پوسٹ تلاش کریں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5) اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)

خود ساختہ طلاق حسن، طلاق احسن اور طلاق بدعت

حنفی مسلک میں طلاق کی3اقسام ہیں۔ طلاق حسن:عدت کے تین ادوار کے مطابق طلاق دی جائے۔ طلاق احسن:ایک طلاق دیکر عورت کو عدت کے آخر تک چھوڑ دیا جائے۔ طلاق بدعت:اکھٹی3طلاق دینا یا حیض کی حالت میں طلاق دینا۔ جبکہ امام شافعی کے نزدیک اکھٹی3طلاق دینا بدعت نہیں مباح اور سنت ہے۔ قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ جب طلاق بدعت و طلاق سنت پر اتفاق نہ ہو تو باقی کیا کیا گل انہوں نے کھلائے ہوں گے۔ طلاق احسن میں یہ طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد عورت کسی اور سے شادی کرنے کے بعد دوبارہ پہلے شوہر کے پاس آئے تو اختلاف یہ ہے کہ پہلا شوہر نئے سرے سے3طلاق کا مالک ہوگا ؟ یا پھر پہلے سے موجود2طلاق کا مالک ہوگا؟۔ فقہ کے ائمہ کا بھی اس پر اختلاف ہے اور فقہاء حنفیہ کا بھی آپس میں اس پر اتفاق نہیں ہے۔ اگر10افراد ایک ایک طلاق دیکر عورت کو فارغ کرتے جائیں تو عورت پر2،2طلاق کی دس منزلہ بلڈنگ کھڑی ہوگی۔ تمام افراد اس صورت میں2،2طلاق کے مالک بھی رہیں گے ان فضول بکواسیات پروقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔
امام شافعی کے نزدیک ایک ساتھ3طلاق دینے کی دلیل ایک حدیث ہے کہ جب عویمر عجلانی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تو کہا کہ تجھے3طلاق۔ حالانکہ اصل معاملہ قرآن میں واضح ہے کہ رجوع کا تعلق باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے صلح کرنے میں ہے۔ سورہ طلاق میں فحاشی کے ارتکاب پر عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے اور نکلنے کی اجازت ہے اسلئے عویمر عجلانی کی روایت اس قابل نہیں ہے کہ یہ بحث کی جائے کہ رجوع ہوسکتا ہے کہ نہیں؟۔ امام ابو حنیفہ و امام مالک کے ہاں ایک ساتھ3طلاق کو گناہ قرار دینے کیلئے ایک روایت ہے کہ محمود بن لبید نے کہا کہ ایک شخص کے بارے میں نبی ۖ کو خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دی ہیں۔ تو رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر اٹھے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل کردوں؟۔ حالانکہ یہ بھی واضح ہے کہ جس شخص کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے3طلاقیں دی ہیں وہ عبد اللہ ابن عمر تھے اور جس نے قتل کی پیشکش کی تھی وہ حضرت عمر تھے۔ بخاری و مسلم کی اس سے زیادہ مضبوط روایات میں یہ واقعہ موجود ہے اور حضرت عبد اللہ ابن عمر کو نہ صرف نبی ۖ نے رجوع کا حکم دیا تھا بلکہ یہ بھی سمجھایا تھا کہ طلاق کا تعلق عدت کے مطابق مرحلہ وار3مرتبہ عمل ہے۔ جب حنفی مسلک کے چوٹی کے محقق حضرت علامہ ابوبکر جصاص رازی حنفی احکام القرآن میں سنت کے مطابق طلاق پر دلائل دیتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ2مرتبہ طلاق سے مراد الگ الگ فعل ہے جس طرح2درہم کو2مرتبہ درہم نہیں کہہ سکتے اسی طرح2مرتبہ کی طلاق2طلاق نہیں ہوسکتی۔ لیکن جب طلاق کو واقع کرنے کا ٹھیکہ اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک باریک بات ہے جو سمجھ میں نہیں آسکتی ہے مگر پھر بھی ایک ساتھ3طلاق واقع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح جب طلاق سنت کے دلائل پر دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت علامہ انور شاہ کشمیری بحث کرتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ”ہوسکتا ہے کہ لعان کے بعد عویمر عجلانی نے بھی الگ الگ ہی مراحل میں 3مرتبہ طلاقیں دی ہوں”۔ (فیض الباری شرح بخاری)
اہلسنت کے ہاں متفقہ طور پر کہا جاتا ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری ”اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح بخاری شریف ہے”۔ امام اسماعیل بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے اس نے شافعی مسلک کو سپورٹ دینے کیلئے ”ایک ساتھ3طلاق کے جواز ”کے عنوان کے تحت لکھا کہ ”رفاعہ القرظی نے اپنی بیوی کو 3طلاق دی، پھر اس کی بیوی نے ایک اور شخص سے نکاح کیا اور رسول اللہ ۖ کے پاس آئی اوراپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر عرض کیا کہ میرے شوہر کے پاس ایسا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے پوچھا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس واپس جانا چاہتی ہو؟۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ دوسرا شوہر تیرا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے نے چکھا ہے۔ اور تو دوسرے شوہر کا ذائقہ ایسا چکھے جیسے پہلے والے کا چکھا ہے”۔ اس واہیات حدیث کو پڑھ کر مولوی حضرات بھی چکر کھاجاتے ہیں اور عورت اور اس کا شوہر بھی دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ حالانکہ کسی نامرد سے حلالہ کروانے کا تو کوئی کم عقل مفتی بھی قائل نہیں ہے۔ بخاری میں واضح ہے کہ رفاعہ القرظی نے مرحلہ وار طلاقیں دی تھیں اور دوسرے شوہر نے اس کی اس بات کی تردید کی تھی کہ وہ نامرد ہے۔ بخاری نے امام ابو حنیفہ کو شکست دینے کیلئے امام شافعی کی حمایت میں یہ روایت بیان کی ہے جس کے امام شافعی خود بھی قائل نہیں تھے۔ مدعی سست گواہ چست۔ لیکن ہمارے علماء خواہ مخواہ کے شیخ الحدیث بنے ہوئے ہیں۔

نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی اصل عمر کا مسئلہ

حضرت عائشہ سے ان کی بڑی بہن حضرت اسمائ بنت ابی بکر10سال بڑی تھیں۔ اور حضرت اسمائ کی وفات73ہجری میں100سال کی عمر میں ہوئی تھی۔ صحیح بخاری سے بڑی غلط فہمی پھیلی ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر نکاح کے وقت6سال اور رخصتی کے وقت9سال تھی۔ حالانکہ اس پر کئی کتابیں اور تحقیقات لکھی جاچکی ہیں جن میں بڑے بڑے لوگ ہیں کہ یہ حقائق اور قرائن کے بالکل منافی ہے۔ عربی میں بچی کو طفلة اور لڑکی کو بنت کہتے ہیں اور مدارس و اسکول بھی اطفال اور بنات کے الگ الگ ہوتے ہیں۔6سے9سال تک کی عمر پر طفلة کا اطلاق ہوتا ہے اور صحیح بخاری میں بنت کا ذکر ہے۔ قرآن میں یتیم لڑکوں کیلئے بھی حتیٰ اذا بلغوا النکاح ”یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائیں” کا ذکر ہے اور جب لڑکوں کیلئے نکاح کی عمر ہے تو کیا لڑکیوں کی نکاح کی عمر عرف عام میں نہیں ہوتی ہے؟۔ جب لڑکیوں کے نکاح کی عمر بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے تو پھر حضرت عائشہ کے نکاح کی عمر میں کوئی ابہام ہوسکتا ہے؟۔ حضرت اسمائ بڑی بہن کے لحاظ سے آپ کی عمر نکاح کے وقت16سال اور رخصتی کے وقت19سال بنتی ہے۔ پاکستان میں کم عمری کے نکاح پر قانوناً بھی پابندی ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سنت پر پابندی لگادی گئی ہے؟۔ اور کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ فلاں مولوی اور پیر صاحب اپنی بچی یا پوتی وغیرہ کا نکاح6سال کی عمر میں اور رخصتی9سال کی عمر میں کرنا چاہتا ہے لیکن حکومت پاکستان اس میں رکاوٹ ہے؟۔
بخاری میں ڈھیر ساری رفع یدین کی احادیث ہیں لیکن وہ نہیں مانی جاتی ہیں اور تصاویر کی حرمت کے بارے میں بھی احادیث ہیں لیکن جب جدید دور میں تصاویر کا ایک طوفان کھڑا ہوا ہے تو مولوی چاروں شانوں اوندھا اس کے آگے لیٹ گیا ہے۔ جب اس کو حرام قرار دیتا تھا تب بھی وہ تصاویر کی حرمت سے ناواقف تھا اور آج بھی وہی حالت ہے۔

ابنت الجون کے نکاح کا بخاری میں اصل قصہ

بخاری میں اتنا ہے کہ ابنت الجون کو نبی ۖ کے پاس ایک باغ کے کمرے میں لے جایا گیا اور نبی ۖ نے خلوت میں کہا کہ مجھے خود کو ہبہ کردو تو اس نے کہا کہ کیا ملکہ بھی ایک بازارو کے حوالے خود کو کرسکتی ہے؟۔ نبی ۖ نے ہاتھ بڑھایا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ جس پر نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ آپ نے اس کی پناہ مانگی جس کی پناہ مانگی جاتی ہے۔ اور دو چادر دے کر کسی سے کہا کہ اس کو اپنے گھر پہنچادو۔ (صحیح بخاری)۔ اس پر بخاری کے شارح نے لکھا کہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے بغیر نکاح کے اس سے خلوت کیسے کی؟۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی ۖ کا صرف آپ کو طلب کرنا نکاح کیلئے کافی تھا چاہے وہ راضی تھی یا نہیں اور اس کا ولی راضی تھا یا نہیں۔ اس جواب کو دیوبندی مکتبہ فکر کے مولانا سلیم اللہ خان اور بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ غلام رسول سعیدی نے بھی اپنی اپنی بخاری کی شرح میں نقل کرکے تھوڑی عقل سے کام نہیں لیا اور پوری دنیا میں سنت کا مذاق بنادیا۔ حالانکہ نبی ۖ نے اس کا حق مہر ادا کیا تھا۔ اس کے باپ نے خود پیشکش کی تھی اور ازواج مطہرات نے بناؤ سنگھار کرکے نبی ۖ کے پاس بھیجا تھا۔ انہوں نے سوکناہٹ کی وجہ سے ابنت الجون کو سمجھایا تھا کہ یہ یہ کہنا ہے تاکہ نبی ۖ اس کو فارغ کریں۔ پھر جب نبی ۖ نے فارغ کیا تو اس کے گھر والوں نے کہا تھا تو بڑی کمبخت ہے کہ اس شرف سے محروم رہی۔ یہ واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے سے بھی زیادہ احسن اسلئے تھا کہ نبی ۖ نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر لڑکی راضی نہ ہو تو اس کو واپس گھر بھیجا جائے اور ہاتھ لگانے سے پہلے اس کی رضامندی کیلئے بھرپور جانچ پڑتال بھی کی جائے اور یہ ازواج مطہرات کو پتہ تھا۔
چونکہ یہ خلع کا معاملہ بنتا تھا اسلئے جو حق مہر دیا تھا وہ بھی اپنی جگہ پر تھا اور اس کے علاوہ چادریں دیں تو وہ نبی ۖ کی طرف سے مزید اضافہ تھا۔ اگر قرآن اور سنت کی ایک ایک بات کو ملایا جائے تو رسول اللہ ۖ کی سیرت طیبہ قرآن کا مرقع نظر آتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ علماء و مفتیان نے تو قرآن کی واضح تعلیمات کا بھی اپنی فقہ کی کتابوں میں معاملہ بگاڑ دیا ہے۔ اللہ کرے کہ مذہبی طبقہ قرآن کی طرف رجوع کرکے اپنے کردار اور اپنے علم کے ذریعے عوام کی بہترین رہنمائی کرے۔

(نوٹ: عورت کے حقوق پر مارچ2024کاشمارہ ضرب حق کی ویب سائٹ پر مکمل پڑھیں۔)
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ مارچ۔ عورت مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

 

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز