داتا کے نام پر سواریاں بٹھاکر گامے شاہ اتارنے والے منافق ابو طالب کا ایمان ثابت کریں۔پیر سید سیف اللہ قادری
دسمبر 20, 2023
داتا کے نام پر سواریاں بٹھاکر گامے شاہ اتارنے والے منافق ابو طالب کا ایمان ثابت کریں۔پیر سید سیف اللہ قادری
تبصرہ پڑھ کر پیر سیف اللہ داتا صاحب کے بجائے ہیرہ منڈی میں چھپ کر ہی نہ بیٹھ جائے:از طرف نوشتۂ دیوار
امیر البیان ، مفسر قرآن، شارح ادب المفرد مفتی پیر سید سیف اللہ قادری: متفق علیہ مسئلے ہیں آج14سو سال بعد وہ کہہ رہے ہیں کہ نہیں نہیں ابوطالب نبیوں کے بعد سب سے اعلیٰ ہے۔ آخر پہلے بھی تو پوری ملت گزری ہے ناں۔ نہ کسی دیوبندی کو، نہ بریلوی کو، نہ اہلحدیث کو، نہ مالکی، نہ شافعی، نہ حنبلی ، نہ حنفی کو ،14سو سال میں پوری اُمت کویہ یاد نہیں ہے۔ وہ جو ملا دو ٹکے کے ملا ایرانی زرخرید، اور چرسیوں کے چیلے، بھنگیوں کے چیلے بھنگیوں سے مانگ کر کھانے والے، وہ جناب گلی گلی کہہ رہے ہیں کہ یہ تو قرآن سے ثابت ہے۔ یعنی پوری اُمت اندھی آئی ہے۔ حضور ۖ فرمارہے ہیں کہ اس کو جہنم کی جوتیاں پہنائی جائیں گی۔ دماغ یوں کھولے گا جیسے ہڈیاں کھول رہی ہیں۔ اور یہ سمجھ گیا قرآن کو معاذ اللہ حضور نہیں سمجھے؟۔ جن پر قرآن نازل ہوا ہے۔ حضرت علی اپنے سگے باپ کو فرمارہے ہیں انہ مات مشرک یا رسول اللہ ۖ وہ مشرک مرا ہے۔ حضرت علی کو نہیں پتہ تھا کہ قرآن کہاں نازل ہوا ہے؟۔ یہ آج ان کو پتہ چل گیا جن کی کوئی اوقات نہیں جو نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ نہ ادھر کے نہ اُدھر کے ، جنہوں نے لبادہ اہلسنت کا اوڑھا اور جو داتا صاحب کے نام پر سواریاں بٹھا کر گامے شاہ اتارنے والے ۔ وہ منافق اور کذاب ان کو آج یہ مسئلہ سمجھ آیا ہے۔ اور قرآن و حدیث کا صحابہ کو اہل بیت کو، میں چیلنج کررہا ہوں میرے سامنے قرآن پڑا ہے۔ حضرت علی کی کسی اولاد کا فرمان دکھاؤ جو ابوطالب کی شان میں آیا ہو۔ نہیں سمجھے آپ سوئے ہوئے ہیں۔ حضرت علی کے بیٹے ہیں امام حسن ہیں امام حسین ہیں، امام زین العابدین ہیں، آگے امام جعفر صادق ہیں،امام موسیٰ کاظم ہیں، امام نقی ہیں ، امام تقی ہیں، یہ سارے مولیٰ علی کی اولاد ہیں۔ اور ابوطالب ان کے سگے دادا ہیں۔ ان میں سے کسی ایک امام کا فرمان دکھاؤ جنہوں نے ابوطالب کے ایمان پر قول کیا ہو۔ وہ نہیں بولے تو دو نمبر سیدوں1947کے بعد بننے والے کذابوں تمہیں یہ پتہ چل گیا کہ ابوطالب علیہ الصلوٰة و السلام تھا۔13سو آیات اتری ہیں۔ اور یہ ہوا ہے وہ ہوا ہے اور آج پھر تعلی اور تحدی کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ بارہ اماموں میں سے کسی ایک امام کا قول ایمان ابوطالب پر دکھا دو۔ امام حسن کا دکھادو، امام حسین کا دکھادو، چلو مولیٰ علی کا دکھادو۔ مولیٰ علی کے بھائی جعفر کا دکھادو۔ کسی ایک کا دکھادو۔ ہم تمہارے ساتھ چلیں گے بھی نعرہ بھی لگائیں گے اور تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر تم سے بھی معافی مانگیں گے رب اور اسکے رسولۖ سے بھی مانگیں گے۔ اور اگر یہ نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجار کہ ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن پتھر اور تم جیسے انسانوں کو بنایا ہے۔ باز آجاؤ اس حرکت سے اہلسنت کے ایمان اور عقائد خراب نہ کرو اور قرآن و سنت سے یہ کھلواڑ نہ کرو۔ اللہ کہہ رہا ہے والذین سعوا باٰیاتنا اور جو لوگ کوشش کررہے ہیں ہماری آیتوں کی تردید میں اس خیال سے کہ معٰجزین فیھا وہ ہمیں ہرادیں گے قرآن و حدیث کو نیچا دکھلادیں گے اؤلئٰک اصحاب الجحیم یہی لوگ پکے دوزخی ہیں۔ میں نے کہا تھا اسی ڈاکٹر کو رات کو میسج کیا تھا اس کا مجھے میسج آیا کہ میں عرس ابی طالب پر خطاب کرنے لگا ہوں۔ تو میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ایک دعا کرتے ہیں اللہ تیرا حشر ابوطالب کے ساتھ کرے ہمارا مولیٰ علی کے ساتھ کرے۔ میں نے کہا جہاں ابوطالب جائے اللہ کرے تو وہیں جائے۔ اور جہاں مولیٰ علی جائے ہم وہاں جائیں۔ ابھی تک اس کو آمین کہنے کی جرأت نہیں ہوئی اور ہوگی بھی نہیں۔ نہیں آئے میرے ساتھ مباہلہ کرلے جو ایمان ابی طالب کے نعرے لگارہے ہیں میرے ساتھ مباہلہ کرلیں چیلنج کررہا ہوں۔ آئیں ابھی پتہ چل جائے گا۔ وہ پنڈی کا نام نہاد قریشی ہو وہ یہ ہو وہ ہو، ادھر ہو اُدھر ہو۔ اور جتنے نمبر سیانے ہیں ایمان ابی طالب کی آڑ میں حضرت امیر معاویہ پر بھونک رہے ہیں۔ ان سب کو چیلنج کرتا ہوں آؤ ہم اہلسنت تھے جو اعلیٰ حضرت کے ماننے والے ہیں۔ جہاں تمہارا دل چاہے ہمارے ساتھ مباہلہ کرلو اور فیصلہ رب کردے گا۔
____تبصرہ : نوشتہ دیوار____
کچھ لوگ ابوطالب کی مخالفت کی خبط میں مبتلاء ہیں کہ آپ نے اسلام قبول کیا تو نبیۖ نے نام کیوں نہیں بدل دیا؟۔جس کا نام مشرکانہ ہوتا تھا، جیسے عبدالکعبہ کا نام بدل دیا جاتا تھا۔ ابوبکر، عمر ، عثمان،علی، خالد اور سعد بن ابی وقاص کا نام بدلا؟۔ کبھی پوچھنے کی جرأت ہوئی ہے کہ جب قائداعظم کی بیگم رتن بائی نے اسلام قبول کیا تو اس کا نام کیوں نہیں بدلا؟۔
ابوطالب سے اسلئے عقیدت نہیں کہ نبیۖ کے چچا تھے ۔ چچا تو ابولہب بھی تھا جو کفر پر مرا ۔ جس کو انگلی سے پیر کے دن راحت ملتی ہے کہ نبی ۖ کی پیدائش کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تھی۔ صحیح بخاری کی یہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں اسلئے کہ اللہ نے فرمایا: ” جو ذرہ خیر کرے گا وہ اس کو دیکھے گااور جو ذرہ شر کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا”۔ جبکہ ابوطالب نے تو زندگی نبیۖ کیلئے وقف کی تھی؟۔ بخاری کی حدیث میں آیا کہ ابوطالب جہنم کے نچلے درجے میں تھا اور نبی ۖ کی سفارش سے اوپر آگیا؟۔ اللہ نے مشرک کی سفارش قبول نہیں کرنی تو ابوطالب کی سفارش قبول کی؟۔ ابوجہل جہنم کے نچلے حصے میں نہیں پہنچا اسلئے کہ کافر تھا منافق نہیں تو ابوطالب کیسے پہنچا؟۔ اللہ نے فرمایا کہ” منافقین جہنم کے نچلے حصہ میں ہوں گے؟”۔ منافقت کا ماحول تو مدینہ کی ریاست بننے کے بعد قائم ہوا تھا یا پھر آج ہے۔ ابوطالب نے اپنی بیٹی ام ہانی کا رشتہ کیوں نبیۖ کی جگہ مشرک کو دیا تھا؟۔ تو صلح حدیبیہ کے بعد حضرت عمر نے اپنی دو کافر بیگمات کو اللہ کے حکم پر چھوڑ ا ،اس طرح دیگر صحابہ نے اسلئے کہ پہلے مشرکینِ مکہ سے رشتے ناطے ہوتے تھے۔ بعد میں بھی ان مؤمنات کی وضاحت ہوئی جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گئیں کہ ان کو واپس مت لوٹاؤ ، وہ ان مشرک شوہروں کیلئے حلال نہیں اور نہ مشرک شوہر ان کیلئے حلال ہیں۔ لیکن ام ہانی بھاگ کر نہیں آئی تھیں اسلئے ان پر فتح مکہ تک بھی اس کا اطلاق نہیں ہوا۔ اگر ابوطالب کے کفر پر سنی کو اپنا ماحول رکھنے کا حق ہے اسلئے کہ بنوامیہ وبنوعباس نے جو آلودگی پھیلائی تھی تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلنا تھا تو شیعہ کو اپنے ماحول کی مجبوری کا پورا پورا حق ہونا چاہیے کہ کس کو مسلمان اور کس کو کافر سمجھیں؟۔
جب نبی ۖ نے فرمایا کہ ” قلم اور کاغذ لاؤ۔ایسی چیز لکھ کر دیتا ہوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے”۔ حضرت عمر نے کہا کہ ”ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے”۔ اگر نبی ۖ وصیت میں یہ لکھ دیتے کہ میرے بعد ابوطالب پر کوئی جھوٹ مت بناؤ لیکن پھر بھی کم بختوں نے اپنی حرکات سے باز نہیں آنا تھا۔ اس میں کوئی شبہ کی بات اسلئے نہیں کہ قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ انک لا تھدی من احببت ” آپ اس کو ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہتے ہوں”۔ پھر یہ آیت حضرت ابوطالب پر فٹ کی گئی ہے۔ قرآن میں یہ آیت جہاں ہے وہاں ابوطالب کے حوالہ سے بھی غور کرو اور ابوسفیان اورامیر معاویہ دونوں کوبھی دیکھ لو اور پھر ایمانداری سے بتاؤ کہ کون کہاں اور کس آیت میں نشانہ بن رہاہے؟۔
ولقد وصلنا لھم القول لعلھم یتذکرونOالذین اٰتینٰھم الکتٰب من قبلہ ھم بہ یؤمنونOو اذا یتلٰی علیھم قالوا اٰمنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمینOاولٰئک یؤتون اجرھم مرتین بما صبروا ویدرء ون بالحسنة السیئة و مما رزقناھم ینفقونOو اذا سمعوا اللغوا اعرضوا عنہ و قالو لنا اعمالنا ولکم اعمالکم سلٰم علیکم لا نبتغی الجٰھلینOانک لا تھدی من احببت ولٰکن اللہ یھدی من یشآء وھو اعلم بالمھتدینOو قالو ان نتبع الھدٰی معک نتخطف من ارضنا اولم نمکن لھم حرماً اٰمناً یجبیٰ الیہ ثمرٰت کل شی ئٍ رزقاً من لدنا ولٰکن اکثرھم لا یعلمونOوکم اھلکنا من قریة بطرت معیشتھا فتلک مسٰکنھم لم تسکن من بعدھم الا قلیلاً و کنا نحن الوٰرثینOوما کان ربک مھلک القرٰی حتیٰ یبعث فی اُمھا رسولاً یتلوا علیھم اٰیٰتنا وما کنا مھلکی القرٰی الا و اھلھا ظالمونOوما اوتیتم من شی ئٍ فمتاع الحیٰوة الدنیا و زینتھا وما عند اللہ خیر و ابقٰی افلا تعقلونOافمن و عدنٰہ وعدًا حسنًا فھوا لاقیہ کمن متعنٰہ متاع الحیٰوة الدنیا ثم ھوا یوم القیٰمة من المحضرینOویوم ینادیھم فیقول این شرکآ ء ی الذین کنتم تزعمونOقال الذین حق علیھم القول ربنا ھٰولآ ء الذین اغوینا اغوینٰھم کما غوینا تبرانا الیک ما کانوا ایانا یعبدونOو قیل ادعوا شرکآ ء کم فدعوھم فلم یستجیبوا لھم وراو العذاب لو انھم کانو یھتدونOو یوم ینادیھم فیقول ماذا اجنتم المرسلینOفعمیت علیھم الانبآء یومئذٍ فھم لا یتسآء لونOفاما من تاب و اٰمن و عمل صالحاً فعسیٰ ان یکون من المفلحینOو ربک یخلق ما یشآ ء و یختار ماکان لھم الخیرة سبحٰن اللہ و تعٰلٰی عما یشرکونOوربک یعلم ما تکن صدورھم وما یعلنونOوھواللہ لا الہ الا ھوا لہ الحمد فی الاولیٰ و الاٰخرہ ولہ الحکم و الیہ ترجعونO
اور البتہ ہم ان کے پاس ہدایت بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی ، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور جب ان پر پڑھا جاتا ہے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے۔ ہمارے رب کی طرف سے یہ حق ہے، ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انکے صبر کی وجہ سے دگنا بدلہ ملے گا اور بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور جب بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے ہمارے اعمال تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ بیشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔ اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں، کیا ہم نے انہیں حرم میں جگہ نہیں دی جو امن کا مقام ہے جہاں ہر قسم کے ثمرات کا رزق ہماری طرف سے پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے۔ اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کرڈالا جو اپنی معیشت پر نازاں تھے، سو یہ ان کے گھر ہیں کہ ان کے بعد آباد نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور ہم ہی وارث ہوئے۔ اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج لے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتے مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں۔ اور جو چیز تمہیں دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اور اس کی زینت ہے، جو چیز اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے، کیا تم نہیں سمجھتے۔ پھر کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہو سو وہ اسے پانے والا بھی ہو اس کے برابر ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی کا فائدہ دیا پھر وہ قیامت کے دن پکڑا ہوا آئے گا۔ اور جس دن انہیں پکارے گا پھر کہے گا میرے شریک کہاں ہیں جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ جن پر الزام قائم ہوگا وہ کہیں گے اے رب ہمارے! وہ یہی ہیں جنہیں ہم نے بہکایا تھا، انہیں ہم نے گمراہ کیا تھا جیسا کہ ہم گمراہ تھے، ہم تیرے روبرو بیزار ہوتے ہیں، یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے۔ اور کہا جائے گا اپنے شریکوں کو پکارو پھر انہیں پکاریں گے تو وہ انہیں جواب نہ دیں گے اور عذاب دیکھیں گے، کاش یہ لوگ ہدایت پر ہوتے۔ اور جس دن انہیں پکارے گا پھر کہے گا تم نے پیغام پہنچانے والوں کو کیا جواب دیا تھا۔ پھر اس دن انہیں کوئی بات نہیں سوجھے گی پھر وہ آپس میں بھی نہیں پوچھ سکیں گے۔ پھر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کئے سو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں سے ہوگا۔ اور تیرا رب جو چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہے پسند کرے، انہیں کوئی اختیار نہیں ہے، اللہ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے۔ اور تیرا رب جانتا ہے جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے، اور اسی کی حکومت ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (سورة القصص :70-51)
ان آیات میں پہلے اہل کتاب کے بارے میں مقدمہ باندھا گیا ہے کہ ان میں بھی بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں جو حق کو قبول کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ یہ کلام ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم تو پہلے سے ہی مسلمان تھے۔ان اہل کتاب کی دو خوبیوں کی وجہ سے ڈبل اجر کے مستحق قرار دئیے گئے ہیں۔ پہلی خوبی ان میں صبر کی اعلیٰ ترین صفت اور دوسری برائی کا بدلہ نیکی سے دینا۔ اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر اصل مقصد کی بات واضح کردی ہے کہ جہاں اللہ کسی نبی کو مبعوث فرماتا ہے تو اس میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو جاہلوں سے تصادم کی شکل اختیار کرنے کے بجائے فضول کے بکواسات سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم پر سلام ہو ، ہم جاہلوں کو نہیں چاہتے۔ دوسری طرف بڑا مفاد پرست ٹولہ ہوتا ہے اور اس کی صفت یہ ہوتی ہے کہ اگر ہم نے حق کو قبول کرلیا تو پھر اس کی پاداش میں ہم اپنی زمین سے اٹھالئے جائینگے۔ حضرت ابوطالب اور حضرت ابوسفیان دونوں میں سے کون کس صف میں کھڑا تھا؟۔ حضرت ابوطالب نے تو شعب ابی طالب میں تین سال کی مشکلات گزار کر ثابت کیا کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو حق کو اسلئے قبول نہیں کررہے تھے کہ اگر حق کو قبول کیا تو اپنی زمین سے اٹھالئے جائیں گے۔ البتہ ابوسفیان جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تو اس دوسری صف میں ہی کھڑا تھا۔دوسری صف کے سرداروں میں زیادہ تر ابوجہل و دیگر مارے گئے اور انہی سرداروں کو چھوٹے مشرک پکڑیں گے کہ تم لوگوں نے ہمیں ورغلایا تھا۔ بت تو کسی کو ورغلانے سے رہے۔ ابوطالب اور ابوجہل بالکل الگ الگ صفوں میں کھڑے تھے اور قرآن کی ان آیات کو بار بار فجر کے وقت تازہ دماغ کیساتھ پڑھ کر دیکھو۔ نبی ۖ نے ابوجہل و عمر بن خطاب کیلئے دعا مانگی تھی۔ اور سردارانِ قریش کیلئے خواہش تھی کہ وہ ایمان لائیں۔ ان پر آیات سے روشنی ڈالنے میں ادھر سے ادھربات نہیں جاسکتی ہے۔ البتہ فتح مکہ کے بعد حضرت ہندہ ، حضرت ابوسفیان ، حضرت معاویہ نے اسلام قبول کیا تو اللہ نے ان الفاظ میں نشاندہی فرمائی ہے۔فاما من تاب و اٰمن و عمل صالحاً فعسیٰ ان یکون من المفلحین ” پس اگر کسی نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور نیک اعمال کئے تو پھر ہوسکتا ہے کہ وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوجائے” لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خلافت کو امارت میں بدل دے اور یزید کو بھی مسلط کرے اور خلافت کو بنوامیہ یا بنوعباس کی لونڈی بنائے تو یہ عمل صالح ہے۔
حضرت امیر معاویہ نے خود اس خدشے کا اظہار کیا کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ایسے حکمران ہوں گے جو ہرقسم کی الٹی سیدھی ہانکیں گے لیکن کوئی خوف سے ان کو جواب نہیں دے سکے گا۔ وہ بندر اور خنزیر کی شکل میں جہنم رسید ہوں گے ۔تین جمعہ میں مسلسل کہا کہ بیت المال میرا ذاتی ہے اور اس پر کسی کا حق نہیں ۔ جب تیسرے جمعہ میں کسی نے کہا کہ آپ کا نہیں عوام کا ہے تو ان کی جان میں جان آگئی اور دعائیں دیں کہ اس شخص کی وجہ سے میں وعید سے بچ گیا۔ورنہ مجھے یقین ہوچکا تھا کہ میں ان میں شامل ہوں۔ (عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں ۔مصنف: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید)
والذین اٰمنوا و ھاجروا و جٰھدوا فی سبیل اللہ و الذین اٰووا و نصروا اولٰئک ھم المؤمنون حقاً لھم مغفرة و رزق کریمO(انفال74:) نبی ۖ سے اللہ نے فرمایا کہ الم یجدک یتیمًا فآویٰ ” کیا ہم نے آپ کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانہ دیا”۔ نصرت اور ٹھکانا دینے سے کوئی انکار نہیں کرسکتا تو قرآن کی آیت میں سچے مؤمنوں میں بھی ابوطالب سر فہرست ہیں۔ بخاری میں رفع الیدین کی روایات مسترد کرتے ہو کہ نبی ۖ نے فرمایا کہ ” گھوڑے کی دم کی طرح نماز میں ہاتھ مت ہلاؤ” پھرعید کی نماز میں پاگل گائے کی طرح دم ہلانے سے نہیں شرماتے؟۔ فیصل آباد میں کار والا گدھا گاڑی والے سے کہہ رہا تھا کہ نوازشریف کو ہٹاؤ۔ اس نے دم اٹھاکر دکھائی کہ تیری بہن بینظیر ہے۔ یہ نہ ہو کہ دوسروں کو جعلی سید کہنے والا سیف اللہ قادری خود میراثی نکل آئے۔ علم اورشکل کیساتھ طرزِ گفتگو سے لگتا ہے کہ یہ ہیرہ شیعہ بن کر منڈی میں چھپ جائیگا۔
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ