Can we accuse Ali Wazir or the enemy of the Pashtun nation is Pakistan? or its merely a clash among groups with different approaches and ideologies.
جولائی 13, 2021
faqir of ipi, faqir api, akhter khan, maulana noor muhammad shaheed, usman kakar, ali wazir
وزیرستان تاریخی حقائق کی روشنی میں، فقیر ایپی سے علی وزیر تک : اختر خان
وزیرستان وانہ کا ایم این اے علی وزیر(ali wazir) پاکستانی ریاستی اداروں کو پشتونوں کا دشمن کہتا ہے۔وزیرستان سے تعلق رکھنے والا مشہور گوریلا جنگجو فقیر ایپی کہتا تھا کہ پاکستان کا نظام یہ وہی انگریز گدھا ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ اس کا پالان بدل دیاگیا ہے۔علی وزیر(ali wazir) کے دادا جلات خان اس فقیر ایپی کے قریبی ساتھی اور معاون تھے۔پاکستان بننے سے پہلے مسلسل دس سال وہ فقیر ایپی کے شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔جب پاکستان بن گیا تو علی وزیر کا دادا جلات خان دس سال تک افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا تھاجبکہ فقیر ایپی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے پاکستان کیخلاف لڑے یا اسکو اپنا ملک تسلیم کر لے۔فقیر ایپی(FAQEER AP) کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی تنظیمی استعداد کہ وہ پاکستان کو ان انگریزوں سے وراثت میں ملے انتظامی ڈھانچے سے لڑتے۔فقیر ایپی نے ہر ممکن کوشش کی کہ چاہے افغانستان ہو یا کوئی اور ملک، پاکستان کیخلاف لڑنے کی مدد لی جائے لیکن نہ تو افغانستان نے فقیر ایپی کو مدد دی اور نہ ہی کسی اور ملک نے حتی کہ وزیرستان میں ایسے ملکانان سامنے آئے جنہوں نے فقیر ایپی سے کہا کہ انگریز سے لڑنا درست تھامگر پاکستان سے لڑنا درست نہیں۔فقیر ایپی نے (1956 )کے بعد سیاست سے تقریبا کنارہ کشی اختیار کر لی اور (1957 )میں علی وزیر کے دادا جلات خان(JALAT KHAN) نے فقیر ایپی کی پیروی میں پاکستان سے لڑنے کا فیصلہ ترک کر دیا۔جلات خان اور پاکستانی اداروں کے درمیان بھی صلح کرائی گئی جس کی بنیاد پر علی وزیر کے دادا جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان میں اپنے گاؤں وانہ آگئے۔
دلچسپی سے علی وزیر کے دادا جلات خان کا یہ معاہدہ اور صلح ملک شہزاد توجئے خیل نے کرایا تھا۔ملک شہزاد توجئے خیل وانہ کے مشہور سیاسی بزرگ اور خدائی خدمتگار نثار لالا کے رشتہ دار تھے اور غالبا ملک جمیل کے دادا تھے۔یہ وہی ملک جمیل ہیں جنہوں نے چند دن پہلے وانہ میں ایک جرگہ میں پی ٹی ایم کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علی وزیر کو جیل سے رہائی دلانے کیلئے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوںاور اس سلسلے میں کور کمانڈر کسی جرنیل کسی وزیر کے گھر یا دفتر جانے کو بھی تیار ہوں اب پی ٹی ایم والوں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی
ِِِِِ کہ آئندہ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں جیسے افغانستان کے گیت وزیرستان میں نہیں گائیں گے۔
ستر کی دہائی میں جب وانہ وزیرستان میں مرحوم مولانا نور محمد(MOLANA NOOR MUHAMMAD) وزیرستان کی سیاست میں سرکردہ کردار بنا تو اسی علی وزیر کے دادا جلات خان کو اس کی پشت پناہی حاصل تھی جبکہ میر عسکر خوجل خیل جیسے مشران نے مولانا نور محمد کو وزیرستان کیلئے زہر ہلاہل قرار دیا تھا۔اسی کی دہائی میں افغانستان میں روس نواز پشتون قوم پرستوں کے خلاف جب امریکہ نواز جنرل ضیا الحق نے جہاد کا بیڑہ اٹھایا تو مولانا نور محمد ان کے فکری، نظریاتی اور عملی دوست بنے۔جنرل ضیا الحق(GENRAL ZIAULHAQ) اور مولانا نور محمد جیسی شخصیات کے درمیان جو گٹھ جوڑ بنی اسکے خمیر سے افغانستان میں طالبان کی حکومت معرض وجود میں آئی جبکہ وانہ میں نیک محمد، ملا نذیر، بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے نہ صرف علی وزیر کے خاندان کی سرکردہ شخصیات کو قتل کیا بلکہ مولانا نور محمد بھی جنرل ضیا الحق کیساتھ جس آگ کو بھڑکا چکے تھے اسی میں جل گئے اور (2010) میں ایک خودکش حملے میں قتل کئے گئے۔علی وزیر نے (2013) کا الیکشن لڑا،تو مولانا نور محمد کے شاگرد مولویوں کے علاوہ وزیرستان وانہ کی جن سرکردہ شخصیات نے علی وزیر کو ہرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ نصراللہ وزیر اور علی وزیر کے دُور کے رشتہ دار سعید وزیر جیسے پاکستانی قوم پرست بیوروکریٹس تھے۔نہ تو علی وزیر وہ الیکشن جیت سکا اور نہ ہی یہ بیوروکریٹس اپنا امیدوار کامیاب کروا سکے (2018) کے الیکشن میں وانہ کے یہ بیوریوکریٹس قوم پرست پشتونوں کی طرح آپس کے اختلاف کا شکار ہوئے۔سعید وزیر نے سیاست سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کی۔جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ وزیر نے اپنے بیٹے کو علی وزیر کے خلاف تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے میدان میں اتارا۔علی وزیر کی مقبولیت کے باعث عمران خان نے علی وزیر کے خلاف اپنے امیدوار کو دستبردار ہونے کا کہا لیکن نصراللہ وزیر بدستور علی وزیر کے خلاف الیکشن لڑنے پر مصر رہا۔نصراللہ وزیر کے امیدوار کو علی وزیر کیخلاف بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔( 2019)میں صوبائی اسمبلی کیلئے جو الیکشنز ہوئے اس میں ریاست پاکستان نے علی وزیر کے امیدوار عارف وزیر کو بالکل اسی طرح دھاندلی کرکے ہروایا جس طرح پنجاب میں مسلم لیگ اور پشاور ویلی میں عوامی نیشنل پارٹی کو ہروایا گیا۔ان حقائق کی روشنی میں آپ فیصلہ کریں کہ علی وزیر یا پشتون قوم کا دشمن پاکستان ہے یا پشتون قوم کے اندر مختلف الخیال اور نظریات کے پیروکاروں کے درمیان رسہ کشی؟۔
Afghan government came into existence with mutual efforts and co-ordination of General Muhammad Zia-ul-Haq and Maulana Noor Muhammad Wazir.
پشتونوں کے مذہبی علماء اور قوم پرست قائدین کے احوالِ واقعی : اختر خان
عثمان کاکڑ(USMAN KAKAR) کے جنازے پر تقریر میں محمود خان اچکزئی(MEHMOOD KHAN ACHAKZAI) نے کہا کہ تین ماہ بعد بنوں میں تمام پشتون سیاسی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علما اسلام ف، پی ٹی ایم اور فعال سماجی سیاسی ایکٹویسٹس شعرا وکلا وغیرہ کا جرگہ بلائیں گے جو مسلسل تین دن تک اس پر غور کرے گا کہ پشتون قوم کی خانہ جنگی کو روکنے کیلئے کیا اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔تین دن غور و فکر کے بعد یہ جرگہ متفقہ موقف پاکستان کے سامنے رکھے گا۔اگر پاکستان کو وہ موقف منظور ہوا تو ٹھیک نہیں تو پشتونوں کا یہ جرگہ پشتون قوم کے مستقبل کے بارے میں آزادانہ موقف اختیار کرے گا جو شاید ریاست پاکستان سے ٹکرانے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
زمینی حقائق کے تناظر میں محمود خان اچکزئی کی تقریر کے ان پہلووں کا جائزہ لیتے ہیں۔پشتون قوم کے اندر خانہ جنگی کی نوعیت کیا ہے؟ اس خانہ جنگی کے مرکزی کردار کون ہیں۔اس پہلو کو سمجھنے کیلئے میں آپ کو اپنے گائوں وانہ وزیرستان کی مثال دیتا ہوں،وانہ کا ایم این اے علی وزیر ان دنوں اس وجہ سے جیل میں ہے کہ ریاست پاکستان کے ادارے علی وزیر کو پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ تصور کرتے ہیں۔علی وزیر کو جتنے ووٹ2018 کے الیکشن میں ملے اتنے ووٹ وزیرستان کی تاریخ میں کسی کو نہیں ملے۔علی وزیر کے خلاف جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان کے جس بندے مولانا محمود عالم(MOLANA MEHMOOD ALAM) نے الیکشن لڑا وہ افغان طالبان کا مرکزی کردار تھاجو افغانستان میں علی وزیر کے فکری دوستوں جیسے کرزئی اور اشرف غنی کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔یہی مولانا محمودعالم وزیرستان میںگڈطالبان کابھی مرکزی کردار تھا۔اسی طرح(2013 )کے الیکشن میں وانہ کے چند مقامی سرکردہ بیوروکریٹس نے علی وزیر کو ہرانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی، یہ بیوریوکریٹس اپنا امیدوار نصیراللہ کو پاس تو نہ کر سکے لیکن علی وزیر کو پاس نہ ہونے دینے میں کامیاب ہوئے(2019)کے صوبائی الیکشن میں علی وزیر کے چچا زاد عارف وزیر(ARIF WAZIR) کو الیکشن میں ناکام کرنے کیلئے بالکل یہی حربہ استعمال ہوا۔علی وزیر وزیرستان میں قوم پرستوں کاترجمان ہے۔مولانا محمودعالم مذہبی پشتونوں اور طالبان کا ترجمان ہے جبکہ بیوروکریٹ نصراللہ کا بیٹا ایم پی اے نصیر اللہ تحریک انصاف کا بندہ ہے۔تحریک انصاف ریاستی اداروں کا گماشتہ ہے۔ مولانامحمودعالم جیسے مولوی اوروزیرستانی بیوروکریٹس علی وزیر جیسے سیاستدان کو نہ صرف اپنا سیاسی حریف بلکہ حسب ضرورت انکے ساتھ جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور یہی وہ پہلو جسکا مظہر آج کل گڈ بیڈ طالبان ہیں۔جسکی وجہ سے پچھلے بیس سال سے وزیرستان میں خانہ جنگی ہے اور اسی وجہ سے پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان میں خانہ جنگی ہو رہی ہے۔یہی رسہ کشی پچھلے ستر سال سے پاکستان اور باچاخان اور صمد خان کے پیروکاروں کے درمیان چل رہی ہے۔
باچاخان و صمد خان(BACHA KHAN SAMAD KHAN) جیسے قوم پرست اتنے منقسم اور نفاق کا شکار ہیں کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی مذہبی جماعتوں اور مسلم لیگ کیساتھ تو اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں مگر ایکدوسرے کیساتھ نہیں کرتے، اسی طرح ووٹ تقسیم اور انکے مخالفین کامیاب ہو جاتے ہیں۔ان قوم پرستوں کے دشمن مذہبی جماعتیں جیسے مولانا فضل الرحمان والے سمیع الحق والے مولانا شیرانی والے سراج الحق والے طارق جمیل والے مفتی تقی عثمانی والے بھی اب اتنے نفاق کا شکار ہیں کہ شاید ہی آپس میں پھر کسی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں اکھٹے ہوں۔فرض کریں کہ مذہبی طبقات میں اگر ایک دھڑا جیسے مولانا فضل الرحمان والے اور باچاخان اور صمد خان والے کسی ایک نقطے پر متفق بھی ہو ں تو باقی مذہبی جماعتیں جیسے سمیع الحق، سراج الحق، طارق جمیل مفتی تقی عثمانی اور مولانا شیرانی(samiulhaq,sirajulhaq,tariqjameel,Taqi Usmani,molana sheerani) والے انکے پیچھے پروپیگنڈہ شروع کر لیں گے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہود و ہنود کے ایجنٹوں اسفندیار اور اچکزئی کیساتھ دوستی کر لی اور یہ مذہبی طبقے پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ مل کر مولانا فضل الرحمان اسفندیار اور اچکزئی کے خلاف ایسے ہی اتحاد کر لیں گے جیسے علی وزیر یا اسکے امیدوار کے خلاف وزیرستان میں اتحادی بن جاتے ہیں یا جس طرح افغانستان میں کرزئی اور اشرف غنی سے نمٹنے کیلئے افغان طالبان پاکستانی ریاستی اداروں کیساتھ اتحادی بن جاتے ہیں۔
اسفندیار، محمود خان اچکزئی ،علی وزیر جیسے قوم پرست ایک نقطے پر متفق نہیں ہوتے ،ایک متفقہ لائحہ عمل نہیں بنا سکتے۔مولانا فضل الرحمان سراج الحق سمیع الحق مولانا شیرانی طارق جمیل اور مفتی تقی عثمانی کے پیروکار آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے تو ان پشتون پرستوں کیساتھ کیا اتحاد کر لیں گے۔جبکہ پاکستانی نوکر پیشہ پشتون تو ویسے ہی پشتون قوم پرستوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے مذہبی پشتون خواہ وہ آج مولانا شیرانی یا سمیع الحق والے ہوں تو پرسوں سراج الحق والے تھے ان پاکستانی نوکر پیشہ پشتونوں کے گماشتے بننے میں کوئی دیر نہیں لگاتے بس موقع کے انتظار میں ہوتے ہیںکہ کب ریاستی اداروں سے ان کو دعوت ملتی ہے۔ سیاسی طبقات اس قدر زوال کا شکار ہیں کہ ساری جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے لیکن سیاست میں ریاستی اداروں کی مداخلت کیخلاف متفقہ لائحہ عمل بنانے سے قاصر ہیں۔محمود اچکزئی کیلئے قوم پرستوں کو اکھٹا کرنا، مذہبی پشتونوں کے کسی ایک آدھ گروپ جیسے مولانا فضل الرحمان والوں کو اس مقصد کیلئے قائل کرنا شاید تھوڑا آسان ہو لیکن متفقہ لائحہ عمل بنانے پر راضی کرنا آسان نہیںاور بات جب اس نہج تک پہنچے گی توپاکستانی نوکر پیشہ پشتون اور تحریک انصاف کی ذہنیت رکھنے والے پشتون اس گٹھ جوڑ کیخلاف ان سے منظم ردعمل کا منصوبہ بنا چکے ہوںگے۔بابڑہ سے لیکر آج تک کی تاریخ تو یہی کہہ رہی ہے۔
(Nawishta-e-Diwar-July-21-Page-04_syed atiq ur rehman gillani_zarbehaq.com_akhtar khan )
لوگوں کی راۓ