پوسٹ تلاش کریں

بہشتی زیورکا مسئلہ اور مفتی سید سیاح الدین کا کا خیل کے سوال پر مفتی تقی عثمانی کا جواب!

بہشتی زیورکا مسئلہ اور مفتی سید سیاح الدین کا کا خیل کے سوال پر مفتی تقی عثمانی کا جواب! اخبار: نوشتہ دیوار

بہشتی زیورکا مسئلہ اور مفتی سید سیاح الدین کا کا خیل کے سوال پر مفتی تقی عثمانی کا جواب!

جب میں نے قرآن واحادیث کے اندر طلاق ثلاثہ اور حلالہ کے مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی تویہ مجھے یاد ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے سابق جنرل سیکرٹری پروفیسر علامہ دلدار احمد قادری نے مجھ سے کہا تھا کہ ” تین طلاق اور حلالہ کے مسئلے پر آپ تحقیق کریں”۔ حلالہ کا نام ایسا تھا کہ اس نام پر لکھی جانیوالی کوئی کتاب ایک شریف انسان اپنے گھر اور مہمان خانے میں بھی لے جانے میں دشواری محسوس کرتا تھا۔ حلالہ کے نام پر کبھی کوئی کتاب کتب خانے میں نظر بھی آئی ہے تو اس کو اٹھاکر دیکھنا اخلاقیات اور شرافت کے منافی لگتا تھا۔ البتہ ایک شریعت کا مسئلہ سمجھ کر قبول کرنا دین، علم اور ایمان کی مجبوری تھی۔ ہمارے کسی ساتھی کے پڑوسی کو مسئلہ پیش آیا تھا تو میں نے مشورہ دیا کہ حلالہ کے بجائے ترک تعلق بہتر ہے لیکن پھر وہ مفتی عبدالسلام چاٹگامی کا فتویٰ بنوری ٹاؤن کراچی سے لیکر دکھا گئے جس پر مجھے تبصرہ کرنا بھی اچھا نہیں لگا۔ پھر ایک عیسائی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کو تبلیغی جماعت والے نے اپنی بیٹی دی تھی۔ وہ گومل ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان میرے ہاں آچکا تھا اور زبان سے اس نے تین طلاقیں دی تھیں اور اس مسئلے کا حل چاہتا تھا۔ میں نے مولانا فتح خان ٹانک کے مشہور اور بہت قابل عالم دین کی خدمت میں حاضری دی اور تین طلاق پر تحقیقی مسئلہ پوچھ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ” آپ کا دماغ بہت تیز ہے اور اپنے ہاں سے بہت ساری کتابیں دیں کہ مسئلہ دیکھ لو”۔
میں نے دن رات ایک کرکے اپنی بساط کے مطابق بہت کوشش کی کہ کہیں سے مسائل کے علمی دلائل کا سراغ مل جائے لیکن مسئلہ، مسئلہ ، مسئلہ اور اس پر فضول کی بحث اور عبارات کے سوا کچھ نہیں مل رہا تھا۔ مجھے اس پر غصہ بھی آرہا تھا کہ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ کے الفاظ پر کچھ تحقیقات پر بحث اور دلائل ہوتے۔ لیکن کچھ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اتنے میں ہمارے ساتھ مولوی شبیراحمد صاحب نے کہا کہ ” بہشتی زیور” دیکھ لو!۔ مجھے دوسروں کے علمی نام اور فضول کی بحث سے چڑ لگ گئی تھی اور کہا کہ چھوڑدو بہشتی زیور…..پھر احساس ہوا کہ مولوی صاحب کی دل شکنی ہوگئی۔ بہشتی زیورمیںدیکھا کہ ” اگر شوہر بیوی سے کہے کہ طلاق، طلاق ، طلاق تو تین طلاق ہوگئی ہیں اوراگر شوہر کی نیت ایک طلاق کی تھی توایک طلاق رجعی ہے لیکن بیوی پھر بھی سمجھے کہ اس کو تین طلاقیں ہوچکی ہیں اور شوہر کیلئے اب وہ حلال نہیں ہے”۔ مفتی تقی عثمانی نے بہشتی زیور کی بہت زیادہ تعریف لکھ دی ہے ، اگر یہی مسئلہ مفتی تقی عثمانی کو پیش ہو تو اس کے نزدیک طلاق رجعی ہوگی اور رجوع کرنے کے بعد بدستور اس کی بیوی ہوگی لیکن بیگم سمجھے گی کہ حرام ہوچکی ہے اور حلالہ کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ حلالہ بھی نہیں ہوسکے گا اسلئے کہ وہ تو مفتی تقی عثمانی کے نکاح میں ہوگی؟۔ حیلہ ناجزہ میں مولانا اشرف علی تھانوی نے اوربھی زیادہ خطرناک مسئلہ لکھا ہے۔ اگر مفتی تقی عثمانی نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں تو اس کی بیوی اس پر مغلظہ ہوچکی ہے لیکن اگر وہ مکر جائے تو بیوی کو دو گواہ لانے ہوں گے اور اگر اس کے پاس دو گواہ نہیں ہوئے اور مفتی تقی عثمانی نے جھوٹی قسم کھالی تو اس کی بیگم کو چاہیے کہ خلع لے لیکن اگر مفتی تقی اس کو خلع نہ دے تو وہ حرام کاری پر مجبور ہوگی۔ اس قسم کے مسائل کا مجموعہ مفتی سیاح الدین کا کاخیل کے سوال میں موجود ہے۔ جس کو گھما پھرا کر بھونڈے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے اور اس کے علاوہ بھی ” فتاویٰ عثمانی”میں اس سے زیادہ بھیانک مسائل ہیں۔ لوگوںکو الجھنوں اور نفسیاتی بیماریوں میں اسلام کے نام پر ڈالا گیا ہے۔
جب میں نے احادیث کی کتابوں پر تین طلاق کے حوالے سے سرسری نگاہ ڈالی تو مجھے لگا کہ تین طلاق اور حلالہ کی بات پر تحقیق کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن جب قرآن کی طرف توجہ کی تو نہ صرف قرآن بلکہ ساری احادیث صحیحہ کا درست خاکہ بھی دل ودماغ میں بیٹھ گیا۔2007میں ماہنامہ ضرب حق کراچی میں طلاق پر مضامین شائع کئے تو مولانا قاری احمد حسن شکوی خطیب وامام گودام جامع مسجد ٹانک سے اپنے ساتھی کے ذریعے رائے پوچھ لی ۔ انہوں نے میرے بارے میں فرمایا کہ ” میں پیر صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں”۔ اس کے بعد ہمارا اخبار بند ہوا اور10سال بعد نوشتۂ دیوار کے نام سے پھر شائع کرنا شروع کیا اور اس لمبے عرصہ میں مسئلہ طلاق پر زبردست تحقیقات کا موقع مل گیا۔ ”ابررحمت ” کے نام سے کتاب شائع کرنے سے پہلے کراچی کے معروف مدارس کو اس کا مسودہ بھیج دیا ۔ میری کتاب ”جوہری دھماکہ” میں جاندار کی تصویر کے جواز سے زیادہ مسئلہ طلاق پر زبردست دلائل تھے لیکن جوہری دھماکہ کو اپنے وسیع تر مفاد میں قبول کیا گیا تھا اور مسئلہ طلاق سے ان کی علمی بنیادیں ختم ہوجاتی ہیں اسلئے اس کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔
پھر ” تین طلاق کی درست تعبیر”کتاب لکھ دی مگر ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ پھر ” تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا خوشگوارحل” کتاب لکھ دی اور پھر ” عورت کے حقوق” میں اس مسئلے کا حل لکھ دیا لیکن بڑے ڈھیٹ لوگ ہیں۔ جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بانی ومہتمم میرے استاذمفتی محمد نعیم اور مدرسہ کے رئیس دارالافتاء نے بھی تائید کی تھی لیکن پھر مفتی محمد نعیم نے بتایا کہ ” مفتی تقی عثمانی نے دباؤ ڈالا کہ اس مسئلے پر بات نہ کرو”۔ استاذ جی نے بتایا کہ وفاق المدارس سے ہمارے جامعہ کا الحاق ختم کردیںگے اسلئے کھل کر تائید نہیں کرسکتا۔
قرآن وسنت میں ان تمام مسائل کا بالکل فطری حل موجود ہے اور صحابہ کرام نے اس فطری حل کی بنیاد پر اپنے دور میں مشرق ومغرب کی دونوں سپر طاقتوں کو شکست دی تھی۔ بہت سارے علماء کرام وطلباء عظام کو قرآن وسنت کے حوالے سے تین طلاق اور اس سے حلالہ کے بغیر رجوع کا مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آیا ہے لیکن طاقتور حلقوں کی طرف سے حقائق کیلئے اٹھ کھڑے ہونے کی ہمت کرنے کی آج بہت ضرورت ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)