پوسٹ تلاش کریں

ڈاکٹر اسرارنے شیعہ کی تائیدکی! علامہ یاسرنقوی

ڈاکٹر اسرارنے شیعہ کی تائیدکی! علامہ یاسرنقوی اخبار: نوشتہ دیوار

ڈاکٹر اسرارنے شیعہ کی تائیدکی! علامہ یاسرنقوی

علامہ سید یاسر نقوی:السلام علیکم۔ میں آج آپ کو تنظیم اسلامی کے ڈاکٹر اسرار احمد کی ایک ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں جس میں وہ اس مؤقف کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں جو14سو برس سے صرف مکتب تشیع کا خاصہ رہا ہے۔ آپ یہ ویڈیو کلپ دیکھئے ۔ ” مُلا کا معاملہ دو طرف سے ہے۔ مُلا ، فقہاء نے سب سے پہلے متغلب کی حکومت کو جائز قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنی قوت کے بل پر آکر حکومت پر قبضہ کرلے وہ جائز ہے۔ اور حکمران کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ تمہیں کفر کا حکم نہ دے۔ کفر کا کیوں حکم دے گا وہ؟ وہ اپنے عیش اڑائے گا اپنے محل بنائے گا اپنی رنگ رلیاں کرے گا۔ یہ تصور ہے جو سنی اسلام کے اندر ان کی رگوں میں چلا گیا اور سن کردیا اسلام کو۔ استثنیٰ اگر ہے تو شیعہ اسلام میں، وہ تسلیم نہیں کرتے۔ چاہے کھڑے نہ ہوں مقابلہ نہ کریں۔ نفرت کرتے ہیں یہی ان کی پوری کی پوری تاریخ کے اندر ہے”۔
یہ وسیع القلبی فقط مکتب اہل بیت میں ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان ایک لمحے کیلئے بھی تعصب کی عینک اتار کر غور و فکر کرے تو حق اس کے سامنے خود بخود آشکار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حق تو حق ہوتا ہے جو کسی فرقے یا مسلک کے تابع نہیں۔ یاد رکھئے دو نظریات اسلام میں ایسے ہیں جو بعد رسول ۖ ظالم و جابر حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے اور مسلمانوں کو اپنا فکری غلام بنانے کیلئے ان پر مسلط کئے تھے۔ پہلا نظریہ تو یہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اشارہ فرمارہے ہیں کہ حاکم متغلب کی اطاعت کا نظریہ چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرا کف لسان کا عقیدہ جس کے متعلق میں اپنی پچھلی ویڈیو میں عرض کرچکا ہوں۔ یہی دو نظریات ہیں جو اسلامی معاشرے میں تمام برائیوں کی جڑ ہیں۔ سادہ الفاظ میں متغلب کی اطاعت واجب ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی زور زبردستی سے، قہر و غلبے سے، قتل و غارت گری سے، دہشت گردی کرکے حکومت کو حاصل کرے چاہے وہ بدکار ، فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو، وہ امیر المؤمنین کہلائے گا۔ اور اس کی اطاعت عوام پر واجب ہوجائے گی۔ تاکہ حقیقت سے نا آشنا عوام حاکم کے اعمال پر نگاہ کئے بغیر اسے فوراً امام مان لیں۔ بعد رسول ۖ اس نظرئیے کو ایجاد کیا گیا اور بنو اُمیہ کے دور میں اس کو قانونی اور شرعی شکل دی گئی اور آج یہ ہمارے برادران اہل سنت کے مذہب کا حصہ بنا ہوا ہے اور بقول ڈاکٹر اسرار احمد کے سنیوں کے اس نظرئے نے اسلام کو سن کردیا ہے۔ آج کے سیاستدان عوام کو بیوقوف بناتے ہیں جو صدر اسلام میں اس آئیڈیا لوجی نے مسلمانوں کو ذہنی یرغمال بناکر انکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کرلیا۔ ابی یعلی محمد الحسین حنبلی کا سن وفات458ہجری ہے انہوں نے اپنی کتاب ”الاحکام السلطانیہ” میں امام احمد بن حنبل کا ایک قول نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ جو غلبہ حاصل کرکے حکومت پر قابض ہوجائے مسلمانوں پر اس کی اطاعت واجب ہوجاتی ہے چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس کے پیچھے نماز جمعہ بھی پڑھی جائے گی اور انہوں نے اس بات کیلئے بڑی دلچسپ دلیل دی ہے کہ جس طرح سے عمر بن خطاب کے بیٹے عبد اللہ ابن عمر نے ناصرف یزید کی بیعت کرلی تھی بلکہ بعد کربلا جب کچھ صحابہ کرام نے یزیدکا فسق و فجور دیکھ کراس کی بیعت توڑ دی تب بھی عبد اللہ ابن عمر متغلب کی اطاعت کے باطل عقیدے کے تحت یزید کی بیعت پر قائم رہے۔ یعنی ابتداء ہی میں نحن مع الغلبہ کا نعرہ مسلمانوں نے لگادیا۔ اور یہ نظریہ رسول کی تعلیمات کے صریحاً خلاف ہے۔ آج ہمارے ملک میں جو ظلم ہے یہ اسی نظام کا تسلسل ہے۔ کیا رسول اللہ ۖ کی بعثت کا مقصد مسلمانوں کے نزدیک صر ف یہ ہے کہ کوئی بھی شخص جائز و ناجائز طریقہ استعمال کرکے اقتدار پر قبضہ کرلے اور دوسرے اس کے سامنے سرنڈر کرلیں۔ آپ کوئی بھی فقہ کو اٹھا کر دیکھ لیں اس میں موجود ہوگا کہ جو لوگوں کو گمراہ کرے جب تک وہ گمراہی رہے گی گناہ اس گمراہ کرنے والے کا شمار ہوگا اور اسی طرح قیامت تک لعنت ہوگی ان پر جنہوں نے لوگوں کو علی علیہ السلام کے راستے سے بھٹکادیا۔ مکتبہ تشیع وہ واحد مسلک ہے جو ظالم و جابر کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتا۔14سو سال سے آپ نے ساری توانائیاں اس پر صرف کردیں کہ جو اللہ کا منتخب کردہ ہے اس کو آپ نہیں مانیں گے اور ملت آج اس کا نتیجہ بھگت رہی ہے جبکہ اللہ قرآن میں یہ کہہ رہا ہے کہ جانشین میں بناتا ہوں خلیفہ میں بناتا ہوں کسی اور کو میرا خلیفہ بنانے کا حق حاصل نہیں ہے۔
برادران اہل سنت سے انتہائی مخلصانہ گزارش ہے کہ شیعہ سنی کی بحث کو چھوڑ دیں۔ رسو ل اللہ ۖ نے اس اُمت کو جاتے وقت جو آخری وصیت کی تھی جس کو شیعہ سنی سب نے تواتر قطعی سے لکھا ہے جو حدیث ثقلین ہے اس کو تو مانیں کہ پیغمبر ۖ نے فرمایا کہ”میں تمہارے درمیان قرآن اور اہل بیت چھوڑ کر جارہا ہوں جو ان دو سے متمسک رہے گا فقط وہ گمراہی سے بچے گا” ۔ یعنی قرآن اور اہل بیت ان دو کو تھامنا فقط گمراہی سے بچنے کی ضمانت ہے۔ تو شیعہ و سنی سے بالاتر ہوکر قرآن و اہل بیت کی آواز پر تو لبیک کہیں۔ یہی دنیا میں کامیابی اور فلاح کی ضمانت ہے۔ لیکن آج سوائے اہل بیت کے سب سے مسلمان دین لینے کو تیار ہیں۔ اور یہی مسلمانوں کی تباہی کا اصل سبب ہے۔ وزیر اعظم سے کہتا ہوں کہ واقعی ریاست مدینہ چاہیے تو کھولیں نہج البلاغہ۔ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات، مکتوبات ،اقوال کو پڑھیں کہ کس طرح سے ایک فلاحی ریاست کا پورا ایک مکمل اور کامل نظام بیان کیا ہے۔ مگر مسلمان تو اہل بیت سے کچھ سیکھنے کو آج بھی تیار نہیں جبھی تو ہم عالمی مالیاتی ادارے کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ کاش بعد رسولۖ مسلمانوں نے اہل بیت کا دامن تھام لیا ہوتا حضرت فاطمة الزہرا علیہا السلام نے اپنے خطبے میں کیا کہا تھا اگر کہ تم نے علی علیہ السلام کی ولایت کو مانا ہوتا تو مولا علی علیہ السلام کیا کرتے ہر بھوکے کا پیٹ بھرتے اور ہر حق دار کو اس کا حق دیتے۔ میری اتنی گزارش ہے کہ اس فکری غلامی سے باہر نکل کر سیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا معذرت کے ساتھ کہ جو آپ کے ملاؤں نے آپ کو سکھایا ہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔ بس آپ کو ایک نصاب بناکر دے دیا گیا کہ بس اتنا سوچو اور اس سے آگے سوچو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ یہ جو آپ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ اہل بیت کی بات کرو گے تو شیعہ کا لیبل تم پر لگ جائے گا ، بھئی اگر آپ کو ہم سے عداوت ہے تو آپ کو اہل بیت سے دین لینے میں یہ کیوں رکاوٹ بن جاتی ہے؟۔ خدارا سوچیں۔ پڑھنے لکھنے کا دور ہے دنیا بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ خود چیزوں کا مطالعہ کریں۔ اور اس فکری غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیں تاکہ حق کو پہچان سکیں۔ اور اپنے ذہن سے خود سوچ کر اپنی راہ کو معین کریں۔

____علامہ سید یاسر نقوی کوعاجزانہ گزارشات____
حضرت علامہ سید یاسر نقوی صاحب!۔ خو گرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لو!۔
ڈاکٹر اسرارکے بیان سے ہم بھی بالکل متفق ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مکتب تشیع اپنی اس سوچ وفکر میں منفرد اور ممتاز ہے۔ ہمیں اس بات کا قطعی کوئی خوف نہیں ہے کہ کوئی ہمیں رافضی یا شیعہ کہے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اپنے مکتب علماء دیوبند سے صرف اس وجہ سے فتوے کھائے ہیں کہ ہم نے شیعہ کو کافر ماننے کا فتویٰ نہیں مانا اور ان کا اپنی طرف سے وہ دفاع کیا جس کی تاریخ میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی ہے۔ آئندہ بھی انشاء اللہ ضرور کریںگے۔ اسلئے کہ پہلے بھی شیعہ کی مخالفت کے نام پر لوگوں نے کاروبار کیا ہے۔ ہم نہ شیعہ مسلک کے دفاع کیلئے کوئی کاروبار کرتے ہیں اور نہ ان کی مخالفت کرنا ہمارا کاروبار ہے اور اس کی حقیقت ہمارے جاننے والے شیعہ سنی مخالف وموافقت سب پر واضح ہے۔ البتہ دونوں کو اصلاح کی دعوت دیتے ہیں اور الحمد للہ ہمیں تاریخی کامیابی بھی ملی ہے۔ علامہ طالب جوہری، علامہ حسن ظفر نقوی، علامہ عباس کمیلی، سید حیدر رضا، علامہ علی کرار نقوی،علامہ ادیب حسن رضوی، علامہ شہنشاہ نقوی کے بڑے بھائی علامہ عون نقوی کے علاوہ اہل تشیع کے بہت سارے علماء کے بیانات بھی ہمارے اخبار اور کتابوں کی زینت بنے ہیں۔سنی شیعہ دونوں اسلام کے مضبوط بازو ہیں اور ان کے اتحاد سے عالمی اسلامی خلافت کا قیام عمل میں آسکتا ہے۔ علامہ سید جواد حسین نقوی بھی اس کیلئے بہت کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے اہل تشیع کی جو تعریف کھلے دل سے کی ہے اس پر ڈاکٹر صاحب خراج تحسین کے بہت مستحق ہیں کہ اپنے مخالف فرقے کی درست بات کرنے سے بھی نہیں گھبرائے لیکن علامہ سیدیاسر نقوی کی اس ذہنیت کا تماشابھی دیکھنے کے قابل ہے کہ ”یہ وسیع القلبی فقط مکتب اہل بیت میں ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان ایک لمحے کیلئے بھی تعصب کی عینک اتار کر غور و فکر کرے تو حق اس کے سامنے خود بخود آشکار ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حق تو حق ہوتا ہے جو کسی فرقے یا مسلک کے تابع نہیں۔ یاد رکھئے دو نظریات اسلام میں ایسے ہیں جو بعد رسول ۖ ظالم و جابر حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو قانونی حیثیت دینے اور مسلمانوں کو اپنا فکری غلام بنانے کیلئے ان پر مسلط کئے تھے۔ پہلا نظریہ تو یہ ہے جس کی طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اشارہ فرمارہے ہیں کہ حاکم متغلب کی اطاعت کا نظریہ چاہے وہ فاسق و فاجر ہی کیوں نہ ہو۔ اور دوسرا کف لسان کا عقیدہ جس کے متعلق میں اپنی پچھلی ویڈیو میں عرض کرچکا ہوں”۔
اس ماحول اور ذہنیت کو دیکھ لیجئے کہ جس ڈاکٹر اسرار احمد نے اہل تشیع کی وہ تعریف کی ہے جس کا اہل تشیع خود بھی تصور نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بیان کی بھی تائید کرنے کو اپنے مکتب کی وسیع القلبی کا خاصہ قرار دے رہے ہیں؟۔ جس سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل ودماغ میں اس قدر تعصب بھرا ہواہے کہ اپنی تعریف کو پیش کرنا بھی وسیع القلبی قرار دیتا ہے؟۔ جس طرح علامہ اقبال نے ”جواب شکوہ” میں مسلمانوں کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ ” یہ تم ہو جسے دیکھ کر شرمائے یہود” ۔ اس سے زیادہ بڑا زور دار تھپڑ جی چاہتا ہے کہ شاندار کردار کے مالک حضرات اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے منہ پر رسید کردوں کہ ”یہ تم ہو جسے دیکھ کر شرمائے ہنود”۔ اپنی تعریف کرنے کو قبول کرنا بھی اگر وسیع القلبی ہے تو پھر کم ظرفی کی حدیں آخر کونسے بحیرہ مردار کے کنارے پر لگتی ہوں گی؟۔ اس سے ان کی وسیع القلبی نہیں کم ظرفی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
بخدا اگر شیعہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو علامہ یاسر نقوی کو بھی جواب دینے کی زحمت نہیں کرتا۔ سوشل میڈیا پر علامہ حسن اللہ یاری جیسے انواع واقسام کے نمونے نمودار ہورہے ہیں جن سے اہل تشیع کے جان ومال کو خطرات ہیں۔
علامہ حسن اللہ یاری کہتا ہے کہ ” علی نے فرمایا: محمد کی نسبت ابوبکر کی طرف ہے لیکن یہ میرا بیٹا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ بظاہر جس خبیث جسم کے ذریعے ابوبکر کے انساب سے ہوتے ہوئے علی کی گود میں پہنچا ہے وہ اصل میں عالم ارواح سے ایک نور کی شکل میں علی کا بیٹا تھا لیکن بظاہر ابوبکر کا بیٹا ہے”۔
قرآن میں حضرت ابراہیم کاباپ بت فروش آذر کو بتایا گیا ہے مگر شیعہ کہتے تھے کہ وہ چچا تھے۔ انبیاء کے نسب میں کوئی مشرک نہیں ہوسکتا۔ حسن اللہ یاری کی منطق اور جہالت نے شیعہ فلسفہ ختم کردیا ۔ محمد جس طرح ابوبکر کے بیٹے تھے تو اس طرح علی کے نہ صرف سوتیلے بیٹے تھے بلکہ تربیت بھی علی نے کی تھی اسلئے اس کو خاص فلسفے کا رنگ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح سپاہ صحابہ کے قائد مولانا اعظم طارق کی ماں کو مولانا زکریا جامعہ انوارالقرآن گلبرگ فیڈر بی ایریا نے طلاق دی تھی اور پھر مولانا اعظم طارق کے والد چیچہ وطنی کے ایک ویلڈر نے اس سے نکاح کیا تھا۔ ایک مشہور عالم دین نے مولانا اعظم طارق سے کہا تھا کہ ” اپنے باپ کا نام لو۔ مولانا زکریا بڑے آدمی ہیں لیکن اتنے بڑے بھی نہیں کہ باپ نہ ہوں تو بھی اس کو باپ کہا جائے”۔ مولانا اعظم طارق پہلے کراچی اور پھر جھنگ منتقل ہوگئے اور اب تک اس کا بیٹا بھی وہیں رہتا ہے اسلئے ان کی اپنی جماعت کے کارکنوں کو بھی اصل ماجرے کا پتہ نہیں ہے۔ جب مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے اہل تشیع کو اپنا بھائی قرار دیا تھا تو مولانامحمد احمد لدھیانوی نے انہیں اپنے غصے کا نشانہ بنایا تھا ۔ حالانکہ جب شیعہ پر کفر کا فتویٰ لگا تھا تو مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی اور ان کے دارالعلوم کراچی نے تائید نہیں کی تھی۔ مولانا حق نواز جھنگوی کی شہادت سے پہلے حاجی محمد عثمان پر جب بعض اکابر علماء نے فتویٰ لگایا تھا تو جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن اور جمعیت علماء اسلام درخواستی دونوں گروپ حاجی محمد عثمان کے حامی تھے اور سپاہ صحابہ کے بانی قائد مولانا حق نواز جھنگوی بھی جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن حصہ تھے۔
ان اکابر نے پھر حاجی محمد عثمان کے مغالطے میںسید عبدالقادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا اور مولانا محمد یوسف بنوری پر بھی فتوے لگائے۔ جن کا مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ان کو ذبح کردو، اگر ٹانگیں ہلائیںگے تو ان کے پاؤں ہم پکڑ لیںگے۔ مولانا انیس الرحمن درخواستی اس فتوے کے بعدحاجی محمد عثمان سے بیعت ہوئے تھے۔ جو انوار القرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی میں پڑھاتے تھے اور یہ سپاہ صحابہ کے مرکز ناگن چورنگی مسجد صدیق اکبر کے بالکل قریب ہے۔ مولانا اعظم طارق اکابر کے خلاف فتویٰ لیکر مفتی رشید احمد لدھیانوی کو سبق سکھانے کے غرض سے گئے لیکن جب وہاں اس کی جیب گرم ہوئی تو الٹا حاجی محمد عثمان کے خلاف اخبار میں بیان داغ دیا تھا۔
مولانا حق نواز جھنگوی نے الیکشن1988میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت سے لڑا تھا کیونکہ وہ پنجاب کے نائب صوبائی جمعیت علماء اسلام بھی تھے اور مولانا جھنگوی نے کہا تھا کہ مجھے شیعہ ووٹ نہیں دے۔ وہ جھنگ کی دونوں سیٹوں پر بیگم عابدہ حسین شیعہ سے ہار گئے تھے۔اپنے قاتلوں میں عابدہ حسین کو بھی نامزد کررکھا تھا۔ شہادت کے بعد مولانا فضل الرحمن نے بیگم عابدہ حسین اور نوازشریف دونوں کو نامزد کیا تھا۔ پھر1990کے الیکشن میں سپاہ صحابہ کے قائدمولانا ایصار الحق نے جھنگ کا الیکشن مولانا فضل الرحمن کے خلاف عابدہ حسین کیساتھ مل کر لڑا تھا۔ ایک سیٹ پر عابدہ حسین اور دوسرے پر ایصارا لحق کی کامیابی جھنگ میں شیعہ سنی اتحاد اور مولانا حق نواز جھنگوی کو خیرباد کا نتیجہ تھا۔
ہم سپاہ صحابہ کو خوش کرنے کیلئے نہیں کرتے کیونکہ وہ مولانا حق نواز جھنگوی کا مشن بھی چھوڑ چکے ہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈاکٹرا سرار نے اہل تشیع کی جو تائید کی ہے وہ حضرت امام حسین کی قربانی کا صلہ ہے۔ باقی شیعہ یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اگر اہل سنت والجماعت پر وہ تہمت لگائیں گے جس میں شیعہ اور ڈاکٹر اسرار احمد ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان بھی اہل تشیع کے مکتب کو پہنچے گا اسلئے کہ جس کوتاہی کو اہل سنت کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے تو پھراہل تشیع کے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کہاں جائیں گے؟۔ حضرت علی نے حضرت ابوبکر ،حضرت عمراور حضرت عثمان کی خلافت قبول کی۔امام حسن نے خلافت حضرت امیر معاویہ کے سپرد کردی۔ اگر حضرت امام حسین کو یزیدی لشکر واپس مدینہ جانے دیتے یا سرحد پر جانے دیتے یا یزید کے دربار میں لے کر جاتا تو کربلا کا سانحہ بھی پیش نہ آتا۔ باقی ائمہ کرام نے بھی مہدی غائب تک اسی طرح خاموشی کا راستہ اپنایا تھا جیسے اہل سنت نے اپنایا تھا۔ بلکہ اہل تشیع کا ایک امام تو باقاعدہ ایک عباسی خلیفہ کے داماد اور جانشین بھی تھے۔
حضرت حسین کے ایک پوتے امام زید نے امام حسین کے راستے پر چل کر جب اپنے ساتھیوں سمیت شہادت پیش کی تو امام ابوحنیفہ نے ان کو بدر ی صحابہ کی طرح اعلیٰ ترین جہاد کا تمغہ دیا تھا لیکن اہل تشیع کی عوام تو بہت دور کی بات تھی ائمہ اہل بیت نے بھی اس سے برأت کا اعلان کررکھا تھا۔ اسی طرح حسنی سیدکی قربانی عباسی دور میں نفس زکیہ کے نام سے ہوئی لیکن شیعہ امام کہتے تھے کہ جس نے حکمران کے خلاف خروج کیا وہ ہم سے نہیں ۔ ایک امام کا قول ہے کہ” جو بھی ہم میں سے قیام قائم امام مہدی سے پہلے خروج کرے وہ ایسے طائر کا بچہ ہوگا جس کی پرورش کسی غیر نے کی ہوگی”۔ایرانی انقلاب کے بانی امام خمینی اس قول کی زد میں آتے ہیں۔ جب شیعہ کو ایران میں موقع مل گیا تو کس طرح مخالفین کو بدترین انداز میں کچلا گیا؟۔ تویہ متغلب کی حکومت نہیں ؟، یا گنجے کو ناخن لگنے کی دیر ہوتی ہے؟۔ شیعہ علامہ حقائق سے منہ موڑیںگے تومنہ کی کھائیں گے۔
حضرت امیر معاویہ سے امام حسن نے صلح کی تھی لیکن جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے رسول اللہ ۖ سے بغاوت کی تھی تو حضرت علی نے ابوسفیان کی بات کیوں نہیں مانی کہ حضرت ابوبکر سے خلافت چھین کر حضرت علی کے حوالے کردی جاتی؟۔ مدعی سست گواہ چست کا مذہب بنانے کے بجائے اہل تشیع ان اہل بیت کے کردار کو مان لیں جن کو اہل سنت دل ودماغ سے مانتے ہیں۔ جس دن سنیوں کا خوف شیعہ کے دل سے گیا تو شیعہ کھل کر ایسا فلسفہ پیش کریں گے کہ ائمہ اہل بیت میں سے بھی کسی کو نہیں چھوڑیںگے۔ جب سارا فلسفہ امامت ہی عذر اور تقیہ پر چلتے ہوئے غیبت پر پہنچ جاتا ہے تو بہادری کی کونسی بات رہ جاتی ہے؟۔ اب بھی امام مہدی غائب تشریف لاکر دنیا کو ظلم وجور سے نہیں بچاتے تو سنیوں کا کیا قصور ہے؟۔ ایران کو حکومت بھی ملی ہوئی ہے اور مہدی میں طاقت بھی ہے کہ ساری دنیا کی تمام قوتوں کو شکست دیں؟۔ کیا علی ، حسن ، حسین …… اور حسن عسکری میں نہیں تھی؟۔ تو پھر بارویں امام کی قوت پر کیوں بھروسہ رکھیں؟ اور اگر ان پر بھروسہ ہوتا تو امام خمینی نے کیوں مجبور ہوکر انقلاب برپا کرنا تھا؟۔ جب امام خمینی نے جرأت کرلی تو معصوم اماموں سے مرتبہ بڑھ نہیں گیا ہے؟۔
اسماعیلی شیعہ آغا خانی اور بوہرہ نے فاطمی حکومت قائم کی تھی تو وہ دوسرے سے مختلف تھے؟۔ جنہوں نے نہ صرف چھ اماموں کے بعد اپنی امامت جدا کرلی تھی بلکہ امام حسن کی امامت کا بھی انکار کیا تھا۔ حضرت امام زید نے بغاوت کی تھی لیکن وہ خلفاء راشدین کی عظمت کے قائل تھے۔ صرف حضرت علی کو زیادہ حقدار سمجھتے تھے لیکن علی سے دو قدم آگے بڑھ کر ابوبکر وعمر کی مخالفت کے قائل نہ تھے اور چوپائے کے چار قدم بڑھ کر ان کو کافرومرتد اور مغلظات نہیں بکتے تھے۔ قرآن میں صحابہ کرام کی اکثریت کی تعریف ہے، شیعہ اگر سمجھتے ہیں کہ اہل بیت کے مؤقف سے چار قدم آگے بڑھ کر عزت کمائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ علامہ سنی کے دل فتح کرنے کے بجائے اپنے مسلک سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)