پوسٹ تلاش کریں

درس نظامی کے نصاب میں غلطی اورنشانِ منزل کا آئینہ

درس نظامی کے نصاب میں غلطی اورنشانِ منزل کا آئینہ اخبار: نوشتہ دیوار

درس نظامی کے نصاب میں غلطی اورنشانِ منزل کا آئینہ

جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں داخلے سے پہلے دارالعلوم کراچی میں داخلہ لیا تھا جب میں نے کہا کہ زکوٰة کا مال مجھ پر جائز نہیں اور بلامعاوضہ اسلام کی خدمت کروں گا تو میرا داخلہ معطل کردیا۔ پھر جامعہ بنوری ٹاؤن آیا تو وہاں سے دارالعلوم الاسلامیہ واٹر پمپ فیڈرل بی ایریا کا راستہ بتایا گیا۔ رمضان میں نصیر آباد جامع مسجدالفلاح میں مولانا یوسف لدھیانوی کا درس سننے جاتا تھا۔ انہوں نے شرعی مسئلے کا ذکر کیا کہ قرآن کا مصحف اللہ کا کلام نہیں اس پر حلف نہیں ہوتا مگر زبانی کہا جائے کہ قرآن یا اللہ کے کلام کی قسم تو پھر حلف ہوتا ہے۔ میں حیران ہوا کہ جاہلوں اور علماء میں کتنا فرق ہے۔ جاہل جس چیز سے ڈرتے ہیں وہ تو حلف ہی نہیں۔ ہماری کسی کیساتھ210کنال مشترکہ زمین تھی، اس نے کہا کہ میں قرآن اٹھاتا ہوں کہ تمہاری ایک تہائی ہے یا تم کہو کہ ہماری آدھی ہے۔ ہم نے کہا کہ تم اٹھاؤ۔ اس نے قرآن پر قسم کھاکر ہمیں110کنال کی جگہ70کنال دی اور35کنال کا نفع کمایا لیکن پھر بھی ہم سے ناراض تھا کہ قسم اٹھوائی ہے۔
اگلے ماہ شوال میں بنوری ٹاؤن میں داخلہ ملا اور استاذ مفتی عبدالسمیع شہید سے بحث ہوگئی تو اس نے قرآن منگوایا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے ؟۔ میں نے کہا کہ نہیں!۔ تو اس نے کہا کہ کافر ہوگئے!۔ میں نے کہا کہ پھر مولانا لدھیانوی بھی ہیں،ان سے سنا ہے۔ تو انہوں نے ناراضگی کا اظہارکیا کہ سب کچھ پڑھا ہے۔ عوام اور علماء دونوں کو ایک جیسا پایا۔ علماء نے کتابوں میں پڑھا مگر سمجھا نہیں ۔ ہم علماء کو اس گمراہی سے نہیں نکالیں گے تو امت مسلمہ کی اصلاح کیسے ہوگی۔ مولانا محمد خان شیرانی، مولانا عطاء الرحمن اور قاری عثمان سے بھی اس پر بات ہوئی تھی۔
مولانا بدیع الزمان پہلے دارالعلوم کراچی کے مدرس تھے اور پھر جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں ہمارے استاذ تھے۔ علم نحو ، ترجمہ قرآن وتفسیر اور اصول فقہ اصول الشاشی اور نورالانوار اور حدیث کی کتابیں پڑھاتے تھے۔اصول فقہ میں حنفی مسلک یہ ہے کہ ضعیف حدیث کو بھی حتی الامکان رد نہیں کیا جائے لیکن قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث ہو تب بھی اس کو رد کیا جائے۔ مثلاً حتی تنکح زوجًا غیرہ ”یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور سے نکاح کرلے”قرآن ہے۔ جس میں عورت کو اپنے نکاح کیلئے خود مختار قرار دیا گیا ہے کہ ”وہ اپنی مرضی سے کسی اور شوہر سے نکاح کرے”۔ جبکہ حدیث میں ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے”۔ قرآن سے تضاد کی وجہ سے یہ حدیث مسترد ہے۔ میں نے مولانا بدیع الزمان سے عرض کیا کہ یہ آیت طلاق شدہ سے متعلق ہے اورحدیث کو حنفی مسلک کے مطابق مسترد ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔حدیث سے کنواری مراد لی جائے۔ استاذ کے نورانی چہرے کی پیشانی پر نور کی مزید چمک آئی اور فرمایا کہ ” جب آپ اگلی کتابیں پڑھ لو تو پھر اس کا حل تلاش کرو، امید ہے کہ آپ حل نکالنے میں بھی کامیاب ہوگے”۔
جمہور فقہاء ومحدثین نے کنواری، طلاق شدہ ،بیوہ تمام عورتوں کو ولی کا پابند قرار دیا ۔ حالانکہ بیوہ کیلئے طلاق شدہ سے زیادہ اپنے فیصلہ کا اختیارقرآن میں واضح ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا: اللہ نے قرآن سے امت کو وجعلناکم امة وسطًا معتدل بنایا۔ جو تخلیق کے اعتبار سے افراط وتفریط والی ہے ۔ حالانکہ تخلیقی اعتبار سے نبی ۖ نے فرمایا کہ ”ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر پھر اس کو والدین یہودونصاریٰ بنادیتے ہیں”۔ السماء رفعھا و وضع المیزان الا تطغوا فی المیزان ”آسمان کو اونچا کردیا اورمیزان کو قائم کیا ۔ خبردار! میزان کے ا عتدال کو خراب مت کرو”۔ جب خاندانی بنیاد پر یزید بنوامیہ اور بنوعباس کو خلافت پر قبضہ کرنے دوگے اوراہل بیت کے نام پر شیعہ اعتدال کو چھوڑ دیں گے تو امت تفریق وانتشار کا شکار ہوگی۔ حدیث میں بکراور الایم یعنی کنواری اور طلاق شدہ وبیوہ کے احکام الگ الگ بیان کئے گئے ہیں مگرحنفی علماء نے حدیث اور قرآنی آیات کے معانی میں بھی مسلک سازی کا ارتکاب کیا۔
حنفی وشافعی مسلک سازی میں بے اعتدالی سے مسائل گھڑے گئے ہیں۔ اللہ نے طلاق کے بعد رجوع کیلئے صلح واصلاح، معروف ، باہمی رضامندی کے حوالے سے تمام آیات میں وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن حنفی نے مسلک بنایا کہ غلطی سے شہوت کی نظر پڑگئی ، نیند میں دونوں میاں بیوی کا ہاتھ لگا تورجوع ہوجائے گا اور شافعی کہتے ہیں کہ نیت کے بغیر مباشرت سے بھی رجوع نہ ہوگا۔ اللہ نے عدت کے اندر اور عدت کی تکمیل کے بعد طلاق سے رجوع کی وضاحت کی ہے اور فتاویٰ شامیہ میں لکھا ہے کہ ” عورت نے اگر نصف سے کم بچہ جنا ہو تو رجوع ہوسکتا ہے اور نصف سے زیادہ بچہ باہر آگیا تو رجوع نہیں ہوسکتا”۔ اگر نصف میں رجوع ہوگا تو پھر کیا بنے گا؟۔ اتنی فضول کی بکواسیات ہیں کہ اگر عوام کو پتہ چل گیا تو مولوی منہ چھپاتے پھریںگے۔ پنجاب کا شعور بیدار ہواتو فرقہ واریت و مسلک پرستی کے خاتمے میں دیر نہیں لگے گی۔ علماء دیوبند کے امام مولانا سرفراز خان صفدر نے گھکھڑمنڈی میں پیشکش کی تھی کہ گوجرانوالہ جامعہ نصرت العلوم کو اپنا مرکز بنالو۔ مگرہم نے معذرت کی کہ فرقہ کی طرف منسوب نہیںہونا تو بہت خوش ہوگئے اور کامیابی کا مژدہ بھی سنادیا۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پاکستانی14اگست مناتے ہیں اور میلادالنبیۖ نہیں مناتے تو میلاد بدعت ہے۔ کیا سودکو جائز قرار دینا سنت ہے؟۔ فرقہ واریت میں ملوث رنگ رنگیلے لوگوں کے سینگ نہیں ہوتے۔ جماعت اسلامی کے ایک پروگرام میںمفتی رفیع عثمانی نے کہا کہ میں نیا نیا مدرس بنا تو اپنا نام مفتی محمدرفیع دیوبندی لکھا تو والد نے کہا:اس میں فرقہ واریت کی بدبو ہے، دیوبندی مت لکھو۔ جس پر ایک دیوبندی عالم نے کہا کہ مفتی شفیع کے معارف القرآن کی جلد اول چھپ گئی ،مفتی شفیع دیوبندی لکھا ہے۔ تو مفتی رفیع عثمانی نے بات کا رُخ موڑا کہ آپ کی تقریر اچھی ، میری اچھی نہیںتھی۔ یہ لوگ بعد میں عثمانی بن گئے۔ پچھلے شمارے میں غلطی ہوئی۔ مفتی عتیق الرحمن عثمانی بن مفتی عزیز الرحمن عثمانی بن مولانا فضل الرحمن عثمانی کا دیکھا کہ دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے تھے۔ شیخ الہند کے والد ذوالفقار علی دیوبند کے بانیوں میں تھے۔میں نے مغالطہ کھایا اور علامہ شبیراحمد عثمانی برادر مفتی عزیز الرحمن عثمانی کو شیخ الہند کے بیٹے سمجھ لیا۔ ان لوگوں کا شجرہ نسب موجود ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اصول فقہ میں قرآن سے ٹکرانے کی بنیاد پر حدیث کو رد کیا گیا ہے جو خوش آئند ہے اسلئے کہ قرآن مقدم ہے ، اگرچہ حدیث کی بڑی تأویل ہے ۔ اور یہ ایک حدیث نہیں بلکہ200احادیث ہیں جن پر حد تواتر تک پہنچنے کا دعویٰ ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے فرمایا کہ ”مشرک سے نکاح مت کرو اور اپنی عورت کا مشرک سے نکاح مت کراؤ”۔ اور فرمایا ”زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ سے اور زانیہ کا نکاح نہیں کرایا جاتا مگر زانی یا مشرک سے”۔ ان میں احادیث صحیحہ کی تائید ہوتی ہے۔ دوسری طرف مسئلہ کفو میں جعلی عثمانی لڑکی کا نکاح باپ کی اجازت کے بغیر ہندوستانی عجم کے نسل سے ناجائز قرار دیا گیا کہ نسل میں برابر نہیں ۔حالانکہ قرآن وسنت میں سبھی کو بنی آدم کہا ہے ۔ عجم وعرب ، کالے گورے اور ہر قسم کی نفری تفریق کا خاتمہ ہے۔ ہندو میں برہمن اور اچھوت کا تصور ہے۔ یہودی خود کو اعلیٰ نسل سمجھتے ہیں مگرعمران خان کو جمائما دیدی۔ پارسی نسل سولہ سالہ لڑکی کا باپ قائداعظم کو نہیں دینا چاہتا تو18سال کی عمر میں رتن بائی سے کورٹ میرج کرلی۔نصاب کی درستگی سے علماء کا دماغ درست ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ نومبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز