امریکہ آقاIMFکے ہم غلام مولانا فضل الرحمن
جولائی 22, 2023
امریکہ آقاIMFکے ہم غلام مولانا فضل الرحمن
سیاسی ، دفاعی اور معاشی لحاظ سے ہم آزاد نہیں بلکہ بدمعاشوں کے غلام ہیں
پڑوسی ممالک سے بہترتعلقات ہوں تو بدمعاشوں کے مقابلہ میں بہتری آسکتی ہے
مولانا فضل الرحمن2014میں ایک انٹرویو۔ شک نہیں کہ ہم پسماندہ ہیں۔ علم کی کمی اور معیشت بہت کمزوری ہے لیکن کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ اور ہم گلہ کررہے ہیں کہ آزاد قوم کے ناطے ہم نے ترقی کیوں نہیں کی؟۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد کالونی ازم کا رواج ختم ہوا۔ اب نہ برطانیہ کہیں پربراہ راست حکومت کر رہا ہے ، نا ہی فرانس اور امریکہ کررہا ہے لیکن ترقی پذیر اور پسماندہ دنیا کو براہ راست غلام بنانے کے بجائے انہیں بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی معاہدوں میں اس طرح جکڑ دیا گیا کہ طاقتور ملک کو کبھی ترقی کی طرف جانے نہیں دیتے۔ جس کا رقبہ بڑا ہو اور آبادی گنجان ہو۔کہ اس ملک میں پوٹینشل ہے۔چنانچہ تین حوالوں سے دنیا کو بین الاقوامی معاہدات اور اداروں کے توسط سے غلام رکھا جاتا ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی ۔ ان تین حوالوں سے پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا کو غلام رکھنا اور ان کی ترقی کی حد متعین کرنا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا آپ نے۔ علم ، ٹیکنالوجی ، اقتصاد، دفاع جو بھی ہو۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، جنیوا انسانی حقوق کنونشن یا جو بھی بین الاقوامی ادارے ہیں وہاں سے جو ریزولیشن یا قانون صادر ہو، آپ کے ملک کا آئین و قانون اپنے ملک میں غیر مؤثر ہوجاتا ہے اور ان کا قانون اور فیصلہ آپ کے ملک میں مؤثر رہتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ آپ واقعی آزاد طاقتور ہیں؟۔ جبکہ ان کے فیصلے آپ پر لاگو ہوتے ہیں۔ پانچ ممالک کی تو مونوپلی ہے کہ وہ تو ہیں بالاتر اور بااثر اور ترقی یافتہ دنیا اس سے باہر ہے۔ پھر ہم لوگ اور ہمارا موجودہ اقتصاد ی سسٹم کیا ہم آزاد ہیں؟۔ کیاIMFکے رحم و کرم پر اور ان کے لوگ ہمارا بجٹ نہیں بناتے؟۔ جو ہمیں ہاتھ میں پکڑواکر کہتے ہیں کہ اسمبلی میں اس کو پڑھو۔ کیا ایشین بینک، ورلڈ بینک، فرانس اور لندن گروپ کے قرضوں سے ہماری دنیا نہیں چل رہی ہے؟۔ تو جب ایک سطح پر پہنچتے ہیں تو اگر ہم ایک سیڑھی آگے گئے تو ہمیں دھڑام سے گرادیتے ہیں اور آپ کے ملائیشیا کے ساتھ ہوا ہے کہ وہ عروج پر پہنچا اور اس کو گرادیا گیا۔ دفاعی معاہداتCTBT،NPTپر وہ خود دستخط کرے نا کرے آپ دستخط کے پابند ہوجائیں، ایٹم بم میرا لیکن مالک وہ ہے، استعمال کا اس کو اختیار ہے مجھ پرپریشر ہے اپنا اسلحہ استعمال نہیں کرسکتا۔ تواسلامی دنیا ایٹم بم نہیں بناسکتی۔ اسرائیل کے پاس200،300یا400ایٹم بم ہیں لیکن عراق پر شبہ ہوا، تہ و بالا کردیا۔ تو اعتراف ہے کہ ہم کمزور ہیں لیکن اس کمزوری کو ہم پر کس نے مسلط کیا۔ ہم ہزار چاہتے ہیں کہ دلدل سے نکلیں ، ہماری جو جدوجہد ہے ہماری پارٹی کی جدوجہدکا بنیادی نکتہ خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح پڑوسی ممالک کو دو۔ ان کیساتھ جو تجارت ہوگی وہی آپ کے ملک کی اکانومی اور پیداواری شرح کو بڑھائے گی۔ قریبی ممالک آپ کے ساتھ تجارت کو فروغ دیں گے۔ وہ ممالک کہ جن کی مصنوعات کا معیار پاکستان سے کم تر ہے ۔ ان ممالک میں آپ کی مصنوعات کی طلب بڑھے گی ۔ لیکن جن ممالک کی مصنوعات کا معیار زیادہ ہے تو آپ درآمد کریں گے برآمدی قوت آپ کی بڑھے گی نہیں۔ لہٰذا تجارتی خسارے کے علاوہ آپ کے پاس کچھ ہوگا ہی نہیں۔ بین الاقوامی دنیا کے اس ولیج کے اندر جو میرا گھراور محلہ ہے سرداروں نے جو دنیا کے سردار ہیں اور بدمعاشوں نے کس طرح ایک شکنجے میں کسا ہے۔ آپ کی اور ہماری سوچ میں اختلاف نہیں ۔ مجبوریاں اور مقہوریاں ہیں اس سے نکلنے کا طریقہ کیا ہے بارہا ہم کہہ چکے ہیں کہ بین الاقوامی دنیا امریکہ یورپ کے ساتھ ہم بہتر تعلقات اور دوستی چاہتے ہیں لیکن موجودہ تعلق کو آقا و غلام سے تعبیر کرتے ہیں یہ ہمیں قبول نہیں۔ جواب میںکہا جاتا ہے کہ کھاؤ گے اس کا تو پھر چلے گی بھی اس کی۔ قرضہ اور پیسہ اس کا ہوگا وہ حجم میں بڑا ہے اتنا بڑا امریکہ ، اس کے ساتھ برابری کا تصور یہ بیوقوفی کی باتیں تو کررہے ہو۔ تو میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے ۔ اگر حجم دلیل ہے تو پھر چین اور پاکستان کی قوت اور حجم میں بھی توازن کیا ہے؟۔ کیا ہم اتنا بڑا رقبہ ،اتنی بڑی آبادی اور فوج رکھتے ہیں؟۔ کیا اتنی بڑی معیشت ہے؟۔ اس کاGDPگیارہ فیصد پر گیا اور ہم ایک اور ڈیڑھ فیصد پر چل رہے ہیں۔ انڈیا9اور10پر گیا۔ بنگلہ دیش7پر چلا گیا ۔ ارد گرد آپ کے ہم عمر ممالک اور چھوٹی عمر کے ممالک آج اقتصادی لحاظ سے پرواز کرچکے ہیں۔ وہ ٹیک آف کرچکے اور آپ زمین پر بیٹھے ہیں۔ آپ ابھی ٹیکسی نہیں کرپارہے۔ آج اگر چین حجم، وسائل میں بڑا، ایک سپر طاقت، عام پاکستانی سے گلی کوچے میں پوچھو کہ چین کیسا ملک ہے؟، کہتے ہیں ہمارا دوست ملک ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک پاکستانی اس حجم کے تفاوت کے باوجود چین کو دوست کہہ رہا ہے اور امریکہ کو آقا کہہ رہا ہے۔ رویوں کی بات ہے ناں۔ رویہ ٹھیک اور دوستانہ کرلو ہم آپ کو دوست کہیں گے۔دوستوں کی طرح رہیں گے۔ اتنے طاقتور ہم نہیں کہ دنیا کے سامنے جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔ یہ جنگ کا زمانہ نہیں، ریاستوں کی قوت دو چیزیں ہیں، اقتصاد اور دفاع۔مادی دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ نظریہ معنوی چیز ہے وہ رہنمائی کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دو چیزیں بنیادی عناصر ہونے کے باوجود بقاء کا دار و مدار دفاعی قوت پر ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج کے اس نئے دور میں بقاء کا دار و مدار اقتصاد پر ہے۔ محض دفاع رشیا کو نہ بچاسکا۔ جونہی سوویت یونین ٹوٹا اشتراکی نظام کو شکست ہوا یک دم چونک اٹھا چائنہ اور فری اکانومی زون بنادیے۔ لوگوں کو انفرادی ملکیت کا حق دے دیا۔ باوجود اسکے کہ حکمران پارٹی کمیونسٹ ہے سسٹم وہاں سوشلسٹ ہے لیکن اس نے پیچھے گیر لگایا، لوگوں کو شخصی حقوق دیے اور آج بھی فری اکانومی زون کے تحت وہ دنیا کیساتھ برابری کی تجارت کی پوزیشن میں آگیا۔ اس کو احساس ہوا لیکن ہم نے کوئی ایسی محفل نہیں سجائی ، ایسے ادارے نہیں کہ ملک کی معیشت کو کس طرح اٹھانا ہے؟۔ پالیسیاں بنانی ہیں فکر مند ہونا ہے۔ ہم تو فکر مند بھی نہیں جونہی آتے ہیں جیIMFبات کرو کتنا قرضہ دو گے؟ امریکہ کتنی امداد دے گا؟۔جب کولیشن سپورٹ فنڈ میں آ پ کو7ارب سے زیادہ ڈالر ملنے والے ہیں تو ابھی تک 2ڈھائی ارب آپ کو ملے ہیں آپ کیوں امن لائیں گے جب تک آپ کو وہ پیسہ نہیں ملے گا۔ اس لالچ میں بھی ہم جنگ لڑیں گے کیونکہ پھر ملے گا نہیں۔
امتیاز عالم: مولانا73کا آئین ایک سمجھوتہ ہے۔ سوشلسٹ اور رائٹسٹ میں ، سیکولرز اور اسلامسٹ میں۔ آپ کی کوشش ہے کہ زیادہ اسلامی رنگ لیکر آسکیں۔ اور جو سیکولر ہیں میری طرح کہ وہ چاہیں گے کہ اس میں بنیادی حقوق محفوظ رہیں۔ اب دو راستے ہیں، ایک یہ ہے کہ جو سمجھوتا کیا اسے توڑ دیں کہ آپ بنیادی حقوق کا احترام نہ کریں اور ہم اسلامک پروویژن کو آئین سے نکالنے کا مطالبہ کریں تو سمجھوتہ ٹوٹ جائے گا۔73کے آئین میں ایک ملائی ریاست نہیں بنائی۔ کونسل آف اسلامک آئیڈیا لوجی پارلیمنٹ سے اوپر نہ تھی۔ مفتی محمود اور مولانا نورانی نے اتفاق کیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ یہ دعویٰ کرسکتے۔ کیا کہیں گے؟، توازن کو قائم نہیں رکھنا چاہیے؟ کیا کہیں گے بنیادی حقوق پر کہ جوبیسک بنیادی حقوق ہم نے آئین میں مانے ہیں آپ اس کی رسپیکٹ کرتے ہیں یا نہیں کریں گے؟۔
مولانا فضل الرحمن: اسلام انسانی حقوق کا محافظ نظام ہے،فرد کی رفاع سے لیکر ریاست کی اقتصادی خوشحالی تک جب تک آپ کا ایک فرد خوشحال نہیں ہے جب تک آپ کی ریاست خوشحال نہیں ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ لفظ خلافت اور لفظ سیاست آئیگا تو اس سے مملکت اور ریاست کا نظام اور رہنے والے لوگوں کے حقوق اور تحفظ کا سوال ہونا چاہیے۔ جان، مال اور عزت و آبرو ، نسل و نسب کے تحفظ، عدل و انصاف مہیا کرنا اور حفظ عقل کا بھی مسئلہ ہے، تمام حوالوں سے انسان کی جو ضرورتیں ہیں وہ ان کے حقوق بنتے ہیں اور ان حقوق کا تحفظ کرنا اور اس کے منافی ہر چیز کو روکنا یہ ایک ریاست کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ جب ہم ان بنیادی نظریات پر متفق ہیں۔ جتنے بھی تاریخ اسلام کے ہمارے اکابرین ہیں امام غزالی ، ابن خلدون ، ابن کثیر ،ماوردی تمام دنیا اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ سیاست کس چیز کا نام ہے۔ تمام نے سیاست کے معنی یہی کیے ہیں کہ القیام بالشیئی بما یصلح کسی چیز کا اس طرح وجود پذیر کرنا کہ جو معاشرے میں اصلاح کا سبب بنے۔ اس تصور کو عام کیا ہے سب نے۔
امتیاز عالم: اچھا یہ جو عالمی حقوق، بنیادی حقوق اور انسانی حقوق کا اعلان نامہ ہے اس میں آپ، آپ کی جماعت اور آپ کے مکتب کے لوگ اس پر کیا کہتے ہیں؟۔ جو ہمارے آئین کا بھی حصہ ہے۔
مولانا فضل الرحمن : جہاں تک میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے سوائے ایک آدھ شق کے کہ جس پر بحث ہوسکتی ہے ، مجموعی طور پر میں آپ سے پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے اور انسانوں کی بھلائی کیلئے غیر مسلم بھی جب بیٹھتا ہے تو اس کی بہتری کے تصور کیساتھ حقوق کا تعین کرے گا تو وہ اسلام سے باہر جانہیں سکتا ۔ کیونکہ اسلام نے اس کا تعین کیا ہے۔ بعض چیزیں ہوسکتی ہیں کہ آپ کچھ ترمیم کرسکتے ہیں یا اسلامی نقطہ نظر سے کیونکہ وہ سب نے بنایا۔ اس میں صرف مسلمان تو نہیں بیٹھا ہوگا، تو اس میں جب ساری دنیا بیٹھتی ہے تو اس میں کہیں کوئی عدم توازن ایک آدھ شق میں ہے لیکن مجموعی طور پر ہم اس سے اختلاف نہیں کررہے ہیں ۔ اسکا احترام کیا جائے۔ جو حق وہ اپنے لئے مانگ رہا ہے یعنی تعلیم حق ہے اور ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے مذہب کے دائرے میں تعلیم کا حق اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت حاصل ہے لیکن وہ حق میرے دینی مدرسے اور دینی مدرسے کے اندر حصول علم کے حوالے سے نہیں دیا جارہا اسNGOکو آپ قبول نہیں کررہے وہاں پر آپ اس کے حق پر تحفظات کررہے ہیں ، کبھی اس کو آپ دہشت گردی کے مراکز کہتے ہیں ، کبھی انتہاء پسندی کے مراکز کہتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ آپ نے تو بس ایسے ہی فقیر غریب بنادئیے ہیں۔ تو یہ سوالات بھی میرے اوپر ہوئے ہیں کہ دینی مدارس کے اندر ریسرچ ہوتی ہے؟۔ کیا دینی مدارس کے اندر کوئی نئے تجربات ہوتے ہیں؟۔ میں نے کہا کہ بالکل ہوتے ہیں صرف فرق اتنا ہے کہ پاکستان کی مملکت کے نظام میں جو سرکار کے زیر انتظام تعلیمی نظام ہے اس کے حامل لوگوں کو کردار ادا کرنے کی گنجائش دی گئی ہے لیکن دینی مدارس کے تعلیم یافتہ اور اسکے جو محققین ہیں ہمارے ملکی نظام میں اس تعلیم کو گنجائش نہیں دی گئی۔ آپ گنجائش دیں پھر دیکھیں ۔ آخر یہاں پر بھی تو کوئی آنکھیں بند کرکے افسر نہیں بنتا۔6مہینے اس کو ٹریننگ کرنی پڑتی ہے۔17گریڈ سے18میں جائے گا تو ٹریننگ کرے گا۔18سے19میں جائے گا تو ٹریننگ کرے گا۔ یہNIPAاور یہ ساری چیزیں اسی لئے بنی ہوتی ہیں کہ وہ پہلے ٹریننگ کریں گے اور پھر وہ کرسی پر جاکر بیٹھیں گے۔ اگر یہ انتظام آپ پاکستان کے اسلامی نظام کے حوالے سے ان لوگوں کو بھی مہیا کردیں اور ان کیلئے بھی لیگل شعبے متعین کردیں ، لیکن گنجائش تو بنائیں۔ سب آپ کے ساتھ مل کر جانے کیلئے تیار ہیں لیکن آج اگر ایک عالم دین جوفقہ کاعالم اور مفتی ہو اگر وہ کہتا ہے کہ میں ٹرینڈ ہوں اور شرعی عدالتوں میں پیش ہوکروکیل کی وکالت کرسکتا ہوں تو آپکا سارا وکالت نامہ اسکے خلاف احتجاج کرتا ہے۔ کہ نئی جی، تم کون ہوتے ہو کالے چوغے ہم نے پہنے ہوئے ہیں اور مُلا آگیا جو میرے ساتھ کھڑے ہوکر وکالت کرے گا۔ اور مجھے پتہ ہے کہ میرے دار العلوم کے ایک شیخ الحدیث کے گھر میں ایک شخص تشریف لایا اورکہا کہ حضرت مجھے ذرا بتادیجئے یہ مشارکت، مضاربت،مرابحت کیا ہے؟، ذرا مجھے تفصیل چاہیے۔ اور میرا استاذ جب اس کو تفصیل کیساتھ پڑھاتا ہے سمجھاتا ہے تو اس کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ حضرت اللہ اجر دے گا۔ بہت آسان کردیا۔ مہمان کہتا ہے کہ حضرت میں اپنا تعارف کرادوں، میں ہائی کورٹ کا جج ہوں اور میں فیصلے دے رہا ہوں اور مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کیا فیصلے دے رہا ہوں۔ ضمیر نے ملامت کیا، یہاں آکر آج مجھے اطمینان ہوا کہ یہ معاملات کیا ہیں اور اس کے عنوانات ہم سنتے ہیں لیکن نیچے کی تفصیل ہمیں معلوم نہیں ۔ اس کی تعریفات ہمیں معلوم نہیں ۔ تو یہ چیزیں آپ کے ملک میں اسلئے ہیں کہ آپ کا معاشرہ اسلامی ہے۔ آپ کا عام مسلمان دیہاتوں میں ہے جب تک آپ اس کو مطمئن نہیں کریں گے کہ یہ حق جو آپ کو عدالت نے دیا ہے یہ شریعت بھی دیتی ہے تب تک اس کا ضمیر مطمئن نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ کوئی مسئلہ ہے بیچ میں۔ تو جامعیت چاہیے اور اس کیلئے یہ ادارے بنائے گئے ہیں۔ یہ نہیں کہ میں آپ کو مجبور کرتا ہوں کہ جب تک تم میری طرح پگڑی نہ باندھو گے ، میری طرح قمیض شلوار نہ ہوگی اس وقت تک تم مسلمان نہیں ہو۔ کبھی اس طرح کے تصورات ہمارے یہاں نہیں ۔ میں آپ کو اسی کوٹ پتلون میں قبول کرنے کیلئے تیار ہوں۔ بغل گیر ہونے ، آپ کو سر پر بٹھانے کیلئے تیار ہوں۔ لیکن آپ مجھے مانیں تو صحیح کہ میں پاکستان کا شہری ہوں۔
امتیاز عالم: آپ حق مانگ رہے ہیں اپنے مکتب کیلئے کہ آپ کو پریکٹس اور پرچار کی آزاد ی ہو۔ یہ حق دوسرے مکتب اور مذاہب کے لوگوں کو دیں گے؟۔
مولانا فضل الرحمن: حضرت میں بات کررہا ہوں آپ کیوں سوال کرکے ذہن تبدیل کررہے ہیں۔ میں پاکستان، ریاست، قوم، مملکت اور اجتماعیت کی بات کررہا ہوں۔ خدا کیلئے! میں مسلک کی بات نہیں کررہا آپ سے۔
امتیاز عالم:آپ حق مانگتے ہیں، بنیادی حقوق میں عیسائی کو اپنے عقیدے کا حق ہے کہ وہ کیا عبادات، رسومات اور کیسے زندگی گزارتا ہے۔ جیسے آپ اپنے لئے حق مانگتے ہیں۔ کیا یہ حق آپ دوسرے لوگوں کو بھی دینے کیلئے تیار ہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن: تمام جس کو آپ غیر مسلم اقلیت کہتے ہیں ان کی عبادت گاہیں ، ان کی حفاظت ، ان کی عبادات، عبادات کے حوالے سے ان کی پوری آزادی اسلام آج نہیں کہ ہم آپ سے مرعوب ہوکر یہ بات کررہے ہیں۔ جب اسلامی فوجیں شام داخل ہونے لگیں تو حضرت ابوبکرصدیق نے ہدایات جاری کیں کہ جب آپ شہر میں داخل ہوں گے تو خبردار! عورت ، بچے بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔ انکے باغات ، جانوروں کو تباہ نہیں کرنا ، ان کی جو عبادتگاہیں ہیں اور ان کے جو راہب ہیں اور بزعم خویش وہ خدا کی عبادت کرنے میں مصروف ہیں ان کو نہیں چھیڑنا ۔ یہ ساری تعلیمات صدر اول میں ہمارے اسلام کے پہلے خلیفہ نے انسانیت کو عطا کی ہیں۔ اور آج پوری اسلامی دنیا اس روش پر جانے کیلئے تیار ہے۔ یہ تو کوئی سوال ہی نہیں جو آپ کررہے ہیں۔ اس پر آپ بات کریں بہت بڑے پروسپیکٹ میں۔ میں مسلک کے دائرے میں پھنس کر بات نہیں کررہا۔ اس چھوٹے دائرے میں محصور اور یرغمال ہوکربات نہیں کررہا۔ میں ایک انسان، پاکستانی اور ایک ایسے مسلمان کہ جس کا موضوع ہی انسانیت ہے اس حوالے سے بات کررہا ہوں آپ سے۔
امتیاز عالم: مولانا آپ یہ بات کرنا پسند کریں گے کہ آ پ لوگوں میں ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر اتفاق ہوا کہ اپنے مسلک پر قائم رہو اور دوسرے مسلک کو مت چھیڑو۔ یہ اتفاق ہوا آپ کے درمیان اس پر آپ قائم ہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن: ملی یکجہتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے اندر اتفاق رائے ہے اور بالخصوص صحابہ کرام و اہل بیت عظام کے ناموس پر۔ متفقہ دستاویز ہے۔ کمی یہ ہے ضرورت یہ ہے کہ اس پر قانون سازی بھی ہوجائے۔ اور قانون کے تحت اس چیز کو تحفظ دیا جائے تاکہ ان فسادات کا راستہ روکا جاسکے۔
امتیاز عالم: اچھا اس میں اصول یہ ہوا کہ لکم دینکم ولی دین تمہارا دین تمہارا میرا دین میرا۔ اور لا اکراہ فی الدین دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ تو ہم تو سیکولر لوگ ہیں، یہی کہتے ہیں کہ لا اکراہ فی الدین اور لکم دینکم ولی دینآپ اپنا مذہب پریکٹس کریں میں اپنا مذہب پریکٹس کروں۔ اس پر آپ کا کیا اعتراض ہے؟۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ کسی کے مسلک کو نہ چھیڑو اپنا مسلک مت چھوڑو تو یہی سیکولر ازم ہے ۔ سیکولر تو آپ کی ساری جمعیت علماء ہند ہندوستان بھی ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد سیکولر تھے۔ آپ کی جمعیت علماء ہند کے متفقہ صدر جنہوں نے پاکستان کو نہیں مانا اور ہندوستانی قومیت کی حمایت میں، میں انکی بہت عزت کرتا ہوں ان کیخلاف الزام نہیں لگارہا۔ وہ سیکولر تھے اور ہیں۔ ابھی آپ جائیں گے ہندوستان میں جمعیت علماء ہند کی کانفرنس میں تو وہاں پر آپ کو سیکولر ازم کا بینر نظر آئے گا۔ وہاں سیکولر ازم حرام یہاں حلال یہ کیا معاملہ ہے؟ ذرا بتائیں۔ پھر آپ یہ مت کہیں ، پھر آپ کہیں کہ یہ شیعہ بھی کافر ہیں، آپ کہیں کہ بریلوی بھی کافر ہیں، صرف دیوبندی مسلمان ہیں۔ یا آپ کے تکفیری یا وہابی بھائی مسلمان ہیں باقی سب فارغ ہیں یا آپ یہ کہیں۔
مولانا فضل الرحمن: اس رُخ پر نہ جائیں۔ جن کو آپ نے کہا کہ یہ سیکولر ہیں۔ انہوں نے تقسیم کے فلسفے کو نہیں مانا ۔ آج ہم اس ریاست کے اندر ہیں جو مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا اور اس کے بعد مسلمانوں کی ریاست پاکستان کہلایا۔ لہٰذا وہ حوالے وہیں رہ گئے اب ہم ایک نئی ریاست کے اندر جو لا الہ الاللہ اور مسلمان کے نام پر معرض وجود میں آئی، یہ ریاست جس نظرئیے کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی ہے اس حوالے سے اب بات کرنی ہے۔ وہ باتیں آپ چھوڑ دو۔
امتیاز عالم: ایک گزارش ہے کہ پاکستان سارے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے نہیں بنا اگر بنا ہوتاتو24کروڑ مسلمان اس وقت ہندوستان میں نہ ہوتے۔ اور اگر یہ ایسی مستقل بنیاد تھی تو مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا۔ یونیورسل بنیاد تھی تو بلوچ، پختون حقوق کا نعرہ ، آپ کے والد بزرگوار مستعفی ہوگئے کہ بلوچستان میں حکومت توڑی گئی پھر یہ مناقشے نہ ہوتے ، صوبائی خود مختاری کے ایشوز نہ ہوتے۔ اور آپ پولیٹیکل پلیٹ فارم بھی نہ بناتے۔ تو عرض اور گزارش یہ ہے کہ ہمارے پاکستان کی ریاست میں تاریخی پس منظر کے لوگ بھی ہیں ، پنجابی، سندھی جو کہ ہزار ہا سال سے ہیں۔ کیا پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں آنے کی دعوت دے دیں گے؟۔ کہ24کروڑ یہاں تشریف لے آئیں۔
مولانا فضل الرحمن: یہ میرا مسئلہ نہیں ہے جی۔ (قومی ریاست ہے ناں :امتیاز عالم) ۔ جو ریاست اب بن گئی ہے اس کی حدود میں جو لوگ رہتے ہیں وہی پاکستانی کہلائیں گے۔ باہر سے اگر کوئی آئے گا تو ہندوستانی کہلائے گا۔ (اور اگر سعودی یا کوئی مصری آئے؟۔ امتیاز عالم)۔ سعودی اور مصری کہلائے گا۔ پاکستانی نہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان نے اپنی جو شناخت دنیا میں متعارف کرائی، اس کو پاکستان اور اسی کو پاکستانی کہا جائے گا جو یہاں رہتا ہے۔
امتیاز عالم: ایک عرض ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں مکالمہ مشکل ہے۔ میں اور آپ بیٹھے مکالمہ کررہے ہیں۔ اس میں صرف ایک بات نہیں ہے وہ ہے تشدد۔ میرے پاس پستول نہیں، آپ کے پاس سوسائڈ بمبار کی جیکٹ نہیں۔ سوسائڈ بمبار کی جیکٹ جو آگئی اور جو تکفیری اور القاعدہ والے آگئے کیا مجھے آپ بتا سکیں گے کہ اس تشدد کے عنصر کو مذہبی نقطہ نظر سے آپ جائز سمجھتے ہیں؟۔کیا جہاد کا اعلان ہوسکتا ہے اور نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اعلان کرسکتے ہیں؟۔ کیا ہندوستان کے خلاف جہاد کا اعلان کرسکتے ہیں؟۔ پرائیویٹ گروپس اعلان کرسکتے ہیں؟۔ کیا افغانستان کے خلاف کرسکتے ہیں جہاد کا اعلان؟۔ اس کی کیا شرائط ہیں؟۔
مولانا فضل الرحمن: میرا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے جنگ بھی مسلط کردی۔ ہم اس جنگ میں جل رہے ہیں پھر جن لوگوں سے اور جس عنوان کی بنیاد پر یہ جنگ لڑ رہا ہے اس میں یہ سوالات بھی اٹھارہا ہے۔ تاکہ جو لڑائی ہورہی ہے دوسرا فریق دفاعی پوزیشن پر رہے جنگ بھی جاری رہے۔ جنگ ہوگی تو خطے میں وہ موجود رہے گا۔ امن آئے گا تو وہ موجود نہیں رہے گا۔ جمعیت علماء اسلام تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم نے واضح طور پر تین دستاویزات پارلیمنٹ میں پیش کئے ۔ ایک دستاویز کہ جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء ، تنظیمات اور شخصیات نے لاہور میں بیٹھ کر متفقہ اعلامیہ جاری کیا کہ ماضی میں ہمارے اکابر نے جن جن چیزوں، اصولوں اور معاملات پر اتفاق کیا تھا ہم ان متفقات کو دوبارہ موضوع بحث نہیں بنانا چاہیں گے، اسکا انکار کرتے ہیں۔ اس کے بعد جمعیت علماء اسلام نے پشاور میں25ہزار علماء کا اجتماع کیا اور جس میں تمام اکابر حتیٰ کہ فضلاء دیوبند شریک تھے جو اکابر علماء تھے ۔ بلوچستان میں ہم نے10ہزار علماء کا اجتماع کیا اور ان تمام علماء کرام نے ان تمام واقعات سے برأت کا اعلان کردیا۔ اور پھر اس کے بعد یہ کہا گیا کہ یہ دیوبندی اسلام اور دیوبندی مسلک میں شدت پسند ہیں اور ساری تنظیمیں یہ اور وہ۔ تو پھر لاہور میں150دیوبندی علماء کرام کراچی سے لیکر گلگت اور چترال تک اکھٹے ہوئے اور مجتمع طور پر کہا کہ پاکستان میں ازروئے شرع مسلح جنگ کی اجازت نہیں۔ یہ ساری چیزیں دستاویزات کیساتھ ہیں جو ہم نے پارلیمنٹ میں پیش کی ہیں لیکن آپ مذہبی دنیاکا مؤقف پروجیکٹ نہیں کررہے اور جیکٹ ،خود کش اوران10علماء کو داڑھی پگڑی کیساتھ جواسلحہ اٹھائے ہیں پروجیکٹ کررہے ہیں۔ چھوٹے طبقے کی پروجیکشن آپ کی نیت کی نشاندہی کرتی ہے کہ درحقیقت اس جنگ میں مذہب کو ایک ڈیفینسیو پر رکھنا چاہتے ہیں اور امت مسلمہ کو دنیا جو ہے وہ ڈیفینسیو پر رکھنا چاہتی ہے۔ لہٰذا اس جنگ کے جو بنیادی اور اصلی عوامل ہیں اکیڈمک لی اس پر تھوڑا سا غور کرنا ہوگا ورنہ یہ تو صبح و شام کی ہماری بحثیں ہیں تھڑوں پر بیٹھ کر ہم باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اصل عوامل کی بنیاد کبھی نہ مسلمانوں نے رکھی ہے نہ ان نوجوانوں نے رکھی ہے۔ آئین73ء میں بنا ہے جنگ1979میں چھیڑی۔ آج آپ تحفظ پاکستان آرڈینینس کے نام سے یہ لارہے ہیں کہ1979کے قانون کو تبدیل کرنا ہے اور آپ اس میں یہ لکھ رہے ہیں کہ اس وقت جو پالیسیاں اختیار کی گئی تھیں اس نے جنگ میں ڈالا، ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ الفاظ ہیں انکے اندر۔ یہ پالیسیاں کس نے بنائیں؟۔ ہم نے دنیا کے کس ایجنڈے پر کام کیا؟۔ ہم نے کن کن کی خدمات سر انجام دیں؟۔ قومی سطح پر کتنی بڑی بڑی غلطیاں ہم سے ہوئیں؟۔ ہم اس پر جاہی نہیں رہے۔ آج روز مرہ کے معاملات پر سوالات معروضی اور روز مرہ کے معاملات پر ہم بحث کررہے ہیں۔
امتیاز عالم: مولانا بہت شکریہ اس بات کا۔ میں تعریف کرتا ہوں جو آپ نے کہا کہ یہاں کے علماء کرام اکھٹے ہوئے، انہوں نے تشدد کو رد کیا اور پاکستان کے اندر جہاد کو رد کیا یہ قابل احترام ہے ہم اس پر مکمل حمایت کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن: میں ایک نکتے کو واضح کردوں۔ لفظ جہاد کو رد کیا ہے یہ غلط بات ہے۔ میری جدوجہد بھی جہاد ہے۔ جہاد کے معنی ہیں کوشش۔ اور آپ جب کوشش کرتے ہیں ایک میدان میں نکل کر اور آپ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور آپ اعلائے کلمة اللہ کیلئے کرتے ہیں کیونکہ اعلائے کلمة اللہ کے بغیر کوئی جنگ جہاد نہیں ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے ہم غیر مسلح جدوجہد کو بھی جہاد کے زمرے میں لاتے ہیں۔ اور مسلح جنگ کی ہم ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ آج دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ گلوبل ولیج میں ہم دنیا سے کٹ کر سیاست نہیں کرسکتے۔ ہمیں دنیا کے معاملات کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا ہوگا۔
امتیاز عالم: یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ تشدد کو رد کررہے ہیں، اور جہاد کی جو دوسری اکبر شکلیں ہیں ان کی حمایت کررہے ہیں کیونکہ بندوق والا جہاد صغیر کہلاتا ہے۔ وہ پانچ ارکانِ اسلام میں تو نہیں، آپ نے چھٹا نہ بنادیا ہو۔تو گزارش ہے کہ آپ جو کہہ رہے ہیں کہ ایک آدمی آتا ہے مارکیٹ میں اور اللہ کا نعرہ لگاتا ہے ، نعرہ تکبیر لگاتا ہے اور جیکٹ پھاڑتا ہے ، پچاس سو بندے عورتیں بچے مرجاتے ہیں جیسا کہ خیبر بازار میں ہوا۔ اس کو آپ کیا قرار دیتے ہیں، ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟۔ کیا اس کو آپ اسلامی ایکٹ قرار دیں گے؟۔
مولانا فضل الرحمن: اس کی بحث آپ مجھ سے نہ کریں کیونکہ میں نے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔ آپ طالبان کو پیغام دے دیں کہ امتیاز عالم مناظرے کیلئے تیار ہے تو وہ آپ کو جواب دے دیں گے۔ (وہ مناظرے والا کام اہل سنت و الجماعت والے کررہے ہیں: امتیاز عالم)
امتیاز عالم: آپ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ہاتھ میں جو ٹول بنا….. ہم آپ کے علماء کرام کے استاد تھے کیونکہ آپ لوگ کمیونسٹ کے شاگرد تھے برصغیر میں جب آپ لوگ بغاوت کرکے گئے تھے یاد ہے آپ کو۔ کالے پانی میں بھی گئے تھے اور ماسکو بھی گئے تھے۔ اس میں ہمیں آپ سے اتفاق ہے کہ پاکستان کو امریکہ کا انسٹرومنٹ نہیں بننا چاہیے تھا اور کولڈ وار میں اس کیمپ میں نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ میں نہیں الجھنا چاہیے تھا اور یہ بات کہ روشن خیالی امریکہ سے نتھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایسی بات ہے کہ ہم آپ کے بارے میں یا کسی اور کے بارے میں ایسی بات کہیں۔
____ تبصرۂ ایڈیٹرنوشتہ دیوارمحمد اجمل ملک____
سیاسی، معاشی اور دفاعی لحاظ سے غلام اورہمارا اسلام سے ناطہ کمزور ہے۔ مسلم ممالک اور مجاہدین کو ٹیشوپیپر کی طرح پھینکاگیا۔ پاکستان رویا کہ مجبوری میں امریکہ کو چھوڑ کر روس، چین، ایران کے بلاک میں جارہے ہیں جبکہ ہمیں بہت خوشی کیساتھ اپنے پڑوسی ممالک افغانستان، چین، ایران اور بھارت کے ساتھ خوشگوار معاشی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ نجم سیٹھی نے بتادیا کہ افغان طالبان امریکہ کی بات نہیں مان رہے ہیں کہ چین کیلئے مشکلات کھڑی کریںتو امریکہ کی پہلی ترجیح پاکستان کو اس مقصدکیلئے استعمال کرنا ہوگا۔
اگر ہم نے امت مسلمہ کا رحجان علماء ومفتیان کے فرقوں کی طرف نہیں بلکہ اسلام کی طرف موڑ دیا تو سعودی عرب ، ایران ، افغانستان اور پاکستان کے اندر ایسی فضاء قائم ہوجائے گی کہ مغرب سمیت دنیا بھر کی خواتین اپنے لئے اسلامی حقوق کا مطالبہ شروع کردیں گی۔ نبی ۖ کافتح مکہ اور خطبۂ حجة الوداع وہ عالمی منشور ہے جس کی وجہ سے ہماری آپس کی دشمنیاں بھی ختم ہوسکتی ہیں اور عالمی سطح پر بھی ہم دنیا میں اسلام کے ذریعے انسانیت کی فتح کا بھرپورجشن مناسکتے ہیں۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ