پوسٹ تلاش کریں

دو اصول قرآن وسنت پر اتفاق ہوتو باقی دو پر ہوجائیگا

دو اصول قرآن وسنت پر اتفاق ہوتو باقی دو پر ہوجائیگا اخبار: نوشتہ دیوار

دو اصول قرآن وسنت پر اتفاق ہوتو باقی دو پر ہوجائیگا
پہلا:قرآن دوسرا:سنت تیسرا:اجماع چوتھا:قیاس

جاء البرد والجبات ”سردی آئی جبوں کیساتھ” ۔شیعہ کے امام غائب ہیں اپنی کتاب کیساتھ۔اسلئے شیعہ خود متفق نہیں ہوسکتے۔ البتہ یہ بالکل غلط ہے کہ پہلے اپنا مسلک پیش کیا جائے اور پھر قرآن وسنت کو اس پر قربان کیا جائے۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق؟
ابن عباس نے کہا کہ رسول اللہ ۖ وابوبکر کے دور اور عمر کے ابتدائی دو سال میں اکٹھی تین طلاق کو ایک سمجھاجاتا تھا۔ پھر عمر نے اکٹھی تین طلاق پر تین کا حکم جاری کیا۔ صحیح مسلم کی اس روایت کو امام ابوحنیفہ کے شاگرد اور محدثین، صوفیائ، مجاہدین اور فقہائ میں بڑا رتبہ رکھنے والے عبداللہ بن مبارک نے صحیح سند سے نقل کیا۔ حنفی مسلک کواس پر عمل کرنا چاہیے؟۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم اور علماء دیوبند کے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب نے اپنی کتاب ” تقلید واجتہاد” میں لکھا ہے کہ حنفی مسلک کا اصل یہ ہے کہ کسی ضعیف حدیث کو بھی مسترد کرنے کے بجائے حتی الامکان اس کی تأویل اور تطبیق کی راہ نکال لی جائے۔
صحیح مسلم کی اس حدیث میں ایک بہت بڑے تضاد کی نشاندہی ہے کہ اکٹھی تین طلاق پر حضرت عمر نے ایک بہت بڑی بدعت کا آغاز کیا ۔ اس تبدیلی کے ثبوت کیلئے قرآن وسنت کی گردن مروڑنے کی جگہ تطبیق کی راہ نکال لی جائے۔
جب حنفی مسلک کے زعماء حضرت عمر کی تائید کرنے پر آتے ہیں تو قرآن کی گردن مروڑنے میں بھی شرم وحیاء ، غیرت وحمیت اور ضمیر کے نقاب سے لیکر اپنا چڈھا تک اتارلیتے ہیں اور الف ننگے ہوکر کھلی ندی میں قرآن کو قمیض اور سنت کو اپنی شلوار سمجھ کر دھوبی کی لکڑی سے کوٹتے ہیں۔ اللہ ان کو غرق کرے ۔ بہت غلط کرتے ہیں۔ تفسیر قرطبی وغیرہ میں اس قسم کے بدبودار گل کھلائے گئے ہیں۔
حالانکہ حنفی مسلک کا اصل تقاضا یہی تھا کہ نبی ۖ، حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے دور میں اس تفریق اور تضاد کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرلیتے۔ کیا ان میں تطبیق نہیں ہوسکتی تھی؟۔ آئیے ہم تمہیں تطبیق بفضل تعالیٰ بتادیتے ہیں۔
رسول اللہ ۖ کے دور سے حضرت عمر کے ابتدائی دو سال تک جیسا مسئلہ بتایا گیا ہے ویسے ہی تھا کہ اکٹھی تین کو ایک سمجھا جاتا تھا۔ حضرت عمر نے تبدیلی کا آغاز کیا اور اس آغاز کی وجہ سے حضرت عمر اس لائق ہیں کہ دوست دشمن سب فاروق اعظم کا خطاب دل وجان سے دیں۔ یہ حق وباطل کا زبردست امتیاز تھا۔ تطبیق کی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو اکٹھی تین طلاق دیتا تھا اور دونوں رجوع کیلئے راضی ہوتے تو تین طلاق ایک سمجھی جاتی تھی۔ عدت میں مرحلہ وار تین طلاقیں دی جاتی تھی مگر جب حضرت عمر کے دور میں ایک شخص نے تین طلاقیں دیں اور عورت رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ فیصلہ عمر کے دربار میں آیا تو حضرت عمر نے فیصلہ دیا کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا۔ تین طلاقیں ہوچکی ہیں۔ اگرحضرت عمر یہ فیصلہ نہ دیتے تو عورت کی کسی صورت شوہر سے جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔
قرآن میں تو اللہ نے واضح فرمایا کہ طلاق کے بعد عدت میں باہمی صلح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ حضرت عمر نے قرآن کے عین مطابق فیصلہ دیا۔ جو کہتے ہیں کہ عورت کی رضا کے بغیر رجوع ہوسکتا ہے وہ قرآن کو ذبح کررہے ہیں۔ شیعہ ،اہلحدیث یہ مسئلہ قرآن وسنت ، اجماع وقیاس پر پیش کریں تو ان کو شکست فاش ہوگی۔ نبی ۖ نے تین طلاق تو دور کی بات ہے، ایک طلاق پر بھی شوہر کو یکطرفہ رجوع کا حق نہیں دیا ہے۔یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طلاق میں شوہر چھوڑتا ہے اور خلع میں عورت چھوڑتی ہے۔ طلاق کے بعد عورت صلح کیلئے راضی ہو تو شوہر کو صلح واصلاح ، معروف طریقے اور باہمی رضامندی سے عدت کے اندر، عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کی گنجائش اللہ نے بار بارواضح کی ہے۔ اگرعورت راضی نہ ہوتو شوہر مذاق کی طلاق کے بعد بھی رجوع نہیں کرسکتا۔ اسلئے کہ خلع اور طلاق میں عورت کے حقوق میں بڑا فرق ہے اور یہ مالی معاملہ ہے۔
کسی نے حضرت عمر پر حملہ کیا کہ حج وعمرہ کے اکٹھے احرام پر قرآن و سنت کے برعکس پابندی لگادی تو حنفی و شافعی مخالف و موافق ہوگئے۔حالانکہ یہ شرعی مسئلہ نہیں تھا بلکہ پسینہ کی بدبو سے بچنے کا معاملہ تھا لیکن اسلام کو اجنبی بنادیا گیا۔
روافض نے کہا کہ عمر نے قرآن کے منافی 3 طلاق کو ایک کرنے کی بدعت جاری کردی۔شافعی نے کہا کہ اکٹھی تین طلاق سنت، مباح اور جائز ہیں۔ دلیل یہ پکڑی کہ عویمر عجلانی نے لعان کے بعد تین طلاق دیں۔ حنفی ومالکی نے کہا کہ اکٹھی تین طلاق بدعت، گناہ اور ناجائز ہیں۔ محمود بن لبید کی روایت ہے کہ کسی نے نبی ۖ کو خبر دی، فلاں نے بیوی کو اکٹھی تین طلاق دی تو نبیۖ غضبناک ہوکرکھڑے ہوگئے ،فرمایا: میں تمہارے درمیان میں ہوں اور تم اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟۔
روایات میں واضح ہے کہ طلاق والے عبداللہ بن عمر اورخبر دینے والے اور قتل کی پیشکش کرنے والے حضرت عمر تھے۔ بخاری کی کتاب التفسیر سورۂ طلاق میں نبی ۖ کا غضبناک ہونا اور رجوع کا حکم دینا واضح ہے ۔سارا گند صحیح بخاری کے مصنف نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی وجہ سے ڈالا۔ کہ رفاعہ القرظی کی طلاق کو اکٹھی تین طلاق اور حلالہ کیلئے گمراہی کی بنیاد بنادیا۔ حالانکہ اکٹھی تین طلاق اور حلالہ کی لعنت کا اس سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔ کیانامرد حلالہ کرسکتا ہے؟۔
حسن بصری نے کہا۔پہلے شخص نے کہا کہ ابن عمر نے تین طلاق دی، پھر دوسرے نے20سال بعد کہا کہ ایک طلاق دی تھی۔( مسلم) رائے بدلنے کی وجہ یہ تھی کہ جب لفظ حرام تیسری طلاق ہے تو ایک مجلس میں تین طلاق دینے سے بھی بیوی کو حرام ہی ہونا چاہیے؟۔ نبی ۖ نے اسلام کے عنقریب اجنبی ہونے کی نشاندہی فرمائی تھی تو یہ تصدیق تھی کہ قرآن کو چھوڑ کر رائے عامہ اختلافات کا شکار ہوگئی۔ائمہ اہل بیت نے سمجھادیا تھا کہ مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق پر گواہ بناؤ تاکہ حلالہ کی لعنت کا نام ونشان نہ رہے۔مگر بعد کے شیعہ حضرات نے طلاق کے مسئلے کو غلط رنگ دیا۔ اہل سنت سدھر جائیں گے تو شیعہ بھی سدھریں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ عویمر عجلانی کی روایت میں لعان کے بعد رجوع معاملہ نہیں تھا اور محمود بن لبید کی روایت میں بھی رجوع کی کوئی وضاحت نہیں ہے اور جہاں تک نبی ۖ کے غضبناک ہونے کا تعلق ہے تو اس سے زیادہ مستند روایت صحیح بخاری میں نبیۖ کے غضبناک ہونے کے باوجود بھی عبداللہ بن عمر سے رجوع کا حکم فرمانا ہے۔ اور ساتھ ساتھ تین مرتبہ طلاق کو عدت کے تین مراحل کیساتھ مخصوص کرنے کی بھی نبیۖ نے وضاحت فرمائی لیکن قرآن وحدیث کی طرف رجوع اسلئے نہیں ہورہاہے کہ مذہب تجارت بن گیا ہے۔ لوگ مذہبی سیاست کو تجارت سمجھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ مدارس بھی کاروبار بن گئے ہیں۔
مولانا عبیداللہ سندھی قرآن کی طرف رجوع چاہتے تھے اور علماء دیوبند نے قرآن وسنت کو زندہ کرنا چاہا مگر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حسام الحرمین سے تقلید پر مجبور کردیا،آج دیوبندی بریلوی مل کر اسلام کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

اخبار نوشتہ دیوار کراچی،خصوصی شمارہ دسمبر2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز