پوسٹ تلاش کریں

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز اخبار: نوشتہ دیوار

عورت مارچ کیلئے ایک تجویز

اسلام آباد عورت مارچ میں پریس کلب سے تھانہ کوہسار ہمیں پہنچادیا گیا۔رات گئے ہمیں رہا کردیا گیا۔ ہم لوگوں کی چاہت تھی کہ عورت کے حقوق اور مشکلات سے متعلق وہ ٹھوس شواہداوراس ان کا حل ان کے سامنے رکھیں تاکہ دنیا میں وطن اور اسلام کیساتھ ان خواتین کا نام بھی روشن ہو جو بہادری سے اپنی بہترین اسٹر گل جاری رکھی ہوئی ہیں۔ مذہب ٹھکرانے ہی سے دنیا نے عورت کو حقوق دئیے مگر اسلام انکا بہترمحافظ ہے۔
اللہ نے جو حقوق دئیے ہیں وہ مذہبی طبقات نے چھینے۔
حق مہر: قد علمنا ما فرضنافی ازواجھم ”تحقیق ہم جانتے ہیں جو ہم نے ان مردوں پرعورتوں کامہر فرض کیاہے”
مولوی پڑھاتا ہے کہ اللہ نے حق مہر فرض کیا ہے لیکن کتنا؟ یہ وہی جانتا ہے۔ مخلوق کو اس کا احساس تک نہیں دیا گیا ہے۔ کم ازکم حق مہر کا یہ ہے کہ جس امام کے ہاں چور کا ہاتھ جتنی رقم میںکٹتا ہے اتنی رقم حق مہر میں فرض کردی گئی ہے۔ مسلک حنفی میں10روپے پر ہاتھ کٹنا ہے۔ کسی امام کے ہاں چار آنے اور کسی کے ہاں ایک پیسہ پر ہاتھ کٹتا ہے تو اسکے نزدیک اتنی رقم کم ازکم عورت کے حق مہر میں فرض ہے۔ کیونکہ چور ایک عضوء ہاتھ سے جتنی رقم میں محروم ہوتا ہے اتنی رقم میں آدمی اپنی عورت کے ایک عضوء شرمگاہ کا مالک بن جاتا ہے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اپنی کتاب ”کشف الباری شرح صحیح بخاری” میں یہ تفصیلات درج کردی ہیں۔ عورت اپنی بڑی توہین محسوس کرتی ہے کہ مذہبی بہروپ میں اس کی عزت و تقد س کو کس طرح چور کے ہاتھ سے تشبیہ دے کر پامال کیا گیا ہے؟۔
جب حضرت عمر نے عورت کا حق مہر کم مقرر کردیا تو اس پر ایک عورت نے کہا کہ تم کون ہوتے ہو،ہمارا حق مہر مقرر کرنے والے جب اللہ نے کم مقرر نہیں کیا ہے؟۔ جس پر عمر نے غلطی کا اعتراف کرلیا اور عورت کو ٹھیک قرار دے دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اللہ نے اپنے علم میں پوشیدہ رکھا ہے کہ کتنا حق مہر فرض ہے؟ جس کیلئے اندھے کو شبِ دیجور کی سوجھی؟۔
لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوھن او تفرضوا لھن فریضة و متعوھن علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ متاعًا بالمعروف حقًا علی المحسنین ”کوئی حرج نہیں ہے کہ جب تم عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دواور حق مہر مقرر نہ کیا ہو تومالدار پر اس کی وسعت کے مطابق اور فقیر پر اس کی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے مال ومتاع ہے اچھے لوگوں پر حق ہے”۔
اس آیت میں بات بالکل واضح ہے کہ حق مہر کا تعلق مرد کی وسعت سے ہے۔ ایک کروڑ پتی پر کتنا ہونا چاہیے اور ایک فقیر بے نوا پر کتنا ہونا چاہیے ؟اس کا حکم معاشرے میں معلوم ہے۔
عرب اور پشتون تو حق مہر نہیں رکھتے بلکہ بیچ دیتے ہیں اور پنجاب وہندوستان میں مرد جہیز کا بھی خود کو حقدار سمجھتا ہے اور اسکے نتیجے میں اللہ کا ایک اہم حکم لایعنی بن کر رہ گیا ہے۔لندن میں رہنے والے مفتی عتیق الرحمن سنبھلی نے مفتی تقی عثمانی کو خط لکھ دیا تھا کہ ”عورت کے حق مہر کا مقصد کیاہے؟۔ یہ معاوضہ ہے یا پھر کچھ اور؟۔ بعض آیات میں اس کو اجر سے تعبیر کیا گیا۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ”بندہ ناچیز کے نزدیک یہ ایک اعزازیہ ہے”۔ حالانکہ ایک عورت کے تحفظ کی یہ ضمانت ہے۔ مفتی تقی عثمانی کے ایک بھتیجے کی بیوی فوت ہوگئی تو ان کے ایک مرید اور عقیدت مند نے اپنی بیٹی دے دی اور پھر اس نے چھوٹے بچے بہت مشکل سے پالے اور بچوں کی اپنی ماں نے دوسرے شوہر سے شادی کی تھی۔ جب اسکے شوہر کا انتقال ہوگیاتو اس کو دوبارہ گھر میں لایا گیا اور اس بے چاری کو باپ کے گھر جانے کے بعد پیغام دیا گیا کہ واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں طلاق دی جاچکی ہے۔ وہ عورت ابھی کسم پرسی کی زندگی گزاررہی ہے اور کسی سہارے کی تلاش میں ہے۔ اگر حق مہر شوہر کی حیثیت کے مطابق ہو تو پھر کسی خوشخال گھرانہ سے طلاق شدہ عورت کو اس گھرانے کے مطابق بڑی مقدار میں اتنی رقم مل جاتی کہ رشتہ ٹوٹنے پر زیادہ غم نہ ہوتا۔
جب ہاتھ لگانے سے پہلے نصف حق مہر فرض ہے تو استعمال کے بعد کتنا حق مہر ہونا چاہیے؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں سب کچھ واضح کردیا ہے۔ اس مرتبہ کا عورت مارچ اسلام آباد ”ماہ رنگ بلوچ” کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ نے ”عورت مارچ” کے خلاف سخت مؤقف کا اظہار کیا تھا لیکن جب ”عورت مارچ” والوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ساتھ دیا تو پھر غلط فہمیاں بھی دور ہوگئی ہیں۔ قوم پرست، عورت مارچ اور کامریڈ لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبی طبقہ ریاست ، روایتی اقدار اور سامراجیت کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے اسلئے ان سے قدرے فاصلہ اور نفرت رکھتے ہیں لیکن اسلام ایسا ہرگز نہیں ہے البتہ مولوی استعمال ہوتاہے۔
ماما قدیر بلوچ نے ایک بلوچ سے کہا کہ نوشتۂ دیوار اخبار پڑھ لیا کرو،تو بلوچ نے بتایا کہ ہم ژوب میں ہینڈ پمپ لگاتے تھے تو ایک پشتون نے کہا کہ ” ہمیں اس کی ضرورت نہیں اسلئے کہ جب20،25لاکھ میں عورت خریدیں گے تو گھر میں اس کو بٹھا کر نہیں کھلاسکتے۔ پانی بھی لائے گی اور کام کاج بھی وہ کرے گی۔ اتنی زیادہ رقم پھر ہم کس لئے خرچ کرتے ہیں؟”۔
علماء ومفتیان نے ”درسِ نظامی ” اور ”نصاب تعلیم” میں ان تمام حقوق کو پامال کردیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ان کو دئیے ہیں۔ ہم افراد اور مخصوص قوموں کی بات نہیں کرتے۔ مجھے اطلاع ملی کہ حاجی ہمش گل محسود ( تبلیغی جماعت والے) نے مفت میں اپنی بیٹی دینے کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے اپنی کوئی ایک بیٹی بھی نہیں بیچی بلکہ علماء اور دیندار طبقے کو مفت میں ہدیہ کے طور پر دی ہیں۔ حالانکہ نبیۖ سے اللہ نے فرمایا ہے کہ کوئی بھی عورت اپنے آپ کو آپ کے علاوہ ہبہ نہیں کرسکتی۔ تبلیغی جماعت والے علماء نہیں ہوتے لیکن اچھے لوگ دین پر کچھ نہ کچھ عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ عورت کو مفت میں دینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔PTMکے منظور پشتین نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مفت میں اپنی بیٹیاں اور بہنیں دے گا۔ خلوص اپنی جگہ لیکن مسائل کا حل خلوص کیساتھ علمی اور معاشرتی حل ہے۔
میری ایک گھر والی سندھی اور دوسری بلوچ ہے۔ جب میں سندھی گھر والی کو کراچی سے اپنے گھر پختونخواہ لے گیا تو اس کو مذاق میں کہا گیا کہ تمہارے گھر والوں نے مفت میں تمہیں دیا ہے جس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ ”میں انمول ہوں۔ عورت کی کوئی قیمت ہوتی ہے اور عورت بکنے کی چیز ہے؟”۔
شادی مرد کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عورت کی بھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب شادی ناکام ہوتو پھر عورت کو نقصان ہوتا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کیلئے اللہ نے عورت کا حق مہر اپنی وسعت کے مطابق معروف طریقے سے رکھا ہے۔ کل جب شوہر طلاق دے یا عورت خلع لے تو پھر اس میں عورت کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہو۔ مولوی نے ہر چیز کو الٹا ہی لیا ہے۔ جب حق مہر مرد پر فرض کردیا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے بھی وسعت کے مطابق حق مہر رکھا ہے اور مقرر کردہ حق مہر کا نصف فرض قرار دینے کے بعد اتنی وضاحت کردی ہے کہ اگر عورت نصف میں سے کچھ معاف کردے یا مرد نصف سے زیادہ دے تو اس کی گنجائش ہے لیکن جس کے ہاتھ میں نکاح کا گرہ ہے مناسب یہی ہے کہ وہ حق سے زیادہ دیدے ۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ معاملہ یہاں خلع کا نہیں بلکہ طلاق کا ہے اور طلاق کا اقدام مرد کررہاہے تو مرد سے اچھے کی توقع رکھنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان الفاظ کو پکڑ کر مولوی طبقے نے قرار دیا ہے کہ طلاق صرف اور صرف مرد کا حق ہے۔ عورت کو خلع کا حق اللہ نے نہیں دیا ہے۔ پھر تعبیرات کیلئے جہاں اللہ نے خلع واضح کردیا ہے اس کو بھی ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آیت19النساء اور جہاں خلع مراد ہونہیں سکتا آیت229البقرہ ۔ وہاں آیت میں خلع مراد لیا ہے۔ عورت مارچ کی خواتین نے اگر قرآن کی واضح تعلیمات کو سمجھ لیا اور اس کو اٹھایا تو پھر ساری دنیا میں لوگ قرآن وسنت کی تعلیمات کو آئیڈیل قرار دیکر عورت کے حقوق کا ڈنکا بجادیں گے۔ ہم مسلسل لکھ رہے ہیں لیکن جس دن بھی اس طرف عورت مارچ، علماء ومفتیان اور عوام کی توجہ ہوئی تو یہ ایک بڑا انقلاب ہوگا۔ ایک عورت کا شوہر ایک ہی ہوتا ہے لیکن اس کا ایک باپ، کئی بھائی ، بیٹے،چچا،ماموں اور قبیلے کے حضرات ہوتے ہیں جو اس کو تحفظ دینے کیلئے اٹھ سکتے ہیں۔
پٹھان نے عورت کی قیمت رکھ کر اس کو خلع کے حق سے بھی محروم کردیا ہے لیکن پنجابی نے جہیز دے کر بھی عورت کو خلع کے حق سے محروم کیا ہے۔ حق مہر عورت کا حق ہے تاکہ اس کا کوئی استحصال معاشرے میں نہ ہو۔ جب میاں بیوی خوشی سے اپنی زندگی گزار رہے ہوں تو پھر عورت کی طرف سے حق مہر میں کچھ معاف کیا جائے تو اس کو خوشی خوشی کھانے کی اجازت ہے۔
ہمارے ہاں معاشرے میں حق مہر کے اندر اعتدال نہیں ۔ پشتون حق مہر کے نام پر عورت بیچ دیتے ہیں اور پنجابی جہیز کے ساتھ ہبہ کردیتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عورت کا استحصال اسلئے ہوتا ہے کہ مولوی نے حق مہر کی افادیت ختم کردی ہے۔
حکومت ،ریاست ، عدالت اور اپوزیشن عمران خان کی بیگم بشریٰ بی بی کے درمیان عدالتی فیصلہ افہام وتفہیم کیلئے بہت بڑی بنیاد بن سکتا ہے۔ جس سے شیعہ سنی اور حنفی واہلحدیث میں بھی قربت آسکتی ہے اور1973کے آئین میں یہ پہلی رحمت کی بارش بن سکتی ہے۔ عدالت کے جج نے جو سزا دی ہے اصل وجہ کچھ بھی ہو لیکن شیعہ سنی،حنفی اہلحدیث اور تمام مذہبی طبقات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ”عورت عدت میں کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی ہے اور قرآن وسنت میں عدت کے اندر نکاح سے روکا گیا ہے اور شوہر کو عدت میں رجوع کا حق حاصل ہے”۔
جب خاور مانیکا نے عدالت میں بیان دیا کہ اس نے طلاق دی اور عدت میں اس کا حق رجوع مجروح ہوا ہے تو جج نے اس پر بشریٰ بی بی اور عمران خان دونوں کو7،7سال قید اور5،5لاکھ روپے جرمانہ کی سزا دی ہے۔ اصل مسئلے کے کچھ حقائق کھل کر سامنے آئے ہیں۔ مفتی عبدالقوی تحریک انصاف علماء ونگ کے صدرتھے۔ اس نے بتایا کہ خاورمانیکا نے کہا تھا کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں اور اب حلالہ کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے؟۔ ظاہر ہے کہ بشریٰ بیگم حلالہ کی لعنت کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ خاورمانیکا نے کہا ہوگا کہ عدت قرآن کے مطابق گھر میں گزارلو اور بشریٰ بی بی نے عدت پوری کی ہوگی اور پھر گھر سے نکل کر اپنے گھر میں منتقل ہوئی ہوگئی۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ5ماہ سے ناراضگی چل رہی تھی اور اس کو اس بات پر بڑی حیرانگی ہوئی کہ جب بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا۔ لیکن اس کے کہنے پر اس نے طلاق لکھ کر دے دی۔ اس تحریری طلاق سے پہلے ظاہر ہے کہ شرعی عدت پوری ہوچکی تھی لیکن قانونی تقاضا پورا کرنے کیلئے طلاق مانگی گئی اور اس کے ڈیڑھ ماہ بعد عمران خان سے اس کا نکاح مفتی سعید خان نے پڑھادیا۔ عدت اس سے پہلے پوری ہوچکی تھی لیکن تحریری اور قانونی نکاح کی عدت پوری نہیں ہوئی تھی۔ جب تحریری طلاق کی عدت پوری ہوگئی تو دوبارہ بھی قانونی نکاح ایک مرتبہ پھر مفتی سعید خان نے پڑھایا تھا۔ اس کی خبر اسی وقت عمر چیمہ نے جیونیوز پر دے دی تھی۔
جب عمران خان اور بشریٰ بی بی کی تقدیر بدلنے کی مصنوعی کوششوں کا آغاز ہوگیا تو خاور مانیکا منظر عام سے غائب کئے گئے اور پھر اس نے شدید دباؤ کے تحت اپنی کرپشن اور کیسوں کا مسئلہ بچانے کیلئے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف سلطانی گواہ بننے کا فیصلہ کرلیا اور یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ بھی نہیں ہے۔
خاور مانیکا نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف گواہی دی کہ انہوں نے عدت میں نکاح کرکے میرا حق رجوع مجروح کیا ہے اور نکاح خواں اور گواہ بھی سامنے گئے تو جج نے ٹھوس ثبوت مہیا ہونے پر بے دھڑک اپنی صوابدید پر سزا دیدی اسلئے کہ عدالت میں تحریری طلاق اور نکاح خواں اور گواہ معتبر ہیں۔
اگر قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جائے تو علماء ومفتیان کے اندر اختلافات کے پہاڑ بھی گر سکتے ہیں اسلئے کہ طلاق کی عدت اور خلع کی عدت میں بھی فرق ہے۔ جب خاورمانیکا سے بشریٰ بی بی نے تحریری طلاق کا مطالبہ کیا تو یہی خلع ہے اور خلع کی عدت ایک حیض یا ایک مہینہ ہے۔ تحریری طلاق کے ایک ماہ بعد نکاح ہوا تھا اسلئے عدالت خلع کے مطابق نکاح کے درست ہونے کا فیصلہ دیدے اور ان سزاؤں کو معطل کیا جائے۔ ہمارا آئین قرآن وسنت کا پابند ہے۔ سعودی عرب کی عدالتوں میں بھی خلع کیلئے حدیث کے مطابق ایک ماہ کی عدت ہے۔ بشریٰ بی بی کے حق کیلئے اس فیصلے سے بہت ساری خواتین کا مسئلہ حل ہوگا اور پاکستان میں ریاست مدینہ زندہ ہوجائے گی۔
قرآن میں سب سے پہلی عدت کا بیان ناراضگی کی صورت میں4مہینے ہے۔ آیت226البقرہ۔ خاور مانیکا کے بقول بھی ناراضگی کی عدت پوری ہوگئی تھی۔ میں اپنی کتابوں اور اخبار ی کالموں میں اس پر تفصیل سے دلائل بھی دے چکا ہوں اور اسکی وجہ سے عوام الناس کا قرآن وسنت کی طرف رجوع بھی ہوگا۔ علماء ومفتیان بھی اپنے باطل اختلافات، مسالک اور فرقہ پرستی کی آگ سے اسکی وجہ سے بہت جلد نکلنے میں کامیاب ہوگی۔
اسلام کا معاشی اور معاشرتی نظام واحد ذریعہ ہے جو بحران سے پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا کو نکال سکتا ہے۔ ایک معروف شخصیت شاہ ولی اللہ سے برصغیر پاک وہندکے علماء اور مشائخ بڑی عقیدت ومحبت رکھتے ہیں۔ جب انہوں نے پہلی مرتبہ قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تو واجب القتل کے فتوے لگ گئے اور ان کو کچھ عرصہ تک عوام سے بھی روپوش ہونا پڑا تھا۔ آج قرآن کے تراجم بالکل عام ہیں۔ علماء سے زیادہ جدید مفکرین مولانا سیدابولاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد اور جاوید غامدی پر پڑھے لکھے لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ اسلئے کہ علماء ومفتیان کی فکر کو انہوں نے سلیس اور عام فہم زبان میں عام کردیا ہے۔
میں نے مدارس کی خاک چھانی ہے اور مولانا بدیع الزمان اور بڑے اچھے اچھے اساتذہ کرام کی خدمت میں زانوتلمذ طے کیا ہے اور ان سے نصابی تعلیم میں بڑی بڑی غلطیوں کی داد بھی پائی ہے اور ان سے مزاحمت اور امید کے آداب پائے ہیں۔
خلع کے بارے میں قرآنی آیات229البقرہ نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور اس کی وجہ سے مذہبی طبقات جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خلع کے بارے میں سورہ النساء آیت19ہے اور اس میں نہ صرف عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے بلکہ مالی تحفظ بھی دیا گیا ہے جبکہ آیات20،21میں پھر مردوں کو طلاق کا حق اور عورت کو مالی تحفظ دیا گیا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کی علمبردار ہدی بھرگڑی وغیرہ نے تھوڑی سی توجہ دیدی تو پورے سندھ، پاکستان ، عالم اسلام اور پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا ہوجائے گا۔ مغرب سے بھی زیادہ اسلام نے عورت کو حق دیا مگر مولوی نے چھین لیا ہے۔
حسن الہ یاری نے کہاہے کہ حضرت عمر نے ایک ساتھ تین طلاق پر فیصلہ دے کر حلالہ کیلئے راستہ کھول دیا ہے حالانکہ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی طلاق کے بعد شوہر کے یکطرفہ رجوع کا اختیار اللہ نے قرآن میں ختم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر نے تنازعہ کا فیصلہ قرآن کے مطابق کیا اور حضرت علی نے بھی یہی کیا تھا کہ جب شوہر نے عورت کو حرام قرار دیا اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تویہ فیصلہ دیدیا کہ شوہر رجوع نہیں کرسکتا۔ صحابہ کرام کے مسالک میں کوئی فرق نہیں تھا اور قرآن سے احادیث صحیحہ بھی متصادم نہیں ہیں لیکن علماء وفقہاء اور فرقہ واریت کے ناسور نے قرآن وسنت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جس دن ہمارے معاشرتی نظام کو قرآن وسنت کے مطابق بنادیا تو غیرمسلم بھی اپنے لئے اسی فطری نظام کو پسند کریںگے اور دینا میں ایسی خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوگی کہ آسمان وزمین والے دونوں کے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ عورت آزادی8مارچ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ یہ مزاحمتی تحریک خوشیوں کے شادیانے بجانے میں مگن ہوگی۔
عورت میں اللہ نے اپنی عزت کے تحفظ کی فطرت کا مادہ رکھا ہے۔ حٰفظٰت للغیب بما حفظ اللہ ” وہ غیب میں اپنا تحفظ کرتی ہیں جو اللہ نے ان میں یہ فطری مادہ رکھا ہے”۔
پوری دنیا میں عورت آزادی مارچ کا دن منایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اسکے خلاف بہت غلیظ پروپیگنڈہ ہے کہ انکا مقصد جنسی بے راہ روی ہے۔ حالانکہ یہاں کب اس پر پابندی ہے؟ پھر دنیا بھر میں کیوں منایا جاتا ہے جن کو جنسی آزادی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟۔ جب اللہ نے آدم وحواء کو ایک شجرے سے منع کیا اور دونوں نے نافرمانی کردی ۔ جس کی وجہ سے ان کی شرمگاہیں کھل گئیں اوروہ جنت کے پتے ان پر چپکانے لگے تو اللہ نے اس کا ذمہ دار حضرت حواء کو نہیں حضرت آدم کو ٹھہرایا اور فرمایا:عصٰی آدم ربہ فغویٰ ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو حد پار کردی”۔ اسلئے عورتوں کی اس تحریک کو غلط رنگ دینا انتہائی قابل مذمت ہے۔ عورت کو باعزت مقام دینا مرد کی اپنی عزت ہے۔ پورے قرآن میں عورت پر کوئی ایسا جبر نہیں ہے جو مذہبی طبقات اپنی طرف سے فرض کئے ہوئے ہیں اور عورت اس جبر کی مخالفت میں اپنی سرتوڑ کوشش کررہی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ موٹی موٹی باتیں بھی مولوی کی سمجھ نہیں آرہی ہیں تو عورت کا اپنے حق کیلئے نکلنا بالکل قابل فہم بات ہے۔

(نوٹ: اس پوسٹ کے ساتھ عنوان ” ہدیٰ بھرگڑی کا تفصیلی ویلاگ” کے تحت پوسٹ پڑھیں۔)

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ مارچ2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز