پوسٹ تلاش کریں

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ اخبار: نوشتہ دیوار

عورت آزادی مارچ کو اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ

کیا ڈی چوک کی سڑک پر جوسیاست ہوتی ہے اس پرصرف مین پولیٹیکل پارٹیز، مولوی اور مردوں کا حق ہے؟۔

یہ جانیںکہ عورت ماچز کو جواس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑرہاہے تو اس کامطلب ہے کہ کچھ اچھاکررہی ہیں!

سلام ساتھیو ! ایک اور سال2024گزرا ہے اس سال کا عورت مارچ بھی اسلام آباد میں ہو چکا۔ تو اسکے اوپر خاص طور پر ریاستی اداروں نے جس طریقے سے عورت مارچ کے ساتھ سلوک کیا اس پہ روشنی ڈالنے کیلئے یہ ویلاگ بنا رہی ہوں۔ ہم نے8مارچ کو اسلام آباد میں ریاستی جبر کا ایک اور چہرہ دیکھا8مارچ کے دن2024جبکہ کوئی کیئر ٹیکر گورنمنٹ نہیں ہے اب ایک آپ کی سو کالڈ الیکٹڈ گورنمنٹ پاور میں ہے یہ وہ گورنمنٹ ہے جو دعوی کرتی ہے کہ بہت پرو وومن گورنمنٹ ہے جسکا پرائم منسٹر شہباز شریف ہے ،جس نے پنجاب کے اندر پہلی بار ایک خاتون وزیراعلی مریم نواز کو منتخب کیا۔ صدر آصف علی زرداری ہیں ۔اس گورنمنٹ میںخواتین کو پریس کلب سے ڈی چوک جانے تک کی اجازت نہیں دی گئی اور وہ اجازت کیوں نہیں دی گئی اسکے پیچھے کی جو وجوہات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھنے چلی ہوں تاکہ یہ ویڈیو لاک ہو جائے اور ڈاکیومنٹ ہو جائے کہ خواتین کی تحریک نے عمران خان گورنمنٹ میں جس طرح کے مسائل کا سامنا کیا وہی کے وہی مسائل ہمارے آج بھی ہیںPMLNکی گورنمنٹ کے اندر ۔عورت مارچ ایک فیمینسٹ تحریک ہے اس نے ینگ خواتین فیمینسٹ اور پرانی فیمینسٹ کے ا سٹرگل کو آگے بڑھاتے ہوئے پچھلے5سال میں ملکی سطح پربڑے بڑے احتجاج اور مارچز کیے۔ ان میں ہر طرح کا مسئلہ ڈسکس ہوا، جو ڈیمانڈز پیش کی گئی ان ڈیمانڈز نے اکنامک جسٹس سے پیریڈ پاورٹی تک جبری گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ سے خواتین کا سیاست میں شرکت کا حق،تعلیم صحت اور جو جنسی تشدد ہے ان کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش کی۔ ہم اس موومنٹ کو اسلئے سپورٹ کرتے ہیں کہ یہ وہ واحد موومنٹ ہے جس نے تمام مسائل جو پاکستان کی عوام، خواتین، محنت کش طبقہ، مزدور کسان کے تمام مسائل کو حل کر کے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جوبرابری پر مبنی ہو، جسمیں استحصال اور کسی بھی قسم کا جبر نہ ہو۔ عورت مارچ کی موومنٹ نے ان تمام ایشوز کو مین سٹریم پبلک ڈسکورس کا حصہ بنایا۔ تمام پرابلمز کو ہائی لائٹ کیا، نیشنل لیول پہ جن کو پہلے عوامی سطح پر ڈسکس نہیں کیا جاتا تھا۔یہ موومنٹ پچھلے5سال سے کئی قسم کے مسائل کا شکار ہوئی۔ ایک سال توہین رسالت کے کیسز کیے گئے۔ ایک سال پتھر برسائے مولویوں نے۔ ایک سال لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا اور اس سال بھی ریاست اپنی پوری مشینری کو موبلائز کر کے لا ئی تاکہ اسلام آباد پریس کلب میں مارچ کرنے نہ دیا جائے۔ خواتین پولیس کی بھاری نفری کھڑی کر دی گئی اور انکے پیچھے کھڑے کر دیے گئے مرد جو پولیس افسر تھے ۔5سالوں میں اور اس سال بھی بالکل اسی وقت اسی شہر میں ڈی چوک پر مولویوں نے بہت کامیاب جلسے کیے۔ اسلام آباد پولیس اور ایڈمنسٹریشن کی سرپرستی میں اینٹی عورت مارچ ، اینٹی ویمن پروپیگنڈہ کو فروغ دیا۔5سالوں میں خواتین جو مارچز میں حصہ لیتی تھی انکے پر وائلنٹ ڈیتھ تھریٹس دیے گئے سٹیج سے۔ مولوی اور انکی سپورٹر خواتین وہاں پہ آئی تھیں حیاء مارچز میں ہم نے ان کو مائیک پہ یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان عورتوں کیساتھ وہ سلوک ہوجو نور مقدم جیسی کئی اور خواتین کیساتھ ہوا ہے۔ مولویوں نے حیا ء مارچ کا جو سین کرییٹ کیا اسکو ریاست کی بھرپور سپورٹ ملی تھی تو ہمیں یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے زیادہ رگڈ الیکشنزمیں بھی مولویوں کی مذہبی بنیاد پرست سیاسی جماعتیں عوام کی سپورٹ لینے سے تو بہت بری طرح ناکام ہوئی ہیں انہیں ایک سیٹ تک بڑی مشکل سے ملتی ہے جب عوام مولوی اور مذہبی فنڈامینٹلسٹ گروپس کو رد کرتی جا رہی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کی سرپرستی نہیں چھوڑ رہی؟۔ کیا وجہ ہے کہ ریاست مولوی کے ان تمام عورت دشمن پروپیگنڈہ یا عورت دشمن نیریٹو کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی ہے؟۔ اسلام آباد اور دوسرے صوبوں میں بھی ہم نے نوٹس کیا کہ ہر سال8مارچ کو مولوی موبیلائز ہوتا ہے مولوی اپنی خواتین بھی لیکر آتے ہیں وہ برقعہ میں آتی ہیں وہ ڈنڈے لیکر آتی ہیں وہ یہ کہہ کے آتی ہیں کہ ہم آج ان عورتوں کو سیدھا کریں گی انکو ڈنڈے ماریں گی ۔ اسلام آباد پولیس ،انتظامیہ اور جو پورے سسٹم کا حصہ ہیں وہ تمام لوگ جو انہی ورکنگ کلاس عورتوں کی سیلریوں کے کٹے ہوئے ٹیکسز سے سیلری اٹھاتے ہیں وہی انہی عورتوں پہ8مارچ کے دن تشدد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریاست آخر ان مولویوں کی سرپرستی کیوں نہیں چھوڑ رہی؟ ہمیں جواب سمجھ میں آجاتا ہے کہ ایسی ریاست جس میں ایک عورت کو معافی منگوائی جائے کہ اس نے اپنی قمیض پہ حلوہ لکھا ہوا پہنا تھا جس پہ4،5یا چلیں5یا50جاہل مولوی ایک مسلمان عورت کو اس طرح ہراساں کر سکتے ہیں اس کو قتل کی دھمکیاں دے سکتے ہیں اسے مارنے پہ تل سکتے ہیں اس معاشرے میں اور پھر اسی معاشرے میں جہاں خیبر پختونخواہ کی اسمبلی جہاں پختون رہتے ہیں وہ پختون جو عورتوں کی عزت کرتے ہیں اور عورتوں کو اپنی عزت سمجھتے ہیں اسیKPKکی اسمبلی کی خاتون منتخب نمائندے کی ایک رات کی قیمت پوچھی جا رہی ہے اور اس کی بولی لگائی جا رہی تھی۔ کوئی ایکشن اس آدمی یا ان مردوں کے خلاف نہیں لیا گیا۔ ایسی ریاست جسکے اندر سورٹ اور سسی لوہار کے باپ کو دن دیہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے وہ خواتین دونوں بہنیں سڑک پہ کتنے دن احتجاج کرتی ہیں کہ ہمیں جواب دیا جائے کہ کیوں ہمارے والد کو قتل کیا گیا کیونکہ وہ پروگریسو سیاست اور حقوق کی بات کرتے تھے وہ مزدور، محنت کش طبقے کی بات کرتے تھے اسے دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا اور اسے کوئی انصاف نہیں ملا۔ وہ ریاست جسکے اندر بلوچ کئی کئی نسلیں ان کے کئی مرد کب سے گمشدہ ہیں ان کی عورتیں یہ تک نہیں جانتیںکہ ان کا شادی شدہ اسٹیٹس کیا ہے ؟،کیا وہ بیوائیں ہیں ؟،کیا وہ اپنے شوہروں کا اب بھی انتظار کریں؟ وہ کئی لڑکیاں جن کی منگنیاں ہوئی تھیں وہ آج تک ان آدمیوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں کہ وہ کب آئیں گے؟۔ تاکہ وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھا سکیں۔ وہ ریاست جس میں عورتوں کی زندگی رک چکی ہے جس میں ہر دن ہر طرح کا تشدد عورت پر ہوتا ہے کبھی قتل کبھی اغواء ہوتی، کبھی چہرے پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے کبھی تشدد کیا جاتا ہے۔ ایسی ریاست میں ہم نے کبھی مولوی کو کوئی مارچ نکالتے ہوئے نہیں دیکھا ہم نے کبھی کسی مولوی کو اتنے برے طریقے سے جو خواتین کو ٹریٹ کیا جاتا ہے پورا سال ہم نے ان کو کبھی سڑکوں پر نہیں دیکھا کہ وہ باہر نکلیں وہ آکے اپنی آواز اٹھائیں وہ اسلام کی وہی تعلیمات آ کر لوگوں کو بتائیں کہ جن میں کہا گیا ہے کہ آپ خواتین پہ ہاتھ نہ اٹھائیں ،خواتین اور بچوں کیساتھ اچھا سلوک رکھیں۔ وہ ریاست جسکے مدرسوں میں معصوم بچوں سے زیادتیاں ہوں۔ گھروں میں کام کرنے والی غریب خواتین کیساتھ زیادتی ہو ان کا استحصال ہو۔ ہم نے کبھی کسی مولوی کو کسی ریاستی ادارے کو اس طرح کے گھناؤنے جرائم کی مخالفت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم نے کوئی ایسے اقدامات نہیں دیکھے کہ جو اٹھائے گئے ہوں ان عورتوں کی بقائ، انکے وقار اوران عورتوں کی زندگی کے حق کیلئے۔ ہم نے دیکھا ہے کچھ بھی ایسا نہیں۔ اس سال ریاست نے بڑا اور گھناؤنا کھیل کھیلا۔8مارچ کو اگر آپ کسی کو فون کریں گے تو آپ کو ایک ریکارڈڈ میسج سنائی دے گااور وہ یہ ہے کہ ”یہ خواتین کا عالمی دن ہے اس خواتین کے عالمی دن پہ آئیں خواتین کو ڈیجیٹل تعلیم دیں۔ یہ تعلیم دیں کہ ان کواس معیشت کا اچھا حصہ بنائیں”۔جس سے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ریاست تبھی عورت کے بارے میں سوچتی ہے کہ جب انہیں عورت کی محنت جو گھر میں کر رہی ہے اس کا تو کوئی اجر نہیں ملتا مگر وہی محنت جب پبلک میں آکر کریں اکانومی کو آ کر بوسٹ کرے یہ تمام ،تو مطلب عورت کا استعمال جو معاشرے میں رہ چکا ہے اور پاکستانی ریاست میں رہ چکا ہے وہ صرف یہ ہے کہ آپ بچے پیدا کریں آپ گھر کا چولہا چلائیں آپ کھانے پکائیں آپ انکے کپڑے دھوئیں، کھانے پکا کے دیں۔ یہ بیمار ہوں ان کی تیمارداری کریں ۔آپ بس یہی کر سکتی ہیں آپ سیاست میں آئیں گی، بولی لگائی جائے گی اسمبلی فلور پہ۔ آپ اپنے من پسند کپڑے پہن کے سڑکوں پہ نکلیں گی تو آپ کا سر تن سے جدا کیا جائیگا۔ آپ اپنے رائٹ ٹو پروٹیسٹ کو استعمال کرنے کیلئے8مارچ کو سڑک پر نکلیں گی آپ کا راستہ روکا جائے گا ۔ہاں اگر یہی خواتین پی ٹی ائی یاPMLNیا اگر پیپلز پارٹی کے جلسے کیلئے نکلتیں تو ان کو کسی قسم کی دشواری فیس نہیں کرنی پڑتی۔ اگر عبائے پہن کر سڑکوں پر لاٹھیاں لے کے نکلیں تو بھی ان کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن یہی خواتین اگر پیس فل پروٹیسٹ کریں اپنے پلے کارڈز اٹھا کر سڑک پہ نکلیں ایک سیاسی پلیٹ فارم جسے پریس کلب ٹو ڈی چوک ہم ایک سیاسی پلیٹ فارم سمجھتے ہیں اس کو ایکسس کرنے نکلیں گی تو ریاست کی پوری مشینری وہاں پہنچ جائے گی ان عورتوں کو ٹارچر کرے گی ان کو ایموشنلی اب یوز کرے گی ان کو ٹراما دے گی راستے روکے جائیں گے ،خاردار تاریں بچھائی جائیں گی ۔ عورت مارچ اسلام آباد کیساتھ یہ پچھلے5سال سے ہو رہا ہے اور اس سال بھی ریاست نے اپنا گھناؤنا پدر شاہانہ عورت دشمن چہرہ تھا جو اس کی پالیسی تھی وہ سامنے رکھی ۔ اس سال لگتا ہے کہ ہمیں ڈی چوک اسلئے نہیں جانے دیا گیا کیونکہ عورت مارچ کے پوسٹر پر ایک بلوچ عورت تھی جس نے اپنے گلے میں فلسطین کا کفایہ پہنا ہوا تھا یہ اس سال اسلئے کیا گیا کہ ویسے تو میڈیا بلوچوں کی مزاحمت کو بلیک آؤٹ کر سکتی ہے پشتونوں، سندھیوں کی جو تحریک کا مین سٹریم میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے گلگت بلتستان میں جو تحریکیں چل رہی ہیں اسکا میڈیا نے بلیک آؤٹ کیا ہے لیکن عورت مارچ کیونکہ متنازعہ ہے اس پہ ریٹنگ ملتی ہے کیونکہ اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ، ان کی آواز اور انکا جو سیاسی حق ہے اس سے روکا جائے کیونکہ کنٹروورشل ہے اس کو کور کرنا بہت ضروری ہے تو کیوں نہ ان کا راستہ ان کی آواز اور ان کا جو سیاسی حق ہے اسے روکا جائے کیونکہ یہ اب ان عورتوں کیساتھ جڑ رہی ہیں یا ان عورتوں کی آواز اٹھا رہی ہیں جس کا اس قوم کی ریاست نے بہت برے طریقے سے کئی عرصے سے استحصال کیا ہوا ہے۔ اس سال ریاست نے صرف عورت مارچ یا عورتوں سے دشمنی نہیں نکالی اس بار ریاست نے بلوچ دشمن اپروچز کو بلوچ دشمن پالیسی کا پورا کا پورا بھرپور نفاذ کیا اور انہوں نے عورت مارچ اسلام آباد کو احتجاج کرنے نہیں دیا، ڈی چوک جانے نہیں دیا۔NOCہر سال ان سے مانگی گئی ہر سال انکار کیا گیا۔ ہر سال یہ کہا گیا کہ آپ پارک میں چلے جائیں، اسلام آباد سپورٹس کلب چلے جائیں۔ تو ہم ان سے یہ سوال تو ضرور کریں گے کہF9پارک، سپورٹس کلب میں آپTLPکے دھرنے کیوں نہیں کرنے دیتے؟۔PTI،PMLN، پیپلز پارٹی کے جلسے کیوں نہیں کرواتےF9پارک میں؟، یہ ڈی چوک، جو پولیٹیکل سپیسز ہیں جو سڑک پہ سیاست ہوتی ہے کیا اس پر صرف مین سٹریم پولیٹیکل پارٹیز ؟، یا صرف مولوی کا حق ہے ؟۔کیا یہ سڑکوں میں صرف مردوں کا ٹیکس ہے؟۔ یہ سپیس صرف مردوں کے ہیں؟ کیا یہ ریاست صرف مردوں کی ہے؟۔ یا یہ ریاست صرف اسی عورت اور اسی گروپ اور اسی سیاسی پارٹی کو اسپیس دے گی اپنی سیاست کرنے اپنی مزاحمت کرنے کا جو کہ پاکستانیت کا جو ایک کانسپٹ ہے جو ایلینٹ کرتا ہے انسان کو اپنی مادری زبان، اپنے کلچرل اور نسلی شناخت سے کیا وہ اسپیس صرف پاکستانیت کو ماننے والوں کو دیا جائیگا کیا وہی فیمینسٹ جدوجہد ریکگنائز ہوگی یا وہیں پہ ہی فیمینزم کیش کیا جائیگا جہاں پر بلوچوں کا پشتونوں کا سندھیوں کا گلگت بلتستان کا خیبر پختون خواہ کا وسیب کا جو مسائل ہیں جہاں ڈسکس نہیں ہوں گے؟۔ کیا وہ فیمن ازم یا وہ فیمینسٹ سٹرگل جو کہ نسلی شناخت کو نہیں مانتا یا صرف اسی کو ایکسس دیا جائیگا یا اس طرح کا بیانیہ ہم پہ تھوپا جائیگا کہ جس پہ ہم سے یہ ڈیمانڈ کی جائے کہ اگر تم لوگوں نے سیاست کرنی ہے سڑک پہ آنا ہے تو عورتوں کے مسئلے اٹھاؤ تو کیا بلوچ مردوں کا غائب ہونا عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا سندھی بچیوں کے باپ کا دن دیہاڑے قتل عورتوں کا مسئلہ نہیں؟۔ کیا عورتوں کا مسئلہ صرف جنسی جبر ہے؟۔ کیا انکا ایتھنک کلینزنگ یا جو ایتھنک انکے مسائل ہیں کیا ایک عورت صرف عورت ہے کیا وہ سندھی عورت نہیں؟ کیا وہ بلوچ عورت نہیں؟ کیا وہ قوم و نسلی شناخت کو بھول کر سیاست کرے تبھی مانی جائے گی؟۔ تبھی سپیس ملے گا ؟۔یا وہ فیمینسٹ تنظیمیں یا خواتین تحریک جو دفاعی بجٹ کیخلاف بولیں جو جنگی اور امپیریلسٹ وارز میں پاکستان جہاں حصہ بنتا ہے اسکے بارے میں بات کریں یا وہ تحریکیں جو ریکگنائز کرتی ہیں کہ کس طرح اس ملک میں جمہوریت کے نام پر فوج اپنی بربریت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کبھی ایک پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے کبھی وہ دوسری پارٹی کے پیچھے چھپتی ہے اور ہماری سیاسی جماعتیں جن کو ووٹ دینے ہماری عوام سڑکوں پہ نکلتی ہے کیا وہ ووٹ ان کو دے رہی ہیں یا وہ ووٹ مولویوں کی سرپرستی کرنے والی اس فوج کو دے رہی ہے ؟۔ تو یہ تمام سوال ہیں کہ جنکے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ جو سب سے بڑی بات ہے وہ یہ کہ کئی عرصے سے جتنے بھی میڈیااور سوشل میڈیا پر جس طرح کے پروپیگنڈے کیے گئے ان خواتین نے بہت سہا ہے ، کریکٹر اسیسینیشن سہی ہیں، ڈیتھ اور ریپ تھریٹس رہے ہیں ان کی ایک ایک پکچر کو جس طرح سے ڈاکٹر کر کے انکے پلے کارڈز کو چلایا گیا، کوئی کاروائی ریاست نے انکے خلاف نہیں کی تو ہمارے لیے یہ بہت جاننا ضروری ہے کہ جن جن کو ہم ووٹ کرتے ہیں جن کو ہم ریاست میں لیکر آتے ہیں وہ ریاست وہ سیاستدان آخر خواتین کے بارے میںکیا سوچتے ہیں اور ہمارے لیے کون سا پولیٹیکل سپیس چھوڑا ہے؟۔ عورت مارچز پریشر گروپ کے طور پہ کام کرتی ہیں ہم8مارچ کو اسی لیے نکلتے ہیں اور ہم نکلیں گے یہ جو انکے حربے یا جو پلاننگ یا جو عورت دشمن نظریہ ہے ان کا حل صرف مزاحمت ہے یہ غریب کی بات کرے گی، جبری ریاست کا گھناؤنا خونی چہرہ دکھائے گی۔ اگر خاردار تاریں لگانی، پتھر برسانے ہیں، توہین رسالت کے جھوٹے مقدمات کرنے ہیں۔ عورت مارچ اسلام آباد کا راستہ روکنے کیلئے5،6بڑی بڑی قیدیوں کی وین لائی گئی تاکہ خواتین کو گرفتار کیا جائے صرف اسلئے کہ وہ اپنا حق رائے رائٹ ٹو پروٹیسٹ ،رائٹ ٹو پیس فل اسمبلی استعمال کریں گی جو پاکستان کی آئین کا حصہ ہے۔ دستور میں جو حقوق آپ نے ہر کسی کو دیے۔ مولوی اسکا استعمال کر سکتا ہے، ریاستی ادارے، آپ کے مرداس کو استعمال کر سکتے ہیں تو پاکستان کی خواتین استعمال کیوں نہیں کر سکتی؟۔ آپ عورت مارچ کو سپورٹ کریں یا نہ کریں لیکن یاد رکھیے گا کہ جو مشینری ایک پیس فل پروٹیسٹ کو روکتی ہے وہی کل آپ کی سیاست کو روکنے کیلئے استعمال ہو گی۔ ہم پرپہلے بھی ریاستی جبر تھے اور ایسے فیمینسٹ نظریے کو آگے نہیں لیکر چلیں گے جو ہماری شناختیں چھینتا ہو۔ ہماری شناخت پر مبنی جو ہم پہ جبر ہو۔ یہی پاکستانی فیمینسٹ تحریکوں کا سب سے بڑا نکتہ ہے۔ ہم سامراجیت، ریاستی جبر، ہر طرح کی پالیسی کو اس نظرئے کو ، اس اپروچ کو جو عورت سے عورت ہونے کا حق چھینے، سیاست کا حق چھینے اور یہ توقع کرے کہ وہ عورت اپنی سیاست ریاست کی ڈکٹیشن پہ کرے گی ہم ایسی سیاست کو ایسی تحریک کو رد کریں گے۔ ایسی تحریک کا نہ حصہ بنیں گے نہ اپنی تحریک کو اس سانچے میں ڈھلنے دیں گے کہ جس میں ریاست ڈکٹیٹ کرے کہ کونسی بات کرنی ہے کونسی نہیں کرنی؟۔ آپ کی اپنی پولیٹیکل، فلاسفی اور آئیڈیولوجی ہے اس ریاست کی ڈکٹیشن میں کوئی فیمنسٹ تحریک نہیں چلی اور نہ وہ چلے گی۔ یہ ہماری نو آبادیاتی آگاہی ہے یہ ہماری نو آبادیاتی میراث جو انہوں نے بنائی ہوئی ہیں یہ ان سب کا توڑ فیمینس تحریک ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ حقائق کو سامنے رکھیں ان کو پروموٹ کریں اور صرف اور صرف یہ جانیں کہ اگر عورت مارچز کو اس قدر ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ عورت مارچز کچھ نہ کچھ بہتر اور کچھ نہ کچھ اچھا کہہ اور کر رہے ہیں۔ یہ کم عورتیں ہی سہی لیکن یہ نظریاتی طور پر بہت با اختیار ہیں یہ نظریاتی طور پر بہت سٹرانگ عورتیں ہیں اور جیسے ہم نے دیگر ممالک میں دیکھا کہ عورتوں نے کس طرح سے ریاستی جبر کا سامنا کیا ہے پاکستانی عورتوں کو فخر ہونا چاہیے کہ آپ کے ملک کے اندر بھی ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے ریاست کو نہ صرف ٹکر کی ہے بلکہ ریاستی ادارے کی سرپرستی میں موجود مولوی جس کی سیاسی شروع ہوتی ہے عورت کو ایک بچہ بنانے کی مشین سمجھ کر ایک ایسی ان کو گونگی بہری عورت جو ان کو چاہیے یا جو ان کو پسند ہے یا ایسی عورت جو کہ صرف اور صرف ان کی بتائی ہوئی بات کو مان کر آنکھیں بند کر کے آگے بڑھے ہم عورت کی اس طرح کی شکل کو یا جو جینڈر کا ایک ڈائنمک بنایا گیا ہے کہ جب تک عورت غیر فعال نہیں ہوگی جب تک عورت روئے گی نہیں جب تک عورت مرد کی ڈکٹیشن میں نہیں آئے گی تب تک وہ عورت عورت نہیں ہے ہم ان تمام ڈیفینیشنز کو نہ صرف رد کریں گے بلکہ ان کو ری کنسٹرکٹ کریں گے۔ تو اس وقت اگر آپ بحیثیت پاکستانی شہری ریاستی جبر کو ریکگنائز کرتے ہیں ایتھنک اورنیشنلسٹ کوئسچن جو ہے اگر آپ اس کو ریکگنائز کرتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ آپ سب کو یہ چاہیے کہ اپنی اپنی سیاسی صفوں سے نکل کر عورت مارچز کا حصہ بنیں انکے اندر رضا کار بنیں۔ ان کے اندر پورا سال اس تحریک کو مضبوط کرنے میں مدد کریں ہمیں بہت زیادہ ضرورت ہے ایک الٹرنیٹو ڈسکورس کو بلڈ کرنے کی وہ ڈسکورس جو کہ مولوی اور ریاست کی ڈکٹیشن میں نہیں بلکہ ہماری اپنی جو گراس روٹ پولیٹیکل آرگنائزنگ ہے اس کی فائنڈنگز پہ مبنی ہو ۔بہت بہت شکریہ

(نوٹ: اس پوسٹ کے بعد عنوان” عورت مارچ کیلئے ایک تجویز” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز