پوسٹ تلاش کریں

اللہ نے قرآن میں یہودن کیساتھ نکاح کو جائزرکھا

اللہ نے قرآن میں یہودن کیساتھ نکاح کو جائزرکھا اخبار: نوشتہ دیوار

اللہ نے قرآن میں یہودن کیساتھ نکاح کو جائزرکھا

فلسطینی قاسم وسلیمان کی طرح یہود کے بھانجے ہوتے تو اسرائیل کبھی اس طرح انسانیت سوزمظالم نہ کرتا

ہمارامذہبی طبقہ یہود سے بدتر ہے، مشعال خان کیساتھ کیا کیاتھا؟۔اسرائیل کو امریکہ ہی استعمال کرتاہے!

اسرائیل کو واضح الفاظ میں سمجھانا ضروری ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اورفرانس نے جاپان وجرمنی پر ایٹم بم گرائے اور اینٹ سے اینٹ بجادی ۔کمیونزم کیخلاف اسلامی جہاد اور پاکستان کو استعمال کرکے روس کو پارہ پارہ کردیا۔ اب اسرائیل کو اسلام کے خلاف استعمال کرکے یہود کو نفرت کا نشان بنانا منصوبہ بندی ہے۔ خود کش حملہ آوروں نے رُخ کیا تو یہود سکون کی زندگی نہیں گزار سکیں گے۔ امریکہ نے مجاہدین کو روس کیخلاف استعمال کیا ۔ پھر افغانستان،عراق کو نشانہ بنایا اور اب اپنے کرتوت کا خمیازہ خود بھگتنے کے بجائے اسرائیل و یہود کو نشانہ بنانا چاہتاہے۔ قل یاایھاالکتٰب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ألا نعبد اِلااللہ ولانشرک بہ شیئًا ولایتخذبعضنابعضًا اربابًا من دون اللہ فان تولوافقولوااشھدوا بانا مسلمونO” کہہ دو! اے اہل کتاب آؤ،اس بات کی طرف جو ہمارے اور آپ کے درمیان برابر ہے کہ ہم عبادت نہیں کرتے مگر اللہ کی۔اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرتے اور نہ بناتے بعض بعض کو اللہ کے علاوہ ارباب۔پس اگر یہ پھر جائیں تو کہو کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسلمان ہیں ”۔(آل عمران:آیت64)۔ اس پر نصاریٰ سے زیادہ یہود پورا اترتے ہیں۔ عیسائی شرک یہود آج توحید کے علمبردار ہیں لیکن مسلمانوں کی اپنی حالت آج کے نصاریٰ سے بھی بدتر ہے۔ یہود کو لڑانے والی شیطانی قوت سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ یہودن جمائما کے بچے قابل قبول ہیں تو دشمنی کس بات کی ہے؟۔ اگر فلسطینی مائیں یہودن ہوتیں تو اسرائیلی ماموں بنتے۔ قرآن نے رشتہ کی اجازت دی تو بھرپور فائدہ اٹھاتے۔ قرآن مولوی نے نہیں لکھا بلکہ اس میں بڑی حکمت عملی ہے۔ نفرتوں پردکان چمکانے والے مذہبی طبقے کااسلام سے کوئی تعلق نہیں جو انسانوں سے نفرت کرتے ہیں اور شیطانی سود کو اسلامی کہتے ہیں جس نے عالم انسانیت میں غربت کی بدترین تباہی وبربادی پھیلا رکھی ہے۔
نوازشریف نے جمعیت علماء اسلام کے بانی مولانا احمد علی لاہوری کے ایک پوتے اور جانشین مولانا محمداجمل قادری کو دودفعہ اسرائیل بھیجا تھا۔ نوازشریف ماضی میں تین مرتبہ وزیراعظم اور چوتھی مرتبہ بھی اس کی بانچھیں کھل چکی ہیں۔ مولانا عبیداللہ انور، مولانا درخواستی، اور مولانا سمیع الحقکی جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نوازشریف کی دم چھلہ رہ چکی ہیںاور اب مولانا فضل الرحمن ، جمعیت اہلحدیث وغیرہ دم چھلہ ہیں۔ جبکہ باقی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور اے این پی وغیرہ ویسے بھی مذہب کے نام پر سیاست نہیں کرتی ہیں۔
تبلیغی جماعت کو اسرائیل میں کام کرنے کی اجازت ہے۔ دعوت اسلامی کو بھی مل سکتی ہے اور اگر جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی کو اسرائیل میں کام کا موقع ملے تو سرپٹ گھوڑے پہنچ جائیں گے۔ بھارتی ہندو کیساتھ کام کرنا اسرائیل کے یہود سے بدتر نہیں بلکہ قرآن وسنت کے لحاظ سے قریب تر ہے، یہود اصحاب قبلہ ہیں۔ ہندؤوں کا قبلہ نہیں ۔بھارت ہماری مذہبی جماعتوں کی جنم ماتا ہے اور آج بھی سب بڑی شدومد اور وفاداری کیساتھ وہاں موجود ہیں۔ جہادی طبقے کو تو ویسے دہشت گرد قرار دے چکے ۔ اب عوام کو دھوکہ نہیں دیا سکتا ہے۔
مختلف ادوار میں پاکستان نے اسرائیل سے خفیہ رابطہ استوار کیا ۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور میں اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کے کوئی درپے تھا لیکن اس کی بات واضح ہے کہ پاک فوج کے جنرل تھے کوئی اور نہ تھا۔ ترکی،مصر ،دیگر عرب نے اسرائیل سے سفارتی تعلق رکھا تو پاکستان کا کیا؟۔ یہودی لڑکیوں سے شادی کرکے قابل اولاد کی ضرورت ہے۔ ہماری نالائق قیادت نے ایک بہترین پاکستان کو اپنی نالائق اولاد کی بھینٹ چڑھادیا ہے۔
ہماری حضرت عیسیٰ علیہ السلام و حضرت مریم علیہا السلام سے بڑی عقیدت ومحبت ہے۔اسلئے عیسائی دل وجان سے یہود کے مقابلے میں مسلمان سے زیادہ محبت وموودت رکھتے ہیں۔ داعش نے شام وعراق میں یزیدی اور کرد خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح بازاروں میں بیچ دیا تو دنیا کو مسلمانوں سے نفرت ہوگئی۔ مغرب شاید اپنی حکمت عملی کا سہارا لیکر اسرائیلی یہود سے اس روئیے کا مظاہرہ دنیا کو دکھائیں تاکہ مسلمان سے دنیا نفرت کرے اور اسلام کا راستہ رک جائے۔ اسلئے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسلام کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اگر یہود عیسائی خداؤں کے بارے میں انتہائی گھناؤنا عقیدہ رکھتے ہیں اور عیسائی انتقام کے درپے ہیں تو مسلمان امریکہ اور برطانیہ وغیرہ کے آلۂ کار نہ بنیں۔ کیونکہ اسلام ہی نے دنیا میں مذہبی آزادی اور جبرکے خلاف درست تصور دیا تھا۔ جو آج مؤمن اس سے خود غافل اور دوسری قوتوں کا آلہ کار بناہوا ہے۔
ہماری نفرت یہود ونصاریٰ سے نہیں سودی نظام سے ہے جس نے نہ صرف ہمارا بلکہ عالم انسانیت کے معاشی نظام کو غربت وتنگدستی کی آخری حد تک پہنچادیا۔ ہمارا مذہبی طبقہ ایک طرف ان کے سودی نظام کو حیلے سے اسلامی قرار دیتا ہے اور دوسری طرف دُم اٹھاکر نفرت کے پدو مارتا ہے۔ جس دن تھوڑی فضا بن گئی تو پھر یہی طبقہ یہود سے بھی بانہیں کھول کر محبت کرے گا۔
یہود کے ذہن میں یہ غلط بٹھادیا گیا ہے کہ تابوت سکینہ مسجد اقصیٰ کے نیچے دفن ہے ۔ اس غلط فہمی کا ازالہ کرنے کیلئے دنیا کے تمام سٹیک ہولڈرزکے سامنے مسلمان یہ تجویز رکھیں کہ بیت المقدس کو تہہ خانوں سمیت ازسر نوتعمیر کیا جائے تاکہ ایک عظیم الشان مسجد، عیسائیوں کا گرجا اور یہودیوں کی عباد ت گاہ بنانے کا مشن پورا ہو۔ پوری دنیا سے تمام لوگوں کو وہاں پہنچنے اور عبادت کرنے کی حوصلہ افزائی ہو۔ جمعہ کے دن مسلمانوں کے سپرد ہو ، ہفتہ کے دن یہودیوں اور اتوار کے دن عیسائیوں کے سپرد ہو۔ مذہب کے نام پر سیدھے سادے لوگوں کو لڑانے کی جگہ مذہب کی بنیاد پر یک جہتی اور محبت کیلئے دنیا میں اپنا کردار ادا کریں۔
غزہ و فلسطین کے مسلمانوں کو یہود کے قہر وغضب سے بچانے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے۔ امریکہ نے9/11کے حادثے کیلئے اسلامی دنیا کو تباہ کیا۔ اب یہود نے10/7کیلئے غزہ کیساتھ بہت ظالمانہ سلوک کیا۔ جس کا ازالہ ممکن نہیں اور بدلے کی سکت بھی نہیں ہے اور ہو تو اپنے سے زیادہ بدلہ لینے کو قرآن نے منع کیا ہے اور معاف کرنے کی ترغیب دی۔ بلکہ معافی کا فرمایا۔9/11میں مطلوب اسامہ بن لادن کیلئے امریکہ نے گوانتاناموبے کے ٹارچر سیلوں میں بے گناہ لوگوں کیساتھ کیا نہ کیا؟۔ اسرائیل کی سازش ہے کہ مغرب کو مسلمانوں کیساتھ لڑادیا جائے۔ مسلمانوں نے کسی اورکی سازش میں آکر فلسطینیوں کو ظالم اسرائیل کے رحم وکرم پرکسی صورت بھی نہیں چھوڑنا ہے۔ہم آگاہی مہم چلائیں۔ اسلام کی انسانیت واضح کرکے دنیا بھر کے یہودونصاریٰ کو اپنے ساتھ ملائیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز