پوسٹ تلاش کریں

خلافت یا امامت

خلافت یا امامت اخبار: نوشتہ دیوار

خلافت یا امامت

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

سنی شیعہ شدید اختلاف کو کم کرنیکی ادنیٰ کوشش علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی۔ اے کہ نشناسی خفی را ازجلی ہشیار باش اے گرفتار ابوبکر وعلی ہوشیار!

مملکت خدادادپاکستان اگرواقعی اغیار کی سازش تھی تب بھی یہ اللہ کا منصوبہ ہی تھا۔ انہم یکیدون کیدًا واکید کیدًا”وہ اپنا جال بچھاتے ہیں اور میں اپناجال بچھاتا ہوں”۔فرقوں اور مفاد پرستی سے بالاتر ہوکر اسلام کی بنیاد پر انسانیت کی خدمت کرنا ہوگی!

فرقہ پرستی سے بالاتر اسلام کا آئینہ دکھائیں جس سے دنیا پرہمارا غلبہ تھا۔ سنی کے نزدیک خلیفہ کاا نتخاب عوام پر فرض ہے، شیعہ کے نزدیک امام کو اللہ منتخب کرتا ہے۔ سنی کے نزدیک ابوبکر، عمر، عثمان ، علی اور حسن کو عوام نے منتخب کیا۔30سال خلافت راشدہ رہی۔ شیعہ کے ہاں پہلا امام نبیۖ کا خلیفہ بلا فصل علی، دوسرا حسن، تیسرا حسین ، چوتھا زین العابدین اور…… بارواں مہدی ٔغائب محمد بن حسن عسکریموجودہ دور تک امامت کا سلسلہ جاری ہے۔ سنیوں کے ہاں خلافت راشدہ کے بعد بنوامیہ و بنوعباس کی امارت اور سلطنت عثمانیہ کی باشاہت تک خلافت کا سلسلہ جاری رہا۔1924میں سقوطِ.خلافت کے بعد مسلمانوں نے تحریک سے خلافت کا احیاء کرنا چاہا لیکن اس میں ناکام رہے۔ پاکستان تحریک.خلافت کا تسلسل ہے۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا :” آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، خوشخبریاں سناؤ، آپس میں نفرت پیدا مت کرو”۔ (صحیح بخاری) پاکستان کو مملکتِ خداداد کہنا ٹھیک ہے یا یہ کفر وگمراہی ہے؟۔ پاکستان کی نعمت پاکستان کے مسلمانوں کو مل گئی لیکن اس نعمت کا شکر ہم نے ادا کیاہے یا نہیں؟۔
75سالہ سرکاری تقریب میں قوم کی بچیوں کو بیہودہ ڈانس سے وزیراعظم اور حکومت کے وزیرومشیر محظوظ ہوئے تو کچھ نے خاصا اعتراض کیا اور صفِ ماتم بچھادیا۔ مریم نواز اور مولانا طارق جمیل جن شادیوں میں شرکت کرتے ہیں تو ان میں کیا یہ سب کچھ نہیں ہوتا؟۔ گزارش ہے کہ دوسرے کی بچیوں کو نچوانے کی جگہ اپنی بیگمات ، بہو اور بیٹیوں کیساتھ ہی شرکت کرتے۔ غم اور خوشی منانے کا جب ایک کلچر کسی معاشرے میں انسانی جبلت کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر وہ اپنی عادت سے مجبور ہوجاتا ہے۔ تیسری جنس خواجہ سراؤں کو جب تالی بجانے کی عادت پڑتی ہے تو حج میں ٹھوکر لگنے پر بھی تالی بجادیتے ہیں۔
اگر مہدی غائب کی حکومت ہواور عاشورہ کے جلوس سے منع کریں تو خطرہ ہے کہ شیعہ امامت سے انکار کردیںگے۔اسلئے کہ امام کی بات ماننے سے زیادہ اب ان بیچاروں کو عاشورہ ماتم منانا دین کی پہلی حداور آخری سرحد لگتی ہے۔
جن صحافیوں اور علماء ومفتیان میں تقویٰ نہیں بلکہ تقوے کا حیض ہے وہ بھی سرکاری تقریب میں ناچ گانے پراسلئے ناپسندیگی کا اظہارنہیں کرتے کہ وہ متقی و پرہیزگارہیں، ورنہ خانہ کعبہ کے طواف میں حجر اسود پر جس طرح جنونی مرد اور غیر محرم عورتیںآپس میں رگڑ کھاتے ہیں وہ سرکاری تقریب میں ناچ گانے سے کئی درجے زیادہ بدتر ہے جس پر انہوں نے کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی ہے اور سود کو اسلام کے نام پر جواز بخشنا زیادہ خطرناک اور تقویٰ کے انتہائی منافی ہے۔
جب پبلک سروس کمیشن کا امتحان ہوتا ہے تو پاکستان میں بہت سے غریب اور بے سہارا ملازمین کو قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے۔ کوئی بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں تعلیمی جدوجہد کا حق ادا کرتاہے تو پاکستان کی سطح پر منتخب ہوکر اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں تک پہنچتا ہے اور بعض لوگ اعلیٰ عہدوں پر منتخب ہونے کے بعد اپنی نااہلی اور خود غرضی کی وجہ سے معزول کردئیے جاتے ہیں۔ دنیا کے نظام سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں بھی انتخاب کیلئے جدوجہد کا حق ادا کرنا پڑتا ہے اور پھر نااہلی کے سبب لوگ اپنے منصب سے معزول ہوتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا: وجاہدوا فی اللہ حق جہادہ ھو اجتبٰکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملت ابیکم ابراہیم ھو سمٰکم المسلمین من قبل وفی ھٰذا لیکون الرسول شہیدًا علیکم وتکونوا شہداء علی الناس ” اور اللہ کے احکام میں جدوجہد کا حق ادا کرو، اس نے تمہیں منتخب کرلیا اور تمہارے لئے دین میں کوئی مشکل نہیں رکھی۔تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت ہو، اس نے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس میں بھی۔ تاکہ تمہارے اوپر رسول خدا گواہ ہوں اور تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ”۔
صحابہ کرام نے رسول اللہ ۖ کی قیادت میں جدوجہد کا حق ادا کردیا۔ اپنے وطن سے ہجرت کی۔ کلمة الحق بلند کرنے میں قربانیاں دیں۔ مالی اور جانی قربانیوں کے علاوہ کوئی ایسی قربانی نہیں تھی جن کا ان کو سامنا نہ کرنا پڑا ہو اور انہوں نے اس قربانی سے دریغ کیا ہو۔ اسلئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو مسلسل ہر چیز میں مکمل رہنمائی وحی کے ذریعے سے فراہم کررہا تھا۔
فرمایا: قل ان کان اٰبآء کم وابناء کم واخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم واموالکم اقترفتموھا وتجارة تخشونہ کسادہا ومساکن ترضونھا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یأتی اللہ بامرہ ان اللہ لا یھدالقوم الفاسقین ”فرمادیجئے کہ اگر تمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان ، تمہاراوہ مال جو تم نے اکٹھا کررکھا ہے، تمہاری وہ تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور وہ ٹھکانے جن میں رہنا تم پسند کرتے ہو۔ تمہارے لئے زیادہ پسندیدہ ہیں اللہ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں جدوجہد کرنے سے تو پھر تم انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کے ساتھ آجائے اور بیشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے”۔ (القرآن)۔
صحابہ معیار پر پورا اترے تو لوگوں کے دلوں میں کھٹک پیدا ہوئی کہ ساری دنیا کے لوگ ان کو عزت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرینگے۔ اس خوف سے ان کے خلاف افواہیں پھیلا نے اور ہرطرح کی مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا تا کہ یہ لوگ زمین میں کمزور پڑجائیں لیکن اللہ نے ان کو منصب امامت کے عہدے پر فائز کیا اور دشمن کی خواہش اور مزاحمت کی تمام کوششیں بالکل رائیگاں گئیں۔
ونرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجلھم الائمہ ونجلعلھم الوارثین ”ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنایاجارہا ہے کہ ان کو امام بنائیں اور انہیں زمین کا مالک بنائیں”۔ (القرآن) صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعیناور مسلمان پوری دنیا میں سپر طاقتوں کو شکست دیکرصدیوں منصبِ امامت اور زمین کی وراثت کے مالک رہے ہیں۔
حجاز کے باسی یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایسے خطوں پر ہماری حکمرانی ہوگی کہ جہاں دنیا میں جنت کے وعدے پورے ہونگے۔عربی میں جنت باغ کی جمع جنات ہے اور ایسے باغات جنکے نیچے نہریں بہہ رہی تھیںاسکا وعدہ اللہ نے دنیا کی دوسپر طاقتوں کو شکست دیکر پورا کیا تھا۔
شاہ اسماعیل شہید نے اپنی کتاب”منصبِ امامت ” میں امام کیلئے اللہ کے انتخاب کی وضاحت کی۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو باطن میں اولیاء کرام کے دو گروہوں میں کشمکش دیکھنے والے مولانا حسین احمدمدنی نے فرمایا کہ ” حامی گروپ غالب آگیا اسلئے پاکستان بنے گا لیکن میری بصیرت ہے کہ تقسیم ہند پر خون ریزی اور عزت دریوں کی مخالفت جاری رکھی جائے”۔ اگر پاکستان کا مخالف طبقہ پاکستان کو اولیاء کرام کی تائید قرار دیتا ہے تو یہ بہت بڑی بات ہے لیکن اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ شیاطین الانس والجن نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا تو بھی اس کو مملکتِ خداداد کہنے میں کوئی حرج اسلئے نہیں کہ اللہ نے فرمایا : انھم یکیدون کیدًا واکید کیدًا ”بیشک وہ اپنی چال چلتے ہیں اور میں اپنی چال چلتا ہوں”۔ (القرآن) شاہ اسماعیل شہید نے” منصب امامت” میں قرآنی آیت کے حوالے سے ملاء اعلیٰ کے فرشتوں میں جھگڑے کی بات لکھ دی کہ ”اللہ کبھی ایک گروہ کے حق میں فیصلہ کرتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کے حق میں”۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کے اول میں مَیں ، درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ میرا اہل بیت ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔ حضرت محمد بن عبداللہ ۖکے بعددرمیانے زمانے کا مہدی پہلا شخص ہوگا جو نبیۖ کے بعد پہلی مرتبہ طرز نبوت کی خلافت قائم کریگا جس سے زمین وآسمان والے دونوں خوش ہوں گے۔ یواطئی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی ”اس کا نام میرے نام کیساتھ اور اسکے باپ کا نام میرے باپ کے نام کیساتھ جڑے گا”۔ اور مطلب یہ نہیں کہ اس کا نام محمد بن عبداللہ ہوگا۔دنیا میں پہلے نمبر پر نبیۖ کا نام ہوگا اور جب وہ عدل وانصاف قائم کریگا تو دنیا میں دوسرانام اسکا نام ہوگا۔
اگر مرزاغلام احمد قادیانی دجال نبوت کا دعویٰ نہ کرتا تو علماء دیوبند اس کا پیچھا کرنے کی جگہ فقہی مسائل اور تصوف کی اصلاح کرتے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے ماموں کا قصہ لکھا کہ وہ کہتا تھا کہ میں ننگا ہوکر مجمع عام میں ایک ہاتھ سے اپنا آلہ تناسل پکڑ لوں گا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اپنے مقعد میں ڈالوں گا اور تم لوگ مجھے بھڑوے بھڑوے کہہ پکارو۔ یہ نیٹ پر بھی مل جائے گا لیکن اس کی زیادہ ضرورت اسلئے نہیں ہے کہ حیلہ ناجزہ میں عورت کو جس طرح حرامکاری پر مجبور ہونے کا فتویٰ جاری کیا گیا وہ اس بھڑوے سے ہزار گنازیادہ بدتر ہے۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی اگر علماء دیوبند کو اپنے فتوے ” حسام الحرمین” سے نہ ڈراتے تو اکابر دیوبند نے فقہ چھوڑ کر قرآن وسنت کی طرف متوجہ ہونا تھا۔ مولانا مودودی اسلئے فتنہ تھا کہ فقہی احکام کو سدھارنے کی جگہ قرآن وسنت کے گمراہانہ مفہوم سے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کردیا۔ ڈاڑھی منڈھے صحافی نے داڑھی رکھ کر مولویوں کو اپنے پیچھے لگایا اور غلط گمراہانہ اسلام کو سلیس انداز دیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گمراہانہ اسلام سے متحدہ ہندوستان کا سیکولر نظام بہتر تھا تو جمعیت علماء ہند کے اکابر نے اس کو سپورٹ کیا اور قائداعظم کا اسلام بہتر تھا ،اس وجہ سے جمعیت علماء اسلام کے علامہ شبیراحمد عثمانی نے اس کو سپورٹ کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے کہاکہ” اپنی ساری زندگی فقہ کی وکالت سے ضائع کردی”۔ جب دارالعلوم کا شیخ الحدیث اور مفتی محمد شفیع ، مولانا سید یوسف بنوری ، مولانا عبدالحقا کوڑہ خٹک اور مفتی محمود کے استاذ مولانا انورشاہ کشمیری نے زندگی ضائع کرنے کی بات کردی تو پھر شاگردوں نے اسی تعلیم وتعلم سے طلبہ کی زندگی کیوں تباہ وبرباد کردی؟۔ ظاہر ہے کہ مدرسہ دین کی خدمت سے زیادہ روزگار کا مسئلہ تھا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا یوسف بنوری نے تقویٰ پر مدرسے کی بنیاد رکھی اور ختم نبوت کا مسئلہ جب ریاست پاکستان نے حل کرنا چاہا تو علامہ بنوری کی قیادت میں حل بھی ہوگیا لیکن جس سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت پر اپنا سب کچھ قربان کیا وہ ان سے زیادہ اہلیت اور قربانی کا جذبہ رکھتاتھا۔جنگ کے مالک میر شکیل الرحمن کا یونیورسٹی میں ایک قادیانی لڑکی سے معاشقہ ہوا تو اس نے مفتی ولی حسن ٹونکی سے فتویٰ مانگا کہ قادیانی لڑکی سے مسلمان کا نکاح ہوسکتا ہے؟۔ مفتی ولی حسن نے کہا کہ قطعی طور پر نہیں۔ اگر مفتی محمدتقی عثمانی ہوتا تو جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق سے قادیانی مبلغ جنرل رحیم الدین کی بیٹی کا نکاح پڑھانے کی طرح میرشکیل الرحمن کا نکاح پڑھانے سے دریغ نہ کرتا۔
میر شکیل الرحمن کی عاشقہ ومعشوقہ قادیانی لڑکی مرزا غلام قادیانی کے خلیفہ حکیم نورالدین کی نسل سے تھی اور اس نے کہا کہ مجھے قائل کرو، میں قادیانیت چھوڑ نے کوتیار ہوں۔ مولانا یوسف بنوری، مفتی ولی حسن ٹونکی ، مولانا عبدالرشید نعمانی تینوں نے بہت زور لگایا لیکن ایک قادیانی لڑکی کو قائل نہ کرسکے اور پھر ملتان سے مناظر ختم نبوت مولانا لعل حسین اختر کو بلوایا اور اس نے منٹوں میں قائل کردیا۔پھر وہ قادیانیت چھوڑ کر مسلمان ہوگئی۔ قادیانی ایک تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے قائل ہیں اور دوسرے ان کے باپ کے بھی قائل ہیں۔ قادیانیوں کا سخت مخالف طبقہ غلام احمد پرویز اور اسکے پیروکار بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ جنگ اخبار میں مولانا محمد یوسف لدھیانوی کا جواب چھپ گیا کہ ” عیسیٰ علیہ السلام کے چچا نہیں تھے لیکن دو پھوپھیاں تھیں”۔ جس پر بڑا شور مچ گیا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے لکھاکہ ” یہ میں نے نہیں لکھاہے”۔
لوگ قادیانی اسلئے بن رہے ہیں کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع نے لکھا کہ ” حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ نہ تھا، مزرا غلام احمد قادیانی کا باپ تھا۔ حضرت عیسیٰ کی ماں کا نام مریم اور قادیانی کی ماں فلانہ تھی” اور پھر قادیانی کہتے ہیں کہ ہم جب عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی موت کے قائل ہیں تو کیسے عیسیٰ علیہ السلام کا خود دعویٰ کرسکتے ہیں؟۔ یہاں مسلمان متزلزل ہوتے ہیں۔ پھر جب بڑے معتبر ناموں کو دیکھتے کہ ابن خلدون اور جمال الدین افغانی ، مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر حیات عیسیٰ کے قائل نہ تھے ۔ احادیث کی کتابوں میں اسرائیلیات سے یہ روایات آئی ہیں تو ان کو بڑا جھٹکا لگتا ہے۔ پھر جب قادیانی کہتے ہیں کہ تم بھی عیسیٰ کی آمد کے قائل ہواور ہم بھی ہیں۔ لیکن ہم قرآنی آیات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ سے خدا پوچھے گا کہ کیا آپ نے اپنے پیروکاروں کو گمراہ کیا تھا کہ آپ کو اور آپ کی ماں کو دومعبود بنالیں؟۔ تو عیسیٰ جواب دیں گے کہ جب تک میں انکے درمیان رہا تو میں نے یہ نہیں کہا اور جب آپ نے مجھے وفات دی تو میں نگران نہیں تھا۔ قادیانی جب قرآن میں حضرت عیسیٰ کے اٹھالینے کو موت سے تعبیر کرتے ہیں تو بھی اس میں وہ اکیلے نہیں ۔ بڑے بڑے لوگوں نے یہ باتیں لکھ دی ہیں اور جب نظر آتا ہے کہ ختم نبوت کے مفہوم پر اتفاق رائے موجود ہے لیکن ایک عیسیٰ کی ذات سے دوبارہ آنے کی امید رکھتے ہیں اور دوسرے یہ عقیدہ بتاتے ہیں کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون کیلئے موسی ہوتا ہے تو اس کا معنی یہ نہیں ہوتا کہ دوبارہ فرعون اور حضرت موسیٰ کی آمد متوقع ہے بلکہ یہ عام محاورے کی زبان ہے تو لوگ قائل ہوجاتے ہیں اور قادیانیوں کی طرف سے ان کو مراعات ملتی ہیں تو مولوی بھی اپنی مراعات کو دیکھ کرچلتا ہے۔
جس دن قرآن وسنت کے مقابلے میں فقہ کے گمراہانہ مسائل کا خاتمہ ہوا تو قادیانی بالکل ملیامیٹ ہوجائیںگے اسلئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں دوسروں کی تحقیقات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہودی اسی وجہ سے ان کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ بنوری ٹاؤن سے چھپنے والی کتاب میں شیعہ کو قادیانیوں سے تین وجوہات کی بنیاد پر بدتر کا.فر قرار دیا گیا تھا۔ قرآن میں تحریف، صحابہ کی تکفیر اور عقیدۂ امامت۔ لیکن پھر شیعہ کیساتھ متحدہ مجلس عمل اور اتحاد تنظیمات المدارس کی سطح پر سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اکٹھے بیٹھ گئے۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے کہا تھا کہ شیعوں سے ہمارا اختلاف قرآن اور صحابہ پر نہیں بلکہ عقیدۂ امامت پر ہے۔ ماموں کے جس تصوف کی مولانا اشرف علی تھانوی نے بات کی ہے اور جس طرح کے فقہی مسائل لکھ دئیے ہیں وہ قرآن وسنت اور صحابہ کے بالکل منافی ہیں۔ دیوبند کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ نے سنت نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کو بدعت قرار دیا تھا لیکن افغانستان، پختونخواہ ، بلوچستان اور اندرون سندھ کے دیوبندی مراکز نے یہ فتویٰ قبول نہیں کیا تھا۔ علماء دیوبند، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع نہ صرف ایک دوسرے سے بلکہ آپس میں بھی بدترین فرقہ واریت کے شکار ہیں۔ سب اپنی اصلاح، اسلام کی حقیقت اور ہدایت کی طرف آجائیں۔ عورت کے حقوق ہونگے تو جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، جمعیت علماء پاکستان مذہبی جماعتوں کو ووٹ ملیں گے لیکن جب اپنے چوتڑ پر پوٹی کی پپڑیاں جمی ہوں اور دوسروں کے ریح خارج ہونے پر اعتراض کریںتو امت کی اصلاح نہیں ہوسکے گی۔
عمران خان نے کہا کہ ”جب ایک سردار نے ایک غلام کو تھپڑ مارا تو نبیۖ نے بدلہ لینے کا حکم دیا”۔ مفتی سعید خان نے عمران خان کے نئے استاذ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ حضرت عمر کے دور کا واقعہ ہے۔ جب وہ سردار مرتد ہوگیا تو حضرت عمر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس کو بدلے میں تھپڑ نہ مارتے اور جب حسان بن ثابت نے کہا کہ اچھا ہوا کہ اس کو تھپڑ مارا ہے تو حضرت عمر نے حضرت حسان ہی کو درہ مارا ”۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے لکھا کہ حضرت عمر کے دور میں امت طبقاتی تقسیم کا شکار کی گئی۔ نبیۖ سے صحابی نے کہا تھا کہ مجھے آپ سے انتقام لینا ہے اور پھر مہر نبوت کو چوم لیا تھا۔ نبیۖ کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جبری ماحول مسلط ہوگیا تھا۔ اگر آزاد عدلیہ ہوتی تو حضرت عمر کو بھی حضرت حسان کے بدلے میں درہ مارا جاتا۔ صحابہ کرام کے مجموعی تقدس کے عقیدے کو معمولی معمولی واقعات کی وجہ سے پامال نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن ایک رسول ۖ کی ذات ایسی تھی کہ درہ مارنا تو بہت دور کی بات تھی جب عبداللہ ابن مکتوم کی آمد پر پیشانی پر ناگوار ی کے اثرات مرتب ہوئے تو اللہ نے سورہ عبس نازل فرمائی۔ حضرت ابوبکر وعمر اور حضرت عثمان وعلی پر وحی بھی نازل نہیں ہوسکتی تھی اور ان کی شخصیتوں کو نبیۖ سے بالاتر بھی نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔
شیخ الہند نے مالٹا سے رہائی کے بعد قرآن کی طرف توجہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہیں کی۔ امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے اپنے استاذ کی بات مان کر قرآن کی طرف توجہ کی لیکن اپنے علماء نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا اور اب قرآن کی عام فہم آیات اور پڑھے لکھے دور سے انقلاب آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

خلافت یا امامت
QURAN, PAKISTAN, AND UNIVERSAL PREDICTIONS
OUR BELOVED STATE, GOVERNMENT AND JUDICIARY