پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1) اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 1)

بیوی شوہر کی ملکیت ہے، اگر عورت خلع لینا چاہے تو پھر شوہر اس سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کرسکتا ہے۔ علماء ومفتیان کایہ گھناؤنا تصور عورت کو جانور سے بھی بدترحالت پر پہنچادیتا ہے

شوہر نے3طلاقیں دیں اور مکر گیااورعورت دوگواہ پیش نہ کرے توپھر عورت ہرقیمت پر خلع لے اور اگرخلع نہ ملے تو حرامکاری پرمجبور ہے پھر جماع سے لذت نہیں اُٹھائے ورنہ گناہگار ہوگی

تھانوی کی کتاب ”حیلہ ناجزہ” سے اور فقہی مسائل

انگریزدور میں مسلمان عورت کا شوہر گم ہوا۔ یہ شرعی حکم تھا کہ وہ حنفی مسلک کے مطابق80سال تک اپنے گم شدہ شوہر کا انتظار کرے۔آخر کار عورت عیسائی بن گئی۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس پر حیلہ ناجزہ لکھ دی۔ جس میں عورتوں کو کنجریاں لکھ دیا کہ انتظار نہیں کرسکتی ہیں اسلئے ہم مجبوری میں امام مالک کے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ اگر مجبوری ہوتو پھر کسی اور مسلک پر بھی فتویٰ دیا جاسکتا ہے۔ امام مالک کے مسلک میں اگر شوہر گم ہوجائے تو عورت4سال کے انتظار اور پھر عدت وفات4ماہ10دن گزرنے کے بعد شادی کرسکتی ہے۔ حیلہ ناجزہ میں یہ بھی لکھ دیا کہ ”اگرشوہر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو عورت کو دو گواہ پیش کرنے ہوں گے ۔ اگر عورت کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے3طلاقیں نہیں دی ہیں تو پھر وہ عورت اس شوہر کی بیوی رہے گی لیکن اس کے ساتھ جماع حرام کاری ہوگی۔ عورت کو چاہیے کہ اس سے ہر قیمت پر خلع لے اور اگر شوہر خلع نہیں دیتا ہے اور عورت سے جماع کرتا ہے تو شریعت میں وہ اس کی بیوی ہے لیکن اس سے جماع حرامکاری ہے۔ عورت اس سے لذت نہ اٹھائے ورنہ گناہ گار ہوگی”۔
بریلوی مکتب کے ہاں بھی یہ فتویٰ جاری ہورہا ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے” فتاویٰ عثمانی”میں ہے کہ ” ایک شخص نے اپنی9،10سالہ بچی کا نکاح ایک شخص سے کردیا لیکن کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس نے شادی نہیں کی ۔ اس نے لڑکے والے سے کہا کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہوگئی ہے اسلئے رخصتی کردو لیکن لڑکے والوں نے نہیں مانا۔ پھر لڑکا5سال تک مفقود الخبر ہوگیا، جس کا پتہ نہیں تھا کہ کہاں ہے؟۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی طرف سے عدالت میں کیس کردیا۔ جب وہ جج کے بلانے پر بھی نہیں آیا تو آخر کار7مہینے کے بعد جج نے خلع کی ڈگری جاری کردی۔ پھر لڑکی نے ایک اور شخص سے نکاح کرلیا۔ اس کے کئی مہینے گزرنے کے بعد پہلا شوہر پہنچ گیا اور دارالعلوم کراچی سے اس کو یہ فتویٰ مل گیا کہ چونکہ لڑکی کا نکاح اس کے باپ نے کیا تھا تو وہ کسی صورت بھی فسخ نہیں ہوسکتا۔ اسلئے لڑکی بدستور پہلے شوہر کی بیوی ہے اور دوسرے سے اس کا نکاح نہیں ہوا ہے”۔ فتاویٰ عثمانی میں یہ بھی ہے کہ ” ایک آرائیں لڑکی سے ایک شیخ ذات کے شخص نے زبردستی سے ڈرادھمکا کر نکاح کرلیا اور اب اس سے خلع چاہتے ہیں۔ ہمارے ہاں شیخ ذات کو آرائیں کے مقابلے میں کم درجہ سمجھا جاتا ہے”۔ جواب میں فتویٰ دیا گیا کہ ” عجم میں کوئی اونچی ذات نہیں،اب اگر خلع لینا ہے تو لڑکی کے شوہر کی رضاکے بغیر کوئی راستہ نہیں ہے”۔ فتاوی عثمانی میں متضاد فتوے ہیں۔ کہیں ہے کہ عرف کا اعتبار ہے اور کہیں پر عرف کا اعتبار نہیں ۔ کہیں شیعہ کیساتھ نکاح جائز اور کہیں ہے کہ شیعہ کیساتھ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے فتویٰ دیا کہ ”اگر حلالہ سے بچنے کیلئے غیرت کا مسئلہ ہے تو دوسرے مسلک پر فتویٰ دے سکتے ہیں”۔
مذہب کی تبدیلی پر مرتداور واجب القتل کا فتویٰ لگتا ہے لیکن انگریز دور میں بزدل مولوی یہ رسک نہیں لے سکتے تھے اسلئے مسلک تبدیل کرنے اور گالیاں دینے پر اکتفاء کرلیا۔ جمعیت علماء ہند کے صدر مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ میں غیرت تھی اسلئے غیرت کی بنیاد پر مسلک کی تبدیلی کی اجازت دی ۔
عورت کے حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ قرآن وسنت کے ٹھوس مسائل کی روشنی میں عدالتوں سے رجوع کریں اور جاہلیت پر مبنی فتوؤں کی کتابوں کو پیش کرکے جواب طلب کریں۔ عوام کی عدالت سب سے مضبوط عدالت ہے اور پارلیمنٹ میں بھی ان مسائل کو اٹھائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت کی طرف سے افہام وتفہیم کیساتھ قرآن وسنت کے مطابق آئین سازی سے جاہلوں کو شکست فاش ہوگی۔

البقرہ:222کی معنوی تحریف سے عورت کو اذیت

” اور تجھ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ وہ ایک اذیت ہے۔ پس حیض کی حالت میں انکے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں ،پس جب وہ پاک ہوجائیں تو ان کے پاس آؤ جیسے اللہ نے حکم دیا ہے ۔اللہ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو”۔
سورہ بقرہ کی اس آیت222میں حیض کا حکم پوچھا گیا ہے۔اس میں دو چیزوں کی وضاحت ہے ایک اذیت جس سے توبہ کی جاتی ہے اور دوسری گندگی جس سے پاکیزہ رہا جاتا ہے۔ عورت کو حیض میں تکلیف ہوتی ہے۔جس میں مقاربت سے منع کیا گیا ہے اور اس میں ناپاکی ہوتی ہے جو بالکل واضح ہے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر نے اختراع پردازی کرتے ہوئے کہا کہ صحابہ نے پوچھا کہ یار سول اللہ !ہم توبہ کرنا تو جانتے ہیں۔پاکیزگی کیا ہے۔ فرمایا کہ ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی کا استعمال پاکیزگی ہے۔ حالانکہ یہ آیت کے مفہوم کیساتھ بہت بڑی واضح زیادتی ہے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے قادیانیوں سے متعلق فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے جب آیت کا حوالہ دیا کہ لااکرہ فی الدین” دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے”۔تو پورے ملک میں بڑا کہرام مچ گیا اور صحافی ہارون الرشید نے بھی اس کو سیاق وسباق پیش کرنے کی بات کردی۔جب پروفیسر احمد رفیق اختر نے مندرجہ بالا آیت کا لیکچر دیا تو ہارون الرشید ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمارا یہ المیہ ہے کہ قرآنی آیات کو بھی سیاسی مفادات اور مذہبی استحصال کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے بتایا کہ5سالوں میں مکہ اور مدینہ میں یہود ونصاریٰ آزادی سے گھوم رہے ہوں گے اور عام مسلمانوں پر وہاں پابندی ہوگی۔ پھر ہم بھی حج وعمرہ نہیں کرسکیںگے۔ لاہور میں سعودی برینڈ پہننے والی عورت کو اگرASPپولیس شہر بانو نقوی نے نہ بچایا ہوتا تو جاہل ہجوم اس کا حشر نشر کردیتا۔ کپڑوں پر عربی میںحلوہ لکھا تھا۔فتاویٰ شامیہ اور فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ ”سورہ فاتحہ کو علاج کیلئے پیشاب سے لکھنا جائز ہے” ۔لیکن اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا ہے۔2004میں مفتی تقی عثمانی کا حوالہ شائع کردیا تو اس نے اپنی کتابوں سے نکالنے کا اعلان کیا مگر مفتی سعید خان نکاح خواں عمران خان نے2008میں اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں فتاوی قاضی خان میں سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا پھر دفاع کرتے ہوئے شائع کردیا۔ اللہ نے ایک ایک رسم جاہلیت ختم کرتے ہوئے حلالہ کی لعنت کو بھی بیخ وبنیاد سے ختم کیا ہے مگر پھر بھی علماء ومفتیان اپنے مدارس میں حلالہ کی لعنت کے فتوے دیکر عورت کی عزت لوٹتے ہیں۔

قرآن کی وضاحتیں اوراس میں تحریف کی موشگافیاں!

سورہ بقرہ کے جس رکوع کی ابتداء آیت222سے شروع ہے اور اس میں حیض اور اذیت ، توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کی وضاحت ہے۔ اس کی آیات میں تسلسل کیساتھ عورت کو اذیت دینے کے مسائل کی وضاحتیں ہیںلیکن اس میں معنوی تحریف کی گئی ہے۔ علامہ سید محمد یوسف بنوری اورمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع وغیرہ کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے اپنی ”بخاری کی شرح فیض الباری” میں لکھا ہے کہ ”قرآن کی معنوی تحریف تو بہت ہوئی ہے لفظی تحریف بھی انہوں نے کی ہے یا تو مغالطہ سے یا جان بوجھ کر”۔ جس پر فقیہ العصرقاضی عبدالکریم کلاچی نے مفتی فرید مفتی اعظم پاکستان کو خط لکھا کہ ” اس عبارت کو پڑھ کر پیروں سے زمین نکل گئی کہ دوسروں پر قرآن کی تحریف کے فتوے لگانے والوں کے اپنے اکابرین کی کتابوں میں یہ موجود ہے؟۔ عبارت سے کافر بھی مراد نہیں ہوسکتے اسلئے کہ وہ عمداً ایسا کرسکتے ہیں لیکن مغالطہ سے ایسا نہیں کرسکتے”۔ اس کا ایک بہت ہی بے کار جواب مفتی فرید نے دیا ہے جو فتاوی دیوبند پاکستان میں شائع بھی ہواہے۔ اس عبارت کا حوالہ دئیے بغیر مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کے استاذ علامہ غلام رسول سعیدی نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ لیاہے جس پر کفر کا فتویٰ بھی لگایا گیا ہے۔ مفتی فرید اور علامہ غلام رسول سعیدی درس نظامی میں جو نصاب تعلیم پڑھاتے ہیں اس میں ”اصول فقہ”کے اندر تحریف ہی پڑھائی جارہی ہے۔
وزیرستان کے مشہور بلند ترین پہاڑ کا نام ”پیر غر” ہے۔ غر پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ پیر سید کو کہتے ہیں۔ وزیرستان کے پہاڑوں کا یہ سردار ہے۔ لیکن اس کا نام بگاڑ کر ”پرے غل” مشہور ہے۔ ماں بچے کو لوریاں دیتے کہتی تھی کہ ”غل شہ خدائے دے مل شہ” ۔(چور بن جاؤ ، خدا تمہارا مدد گار بن جائے)۔ پہاڑ کا نام پیر کی جگہ چور رکھنے سے پہاڑ کو بھی تکلیف ہوگی۔ اسلئے کہ جب اللہ نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کردیااور انسان نے اٹھالیا جو بڑا ظالم جاہل تھا۔ آج نااہل لوگ اقتدار کی امانت اٹھانے کے پیچھے مررہے ہیں۔ انسان کا نام بگاڑ نے پر تکلیف ہوتی ہے۔ جیسے مولانا فضل الرحمن کا نام ”ڈیزل” رکھ دیا۔ اس اذیت سے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ نے فرمایا:” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں ”۔ آیت223البقرہ۔ حرث اثاثہ کو بھی کہتے ہیں اور کھیتی کو بھی۔ کسی کو اپنا اثاثہ قرار دینا فخر کی بات ہوتی ہے لیکن کسی کو کھیتی قرار دینے سے اذیت ہوتی ہے اور جب اللہ نے حیض کو بھی اذیت قرار دیا اسلئے کہ حیض کو اذیت قرار دینے سے عورت کو تکلیف نہیں اور گند قرار دینے سے اس کو تکلیف پہنچتی۔ حیض کو قذر، نجس اور وسخ بھی کہا جاسکتا تھا جس کا معنی گند ہے مگر اذی(اذیت) کہہ کرادب کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا گیا ۔ عربی کے کسی لغت میں اس کا معنی گند نہیں ہے ۔
اگر عورت کو خلع کا حق ملتا تو80اور4سال انتظار کی ضرورت نہ پڑتی۔اور نہ وہ علماء ومفتیان کے غلط فتوؤں کے مطابق حرام کاری پر مجبور ہوتی۔ عورت کا اختیار سلب کرکے اس کو اذیتوں سے دوچار کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے عورت کو خلع کا اختیار دیا ہے اور پھر مرد کو طلاق کا حق دیا ہے۔ جب عورت سے خلع کا اختیار چھین لیا گیا ہے تو اس میں طاقتور مردوں کیساتھ علماء ومفتیان بھی مکمل طور پر شریک مجرم بن گئے ہیں۔ عورت کا اختیار چھین لینے سے عورت کو جتنی اذیتوں کا سامنا ہے اس کی تمام تفصیلات سورہ بقرہ کی آیت222کے بعد والی آیات میں موجود ہیں۔ پڑھتا جا شرماتا جا۔8عورت مارچ کی عورتوں نے اگر اس طرف توجہ دیدی تونہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیابھر میں عظیم انقلاب آجائے گا۔ انشاء اللہ
سورہ بقرہ آیت222کے بعد223سے231تک2رکوع ہیں ۔صفحہ نمبر2پر ملاحظہ فرمائیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ 2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز