پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3) اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)

البقرہ229اور اس کی تحریف میں عورت کی اذیتیں؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” طلاق دومرتبہ ہے۔پھر معروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ نا۔ اور تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لے لو مگر یہ کہ دونوں کوخوف ہو کہ وہ دونوںاللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے اور اگر تمہیں خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں ،ان سے تجاوز مت کرو، جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں” ۔(البقرہ229)
آیت228میں اللہ تعالیٰ نے طلاق شدہ خواتین کیلئے عدت کے تین ادوار کی وضاحت کردی اور اس میں عدت کے3ادوار میں3مرتبہ طلاق کی بھی وضاحت کردی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ قرآن میں آیت229میں دومرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے۔ جس کا مولانا سلیم اللہ خان نے کشف الباری اور علامہ غلام رسول سعیدی نے نعم الباری میں ذکر کیا ہے۔
صحیح بخاری کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق ، کتاب العدت اور کتاب التفسیر میں عبداللہ بن عمر کے واقعہ کی وضاحت ہے کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” بیوی کو اپنے پاس طہر کی حالت میں رکھو، یہاں تک کہ حیض آجائے۔ پھر طہر کی حالت میں پاس رہے یہاں تک کہ حیض آجائے اور پھر طہر کی حالت آجائے تو اگر چھوڑ نا چاہتے ہو تو ہاتھ لگائے بغیر چھوڑدو اور رجوع کرنا چاہتے ہو تو رجوع کرلو۔ یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح سے طلاق کا حکم فرمایا ہے”۔ قرآن وحدیث میں معاملہ واضح ہے۔
مذہبی طبقے نے قرآن میں تضادات اور تحریفات کا نقشہ اپنے زنگ آلودہ گمراہ دلوں میں جمادیا ہے کہ اگر کسی نے ایک ساتھ3طلاق کہہ دیا تو عدت میں بھی قرآن کے واضح احکام کے برعکس رجوع کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور دومرتبہ طلاق کے بعد بھی غیر معروف طریقے سے رجوع کی اجازت ہے۔ حنفی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت شرط نہیں ہے۔ شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہوجائے گا ۔ شافعی مسلک کے نزدیک رجوع کیلئے نیت ضروری ہے ۔اگر نیت کے بغیر جماع کرلیا تو بھی رجوع نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت229میں یہ واضح کردیا ہے کہ عدت کے تیسرے مرحلے میں چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر جو کچھ عورت کو دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لینا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی ایسی چیز ہے جو واپس نہیں کی گئی اور دونوں کو خدشہ ہو اور فیصلہ کرنے والوں کو بھی خدشہ ہو کہ پھر وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو وہ پھر اس دی ہوئی چیز کو واپس کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔ اس میں خلع کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن مذہبی طبقات نے واضح آیت کے برعکس اس سے خلع مراد لیا ہے۔ مگر دومرتبہ طلاق اور تیسری مرتبہ طلاق کے بعد خلع کا تصور کہاں سے آسکتا ہے؟۔ آیت229کے الفاظ سے بالکل واضح ہے کہ جو شوہر نے دیا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیںہے ۔جو سورہ النساء آیت20اور21میں بھی بالکل واضح ہے لیکن یہاں اس چیز کا استثنیٰ ہے کہ اگران دونوں کو اور فیصلہ کرنے والوں کو یہ خوف ہو کہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ تو پھر دی ہوئی چیز فدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اسی صورت کی بات ہے کہ جب عورت کی کسی اور شخص سے شادی ہوجائے۔ جب دوسرے شخص سے شادی ہوجائے گی اور کوئی چیز ایسی ہوگی کہ پہلے سے رابطے کا ذریعہ بنے گی جس سے دونوں جنسی خواہشات میں پڑکر اللہ کی حدود توڑنے میں ملوث ہوسکتے ہوں تو پھر اس کو واپس کرنا بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ایک چیز بہت وضاحت کیساتھ بیان کرکے واضح کردی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اللہ کے بیان کردہ حدود سے نکل کر مذہبی فتوے دینا بہت بڑا ظلم ہے۔ اللہ نے طلاق میں مالی تحفظ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ شوہر نے جو چیز یں دی ہیں وہ واپس لینا جائز نہیں اور علماء ومذہبی طبقے نے اس سے خلع مراد لے کر اللہ کی حدود سے بہت بڑا تجاوز کیا ہے۔ جس میں عورت کو بلیک میل کرنے کی اجازت کا سامان فراہم کیا گیاہے۔اسلئے ان سب کو ظالم قرار دیا گیا ہے۔
حنفی مسلک کے نزدیک دو مرتبہ طلاق کے بعد یہ خلع آنے والی تیسری طلاق کیساتھ ضم ہے۔ شافعی مسلک کے نزدیک یہ جملہ معترضہ ہے۔ اسلئے کہ خلع مستقل طلاق ہے اور پھر تیسری طلاق کی گنجائش نہ رہے گی۔ حنفی مسلک کے نزدیک عربی قواعد کا یہ تقاضہ ہے کہ فان طلقہا کا حرف ”ف” تعقیب بلامہلت کیلئے آتا ہے اور اس کو خلع سے منسلک کیا جائے۔ علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں ابن عباس کے قول کو نقل کیا ہے کہ دو مرتبہ طلاق کے بعد تیسری مرتبہ کے فدیہ سے اس تیسری طلاق کو منسلک کیا جائے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہاں خلع نہیں بلکہ وہ صورت مراد ہے کہ جس میں صلح کا دروازہ مکمل بند کیا جائے۔

البقرہ230میں تحریف اور عورت کی اذیت کا سفر

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:” پس اگر اس نے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کیلئے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے۔ پھر اگر اس نے طلاق دے دی تودونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ رجوع کرلیں اگر دونوں کو گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ وہ اللہ کی حدود ہیں جو اس قوم کیلئے بیان کرتا ہے جو علم رکھتے ہیں۔ (البقرہ آیت230)
سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے۔جب رسول اللہ ۖ نے پوچھنے پر واضح کردیا کہ قرآن میں تیسری طلاق آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد احسان کیساتھ رخصت کرنا تیسری طلاق ہے تو پھر مترجمین اور مفسرین کا اس کو تیسری طلاق قرار دینا ہی بہت غلط ہے۔
جب اللہ نے اس سے پہلے کی آیات میں باہمی صلح واصلاح اور معروف کی شرط پر رجوع کی عدت کے اندر اجازت دی ہے اور اس کی بعد کی آیات231اور232میں عدت کی تکمیل کے بعد بھی باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی اجازت دی ہے ۔تو کیا اللہ کے قرآن میں اتنا بڑا تضاد ہوسکتا ہے کہ آگے پیچھے کی آیات میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد تو واضح رجوع کی اجازت ہو اور درمیان میں اتنا سخت حکم ہو کہ رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟۔
اللہ تعالیٰ نے ایک ایک باطل رسم کا خاتمہ کیا ہے ،اگر قرآن پر تھوڑا سا تدبر کیا جائے تو پھر اس کے سارے راز کھل جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آیت230البقرہ میں یہ نیا حکم نہیں ہے بلکہ آیت228البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ باہمی اصلاح کے بغیر شوہر کا رجوع حرام ہے۔ اس سے پہلے آیت226البقرہ میں بھی یہی ہے کہ ایلاء میں عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع حرام ہے اور آیت229البقرہ میں بھی یہی حکم ہے کہ معروف کے بغیر رجوع حرام ہے ۔ جب ان آیات کی وضاحتوں کے باوجود بھی عورت کی رضامندی کی کہانی سمجھ میں نہیں آئی اور شوہر کے رجوع کیلئے باہمی اصلاح اور معروف کی شرط نظر انداز کردی گئی تو اللہ نے یہ زبردست چال چلی کہ آیت230میں حلالہ کی حرام لذت کا دانہ ڈال دیا۔ جب قرآن نے کوئی مداوا نہیں کیا تھا تب بھی نبی ۖ نے حلالہ کی رسم کو خدا کی لعنت اور بے غیرتی کی انتہاء قرار دیا تھا۔لیکن آیت228میں اس لعنت کے خاتمے کا علاج آیا تو بھی یہ اندیشہ تھا کہ نااہل لوگ پھر شیطان کے جال میں آجائینگے۔ پھر اس کا مزید علاج آیت229البقرہ میں بھی ہوا۔ لیکن دوسری طرف عورت کے حق واختیار کا مسئلہ تھا جو ان آیات228اور229میں نظر انداز کئے جانے کا خدشہ تھا اسلئے آیت230البقرہ میں عورت کے اختیار کو اس انداز میں واضح کرنے کی ضرورت پڑگئی کہ کسی طرح کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو حلالہ سے اتنی عزتیں نہیں لٹی ہیں جتنی عورتیں ظالم مردوں کے ظلم سے آزاد ہوگئی ہیں۔ آج بھی عورت کو جس طرح کا قانونی اختیار چاہیے وہ اس کو دوسری آیات کی روشنی میں علماء ومفتیان دینے کو تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ ایک مرتبہ کی طلاق ہو،یا دومرتبہ کی طلاق یا پھر ناراضگی و ایلاء کا مسئلہ ہو ،عورت کو علیحدگی کا اختیار نہیں ملتا ہے جبکہ قرآن وسنت میں واضح ہے۔
محرمات کی فہرست میں اللہ نے واضح کیا ہے لاتنکحوا مانکح آبائکم من النساء الا ما قد سلف ” نکاح مت کرو، جن عورتوں سے تمہارے آباء نے نکاح کیا ہے مگر جو پہلے گزر چکا ہے”۔ اگر اس وضاحت کو چھوڑ کر سورہ مجادلہ سے ان الفاظ کو لیا جائے کہ ”مائیں نہیں مگر صرف وہی جنہوں نے جن لیا ہے ” اور اس کی بنیاد پر سوتیلی ماں کو حلال قرار دیا جائے تو کتنی بڑی کم بختی ہوگی؟ اور یہی صورتحال آیت230کی بھی ہے کہ جب عورت کو طلاق کے بعد بھی شوہر اپنی غیرت سمجھ کر کسی اور سے نکاح نہیں کرنے دیتا تھا تو اللہ نے بہت واضح الفاظ میں یہ رسم جاہلیت ختم کردی مگر سیاق وسباق سے نکال کر حلالے کی لعنت پھر دورِ جاہلیت سے بھی زیادہ خطرناک جاری کی گئی ۔
سوال :اللہ نے کیوں فرمایا کہ ”دوسرے شوہر سے طلاق کے بعد دونوں کو رجوع کی اجازت ہے کہ جب دونوں کو اللہ کی حدود کو قائم کرنے کا گمان ہو؟”۔ جواب: پہلے شوہرمیں مردانہ کمزوری ہو اور دوسرے میں مالی ۔ دوسرا شوہر طلاق دے اور پہلا دوبارہ نکاح کرے تو دونوں کو گمان ہو کہ جب عورت پہلے مردانہ کمزوری والے شوہر کے پاس جائیگی تو عورت کی جنسی خواہش اور شوہر کی کمزوری حدود پر قائم رہ نہ سکنے کا سبب بن سکتی ہے یہ رابطہ آیت229میں واضح ہے۔ صحابہ وہ قوم تھی جن کی زبان میں قرآن نازل ہوا لیکن پھر اسلام اجنبیت کا شکار ہوتے ہوتے یہاں پہنچ گیا۔

البقرہ:231میںمعنوی تحریف اور عورت کی اذیت

”اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو پس ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو۔ اور تم ان کو اسلئے نہ روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ تاکہ تم زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے تو اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔اور اللہ کی آیات کو مذاق مت بناؤ۔ اور اس نعمت کو یاد کرو جو اللہ نے تمہارے اوپر کی ہے۔ اور جو اللہ نے تمہارے اوپر کتاب میں سے نازل کئے اور حکمت جس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے۔ اور اللہ سے ڈرو ، اور جان لو کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے” ۔ (البقرہ231)
قارئین ! اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین بلکہ دل نشین کرلیں کہ اللہ کی کتاب بے ربط نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ عدت کی تکمیل پر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے کا حق رکھتی ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار دیا جائے؟۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق میں عورت جدائی نہیں چاہتی ہے اسلئے اگر عدت کی تکمیل کے بعد بھی شوہر معروف طریقے سے یعنی صلح واصلاح کی شرط پر رجوع کرنا چاہے تو اس کو اللہ نے واضح کیا ہے۔ مولوی کم بخت نے عورت کے اختیار کو نظر انداز کرتے ہوئے یہاں بھی یہ فلسفہ جھاڑ دیا ہے کہ اللہ نے شوہر کو رجوع کی اجازت دی ہے اور عورت کا اختیار طلاق رجعی میں ختم کردیا ہے۔
فقہاء نے فقہ وفتاویٰ کی کتابوں میں عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کیلئے بدترین حد بندی کرتے ہوئے فتاویٰ رائج کیا ہے کہ ” جب عورت کی عدت حمل والی ہو توآدھے سے کم بچے کی پیدائش کے وقت رجوع ہوسکتا ہے لیکن آدھے سے زیادہ بچے کی پیدائش کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا”۔ حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ مفتی رفیع عثمانی یا مولانا فضل الرحمن کی ماؤں کو ان کی پیدائش سے پہلے طلاق دی گئی تھی اور جب ان کی نصف نصف پیدائش ہوئی تو مفتی محمد شفیع اور مفتی محمود نے رجوع کرلیا تو کیا یہ رجوع درست تھا؟۔ اور اس کے بعد کی اولادیں مفتی تقی عثمانی اور مولانا عطاء الرحمن وغیرہ کی پیدائش کو کیا جائزقرار دیا جائے گا؟۔اگر ان علماء نے قرآن اور خواتین کی عزتوں کا پاس نہیں رکھا تو پھر ان کے معزز رہنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مفتی تقی عثمانی اور قاری حنیف جالندھری کو بغل میں بٹھا کر کہا کہ اللہ حکومت یزید کو دیتا ہے اور عزت حسین کو دیتا ہے لیکن حسین بنے تو سہی!۔
ایک طرف رونا رویا جاتا ہے کہ ”ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں نے اختیار چھین لیا ہے ”۔ دوسری طرف عورت ”جو حقیقی ماں ہوتی ہے اور اس کو قرآن نے اختیار دیا ہے لیکن مولوی نے اس کا اختیار اپنی جہالت کے باعث چھین لیا ہے”۔ عورت مارچ والے اس اختیار کا مطالبہ کریں جو قرآن نے دیا ہے اور علماء ومفتیان نے اپنے جاہلانہ نصاب تعلیم میں چھین لیا ہے تو ایک بہت بڑا انقلاب برپا ہوگا۔
طلاق کی صورت میں جب عورت معروف طریقے سے رجوع کیلئے عدت کی تکمیل کے بعد راضی ہو تو پھر شوہر کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اسلئے مت روکو کہ ان کو ضرر پہنچاؤ ، تاکہ زیادتی کرو۔ جو ایسا ظلم کرے گا تو اس نے درحقیقت اپنی جان پر ظلم کیا۔ اسلئے کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے بدلے پر قادر ہے۔ یہ جو حکمرانوں ، عدالتوں اور دنیا کی عالمی طاقتوں کا رونا روتے ہیں تو اس کی وجہ قرآنی تعلیمات سے ان کی دوری اور عورت پر مظالم کے نہ ختم ہونے والے سلسلے ہیں جس کا احساس تک بھی کسی کو نہیں ہے۔ اللہ نے یہاں سورہ احزاب میں زید کی بیوی کو نعمت قرار دینے کی طرح سبھی کیلئے اپنی اپنی بیوی کی نعمت کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ اللہ کی کتاب میں اتارے ہوئے ان احکام اور حکمت کا بھی جس کے ذریعے وہ نصیحت کرتا ہے۔ پھر اللہ سے ڈرنے کی تلقین کی ہے جو کسی کے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے۔
قرآن میں فاذابلغن اجلھن ” جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں”البقرہ231،232اور234میں آیا ہے اور سورہ طلاق کی دوسری آیت میں بھی۔ ترجمہ کرنے والے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ”آسان ترجمہ قرآن ” میں حد کردی ہے اور ان الفاظ کا بالکل متضاد ترجمے کا ارتکاب کیا ہے۔ حالانکہ جس طرح بیوہ کو عدت کے ان الفاظ سے رجوع کا حق حاصل ہے اور آیت232البقرہ میں بھی عدت کی تکمیل کے بعد مزید زبردست وضاحت ان الفاظ سے ہے کہ باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے نکاح کرنے سے مت روکو،اسی طرح آیت231البقرہ اور سورہ طلاق کی آیت2میں بھی معروف طریقے سے رجوع کی گنجائش عدت کے بعد بھی ہے۔ فقہاء نے جس طرح کے خود ساختہ مسائل نکالے ہیں اگر ان پر عوام کی نظر پڑگئی تو مدارس ومساجد کے علماء ومفتیان کا تماشہ دیکھنے کیلئے لوگ جائینگے کہ یہ کتنی عجیب مخلوق ہے جو اس طرح کے خرافات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز