پوسٹ تلاش کریں

حور وں کا مذہبی جنون اور خواتین کا احساس کمتری

حور وں کا مذہبی جنون اور خواتین کا احساس کمتری اخبار: نوشتہ دیوار

angels-heaven-women-hoor-molana-masood-azhar-javed-ahmed-ghamdi-molana-khalid-mehmood
دنیا میں خواتین کی اکثریت شوہرکی محبت میں بے حال رہتی ہے مگر سوکن کاخوف رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ سے نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات امہات المؤمنینؓ تک سوکن سے خواتین متأثر رہی ہیں۔
یہ دنیا دارالامتحان اور آخرت کی کھیتی ہے۔ اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے، مرکے بھی چھین نہ پایا تو کدھر جائیں گے؟۔ حوروں سے خواتین کو کتنی تکلیف ہے؟ یہ تو وہ جانیں اور انکا کام جانے۔ کتنے صوفی حوروں کی تمنا میں راہب بن گئے، تبلیغی جماعت، دعوت اسلامی اور مذہبی لوگ قربانی پر قربانی دے رہے ہیں،جنت کی دیگر ساری نعمتیں بھی شاندار ہیں لیکن موٹی آنکھوں والی حوروں نے انہیں جنون کی حد تک پہنچادیا۔ نوجوان خوبرو جوان بیگمات کو پیشاب کی تھیلیاں قرار دیتے دیتے سال سال، ڈیڑھ ڈیڑھ سال کیلئے جماعتوں میں حوروں کی ادا پانے کی قیمت پر نکل جاتے ہیں۔ کوئی ذوق میں جسم پر بارود باندھ کر سمجھ رہاہے کہ نمرود کی آگ عبور کرکے جب دوسری پار پہنچیں گے تو حوروں کا بے تاب جھرمٹ استقبال کررہا ہوگا۔
اللہ نے فرمایاکہ ’’جو اس دنیامیں اندھا تھا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا‘‘۔ حوروں کی اندھی محبت میں حقوق العباد کی دھجیاں اُڑانے والے نہیں سوچتے کہ دنیا میں اپنی بیگمات کے حق کا خیال نہیں رکھا تو ایسا نہ ہو کہ آخرت کی فضاء میں بھاگ رہے ہوں تونامراد مردوں کو اپنی بیگمات بھی چھوڑ دیں ۔ فرعون کی دنیاوی بیگم کا نکاح آخرت میں رسول اللہﷺ سے ہوگا۔ یہ نہ ہوکہ جو حوروں کے متلاشی ہوں ان کو حوروں کا ملنا تو کجا اپنی بیگمات سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائیں۔ جن خواتین میں فطری غیرت ہو اور نیک وبد کی درمیانی زندگی گزاری ہوں تو ان کا مقام بھی وہاں پر اعراف ہوسکتاہے۔
حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اپنی ہم جنس حضرت حواء کے بغیر حوروں کی جھرمٹ میں بھی پریشان تھے۔ جنس کے معانی ہم نسل کے بھی ہیں، منطق میں انسان بھی حیوان کی جنس ہے، اردو زباں میں خواتین ومرد کیلئے الگ الگ جنس کا تصورہے مگر حقیقت کی زباں میں انسان ایک جنس ہے جس میں مردو خاتون شامل ہیں۔ جاوید غامدی نے اپنی صلاحیت کو استعمال کرکے قرار دیا کہ حور کا الگ سے وجود نہیں بلکہ دنیا میں موجود خواتین کو قرآن میں حور کہا گیا۔ حالانکہ یہ غلط ہے کیونکہ حوروں کی صفات بیان کی گئیں ، یہ بھی ہے کہ کسی آنکھ نے ان کو دیکھا تک نہیں ہوگا تو جاوید غامدی کی مجلس میں ٹی وی اسکرین پر نمودار ہونے والی خواتین کیسے وہ حوریں ہوسکتی ہیں؟۔بڑی آنکھوں والی خیموں کی زینت ہوں گی۔
اسلام دین فطرت ہے، اگر خواتین کو یقین ہوجائے تو زنجیروں سے باندھ کر کرینوں کی مدد سے بھی ان کو جنت میں ڈالنا مشکل ہوگا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتی ہیں مگر اپنی ایسی سوکنیں برداشت کرنا انکے بس کا کام نہیں ۔ مفتی نظام الدین شامزئی کے مرید مولانا خالد محمود مجلس علمی لائبریری جمشید روڈ کے منتظم تھے۔ نماز کی امامت کیلئے کوشش کے باوجود آگے نہیں ہوتے تھے۔ ایک دن مجھے کہا کہ میں اللہ کی ذات اور اسلام کا منکر بنا ہوں، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک سائنس کی کتاب پڑھی ہے جس میں جہاد کی جگہ اب روبوٹ نے لی اور قرآن میں ہے کہ سورج کا سفر جاری ہے جبکہ سائنس نے ثابت کیا کہ زمین ہی اپنے گرد اور سورج کے گرد گھومتی ہے اور معاملات سارے الٹے ہوگئے۔ جس نے سائنس اور اسلام کے حوالہ سے’’ پاکستان اور جدید دور کے تقاضے ‘‘ لکھے ، وہ ایم اے تھا جو سائنس اور اسلام دونوں سے بالکل جاہل تھا۔
بہرحال میں نے مولانا خالد محمود سے کہہ دیا کہ اگر آخرت نہیں، آپ محض ایک مادہ ہو پھر آپکے قتل سے بھی کوئی فرق نہ پڑیگا؟، اس نے کہا کہ میری تو یہی دنیا ہے، اگر یہ بھی خراب ہوگئی تو میرے ساتھ ظلم ہوگا۔خواتین حوروں کی باتیں سنتی ہیں تو اکثریت سمجھ رہی ہے کہ ان کی یہی دنیا ہے، جنت میں کیا بنے گا؟۔ مولانا خالد محمود کو میں نے فوری طور سے بتادیا کہ آپ نے جس کتاب کا مطالعہ کیا اس کا علم سے تعلق نہیں ۔ قرآن میں سورج کے جس سفر کا ذکر ہے ، سائنس اس کی قائل ہے،اسلئے کہ کائنات تسلسل کیساتھ سفر میں ہے تو سورج بھی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پھروہ مطمئن ہوگئے اور کہا کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں اور آپ قیامت میں گواہی دینا کہ میں اسلام پر ایمان رکھتا تھا۔ میں نے کہا: آپ نماز نہ بھی پڑھیں تو بھی آپکے اسلام کی گواہی دوں گا۔ نبیﷺ نے اس کا جنازہ پڑھانے سے انکار فرمایا جسکے ذمہ قرضہ تھا۔ اور جس پر حقوق العباد کا معاملہ نہ تھا لیکن نماز، روزہ، حج اور دیگر احکام کا کوئی عمل کسی نے نہ دیکھا تھا اور ایک آدمی نے گواہی دی کہ وہ مسلمان تھا اور ایک رات اس نے جہاد کے دوران بھی چوکیداری کی ہے تو نبیﷺ نے نہ صرف اسکا جنازہ پڑھایا بلکہ جنت کی خوشخبری بھی سنادی کیونکہ حقوق العباد کی شکایت نہ تھی ۔
میری بات سن کر مولانا خالد محمود زار وقطار رونے لگے اور کہا کہ رسول اللہﷺ کتنی عظیم شخصیت کے مالک تھے، ایک موقع پر اونٹ کی رسی اٹک گئی اور اونٹ مشکل سے نظر آیا تو کچھ نے مذاق اڑایا کہ ’’ نبیﷺ کوکس طرح سات آسمانوں سے عرش کی خبر ملتی ہے اور یہاں قریب میں اونٹ کا پتہ نہیں چلتا‘‘۔ اس وقت آپﷺ چاہتے تو ان لوگوں سے سخت انتقام لیتے کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہؓ ہر بات مان لیتے تھے مگر نبیﷺ نے درگزر سے کام لیا۔ کہاں نبیﷺ کی عظیم شخصیت ،کہاں انبیاء کے وارث کہلانے والوں کا اخلاق اور بدترین رویہ؟۔ یہ علماء ومفتیان آخرت کا یقین نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا بنانے کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھاہے، کہیں اور مفاد مل جائے تو اسکے پیچھے جائیں گے۔ مولانا خالد محمود نے جن اشکبار آنکھوں سے رسول اللہﷺ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ، اس نے علماء حق کے ارواح کو بے چین کردیا اور ان کا بلاوا آگیاتھا اور شہادت حق کی منزل پر فائز ہوگئے تھے۔
مسلمان خواتین مطمئن رہیں کہ حوروں سے ان کو قطعی طور سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیونکہ جنسی تعلق آدم زاد کا صرف آدم زاد سے قائم ہوسکتاہے۔ فقہ حنفی کے اصول کی کتاب ’’نورالانوار‘‘ میں لکھاہے کہ انسان کا ہم جنس کے علاوہ کسی سے نکاح جائز نہیں ۔ جنات اور سمندری انسانوں سے نکاح کرنا شریعت میں جائز نہیں۔ جنات سمندری مخلوق کے مقابلہ میں الگ ہیں، اصول فقہ میں سمندری انسان بحری مخلوق ہے لیکن عام انسان کی طرح ہے ۔
جب ہمیں مولانا بدیع الزمانؒ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں اصول فقہ پڑھارہے تھے تو بتایا کہ ایک شخص سمندر کے کنارے کھڑا دیکھ رہا تھا کہ اچانک سمندری آدمی نمودار ہوا، جس کو اس نے پکڑلیا۔ ابھی پکڑ رکھا تھا کہ سمندر سے ایک عورت بھی باہر نمودار ہوگئی۔ اس کو بھی پکڑ نا چاہا کہ مرد بھی ہاتھ سے چھوٹ گیا ، اور وہ عورت بھی پکڑنے سے پہلے سمندر میں کود گئی اور غائب ہوگئی۔ اس وقت ہمیں یقین آیا اور تمنا بھی پیدا ہوئی کہ یہ منظر نظر آجائے۔
تحقیقاتی اداروں نے سمندر کی کھوج لگائی مگر سمندری انسان کا وجود نہیں جو فقہاء کی خواہشات نے تراش رکھاتھا آج مدارس میں پڑھایا جاتاہے کہ سمندری انسان سے شادی جائز نہیں اسلئے اس کی جنس دوسری ہے۔
جانور، پرندے اور درخت کی فیملی اور جنس میں قدر مشترک ہو تو تعلق قائم ہوسکتا۔حوروں کا کام رونق ، جلوہ ،انسیت اور کھیل تماشہ ہے حوریں آدم زاد نہیں،ان سے جنسی تعلق قائم کرنا شریعت کیخلاف نہ ہو تو انسانی فطرت کیخلاف ضرور ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ مرد جب حوروں سے جنسی تسکین حاصل کرینگے تو کیا خواتین غلمان سے چشم پوشی کرسکیں گی؟۔ اسلئے غیرت کا تقاضہ ہے جو اللہ نے خواتین کی فطرت میں بھی ڈالا ہے کہ حوروں اور غلمان سے جنسی تسکین کا گمان نہ رکھاجائے بعض بے غیرت و بدفطرت قسم کے ملاؤں کو غلمان سے غیرفطری حرکتوں کی خواہش بھی رہتی ہے۔ جسکاپشتو کے نامور شاعر غنی خان نے ذکر کیا۔ جب جنت کے درست تصورات کا علم ہوجائیگا تو بعید نہیں کہ دنیا میں حالات سدھارنے کیلئے مذہبی طبقات ٹھیک سمت سفر کرنا شروع کریں اور بہت بڑا اسلامی انقلاب برپا ہوجائے۔
مولانا امیر بجلی گھر جمعیت علماء اسلام کے صوبائی نائب امیر تھے مگر مایوس ہوگئے تھے۔ مجھ سے کہاکہ ’’ آپ جوان ہیں ، جوانی میں خون کا جوش کام کرنے کا ہوتاہے، آپ اچھی سمت محنت کرتے ہیں مگر دوسروں کا اتحاد تو بہت دور کی بات ہے، مولانا سمیع الحق و مولانا فضل الرحمن کو بھی اکٹھا نہ کرسکوگے‘‘۔ انہوں نے خطاب میں کہا کہ ’’ افغانستان میں صحابہؓ کے مزاروں کو روس نے تباہ کیا تواللہ نے روس کو تباہ کردیا، عراق میں اہلبیت کے مزارات امریکہ تباہ کررہاہے، اللہ امریکہ کو تباہ کریگا، عراق کی پیٹھ پرعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ لڑ رہے ہیں، امریکہ نہیں جیت سکتا‘‘۔ میں نے لکھ دیا کہ بجلی گھر مولانا دیوبندی ہیں مگر عقیدہ بریلویوں کاہے۔ بریلویوں کا عقیدہ درست ہورہاہے اور بڑے مولانا کا عقیدہ خراب ہے اور جہاد کا حکم اللہ نے زندوں کو دیا ہے ، مولانا اس کو مردوں کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں، جب تک ہم درست اسلام کی طرف نہ آئیں ہمارے ملکوں کو غیروں کی دسترس سے بچا نہیں سکیں گے۔درسِ نظامی میں فقہ حنفی والوں کے اصول اچھے ہیں مگر کم عقلوں کا قبضہ ہے۔ کعبہ میں 360بتوں کے مجسمے رکھ دئیے ہیں۔ جس دن اصول فقہ کے اصولوں اور قرآن وسنت کے مطابق ایک فضا قائم کی گئی تو مدارس کے علماء ومفتیان ملت کی سیاسی باگ ڈور بھی سنبھالیں گے مگر ضروری ہے کہ نصاب سے اقسام و انواع کی غلطیاں نکال لیں۔ علماء کے بدلنے کی دیر ہے ، پھر انقلاب کا ترانہ گایا جائیگا۔ اگر میں شیعہ، بریلوی ، اہلحدیث ہوتا تو پذیرائی ملتی مگر علماء دیوبند کا میرے ساتھ سلوک وہ رہاجو یزید کاحضرت حسینؓ کیساتھ تھا۔ ہندو شاعرہ دیوی روپ کمار نے کہا کہ
بے دین ہوں ، بے پیر ہوں
ہندو ہوں ، قاتلِ شبیرؑ نہیں
حسینؑ اگر بھارت میں اُتارا جاتا
یوں چاند محمدؐ کا ، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے ، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؑ کا علم ہوتا
ہم پوچا کرتے اُس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

آج قرآن اورحدیث کی تطبیق سے تمام مکاتبِ فکرکے علماء کرام بفضل تعالیٰ متفق ہوسکتے ہیں!
رسول ۖ کی عظمت کا بڑ اعتراف
جامعہ بنوری ٹاؤن کے بانی کا بہت مثالی تقویٰ