پوسٹ تلاش کریں

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو! اخبار: نوشتہ دیوار

آواز آئی کہ تمہاری طلاق نہیں ہوئی ،قرآن کھول کردیکھ لو!

مفتی اکمل ، مفتی کامران شہزاد ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دار العلوم کراچی وغیرہ سے فون کرکے فتویٰ پوچھ لیا
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد نے کہا کہ رجوع کرلو اور دارالعلوم کراچی نے کہا کہ نہیں ہوسکتا۔

محمد خرم رحیم یار خان نے بیگم کو طلاق دی۔ اس نے خواب دیکھاکہ ”آواز آئی ،تمہاری طلاق نہیں ہوئی۔ قرآن سورہ بقرہ آیت228کھول کر دیکھ لو۔ آنکھوں کے سامنے قرآن کھلا دکھائی دیا اور آیت228البقرہ کو دیکھا ” تسلی ہوگئی مگر مختلف مدارس و علماء سے رابطہ کیا۔ خرم صاحب کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مفتی کامران شہزاد سے فون پر رجوع کا فتویٰ مل گیا۔ دارالعلوم کراچی سے رجوع کا فتویٰ نہ ملا ۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی نے کراچی اور حیدر آباد کے کوؤں کو کھانا جائز قرار دیا تھا۔ اگر انکے مدارس میں کو ؤں کا گوشت کھلایا جائے اور رقم فلسطین کو بھیج دی جائے تو بڑاشعوری انقلاب آجائے گا۔ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے لکھا کہ میزان بینک کا سود حرام ہے۔ مزدور بھی گدھے کا گوشت نہ کھائے گا۔
دورجاہلیت میں بیوی سے کوئی کہتا تھا کہ”3طلاق” توپھر اس کو حلالہ کرنا پڑتا تھا۔یہ غصے اور غضب کی حالت میں انتہائی ملعون عمل تھا۔ نبی ۖ نے اس پر اللہ کی لعنت فرمائی تھی اور اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت228میں اس کا خاتمہ کردیا تھا۔
المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء …… وبعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا ”طلاق والی عورتیں3ادوار (طہرو حیض) تک انتظار کریں… اورانکے شوہر اس میں اصلاح کی شرط پر رجوع کے زیادہ حقدار ہیں”۔ (سورہ البقرہ آیت228)حنفی مسلک کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ شوہرکو عدت میں صلح کی شرط پر رجوع کا فتویٰ دے دیتے۔اسلئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں رجوع کو صلح و اصلاح کی شرط پر عدت کے تینوں ادوار میں جائز قرار دے دیا تو پھر اس کے بعد قرآن کی کوئی ایسی آیت بھی نہیں ہوسکتی تھی کہ صلح و اصلاح کی شرط کے باوجود بھی عدت میں رجوع کا راستہ روکے ،اسلئے کہ قرآن میں تضاد نہیں ہے۔
بڑی زبردست بات یہ تھی کہ قرآن کی اس آیت228البقرہ نے صرف حلالہ کی لعنت کو ختم نہیں کیا ہے بلکہ عدت کے اندر بھی صلح و اصلاح کی شرط کے بغیر رجوع کا راستہ بھی روکا ہے۔ کیونکہ دورِ جاہلیت میں ایک طرف حلالہ کی بھی لعنت تھی تو دوسری طرف شوہر کو بھی عدت میں رجوع کی اجازت تھی۔اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی دونوں رسموں کو اس آیت میں بالکل ختم کرکے رکھ دیا تھا۔
پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا کہ امام باقر نے فرمایا کہ قرآن کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور پھر ایک ظاہر ہے۔ ایک باطن ہے اور پھر ایک باطن ہے۔
آیت228البقرہ کاایک ظاہرتو یہ ہے کہ ” طلاق کے بعد عورتوں کی عدت کے3ادوار ہیں یا پھر اگر حمل ہو تو حمل اس کی عدت ہے اور اس میں شوہروں کو انکے لوٹانے کا زیادہ حق ہے بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں”۔
دوسرا ظاہر یہ ہے کہ ” دورِ جاہلیت کا مسئلہ تھا کہ ایک ساتھ3طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔اس آیت سے اس جہالت کا خاتمہ کردیا اور یہ بھی مسئلہ تھا کہ عدت میں شوہر جتنی بار چاہتا تھا تو رجوع کرکے عورت کو ستا سکتا تھا اس جاہلیت کو بھی ختم کردیا اور بیوی کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا”۔
اس آیت کا ایک باطن یہ ہے کہ ” جب حضرت عمر نے ایک ساتھ3طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو وہ بالکل ٹھیک تھا اسلئے کہ بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی ۔ لیکن حضرت عمر کے اس فیصلے کے دفاع میں قرآن سے دوری کی وجہ سے حضرت عمر کے عقیدتمندوں نے یہ مراد لیا کہ باہمی رضامندی سے بھی پھر رجوع نہیں ہوسکتا۔ جس کی وجہ سے حلالے کی لعنت کا دروازہ کھل گیا ہے”۔
اس آیت کا دوسرا باطن یہ ہے کہ ” اگر بیوی راضی نہ ہو تو پھر شوہر رجوع کا حق نہیں رکھتا ہے ۔ شیعہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے گمراہی کا شکار ہوں گے اور وہ عورت کی رضامندی کے بغیر بھی شوہر کو رجوع کا حق دیں گے”۔
اگر قرآن کے ظاہر اور باطن کا ادراک کرتے ہوئے شیعہ سنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کریں گے تو دونوں گمراہی سے نکل جائیں گے۔ قرآن میں شبہ نہیں ہے لیکن احادیث کی روایات100سال بعد لکھی گئی ہیں۔ دونوں طبقات نے قرآن کو چھوڑ کر اپنی اپنی مسلکانہ روایات کو بھی بالکل گمراہی کی بنیاد پر لیا ہے اور اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے فرقہ واریت کو چھوڑ کر انسانیت کو اپنانا ہوگا۔
جو آیت جس مقصد کیلئے نازل ہو۔ اگر اس کو اپنے محور سے ہٹادیا جائے تو پھر معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ حلالہ کے خاتمے کیلئے آیت228البقرہ ہے اور اس میں طلاق کے بعد باہمی اصلاح کے بغیر رجوع کا دروازہ بند ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر آیات اور احادیث بھی اس کو سپورٹ کرتی ہیں۔ اکٹھی تین طلاقوں کا تصور حلالہ کیلئے خطرناک تھا اسلئے عدت میں باہمی اصلاح سے رجوع کا دروازہ کھول دیا تو اب حلالہ کیلئے راستہ نہیں بن سکتا تھا۔ حضرت عمر نے حلالہ کی لعنت کا دروازہ کھولنے کیلئے اکٹھی تین طلاق پر رجوع کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ عورت رجوع کیلئے راضی نہ تھی تب یہ فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فتویٰ نہیں دینا تھا بلکہ فیصلہ کرنا تھا ۔ فیصلہ فریقین کی رائے سن کر کیا جاتا ہے اور حضرت عمر نے عورت کے حق میں قرآن کے مطابق فیصلہ کیا تو یہ فاروق اعظم کے اعزاز کو باقی رکھنے کیلئے تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں پختونخواہ میں ایک شخص نے دوبئی سے بیوی کو فون پر3طلاقیں دیں اور پھر پشیمان ہوا۔ مولوی سے فتویٰ لیکر شوہر کے بھائی نے عورت کو زبردستی سے حلالے پر مجبور کیا تو عورت نے کیس کردیا جس کی وجہ سے مولانا صاحب کو بھی جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ حضرت عمر نے اسلئے واضح کیا تھا کہ اگر حلالے کی خبر مل گئی تو اس پر حد جاری کروں گا کہ مرد زبردستی بھی کرسکتے تھے۔
جب شیعہ عورت کو مرحلہ وار شیعہ مسلک کے مطابق طلاق مل جائے اور پھر کچھ عرصہ بعد دونوں کا پروگرام بن جائے کہ آپس میں رجوع کرلیں تو قرآن نے حلالہ کے بغیر رجوع کی اجازت دی ہے ۔ شیعہ کو بھی میں نے حلالہ کی لعنت سے بچایا ہے۔ شیعہ بھی اعلان کردیں کہ جب آیت231اور232البقرہ اور آیت2سورہ طلاق میں عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی باہمی رضامندی سے رجوع کی اجازت ہے تو بالکل کرسکتے ہیں۔ فقہ جعفریہ والوں نے دوسروں کی دیکھا دیکھی مسائل گھڑ لئے ہیں۔ اگر ان کے ائمہ نے بھی ماحول میں اجتہاد کیا ہے تو سورہ مجادلہ سے رہنمائی لیکر اس کو غلط قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن کے مقابلے میں حنفی اور جعفری کسی مسلک کی کوئی حدیث یا روایت ہے تو وہ من گھڑت اور باطل ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کیساتھ حق اور قرآن کیلئے اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل و امریکہ نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکاکر شیطان ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ اتنا تو سورہ طلاق میں بھی واضح ہے کہ ” اگر عدت کے مطابق مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق دے دی تو بھی عدت کی تکمیل کے بعد معروف طریقے سے رجوع یا معروف طریقے سے الگ کرنا ہوگا اور اس پر دوعادل گواہ بھی مقرر کرنے ہوں گے”۔ جس سے شیعہ اور سنی دونوں کا طریقہ طلاق باطل ہوجاتا ہے اسلئے کہ شیعہ مرحلہ وار گواہوں کو مقرر کرکے عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں چھوڑتے اور سنی طلاق میں بدعت کے نام سے عدت میں بھی رجوع کی گنجائش نہیں بنتی۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق اور خلع میں حقوق کا فرق ہے ۔ طلاق شوہر دیتا ہے تو اگر ایک طلاق غلطی سے یا مذاق میں بھی دیدی تو اگر عورت راضی نہیں ہے تو پھر شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے ۔ پھر یہ طلاق ہے اور طلاق کی عدت تک عورت کو انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر شوہر نے راضی کرلیا تو ٹھیک نہیں تو وہ پھر جہاں چاہے شادی کرسکتی ہے۔ پھر اس کو طلاق کے مالی حقوق بھی ملیں گے لیکن اگر شوہر نے طلاق دی اور عورت نہیں چاہتی تو پھر عدت میں رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے بعد بھی۔ قرآنی آیات کو پڑھ لیں سب سمجھ میں آئے گا۔ اگر عورت خلع لینا چاہتی ہے تو اس کو بالکل اجازت ہے لیکن اس کے مالی حقوق پھر کم ہوں گے۔ خلع کی عدت بھی ایک ماہ ہے۔ سورہ النساء آیت19دیکھ لیں اور اس میں عورت کو شوہر کی ان چیزوں کا بھی حقدار قرار دیا گیا جسے ساتھ لے جاسکتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ اس بات کیلئے بہت کافی ہے کہ علماء نے تفسیر کے ذریعے اس پر کس طرح سے ٹوکا چلایا ہے۔ خلع میں گھر اور غیر منقولہ جائیداد سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس بات کا امکان ہے کہ عورت جھوٹا دعویٰ کرے کہ مجھے طلاق دے دی گئی ہے تو چونکہ اس میں مالی معاملے کا عمل دخل ہے۔ عورت کی نیت میں فرق آسکتا ہے کہ خلع لینا چاہتی ہو اور طلاق کا دعویٰ کرے۔ اسلئے اس میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ عورت گواہوں کو پیش کرے ۔ اگر اس کے پاس گواہ نہیں ہوئے تو شوہر حلف اٹھائے گا کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے۔ پھر طلاق کی ڈگری جاری نہیں ہوگی ۔ عورت کو خلع کے مالی حقوق ملیں گے۔
اگر شوہر کہے کہ مذاق میں طلاق دی تھی اور عورت رجوع پر راضی نہیں ہو تو پھر بھی عورت کو طلاق کے مالی حقوق ملیں گے ۔اسلئے کہ طلاق میں مذاق معتبر ہے۔البتہ اگر عورت صلح کیلئے راضی ہو تو پھر طلاق مذاق میں ہو سنجیدگی میں اس سے رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن ، احادیث اور صحابہ کرام میں کوئی اختلاف نہیں ۔ نبی کریم ۖ نے کسی کو بھی رجوع سے منع نہیں کیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت کا کمال ہے کہ غلط فہمیوں کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے ہیں۔
صحیح بخاری نے ایک ساتھ تین طلاق کے جواز پر باب باند ھ کر لکھ دیا ہے کہ ”من اجاز طلاق ثلاث ”جس نے تین طلاق کو ایک ساتھ جائز قرار دیا اور پھررفاعة القرظی کی بیوی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ اس کو شوہر نے تین طلاقیں دیں اور پھر اس نے زبیرالقرظی سے نکاح کیا اور نبی ۖ کو اپنے دوپٹے کا پلو دکھا کر کہا کہ میر ے شوہر کے پاس ایسی چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو۔ آپ نہیں جاسکتی یہاں تک کہ وہ تیرا ذائقہ چکھ لے اور آپ اس کا ذائقہ چکھ لیں”۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ طلاق ایک ساتھ تین دی تھیں اور یہ بھی کہ حلالہ کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا ؟۔
جب زبیرالقرظی نامرد تھا تو نامرد میں حلالے کی جب صلاحیت نہیں ہوتی ہے تو مفتی تقی عثمانی دے تو دے کوئی اور یہ فتویٰ نہیں دیتا۔ پھر نبی ۖ کیسے اس طرح کا فتویٰ دے سکتے تھے؟۔ لوگوں کے ذہن میںیہ بات بیٹھ گئی ہے کہ نبی ۖ کے وقت میں حلالے کا دھندہ موجود تھا؟۔ توبالکل غلط ہے۔
جب اللہ نے حلالہ کی لعنت کو ختم کرنے کیلئے آیات بھی نہیں اتاری تھیں تو نبی ۖ نے حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی تھی۔ قرآن کی آیات اترنے کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ حلالہ کی لعنت میں ملوث ہونے کا حکم دیا جاتا۔اسلئے حقائق کو سمجھ کر قبول فرمائیے ورنہ خیر نہیں ہوگی۔
بخاری میں یہ واضح ہے کہ زبیرالقرظی نے الگ الگ تین طلاقیں دی تھیں اور یہ بھی ہے کہ زبیر القرظی نے نبی ۖ کے سامنے کہا تھا کہ یہ میرے بچے ہیں اور مجھ میں اتنی مردانگی ہے کہ اس کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں ۔ یہ جھوٹ بولتی ہے کہ میں نامرد ہوں۔ اگر بخاری کی ان تینوں روایات کو دیکھا جائے تو حلالہ کا ادھار کھائے بیٹھے رہنے والوں کے خواب خاک میں مل جاتے ہیں۔ بخاری کی امام ابوحنیفہ سے نہیں بنتی تھی اسلئے امام شافعی کی حمایت میں اس حلالے والی غلط روایت کو غلط جگہ پر پیش کردیا۔ امام شافعی نے خود اس روایت کو ایک ساتھ تین طلاق کیلئے دلیل نہیں قرار دیا۔ بخاری نے مدعی سست گواہ چست کا کام کیا ہے۔ تینوں احادیث عوام کے سامنے لائی جائیں تو علماء ومفتیان کیلئے ٹھیک ہوگا۔
جہاں تک لعان کے بعد عویمر عجلانی کی طرف سے اکٹھی تین طلاق والی روایت ہے جس کا بخاری میں ذکر اور امام شافعی کی بھی یہی دلیل ہے تو قرآن میں فحاشی کی صورت میں عدت کے اندر بھی گھر سے نکالنے کی اجازت ہے۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ نبی ۖ نے رجوع سے روک دیا تھا۔ اور اکھٹی تین طلاق کے حوالے سے آخری روایت یہ ہے جو امام ابوحنیفہ و امام مالک کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق دینے کیلئے گناہ اور عدم جواز کی دلیل ہے۔ محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو3طلاقیں دیں۔ جس پر رسول اللہ ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور تم اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہیں کردوں؟۔ اس روایت سے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ اگر ایک ساتھ 3طلاق سے رجوع ہوسکتا تھا تو پھر نبی ۖ نے غضبناک ہونے کے بجائے رجوع کا حکم کیوں نہیں فرمایا؟۔
یہ استدلال بوجوہ غلط ہے۔ نبی ۖ نے اس حدیث سے اور زیادہ مضبوط حدیث میں غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ بخاری کتاب التفسیر سورہ طلاق میں ہے کہ حضرت عمر نے نبی ۖ کو خبر دی کہ عبد اللہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے۔ نبی ۖ اس پر بہت غضبناک ہوگئے اور پھر عبد اللہ ابن عمر سے فرمایا کہ پاکی کی حالت میں اپنے پاس رکھو یہاں تک کہ اس کو حیض آجائے۔ پھر پاکی کی حالت کے بعد حیض آجائے اور پھر پاکی کی حالت میں چاہو تو رجوع کرلو اور چاہو تو ہاتھ لگانے سے پہلے اس کو چھوڑ دو۔ یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ بخاری کی یہ حدیث کتاب الاحکام ، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
غضبناک ہونے کے باوجود رجوع کا حکم فرمایا۔ اس لئے یہ استدلال غلط ہے کہ محمود بن لبید کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ رجوع نہیں ہوسکتا۔ محمود بن لبید کی روایت بہت کمزور ہے اسلئے امام شافعی نے اس کو ایک ساتھ3طلاق کا جواز پیش کرنے کیلئے اپنا مسلک نہیں بنایا۔ دوسری روایات سے یہ ثابت ہے کہ محمود بن لبید کی روایت میں طلاق دینے والے عبد اللہ ابن عمر اور طلاق کی خبر دینے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حسن بصری نے کہا کہ مجھے ایک مستند شخص نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمر نے بیوی کو3طلاقیں دی تھیں۔ پھر20سال تک کوئی دوسرا مستند شخص نہیں ملا جس نے اس کی تردید کی ہو۔20سال بعد ایک اور زیادہ مستند شخص ملا جس نے کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔ صحیح مسلم کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری نے دوسرے مستند شخص کی روایت نقل کی ہے لیکن حسن بصری کے زمانے میں20سال تک جو معاملہ رائے عامہ میں بالکل مختلف تھا اور پھر اس میں تبدیلی کیسے آئی ؟۔ آئیے حقائق سمجھ لیجئے۔ حسن بصری سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حرام کہے تو جو وہ نیت کرے ۔ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ یہ تیسری طلاق ہے ۔ یہ کھانے پینے کی طرح نہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجائے۔
حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ بیوی کو حرام کہہ دیا ہے تو رجوع ہوسکتا ہے؟۔ علی نے فرمایا کہ نہیں۔ اسلئے خلفاء راشدین کے اجتہاد میں یہ لکھا ہے کہ علی حرام کے لفظ سے تیسری یا3طلاق مراد لیتے تھے۔ اور حضرت عمر ایک طلاق۔ حالانکہ ان میں حلال و حرام کا یہ اختلاف نہیں تھا۔ حضرت علی سے جس نے پوچھا تھا تو اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی اور جب رجوع کیلئے عورت راضی نہ ہو تو حرام کا لفظ یا3طلاق تو بڑی بات ہے ایلاء میں بھی رجوع نہیں ہوسکتاہے۔ جیسے نبی کریم ۖ کے حوالے سے قرآن میں وضاحت ہے۔ اسلئے حضرت عمر و حضرت علی کے مسلک، فرقے اور اجتہاد میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ بیوی راضی ہو تو حرام کے لفظ کے باوجود رجوع ہوسکتا ہے۔ سورہ تحریم میں اس کی وضاحت ہے۔ ابن تیمیہ کے شاگرد علامہ ابن قیم نے حرام کے لفظ پر20اجتہادات لکھے ہیں۔ حالانکہ بخاری میں ابن عباس سے یہ روایت بھی ہے کہ نبی ۖ کی سیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ حرام کے لفظ سے طلاق ، حلف، کفارہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
سورہ تحریم اور نبی ۖ کی سیرت کو دیکھنے کے بجائے آیات کے اجتہادات کے نام پر کتنے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ ابن تیمیہ نے4فقہی مسالک کو4فرقے قرار دیا ہے لیکن ان کے شاگرد نے زاد المعاد میں سورہ تحریم کی آیت کو بجائے4کے مزید20ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے۔ حرام کے لفظ پر خلفاء راشدین کے4مسالک اوراماموں کے4مسالک کے علاوہ دیگر فقہاء و محدثین کے مسالک اور اجتہادات سے قرآنی آیت کو بوٹی بوٹی بنانے کا جواز ہے ؟۔ ہرگز نہیں۔
خلفاء راشدین میں حضرت عمر و حضرت علی کے اندر اتفاق تھا اور قرآن ہی کے مطابق دونوں کا فتویٰ اور فیصلہ تھا مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے ان کی باتوںکے اصل مفہوم کو درست نہیں سمجھا اور غلطیوں پر غلطیاں کرڈالیں ہیں۔ ہماری تحریک سے اکابر صحابہ پر اعتماد بھی بڑھے گا اور قرآن کی طرف بھی لوگ آئیں گے۔ حضرت عمر نے عمرہ و حج کے احرام کو اکھٹے باندھنے پر پابندی اسلئے لگائی کہ اگر دونوں احرام کو سنت سمجھ کر بڑے اجتماع میںگرمیوں کے موسم میں باندھا جاتا تو فضاء بہت متعفن ہوجاتی۔ یہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں تھا۔
جس اسلام کو دیکھ کر سپر طاقتیں فارس اور روم کے بادشاہوں کے پیروں سے زمین نکل گئی تو اس کی وجہ قرآن و سنت کے عام فہم قوانین تھے۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے مسلم ممالک اور مسلمان معاشرے اسلام کی سواری پر چڑھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جب قرآن نے بار بار رجوع کی بات کی ہے اور ہمارے ہاں 3 طلاق کو حلالہ کیلئے لعنت کی شکل دی گئی ہے تو کون گدھے پر سواری کرسکتا ہے؟۔ وہ بھی جب پانچوں ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھائے چت گلاٹیاں کھارہا ہو۔ مذہبی طبقات نے اگر قرآن کے اصل احکام لوگوں کو بتانے شروع کردئیے تو مسلمان حکمران ہی نہیں مغرب و مشرق اور شمال و جنوب میں تمام مذاہب اور ممالک کے لوگ اس کو اپنے اقتدار اور معاشرے میں نافذ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ فروری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز