پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2) اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 2)

البقرہ:223میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیتیں

اللہ تعالیٰ نے آیت222البقرہ میں حیض ، اذیت ،گند اورتوبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کی جن الفاظ میں وضاحت کردی ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ قرآن میں اس عالم کو کتے کی طرح کہا گیا ہے جس نے علم کے ذریعے دنیا کو طلب کرنے کا پیشہ اختیار کررکھا ہو۔ مثلہ کمثل الکلب ان تحملہ یلھث او یترکہ یلھث ” اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔اگر اس پر بوجھ لا دو تو بھی ہانپتا ہے اور چھوڑ دو تو بھی ہانپتا ہے”۔مدارس کے مسند ارشاد پر بیٹھے ہوں یا جنہوں نے مذہب کے نام پر پیری مریدی کی مسند ارشاد سجار کھی ہے یا نام نہاد دانشور وں نے مذہبی لبادہ اوڑھ رکھا ہو سبھی زد میں اس وقت آتے ہیں۔جب ایک طرف حق بات ہو اور دوسری طرف قرآن کی تحریف کا مسئلہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” تمہاری عورتیں تمہارا اثاثہ ہیں۔ ان کے پاس آؤ جس طرح تم چاہو۔اور آگے بھیجو،اپنی جانوں کیلئے اور اللہ سے ڈرو، بیشک تم نے اس سے ملنا ہے اور مؤمنوں کو بشارت دو”۔
اس آیت223سے پہلے آیت222میں حیض اور اذیت کی وضاحت ہے۔ حیض کی حالت میں اذیت کا بھی ذکر ہے اور مقاربت سے بھی منع کیا گیا ہے۔ فقہ وتفسیر کی کتابوں میں جو فضولیات پڑھائی جاتی ہیں ان میں اذیت کی بات کو مدنظر رکھا جاتا تو پھر اس بات پر کوئی جھگڑا نہ ہوتا کہ مرد کو کہاں سے کیا کرنے کی اجازت ہے اور کہاں سے کیا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟۔ شیعہ سنی کے ہاں یہ معاملہ بہت افسوسناک حد تک بیان کیا جاتا ہے۔ جسے کتے کی دم کی طرح مسلکی بنیاد پر سیدھا نہیں کیا جاسکتا۔
ایرانی نژاد ایک امریکن عورت نے اسلام میں عورت کے مقام پرکتاب لکھی ہے جس میں عورت کی انتہائی تذلیل کے حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ عورت کی قیمت ادا کی جائے تو لونڈی کی صورت میں اس سے نکاح کی ضرورت نہیں پڑتی ہے ۔وہ اس سے بدفعلی کرسکتا ہے۔ حالانکہ یہ غلط ہے اور اس کی تفصیل سے وضاحت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ” ایک شخص نے نکاح کیا اور وہ عورت سے پیچھے کی طرف سے جماع کرتا تھا۔ عورت کی خواہش پوری نہیں ہوتی تھی تو عورت نے خلع کا مطالبہ کیا۔ وہ خلع دینے پر راضی نہیں تھا۔ آخرکار حق مہر کی رقم سے خلع کی زیادہ رقم ادا کردی تو اس نے عورت کی جان چھوڑ دی”۔ حالانکہ شوہر پر عورت کو اذیت دینے کی حرمت واضح ہوتی اور اس سے توبہ کی تلقین ہوتی تو عورتیں گناہگار نہ بنتیں بلکہ مردوں کو گناہگار قرار دیا جاتا۔ غلط تفسیر اور قرآن کے واضح الفاظ سے منحرف ہونے کے جو خطرناک نتائج نکلے ہیں اس سے مذہبی طبقے نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ مدارس میں بڑے پیمانے پر عورتیں تعلیم حاصل کررہی ہیں ان کو اپنے حقوق کیلئے اُٹھنا پڑے گا۔
اگر آیت222البقرہ اور آیت223البقرہ میں قرآن کی معنوی تحریف کا راستہ روکا جاتا تو پھر آنے والی آیات میں بھی عورت کو مشکلات سے نکالا جاسکتا تھا۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عربی لغت میں کہیں بھی اذی کے معنی گند کے نہیں ہیں لیکن قرآن کے اردو تراجم میں اس کے معانی گند کے لکھے گئے ہیں۔ اذی کے معانی اذیت اور تکلیف کے ہیں۔ اذیت اور تکلیف سے توبہ کی جاتی ہے اور اللہ سے ڈرنے کی تلقین اسلئے کی گئی ہے کہ عورت کو اذیت نہ پہنچائی جائے۔ شیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن سواتی ثم لاہوری اور جامع امدادالعلوم فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا نذیر احمدفیصل آبادی قوم لوط کے عمل میں مبتلاء تھے۔ اگر اس جیسے لوگ اپنی بیگمات کو اذیت نہیں دیتے تو یہی ان کا تقویٰ تھا۔ صابر شاہ کے بارے میں اس مدرسہ کے طلبہ نے میڈیا کو بتایا کہ ” صابر شاہ میں یہ علت تھی”۔ ویڈیو نے دنیا کے لوگوں کو چونکادیا تھا لیکن مدارس اور سکولوں میں ماحولیاتی آلودگی پھیل چکی ہے جس کے علاج کا قرآن نے ذکر کیا ہے ۔ واللذان یأتیانھا فآذوھما فان تابا و اصلحا فأعرضوا عنھما ان اللہ کان توابًا رحیمًا”اور اگر دو مرد بدکاری کے مرتکب ہوں تو ان دونوںکو اذیت دیدو۔ اگر دونوں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو پھر ان دونوں سے اعراض کرو۔اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے”۔
سورہ النساء آیت16میں قوم لوط کے عمل پر سزا کی اتنی زبردست وضاحت کے باوجود بھی مسالک میں اس کی سزا پر فقہی اختلافات مضحکہ خیز ہیں۔مفتی عزیز الرحمن کو مینار پاکستان سے گرا یا جارہاتھا؟۔

البقرہ224،225،226،227میں اذیتیں؟

یہ آیات طلاق کے احکام کا مقدمہ ہیں۔ آیت224البقرہ میں یہ واضح ہے کہ اللہ اور مذہب کے نام کو ڈھال بناکر نیکی، تقویٰ اور لوگوں کے درمیان صلح میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب میاں بیوی صلح کیلئے راضی ہوں تو اللہ کے نام پر ان کو صلح سے روکنا بہت بڑی اذیت ہے اور اللہ نے اس آیت کے ذریعے اس جاہلیت کو ختم کرنے کا واضح اعلان کردیا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کو بالکل غلط پیش کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کا شوہر نامرد تھا اور وہ اپنے سابقہ شوہر کی طرف لوٹنا چاہتی تھی لیکن نبیۖ نے اس کو حلالہ کے بغیر اجازت نہیں دی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح البخاری” میں لکھ دیا ہے کہ ”اس حدیث کی حنفی مسلک میں اتنی حیثیت نہیں کہ اس کو قرآن کے مقابلے میں لایا جائے”۔ اس روایت میں عورت اپنے شوہر سے خلاصی چاہتی تھی اور دوسری روایت میں ہے کہ شوہر نے اس کو جھٹلادیا تھا کہ وہ نامرد ہے اور اصل مسئلہ مار پیٹ اور لڑائی کا تھا۔ ایک کم عقل مفتی بھی ایسی حرکت نہیں کرسکتا کہ کسی عورت کو مجبور کرے کہ نامرد سے حلالہ کراؤ ،تو نبیۖ پر تہمت کیسے لگائی جاسکتی ہے؟۔ بخاری نے جس عنوان سے درج کیا ہے اس کا غلط ہونا بخاری سے ہی ثابت بھی ہے۔
احادیث کے ذخائر میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں کہ میاں بیوی طلاق کے بعد ملنا چاہتے ہوں اور نبی ۖ نے ان کو منع کیا ہو۔ اور ہوتا بھی تو قرآن سے متصادم قرار دیکر اس کی تردید کرنا ایمان کا تقاضا ہوتا اسلئے کہ قرآن کے خلاف کوئی حدیث کیسے ہوسکتی ہے؟۔ یہ عورت کیلئے اذیت ہے۔
آیت225میں ان تمام الفاظ کو لغو قرار دیا گیا ہے جو طلاق صریح وکنایہ سے متعلق عوام کسی طرح کے وسوسوں کا شکار ہوتے ہیں کہ یہ کہنے ، سوچنے اور لکھنے سے طلاق تو نہیں ہوئی؟۔ لیکن دل کے گناہ سے پکڑنے کی وضاحت ہے۔ دل کا گناہ یہ ہے کہ طلاق کا پروگرام ہو لیکن اس کا اظہار نہ کیا جائے بلکہ یونہی عورت سے ناراضگی اختیار کرکے چھوڑ دیا جائے اسلئے کہ پھر عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہوگا۔ آیت226البقرہ میں طلاق کا اظہار کئے بغیر ناراضگی کی عدت چار ماہ ہے اور آیت227البقرہ میں واضح ہے کہ اگر طلاق کا عزم تھا تو اللہ سننے جاننے والا ہے۔ یہ عزم دل کا گناہ ہے کیونکہ اس کا اظہار نہ کرنے سے عورت کی عدت میں ایک ماہ کا اضافہ ہے اور اگر اس نے طلاق دینی تھی تو اس کا اظہار بھی کردیتا اور پھر اس کی عدت تین ماہ بن جاتی۔ ایک مہینے زیادہ انتظار کی اذیت عورت کو دینے پر اللہ کی طرف سے پکڑ ہوگی اور اسی کی وضاحت ہے۔
فقہاء اور مفسرین نے ان آیات میں عورت کی اذیت کو نظر انداز کیا ہے اور ان آیات کا اصل مفہوم کتوں کی طرح تقسیم کرکے نوچ ڈالا ہے۔ ایک مسلک کہتا ہے کہ عورت کو چار ماہ بعد طلاق ہوجائے گی اسلئے کہ شوہر نے اپنا حق استعمال کرلیا اور وہ یہ ہے کہ4مہینے عورت کے پاس نہیں گیا اور دوسرا مسلک کہتا ہے کہ4مہینے نہیں زندگی بھر بھی اس کو طلاق نہیں ہوگی اسلئے کہ شوہر نے اپنے حق کو استعمال نہیں کیا ہے۔ حالانکہ یہ4مہینے ناراضگی میں عورت کی عدت ہے۔ رسول اللہ ۖ کی مثال قرآن میں واضح ہے۔ آپ ۖ اپنی ازواج مطہرات سے ناراض ہوگئے۔ ایک مہینے بعد جب آپۖ نے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ” آپ رجوع نہیں کرسکتے۔ ان کو طلاق کا اختیار دے دیں۔ اگر وہ رہنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے اور نہیں رہنا چاہیں تو بھی ان کا اختیار ہے”۔
یہ ایک جاہلیت کی رسم تھی کہ جب شوہر ساری زندگی عورت کو یرغمال بناکر رکھنا چاہتاتھا تو پھر وہ کھلے لفظوں میں طلاق نہیں دیتا تھا۔ عورت بیچاری زندگی بھر رُل جاتی تھی۔ اللہ نے عورت کے حق کو واضح کرنے کیلئے قرآنی آیات اتاری ہیں۔ اگر فقہاء ومفسرین نے عورت کی اذیت کا خیال رکھا ہوتا تو پھر کھلی اور واضح آیات میں ایسے تضادات کا شکار نہ بنتے۔ قرآن کی یہ پہلی آیت ہے جس میں4مہینے کی عدت واضح ہے۔ ناراضگی میں4مہینے اور طلاق میں تین ادوار کی عدت ہے۔ مدارس اور مساجد کے علماء ومفتیان نے اگر عزت کمانی ہے تو اللہ کی آیات کو مان کر واضح کریں۔

البقرہ228اور علماء کی معنوی تحریفات کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق شدہ عورتیں3ادوار تک اپنی جانوں کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے۔اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر ان کا پروگرام اصلاح کا ہو۔اور ان عورتوں کیلئے اسی کی طرح کے حقوق ہیں جیسے عورتوں پر شوہروں کے ہیں معروف طریقے سے۔اور مردوں کا ان پر ایک درجہ ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (البقرہ:228 )
دورِ جاہلیت میں دوانتہائی غیراخلاقی اور غیر قانونی مذہبی مسائل تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیتا تو حلالہ کی لعنت کے بغیر اس کیلئے وہ حرام بن جاتی تھی۔ اس آیت میں اس غیرفطری مذہبی مسئلے کو اڑاکر رکھ دیا کہ رجوع کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق اور حلالہ کی لعنت سے نہیں بلکہ عدت میں باہمی اصلاح سے ہے۔ دوسرامسئلہ یہ تھا کہ جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا تھا تو جتنی مرتبہ چاہتا تھاوہ عدت کے دوران رجوع کرسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے عورت کی رضامندی ، صلح اور اصلاح کی شرط پر معروف طریقے سے رجوع کی وضاحت کرکے اس باطل مسئلے کو ختم کردیا۔ جب تک عورت راضی نہ ہو تو شوہر ایک مرتبہ میںبھی رجوع نہیں کرسکتا ۔ اور عورت راضی ہو تو پھر جتنی مرتبہ چاہیں باہمی اصلاح سے اللہ تعالیٰ نے رجوع کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ اسلئے اسلام دین فطرت ہے۔
عورت صنف نازک ہے ، اس کو حیض آتا ہے، اس کو بچے جننے ہوتے ہیں۔ بچے کو دودھ پلانا ہوتا ہے اور جب اس کی ایک مرتبہ شادی ہوتی ہے تو طلاق سے اس پر اثر پڑتا ہے اسلئے اللہ نے اس کو عدت کا بھی پابند بنایا ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں لیکن عدت کے اعتبار سے ایک درجہ مردوں کا ان پر اضافی ہے۔ اس میں بھی عورت کیلئے ہی مصلحت ہے اور مردوں کو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے۔بلکہ حق مہر کی صورت میں عورت کیلئے بڑی انشورنس اور شوہر پر جرمانہ عائدہے۔
علماء ومفتیان اور مذہبی طبقات نے اس آیت میں پہلی تحریف یہ کی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق پر رجوع کا دروازہ بند کیا ہے۔ دوسری تحریف یہ کی ہے کہ اللہ نے صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اورگمراہ مذہبی طبقات نے غیر مشروط رجوع کی اجازت دی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر شوہر ایک مرتبہ طلاق کے بعد عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے ۔ اس طرح پھر عدت کے آخر میں رجوع کرلے اور پھر طلاق دے تو عورت کو ایک کی جگہ تین عدتیں گزارنی پڑیں گی۔ جب اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ہی عدت کا پابند بنایا ہے اور مولوی شوہر کو تین عدتوں کا حق دیتا ہے۔پھر تو جس حدیث میں آتا ہے کہ طلاق مذاق میں بھی ہوجاتی ہے تو اس کا مفہوم ہی غیر مؤثر ہوجاتا ہے اسلئے کہ شوہر کہے گا کہ میں نے طلاق رجعی دی ہے۔ مسائل کے نام پر بکواسات ہیں۔
بہشتی زیور میں ہے ۔ مسئلہ : شوہر نے بیوی سے کہا کہ طلاق طلاق طلاق۔ یہ تین طلاقیں ہوگئیں۔ اگر شوہر کی نیت ایک طلاق کی ہو تو پھر ایک طلاق ہوئی ۔ا س طلاق رجعی سے شوہر یکطرفہ رجوع کرسکتا ہے اور عورت اس کی بدستور بیوی رہے گی لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوگئی ہیں۔
جب عورت کو اصلًا طلاق نہیں ہوئی ہے اور شوہر نے ایک طلاق رجعی سے رجوع کرلیا ہے اور بیوی اس کے نکاح میں ہے تو پھر بھی عورت کو فتویٰ دیا جارہاہے کہ وہ سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں پڑ چکی ہیں۔ اب وہ حلالے کیلئے دوڑے گی اور شوہر کہے گا کہ میری بیوی ہے اس کو جانے نہیں دوں گا۔ مولوی اس کا علاج کیا کرے گا؟۔ اگر خود کسی بڑے عالم اور مفتی کے گھر میں یہ واقعہ ہو تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟۔
حضرت عمر حکمران تھے ۔ جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور پھر عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو فیصلہ دے دیا کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور ٹھیک فیصلہ دیا اسلئے کہ رجوع کیلئے باہمی رضامندی شرط ہے۔ حضرت عمر کے پاس ایک اور مسئلہ آیا کہ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ حضرت عمر نے پوچھا عورت رجوع کیلئے راضی تھی تو رجوع کی اجازت دیدی۔ حضرت علی کے پاس ایک مسئلہ آیا ۔ شوہر نے بیوی کو حرام قرار دیا تھا۔ عورت راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے رجوع کو حرام قرار دیا تھا۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز