
4: مسلم سائنسدان جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدلا۔
خلیفہ ہارون الرشید نے فرانس کے بادشاہ شارلمان کو ایک گھڑی تحفہ میں بھیج دی
5: پاکستان76سالوں میں کہاں سے گزر گیا؟
اور اس پر تبصرہ پڑھیں
نبی ۖ کے بعد76سالوں میں کیا کچھ ہوا؟
6: پہلے کبھی کانیگرم جنوبی وزیرستان میں ماتمی جلوس نکلتا تھا،آج اسکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا!
7: اہل تشیع اور اہل حدیث کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
اس پر تبصرہ پڑھیں
اہل سنت و اصلی حنفیوں کا مسئلہ تین طلاق پر مؤقف
8: اہل تشیع کا مؤقف خلافت و امامت کے حوالہ سے
اس پر تبصرہ پڑھیں۔
الزامی جواب تاکہ شیعہ سنی لڑنا بھڑنا بالکل چھوڑ دیں

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز