پوسٹ تلاش کریں

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید اخبار: نوشتہ دیوار

دیوبند کا کپوت ذو الخویصرہ کا بچہ مفتی رشید

جامعة الرشید کے مفتی رشید نے کہا :ہمارے ہاں الیکشن کے بعد جس طرح کی سیاسی گہما گہمی چل رہی ہے اور جس طرح کی چیزیں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ساری پاکستانی قوم حیرت میں کہ ہو کیا رہا ہے؟ مولانا فضل الرحمن ایک عرصے تک طویل عرصے تک جے یو آئی کے حضرات عمران خان کو یہودی ایجنٹ ہے پتہ نہیں کیا کیا کہتے رہے ؟ہم سنتے سنتے رہے، ساری دنیا جانتی ہے ۔مولانا طارق جمیل تھوڑا قریب ہوئے تو ان کو ایک طرح سے نشان عبرت بنا دیاکہ یہ یہودی ایجنٹ کے کیسے قریب ہو گیا؟۔ اب جب گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تو جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بھئی ہمارا ان سے جسموں کا اختلاف نہیں، دماغوں کا اختلاف ہے۔ تو اسلئے وہ بھی ٹھیک ہو جائیگا۔ پھر پی ٹی آئی کا وفد بھی گیا وہاں ان سے ملاقات بھی کی۔ وہ جو ایک دوسرے کے خلاف اتنی نفرت انگیز تقریریں تھیں کہ وہ ان کو یہودی ایجنٹ اور یہ ان کو ڈیزل اور جو بیہودہ القابات عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کو جو دیئے جا رہے ہوتے تھے پھرPTIکے کارکنJUIکے خلافJUIکے کارکنPTIکے خلاف جس طریقے کے الزامات ایک دوسرے پہ لگاتے تھے بیٹا باپ سے لڑا ،باپ بیٹے سے لڑا بھائی بھائی سے لڑا دوست دوست سے لڑا گھر ٹوٹے پتہ نہیں کتنی لڑائیاں کتنے پھڈے اسی ڈیزل اور جناب یہودی ایجنٹ کے چکر میں لوگ لڑتے رہے آج انکے لیڈر آپس میں مل رہے ہیں تو یہ جو کارکن ہیں یا جو لوگ ایک لیڈر کی تعریف میں زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے یا اس طرف والے زمین و آسمان کی قلابیں ملا کے اس کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے انکی اس وقت کیا پوزیشن ہے یہ کہاں کھڑے ہیں؟ جو بیٹا اپنے باپ سے لڑتا رہا5 سال تک کہ بھئی آپJUIکو کیوں سپورٹ کرتے ہیں یا جنابJUIکا جو ورکر تھا وہ اپنے باپ سے لڑتا رہا کہ آپPTIکے جلسوں میں کیوں جاتے ہیں یاPTIوالوں سے کیوں ملتے ہیں؟ اب جب یہPTIاورJUIوالے مل رہے ہیں تو آپ کہاں پہ کھڑے ہیں؟۔ روایت میں حضرت علی کا قول ہے کہ جس سے محبت کرنی ہے تو اعتدال میں رہ کے محبت کرو ہو سکتا ہے کل دشمنی ہو جائے، جس سے دشمنی کرنی ہے تو دشمنی بھی اعتدال میں رہ کے کرو ہو سکتا ہے کل دوستی ہو جائے۔ کہتے ہیں نا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاستد ان کسی بھی وقت یوٹرن لے لے گا آپ اس کی شکل تکتے رہ جائیں گے یہ کیا کر دیا اسنے ہمیں کیا پٹی پڑھائی تھی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا تھا خود کیاکیا؟۔ تو پاکستانی سیاست میں کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے اسلئے بار بار ہم یہ گزارش کرتے ہیں اب ہو سکتا ہے یہ کلپ میں ریکارڈ کروا رہا ہوں تو یہ بھی کسی کو برا لگے کسی کو برا لگتا ہے تو ہماری بلا سے جس چیز کو ہم سمجھتے ہیں جو ٹھیک ہے وہ آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں بھائی آپPTIمیں ہیں نا آپPTIکے رہیں آپ عمران خان کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں قیامت تک، آپJUIکے ہیں مولانا فضل الرحمن کی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں دیتے رہیں لیکن ایکدوسرے کے خلاف اتنے گھناؤنے اتنے گھٹیا الزامات ایکدوسرے پر لگانا۔ پتہ نہیں چوری اور کرپشن کے اور ڈیزل چوری کے کوئی چیز کبھی کسی پہ ایک دوسرے پہ کوئی ثابت نہیں کر سکا نہ یہ اس پر نہیں اس پارٹی والے اس پارٹی والے پر تو یہ جو ہم تہمت لگاتے ہیں الزام لگاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں غیبت کرتے ہیں کیا یہ سب قیامت کے دن معاف ہو جائے گا اللہ ہم سے پوچھے گا نہیں؟۔ یہ بھی مسلمان وہ بھی مسلمان یہ اس پہ الزام لگا رہا ہے وہ اس پہ الزام لگا رہا ہے کیا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے تو اس طریقے سے سیاست کی وجہ سے اپنے تعلقات خراب کرنا ایک دوسرے سے لڑنا یہ بہت بیوقوفی کی بات ہے پھر لوگ اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں سیاست دانوں کیلئے جان دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے مظاہرے میں نکلیں گے احتجاج میں نکلیں گے تو سیاست دان کے نام پہ وہ کہتے ہیں میری جان جاتی ہے تو جائے اسلئے کہ سیاستدان نے اس کو یہ پٹی پڑھائی ہوئی ہے کہ یہ آپ شہید ہو جائیں گے اور آپ نظریے کیلئے لڑ رہے ہیں آپ ملک کیلئے لڑ رہے ہیں آپ فلاں کیلئے لڑ رہے ہیں بھائی جب نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں جس نظرئیے کیلئے آپ لڑ رہے ہیں کل آپ اس سے یوٹرن لے لیتے ہیں وہ جو بندہ مر گیا اس احتجاج کے چکر میں وہ اس کا کیا بنے گا اس کے گھر والوں کا بچوں کا کیا بنے گا؟۔ سیاسی لیڈر تو ایک دفعہ آئے گا دعا کرے گا تصویر کھنچوائے گا چلا جائے گا رُلیں گے تو اس کے بچے رلے گی تو اس کی بیوہ اس کے ماں باپ ساری زندگی خون کے آنسو روتے رہیں گے سیاستدان کو بعد میں کیا پتہ چلے گا کہ کون میرے لیے مرا تھا کون جیا تھا ؟۔تو یہ جو ہمارے ہاں سیاست دانوں کے چکر میں ہم ایک دوسرے کے دشمن بنتے ہیں خدا کیلئے یہ دشمنیاں نہ کریں کل آپ ٹینشن میں ہوں گے۔ سیاستدان یو ٹرن لے کے کسی اور پوزیشن پہ کھڑا ہوگا آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی ہوگی تو یہ ایک بہت اہم میسج ہے جو ہمیں سارے پس منظر سے سیکھنے کو ملتا ہے سمجھنے کو ملتا ہے۔ اگر آسان جملوں میں میں کہوں تو سیاستدانوں کو اتنی ویلیو دیں جتنی ویلیو وہ آپ کو دیتے ہیںاتنی ویلیو آپ ان کو دیں۔ اس سے زیادہ کی ویلیو اگر ان کو دیں گے تو پچھتائیں گے ٹینشن میں آئیں گے آپ کے گھر والے پریشان ہوں گے۔ اور اعتدال اور بیلنس کے ساتھ چلیں گے تو انشاء اللہ امید ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
تبصرہ نوشتۂ دیوار:عتیق گیلانی
مفتی رشیدکا تعلق جامعة الرشید کراچی سے ہے ۔ مفتی عبدالرحیم کا شاگرد ہو گا جو مفتی رشیداحمد لدھیانوی کا ایک سلسلہ خبیثہ ہے۔پچھلے شمارے میں دارالعلوم دیوبند کے سپوتوں اور کپوتوں کا ذکر کیا تھا۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے مجھ سے خود فرمایا کہ ” حاجی محمد عثمان کے فتوؤں کے پیچھے مفتی رشید خبیث ہے”۔ مولانا یوسف لدھیانوی اپنے داماد اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ حاجی عثمان کی قبر پر بھی حاضری دینے گئے تھے۔مفتی منیر احمد اخون جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں میرا کلاس فیلو تھا۔ جو ابھی مفتی اعظم امریکہ کے نام سے یوٹیوب چینل پر ہوتے ہیں اور مولانا یوسف لدھیانوی کے داماد بھی ہیں۔ جب مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں بہت سخت محاذ آرائی کا بازار گرم تھا تو مفتی منیر احمد اخون نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ کاش مولانا فضل الرحمن اور عمران خان آپس میں مل جاتے تو بہت بڑا انقلاب پاکستان میں آسکتا ہے۔ یوٹیوب پر مفتی اعظم امریکہ کا بیان دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مفتی زر ولی خان نے بھی اپنی زندگی میں اس بات کا کھل کر اظہار کیا تھا کہ ”میں عمران خان کو مولانا فضل الرحمن کے پاس لاؤں گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔ان کی دوستی کرانی چاہیے”۔ ہم نے بھی لکھا تھا کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن کو ایک ساتھ ہونا چاہیے ۔
لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مفتی رشید نے بہت زبردست بات کی ہے ،اس پر اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔حضرت علی نے خوارج کے بارے میں فرمایا تھا کہ ” وہ بات صحیح کررہے ہیں لیکن صحیح بات سے باطل مراد لیتے ہیں”۔ یہ مفتی رشید کی بات درست ہے لیکن وہ اس سے باطل مراد لیتا ہے۔ذوالخویصرہ کی روحانی اولاد اور دارالعلوم دیوبند کے کپوت کو صحیح وقت پر سمجھانا پڑے گا کہ تم بکواس کررہے ہو۔ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان اختلاف کی نوعیت مذہبی نہیں سیاسی تھی۔ ایک دوسرے کے افراد کو قتل کرنے سے لیکر پتہ نہیں کیا کیا نہیں بولا ہوگا؟۔ مگر جب حضرت حسن نے صلح کی تو رسول اللہ ۖ نے یہ بشارت دی تھی کہ” میرا یہ بیٹا سید ہے اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں اللہ صلح کرائے گا”۔شیعہ سنی سب مسلمانوں کے نزدیک حضرت حسن کے اس کردار کو سراہا گیا ہے ۔لیکن خوارج جو ذوالخویصرہ کا گروہ تھا۔ اس نے اس سیاسی اتحاد کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔ جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی تھی تو شدت پسند مسلمانوں کے طرزِ عمل کی تفریق تاریخ کی نذر ہوگئی ہے۔ حضرت حسن و حضرت حسین نے حضرت عثمان کے بچانے میں اپنا کردار ادا کیا جبکہ دوسرے بھائی محمد بن ابی بکرنے سب سے پہلے حضرت عثمان کی سفید داڑھی میں ہاتھ ڈالا تھا۔وہ بیٹا تو حضرت ابوبکر کا ہی تھا مگر اس کی ماں پہلے حضرت علی کے بھائی کے نکاح میں تھی۔پھر حضرت ابوبکر کی بیوہ بن گئی تو حضرت علی نے نکاح کیا۔ اور محمد بن ابی بکرکی تربیت بھی حضرت علی نے ہی کی تھی۔ ایک گھر کے افراد اور بھائیوں میں کتنا اختلاف تھا؟۔ ایک نے حضرت عثمان کی داڑھی میں ہاتھ ڈا الا اور دوسرے آپ کو بچارہے تھے؟۔ اس سے زیادہ سیاسی اختلاف تو عمران خان اور مولانا فضل الرحمن پر بھی باپ بیٹے کا نہیں ہوا ہوگا؟۔ میرے دوست ناصر علی محسودPTIکو سپورٹ کرتے تھے اور اس کا بیٹاJUIکو سپورٹ کرتا تھا۔ میرا ایک بھتیجاPTIکو سپورٹ کرتا تھا اور دوسراJUIکو۔ میں نے خود شناختی کارڈ کو تصویر کی وجہ سے ضائع کیا تھا مگر پھرJUIکو سپورٹ دینے کیلئے شناختی کارڈ بنایا تھا تاکہ ووٹ دے سکوں۔ جب میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی میرے ہاں تشریف لائے تھے توPTIکے صوبائی امیدوار ایوب بیٹنی سے کہاتھا کہ”تم یہود ی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہو؟”۔ مگر میں نے جنرل صاحب سے کہا کہ ٹانک میں مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام کی مرکزی جامع مسجد سپین جماعت مولانا فتح خان کیPTIکا دفتر تھا جس میںMPAکا امیدوارPTIاورMNAکے امیدوار مولانا فضل الرحمن تھے۔ جس پر جنرل ظہیرالاسلام کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ لاڑکانہ میںPTIکیساتھ ہی مولانا راشد محمود سومرو کا اتحاد پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تھا۔ سیاسی اختلافات اور اس میں احترام کا رشتہ تو صحابہ کرام سے چلا آرہاہے جس میں شدت بھی کبھی کبھی آجاتی ہے۔PTIکے معروف صحافی عمران ریاض خان نے لکھا تھا کہ ”اسرائیل کے یہود سے قادیانیوں کے بڑے مراسم ہیں”۔پھر الزام لگایا تھا کہ ”مولانا فضل الرحمن اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں”۔ حالانکہ میاں افتخار حسین کیساتھ جب مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس کی تھی تو مولانا نے اسرائیل کے خلاف ہی نہیں دوبئی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ عمران ریاض نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے معافی مانگ لی تو مولانا فضل الرحمن سے بھی مانگ لے گا۔ حامد میر نے کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پروگرام جنرل باجوہ کا تھا۔ جبکہPTIہی کی رکن اسمبلی خاتون نے یہودیوں کے حق میں تقریر کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن کو بھی جنرل باجوہ کے وقت بریفنگ دی گئی تھی کہ مساجد میں پیسہ آئے گا اور یہ بھی بتایا ہوگا کہ عمران خان اسرائیل کا ایجنٹ ہے ۔ اگر دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ تو اس کا بھی پتہ چلے گا کہ جو ان کو لڑارہے تھے۔
مفتی رشید کی دم پھر کسی نے ہلائی ہوگی یا اپنے شجرہ خبیثہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی فطرت سے مجبور ہوگا؟۔ یہودی ایجنٹ اور مولانا ڈیزل کے الزام کا معاملہ نیا نہیں ہے ۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف بھی ایک دوسرے پر اسرائیل اور امریکہ کے ایجنٹ کا الزام لگاتے تھے۔ کفر کے فتوے اور سودی نظام کو اسلامی کہنا زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔ مفتی طارق مسعود و مفتی عبدالرحیم پہلے مجاہدین کو سپورٹ کرتے تھے پھر ان پر وعید کی احادیث فٹ کرنے لگے کہ یہ دہشت گرد ہیں؟۔ اس کا کیا بنے گا مفتی رشید لدھیانوی کالیا کے شاگردواور مریدو!،؟۔شیعہ پر کفر کے فتوے اور واپس لینے کا کیا بنا؟۔ حاجی عثمان کے عقیدتمندوںکی بڑی دنیا ہے جس میں دارالعلوم کراچی کے مولانا اشفاق قاسمی فاضل دارالعلوم دیوبندبھی شامل تھے۔ جن کے نکاح کے بارے میں لکھ دیا کہ اس کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا۔ جس دن ان ذوالخویصرہ کی اولاد کا ادراک ہوگیا تو پھر امت مسلمہ میں کفر کے فتوے ،نفرت ، شدت پسندی اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،الیکشن شمارہ فروری2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز