اداریہ نوشتہ دیوار، ماہ اپریل 2017، عتیق گیلانی کے قلم سے
اپریل 16, 2017
اللہ کیلئے بے غیرتی برداشت نہیں تومُلّاکیلئے کیوں
اسلام دینِ فطرت ہے مگرعوام فطرت و دین کی معرفت سے عاری ہیں حدیث میں ہے کہ یہودونصاریٰ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں مگر پھر انکو والدین یہودی ونصرانی بناتے ہیں۔بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتاہے مگرپھر اسکواپنا فرقہ وارانہ مذہبی ماحول پروان چڑھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیتاہے۔
حضرت عویمر عجلانیؓ نے بیوی کو زنا کرتے دیکھ لیاتو کہا کہ’’ اگرقتل کروں تو قتل کردیاجاؤں گا اور اگر چھوڑ دیا تو یہ مجھ سے برداشت نہ ہوگا‘‘۔ رہنمائی کیلئے آیات اُتریں تواس میں چار شہادات ( گواہی) کا جملہ اور پانچواں جملہ بتایا گیا، عورت کی طرف سے چار گواہیاں اور پانچویں جملے کی تفصیل بتائی۔ قرآن کی ان آیات پر مسلمان ایمان لایا اور لُعان کے نام سے یہ قانون ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک اس قانون کی افادیت کوتسلیم کرنا تو دور کی بات ہے ، اس کو اپنی فطرت سے متصادم سمجھ کر بالکل مسترد کردیا گیاہے۔ پہلے مسترد کرنیوالے انصارکے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ تھے جس نے کہا کہ میں بیوی اور اسکے ساتھ بدکاری پر لعان کے بجائے قتل کردونگا۔ نبیﷺ نے انصارؓ سے شکایت کی، انہوں نے عرض کیاکہ یہ بہت غیرت والا ہے اس سے درگزر فرمائیے، مگر نبیﷺ نے فرمایا کہ میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت والا ہے۔ (صحیح بخاری شریف)
مسلمان کے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ بیوی کو غیرت پر قتل کرنا فطرت کا تقاضہ ہے، جس کا دین نہیں ،وہ بھی غیرت کا مظاہرہ کرتاہے۔ جانور اور پرندے بھی غیرت رکھتے ہیں۔ مسلمان کو لاکھ سمجھاؤ، اللہ کی آیات بتاؤ، صحابیؓ کے واقعہ کا ذکر کرو۔ فقہ کے مسائل سے آگاہ کردو۔ وہ کہتاہے کہ یہ سب درست لیکن غیرت اور فطرت نہیں بدل سکتی۔ قرآن اپنی جگہ اور مسلمان اپنی جگہ، اللہ کے احکام برحق لیکن غیرت اور ضمیر کیخلاف شریعت کی یہ بات نہیں مانی جاسکتی اور قرآن پر ایمان ہے مگر فطرت کی سوئی جہاں اٹک گئی ہے، وہاں سے اب ذرہ برابر بھی ہل نہیں سکتی ہے۔
چودہ سوسال سے قرآن پڑھنے ،پڑھانے کے باوجود ہم جہاں کھڑے تھے غیرت کے معاملہ میں ذرا پیچھے نہ ہٹے ۔ کوئی پیچھے ہٹنا چاہے گا ؟۔ خواتین بھی ضد پر اڑ جائیں گی کہ بے غیرت شوہر نہیں چاہیے،وہ مرد کیاجو بے غیرتی برداشت کرے؟ غیرت پر اجماع ہے اور نبیﷺ نے خبردی کہ یہ امت گمراہی پر اکھٹی نہیں ہوسکتی ۔ حضرت سعدبن عبادہؓ ایک جلیل القدر صحابیؓ تھے۔ نبیﷺ نے فرمایا:’’میرے صحابہؓ ستاروں کے مانند ہیں، جسکی بھی تم اقتدا کروگے،تو ہدایت پاجاؤگے‘‘۔ اس معاملہ میں حضرت سعد بن عبادہؓ صرف انصار نہیں،ساری اُمت کے بڑے سردار ہیں۔
اہل تشیع صحابہؓ کے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے، یہاں وہ بھی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ غیرت کا مسئلہ ہو اور وہ بھی فطری غیرت کا تو پھر اللہ، اسکے رسولﷺ، دین، ایمان، اسلام، شریعت، قانون اور کسی چیز کو مسلمان تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ چودہ سو سال پہلے اس قانون کو غیرتمند مسلمانوں نے اسلئے مسترد نہ کیا کہ اسلام مسلمانوں کے قبول کرنے کا محتاج تھا بلکہ جب انگریز نے برطانیہ سے برصغیرپاک وہند میں قدم رکھا جسکے اقتدار پر سورج غروب نہ ہوتاتھاتو انگریز کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیاتھا ،چنانچہ تعزیرات ہند میں ہے کہ’’ جس نے بیوی کیساتھ نازیبامعاملہ دیکھ کر قتل کیا تو اس کیلئے کھلی چھوٹ ہے‘‘۔ مولوی نے زنا کے ثبوت کیلئے بڑی سخت شرائط پیش کیں مگر کسی مسلمان کے آگے اس معاملہ میں کوئی بھی سامنے آنے کی جرأت نہیں کرسکا،جب قرآن کو نہیں مانا جاتا تو کسی دوسرے کی کیا حیثیت ہے؟۔
مسلمان کی غیرت کو دنیااور اسلام کی ایمانی روحانی طاقت شکست نہ دے سکی مگر علماء ومفتیان نے کمال کرکے ایسابڑا بے غیرت بنادیا کہ زمین کے باشندے بھی دنگ ہیں اور آسمان کے فرشتے بھی لرزرہے ہیں کہ آخر کونسی طاقت ہے کہ مسلمان اپنی بیگم کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتا لیکن پھر یہی بے غیرت، دلّا اور دیوث بن کر اپنی بیگم حلالہ کیلئے خود ہی کسی کے سامنے پیش کردیتاہے۔ جو اللہ کیلئے بے غیرتی کیلئے تیار نہیں وہ مولوی کا فتویٰ دیکھ کر کیوں بے ضمیر اور بے غیرت بن جاتاہے؟۔ مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی بھول تو نہیں ہوئی ہے؟۔ ہم لوگ اللہ کے دین کی معرفت حاصل کرکے زباں، ہاتھ اور دل سے جد و جہد کررہے ہیں۔ ہر مکتبۂ فکر کے جرأت مند علماء اور عوام اللہ کے دین کو پہچان کر حمایت کرتے ہیں ۔ایک بڑا طبقہ خاموش ہوکر محبت اور بغض کو دل میں چھپائے بیٹھاہے۔ یقین ہے کہ جس طرح روز سورج مشرق سے طلوع ہوکر مغرب میں غروب ہوجاتاہے کہ اسلام کا فطری دین بہت جلد پوری دنیا میں آب وتاب کیساتھ طلوع ہوگا اور باطل بہت آرام کیساتھ غروب ہوجائیگا۔
دنیا میں سب سے بڑا جرم عورت کیساتھ زبردستی سے زیادتی ہے مگرطاقتور لوگ کمزور کی عزت کو لوٹنا کھیل بنالیتے ہیں تو معمولاتِ زندگی کی روایتی اقدار کا حصہ بنتا ہے، پھرواقعہ خبروں کی زینت بنے، تو کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ مجرم کو تحفظ دینے کا ماحول بنتاہے۔ حنفی مسلک میں عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر بھی شادی کی اجازت ہے اوراکثر طاقتور خاندان کی خواتین کمزور لوگوں کیساتھ بھاگ جاتی ہیں تو ان کو ماردیا جاتاہے، پھر یہ مارنے کی رسم چلتی ہے تو کمزور بھی بھاگنے والی کو قتل کرنا ضروری سمجھتاہے، بھاگنے والی عورت سے بڑاجرم وہ ہے جو عورت کو زبردستی جنسی زیادتی کا شکار کرے، جیسے زبردستی جنسی زیادتی برداشت کرنا معمول کا حصہ بنتا ہے اسی طرح حلالے کی مجرمانہ لعنت بھی معمول بن کر عزتوں کو تباہ کردیتی ہے۔
بڑے لوگوں نے اسلام کی خدمت کے بجائے زمانے میں جگہ بنانے کی کوشش کی ،اگر ہم بھی مسلک کے علمبردار بن کر کھڑے ہوتے اور اسکی وکالت کرتے تو دنیا پھر بہت بڑا مقام دیتی، میڈیا میں ہمارے چرچے ہوتے، جہاں جاتے پھولوں کی برسات ہوتی اور دنیا ہمارے لئے بہت بڑی جنت بن جاتی۔ موت کا خوف کس کو نہیں؟۔ مشکلات سے کون نہیں ڈرتا؟۔ خاندان کیلئے مسائل کھڑے کرنے سے بہترموت کو ترجیح ہے لیکن جن خواتین کی عزتیں حلالہ کے نام پرلُٹ رہی ہیں ، جنکے گھر اسلام کے نام پر تباہ ہورہے ہیں، جنکے بچے فتوؤں کے ہاتھوں دنیا میں رُل رہے ہیں، جو علماء ومفتیان اتنے ڈھیٹ ہیں کہ سب کچھ سمجھ کر بھی حقائق اور اسلام ماننے کیلئے تیار نہیں تو مجھے بتایا جائے کہ کیا انسان حادثاتی اور بیماری سے نہیں مر سکتا ہے؟،بسا اوقات انسان خود کشی کرتاہے، خود کش کرنے والا اپنے طور سے قربانی کا تصور رکھتا ہے۔کیا ہم اسلام کیلئے قربانی نہ دیں؟۔ کیا فطرت ، غیرت، حمیت اور ضمیر کیلئے خود کو قربان نہ کریں؟۔ ہم مرنے کیلئے یہ نہیں کرتے، زندگی پیاری ہے۔ خواتین کی عزتوں کو ناجائز حلالہ کے نام پر لوٹا جاتاہے ،اس غلط طرزِ عمل کو روکنے کیلئے ہرقسم کی قربانی دینا جائز، مجبوری بلکہ بہت ہی ضروری ہے۔
حلالہ والے یہ نہ کریں کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبیں گے ‘‘۔ جنہوں نے مذہب کو کاروبار بنارکھاہے، وہ مفاد کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے، اسلئے دین کی تصدیق کرنیوالوں کے علاوہ خاموشی سے محبت کرنیوالوں اور باطل عمل جاری رکھنے والوں کے بغض کو چھپانے پر بھی نبی پاک ﷺ نے بشارت دی ہے ۔
لُعان کی قابلِ عمل حقیقت اور اسکے زبردست فوائد
مغرب آج جس انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتاہے ،اگر مسلمانوں نے قرآن پر عمل شروع کردیا تو مغرب مسلمانوں کا امام نہیں مقتدی اور پیر نہیں مرید بن جائیگا۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعے چودہ سوسال پہلے عورت کی جان بچانے کیلئے لعان کا قانون نازل کیا تھا۔ مسلمانوں نے قرآن کو اپنا دستور عمل نہیں بنایا تو آج ذلت و رسوائی کی منزلیں طے کرکے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے؟۔
اسلام فطری دین ہے اور فطرت کیلئے فطرتی ماحول ہونا چاہیے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ لعان کی کیا ضرورت تھی؟،جب فحاشی پر قتل کی اجازت نہ ہو توعورت کو چھوڑنے اور گھر سے نکالنے کی اجازت ہونی چاہیے تھی اور بس؟اسکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں فحاشی پر اچانک چھوڑنے اور گھر سے نکالنے کو واضح کر د یا ہے، البتہ لُعان کی اہمیت پھر بھی ختم نہیں ہوجاتی ہے ،اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
1: معاشرے میں کبھی شوہر کے خاندان والے طاقتور ہوتے ہیں اور کبھی بیگم کے خاندان والے۔ جب شوہر کے خاندان والے بہت کمزور ہوں، کوئی عورت بدکاری بھی کرے اور شوہر کی حیثیت اتنی کمزور ہو کہ اس کو چھوڑ نہ سکے تو شوہر عدالت میں جاکر لُعان کے ذریعے سے اپنی جان بچاسکتاہے۔ اکثر جگہ سے جب عورت کے حق میں آواز اٹھتی ہے تو بعض مرد کے حق کو تحفظ دینے کی بات بھی کرتے ہیں۔ اللہ نے لُعان کے ذریعے مردوں کو یہی تحفظ دیاہے، کیا کوئی لعان بھی کرتاہے؟۔
کیسے کہہ دوں کہ اس نے چھوڑدیامجھے بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
2: اللہ نے شوہر کو طلاق اور بیوی کو خلع کا حق دیا۔ سورۂ النساء آیت19 کودیکھ لیجئے۔ جس میں عورت کو خلع کے حق کی بھرپور وضاحت ہے مگر افسوس کہ بالکل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے عوام کو اس آیت سے آگاہ نہیں کیا گیا اور آیت کا مفہوم بالکل غیر فطری طور سے بگاڑنے کی بدترین کوشش کی گئی، قرآن کو بگاڑنے کی صلاحیت کسی میں اللہ نے نہیں رکھی، اسکی حفاظت کا خود ہی ذمہ لے لیاتھا۔ اگر عورت شوہر کو چھوڑ کر جانا چاہتی ہو تو اللہ نے فرمایا کہ ’’تم زبردستی سے مالک مت بن بیٹھو، اور ان کو اسلئے مت روکو ،کہ جو تم نے ان کو دیا ، اس میں بعض واپس لو۔ مگر یہ کہ وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور انکے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، ہوسکتاہے کہ اللہ تمہارے لئے اس میں خیر کثیر رکھ دے‘‘۔ اگر عورت چھوڑ کر جانا چاہتی ہے اور شوہر بعض دی ہوئی چیزوں کو واپس لینے کیلئے فحاشی کا الزام لگاتاہے تو لُعان کی ضرورت پیش آئے گی۔خلع لینے پر بھی بعض دئیے ہوئے مال سے بھی شوہر بیوی کو محروم نہیں کرسکتاہے مگر فحاشی پر اسکی اجازت ہے ،البتہ فحاشی کی صورت میں بھی لعان کا سامنا ہی کرنا ہوگا۔
3: سورۂ النساء کی آیت19میں اللہ نے عورت کی طرف سے خلع کے حق کو محفوظ کرکے مقدم رکھا ہے اور پھرالنساء آیت 20 میں شوہر کو بھی طلاق کی اجازت دیکر فرمایا ہے کہ اگر عورت کو بہت سارا مال دیا ہے تب بھی اس میں سے کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں،تم ان پر بہتان لگاکرمحروم کرنا چاہتے ہو ؟۔ حالانکہ تم نے بہت قریبی ایکدوسرے کی عزت والا تعلق رکھا اور انہوں نے تم سے پختہ عہد وپیمان لیا۔(وقداخذن منکم میثاقا غلیظا )جو لالچ میں اندھا ہوکر بہتان لگائے تو اسکو عدالت میں لُعان کی ذلت کا سامنا کرنا ہوگا۔
بعض واقعات مخصوص حالات کے تناظر میں ہیں۔ سعد بن عبادہؓ انصار کے سرداربیوی کو قتل کرنے کا دَم رکھتے تھے۔ حضرت عویمر عجلانیؓ نے لعان اسلئے کیا کہ بیوی کے خاندان والے زیادہ طاقتور ہونگے۔ انسان کی حیثیت کمزور ہو تو قانون کا سہارا تلاش کرتاہے۔ اسلام نے قانون کو اتنا مضبوط بنایا کہ طاقتور بھی سرِ مو انحراف نہیں کرسکتا تھا، قانون کمزور اور طاقتور کیلئے بالکل برابر تھا۔ حضرت سعدؓ نے خالی بات کی مگر قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا ۔ اسکے بعد سرداری کھو دی۔ جنات نے تنہائی میں قتل کردیا ۔ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے پیچھے نماز بھی نہ پڑھتے تھے۔مسلمانوں نے کمال کردکھایا کہ اللہ کے سامنے اپنی غیرت دکھائی تو اللہ نے بھی غیرت سے ایسا عاری کیا کہ حلالوں کے ذریعے عزتیں لٹوانے کی ذلتوں سے دوچار ہوکر بڑی گمراہی میں گرگئے۔ جب انسان کمزور پر ظلم کرتاہے تو اللہ کی طاقت اس کو کتوں کے گاؤں سے آگے گزار دیتی ہے۔ مسلم اُمہ نے عزت و عروج حاصل کرنا ہے تو اسلام کے فطری قوانین کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑے گا۔مولوی خود پر اور اُمہ پر رحم کھائیں۔
اللہ انسان سے حساب کسی طرح لے لیتاہے اور دوسروں کے مقابلے میں اللہ ہی سے ڈرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اللہ نے ابراہیمؑ کو چند کلمات میں آزمایا تو وہ آزمائش میں پورے اُترے۔ جس کا جتنا بڑا درجہ اسکی اتنی بڑی آزمائش ۔ اللہ آزمائش کا دروازہ بند کردے،ہم آزمائش کے لائق نہیں، ابراہیمؑ نے بتوں کو توڑا، توبڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ قوم نے آگ جلائی، جھولا بناکر ابراہیمؑ کو ڈالنے کی تیاری کی۔ فرشتوں نے اللہ سے کہا کہ ہم مدد کو پہنچتے ہیں، اللہ نے کہا کہ تمہاری مدد کوقبول کرلے تو ضرور کرلینا۔ فرشتوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ابراہیمؑ نے پوچھا کہ اللہ کا حکم ہے؟، فرشتوں نے کہا کہ نہیں! اجازت ہے۔ ابراہیمؑ نے فرمایا کہ پھر تمہاری ضرورت نہیں، مجھے اللہ پر چھوڑ دو۔ فرشتوں نے ضرورسوچا ہوگا کہ واقعی اتنی بڑی بات ہے، ہم سے اللہ نے ٹھیک سجدہ کروایا تھا۔ اللہ نے براہِ راست آگ کو حکم دیا: یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراہیم ’’اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا‘‘۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انسانوں کو حضرت ابراہیمؑ کی سچائی کاوہ رخ بھی دکھایا کہ کوئی تصور بھی نہ کرسکے کہ خدا اور بندے کے درمیان کسی قسم کا کوئی گٹھ جوڑہوسکتا تھا۔اللہ ایسی آزمائش سے بچائے رکھے۔
ایک ایسا بادشاہ تھا جو بیوی چھین لیتا تھا، اس پر تو کوئی فخر بھی نہیں کرسکتا، حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی اسوقت انتہاء نہ رہی ، بادشاہ نے حضرت سارہؑ کو طلب کیا، یہ وہ آزمائش تھی جہاں انسانیت کی رُوحیں نسلوں تک گھائل ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے گڑ گڑاتے حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش کی انتہاء دکھا کر فرشتوں کو باور کروایا کہ فرشتوں سے انسان کا مقام اسلئے اونچاہے کہ اس میں محنت زیادہ ہے۔ اس آزمائش کے نتیجے میں حضرت ابراہیمؑ نے اللہ سے مدد بھی مانگ لی اور اللہ نے دو انعام بھی دے دئیے، ایک حضرت سارہؑ کی عزت بچاکر نسل در نسل اولاد کو نبوت و بادشاہت سے سرفراز کردیا۔ دوسرا حضرت حاجرہؓ بھی عنایت کردی ، جسکے دو فرزندحضرت اسماعیلؑ اور حضرت محمدﷺ کا مقام افضل ترین انبیاء کرامؑ میں کردیا۔جو عدد کے اعتبار سے کم اور حجم کے اعتبار سے سب پر بھاری تھے ۔ بنی اسرائیل نے آل فرعون کے ہاتھوں غلامی کی ذلت اٹھائی تو بھی نسلی افضلیت کا خمار دماغ سے نہیں گیاتھا۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ قریش کو ابن سماء کہاگیا ، تاکہ اپنی ماں حاجرہؓ کی داستان پرفخروافتخار کے زعم کویہ لوگ اپنے ذہن سے نکال دیں۔
رسول اللہﷺ نے انتقام لینے کی بات کردی تو اللہ نے روک دیا لیکن اللہ کا انتقام انسان کے دماغ سے بہت بالاتر ہے۔ نبیﷺ نے ابوجہل وغیرہ سردارانِ قریش کو بدر میں شکست دی تو ان کا غرور خاک میں مل کر بھی جاگ رہا تھا۔ ابوجہل نے مرتے وقت کہا کہ گردن کو نیچے سے کاٹ لو تاکہ پتہ چلے کہ سردار کی گردن ہے۔ ابوجہل نے مرتے وقت جسم اوراپنی مٹی کے باقیات سے بھی باطل مشرکین مکہ کو حوصلہ دیا اور پھر اس کی قوم نے غزوۂ احد میں اپنا بدلہ بھی اتار دیا تھا۔ بقول فیض
میرے چارہ گر کو نوید ہو ،صفِ دشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن کہ قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلادیا
جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم پر تجھے یادگار بنادیا
فتح مکہ کے موقع پر نبیﷺ نے ابوسفیانؓ کے گھر کو بھی عزت بخشی۔ حضرت عمرؓ نے کہا تھا کہ ’’ کاش ! پناہ لینے سے پہلے میرے ہاتھ میں آجاتا‘‘۔ اللہ کی طرف سے یہ بڑا تلخ انتقام تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت ہندہؓ کے چہرے کو دیکھنا برداشت نہ کرسکتے تھے اور حضرت ہندہؓ نے فرمایا کہ پہلے نبیﷺ سے بہت نفرت کرتی تھی اور آج آپﷺ سے بڑا محبوب کوئی بھی نہیں۔ جسکے ساتھ انتہائی وحشانہ برتاؤ کیا ہو اور اسی کے رحم وکرم پر انسان کا گزر بسر ہو تو اس سے زیادہ آزمائش اور گناہوں کی معافی تلافی کا معاملہ مزیدکیا ہے؟، حضرت عکرمہؓ بن ابی جہل کوباپ کے قتل پر زیادہ افسوس اسلئے نہ تھاکہ گردن کٹانے کی تکلیف ذلت نہیں ۔جس طرح بھٹونے بھی فوج کے ہاتھوں پھانسی کی سزا کھائی مگر بھٹو نے خود کو عوام میں زندہ کردیا اور یہ کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اسی وجہ سے پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کیا۔ لیکن نوازشریف نے معافی مانگ کر فوج کے ہاتھوں جو ذلت اٹھائی اس پر عقلمند انسان کبھی فخر نہیں کرسکتاہے مگر ہمارے نااہل قسم کے لوگ لیڈر ہیں۔
یزید کا دل حضرت حسینؓ کے خانوادے اور ساتھیوں کے انتقام پر بھی ٹھنڈا اسلئے نہیں ہوا ہوگا کہ کہاں فتح مکہ کے وقت انکے خانوادے کی حالت اور کہاں شہدا کے معزز ورثاء کی لوگوں کے دل میں عزت و تکریم؟۔ اہل تشیع بہت پاگل مخلوق ہے، ماتم کرنے سے مخلوق خدا کواذیت ہوتی ہے اور حسینؓ کی نہیں یزید کی روح کو تسکین ملتی ہے کہ اہلبیت کیلئے گلیوں میں اب بھی ماتم کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ لگتاہے کہ یزیدوں کیلئے مزید کوئی گنجائش نہیں رہی۔ بے ضمیر ظالم ظلم کرکے شرم کے احسا س سے محروم ہوتا ہے تو معافی کی ذلت کا بوجھ بھی بہت آرام سے برداشت کرلیتاہے۔
اگر یوسف علیہ السلام ساری زندگی کنویں اور جیل کا غم کھاتے اور بنی اسرائیل اس غم کو منانے کے دن مناتے تو ان کو خوشیاں نصیب نہیں ہوسکتی تھیں۔ انسان دکھ پر صبر اور نعمت پر شکر ادا کرتاہے تو پھر اللہ اس کو نوازتاہے۔ جب ہم اہل تشیع کو ماتم کے غم سے اور اہلسنت کو حلالہ کی لعنت سے آزادی دلانے میں کامیاب ہوجائیں تو دنیا مسلمانوں کو انسان کے بچے سمجھے گی۔ جب دنیا کو حلالہ کی لعنت اور ماتم کے خون خرابے کا پتہ چلتاہے تووہ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہے کہ اسلام کو دینِ فطرت کہنے والے جھوٹی خوش فہمیوں کے شکار ہیں،ہمیں اس سے بہت دور رہناہے۔ وہ کہتے ہونگے کہ یہ حضرت محمدﷺ کا دین تو نہیں ہوسکتا، البتہ اللہ نے گناہوں کے نتیجے میں ان کو اس عذاب میں ضرور ڈالا ہوگا،یہ دونوں طرف کے علماء کے مفادپرستانہ رویے کی سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔دونوں طرف کے علماء کرام اعتراف کررہے ہیں۔
میں نے جب بڑے مذہبی بتوں کو توڑا تو بہت آزمائش کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا اور فرشتوں کی مدد نہ لینے کی بات تو بہت دور کی ہے ایک بندے دوست ناصر کی مدد کو بھی قبول کیا، جنکا احسان مجھ پر قرض ہے ۔ اللہ سے دعا ہے کہ جن جنکے احسانات ہیں ان کو اچھا بدلہ بھی دے سکوں۔ اب آزمائش کا متحمل بالکل بھی نہیں ،اللہ نے اپنے فضل سے بہت آسانی سے مشکل سے گزارا، البتہ جن لوگوں کو حلالہ کی لعنت کا سامنا کرنا پڑتاہے ، اس سے بڑی آزمائش ، مصیبت اور ذلت اور کوئی نہیں۔ اگر امت مسلمہ کو اس سے نکالنے کی سعادت ملی تو یہ ہم سب پر بہت بڑا انعام ہوگا۔
ناموسِ رسالتﷺ کیلئے بے غیرتی مجرمانہ فعل
ایک مسلمان کی غیرت برداشت نہیں کرتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کیساتھ کسی کو دیکھ کر شور مچائے کہ ’’اس کو قتل کردو، اس کے تکے بوٹیاں بنادو، اس کو جلادو، اس کو جہنم رسید کردو، اس کا جینا حرام کردو اور اس کیلئے قانون سازی کرلو‘‘۔
مسلمان کو پتہ ہے کہ اس کو قتل کرنے کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید فرقان حمید میں اس کو لُعان کے ذریعے قانونی تحفظ دیاہے، لیکن جب انسان کی اپنی عزت پر کسی کا ہاتھ پڑجاتاہے تو پھر اس کو برداشت نہیں کرتا، اللہ کی کتاب کے اندر موجوداور واضح تحفظ کو دیکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو تو غیرت کا مظاہرہ کرکے بیوی کو بھی قتل کردیتا ہے اور اسکے ساتھ کسی دوسرے شخص کو بھی قتل کردیتاہے لیکن عقل حیران ہے کہ اپنی عزت کے تحفظ کیلئے تمام شرعی اورقانونی تحفظ کو نظر انداز کرکے ایک نہیں دو افراد کو بیک وقت قتل کرنے کا ارتکاب کرتاہے مگر جب یہ شخص ناموسِ رسالتﷺ کی بات کرتاہے تو پھر غیرت بالکل ہی اسکے دل و دماغ سے نکل جاتی ہے، توہین رسالتﷺ کے مرتکب کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لینے کی بات نہیں کرتا۔ جن لوگوں کو توہین رسالتﷺ کا مرتکب قرار دیتاہے انکے خلاف عوام کو دھائی دیتاہے، تعصبات کی آگ بھڑکاتاہے، حکومت کی مدد لیتا ہے، عدالت کو پکارتا ہے، کتابیں لکھ لیتا ہے، دلائل دیتاہے، تقریریں کرتا پھرتا ہے لیکن غیرت کیلئے اقدام نہیں کرتا، بس اکسانے پر ہی اکتفاء کرتا ہے۔ آج مسلمانوں کو بہت سر جوڑ کر حقائق سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔
دوسروں کیلئے غیرت وہ شخص کھا سکتاہے جو اپنے لئے بھی کھاتا ہو۔ اپنے اندر غیرت نہ رکھنے والے شخص کو رسول اللہﷺ کی ناموس کا محافظ قرار دیا گیا تو امت مسلمہ کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے۔ جو اپنی عزت کو بیچتا پھرے وہ دوسرے کی عزتوں کا تحفظ کرسکتاہے؟۔ ہرگز ہرگز نہیں ۔ ایم کیوایم میں اچھے برے لوگ ہوسکتے ہیں ،اگر ہم مصطفےٰ کمال ، رضاہارون، انیس قائم خانی وغیرہ کو ایم کیوایم چھوڑنے کے بعد اچھا کہہ سکیں تو ایم کیوایم میں ہوتے ہوئے بھی یہ لوگ اچھے ہوسکتے تھے، اور یہاں بات اچھے برے کی نہیں بلکہ غیرت کے حوالہ سے ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ایم کیوایم کے کارکن اور قائدین الطاف حسین کے خلاف بات برداشت نہیں کرتے تھے، اپنے قائد پر بڑی غیرت کھاتے تھے، ظاہر ہے کہ وہ ڈرامہ تو نہیں کرتے ہونگے؟۔ کراچی میں ایم کیوایم نے اپنی ساکھ قائم رکھی تھی۔
ہم نے مفتی محمد تقی عثمانی کے حوالہ سے ’’سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جواز پر اپنے اخبار میں اس کی کتاب کا حوالہ دیا‘‘ تو ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کی مخالفت میں زبردست بیان دیا اور نیوکراچی کے سیکٹر انچارج نے بیان دیا کہ اس مفتی تقی عثمانی کو قتل کردینا چاہیے۔ اس دباؤ کی وجہ سے مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں سے اس عبارت کو نکالنے کا اعلان کردیا۔ ایم کیوایم جو لسانی پارٹی ہے، اس میں دین کی اتنی غیرت تھی کہ ایک پٹھان کیلئے ایک مہاجر مفتی کی بات کو تعصب میں نظر انداز نہیں کیا۔ اگر کوئی عصبیت رکھنے والی قوم ہوتی تو عتیق گیلانی کے بجائے مفتی تقی عثمانی کیساتھ کھڑ ی ہوجانی تھی۔مہاجر قوم کی پاکستان اور اسلام سے محبت ایک ایسی حقیقت ہے جسکا انکار نہیں ہوسکتا۔ بکھرے مہاجر کا ماحول بدلنے کی ضرورت ہے۔
بریلوی مکتبۂ فکر نے مفتی تقی عثمانی کیخلاف ہمارے اخبار کا تراشہ بہت پھیلایا مگر جب پتہ چلا کہ اپنا ریکارڈ درست نہیں توپیچھے ہٹ گئے۔ یہ کونسی غیرت ہوگی کہ خود گدھی کی دُم پکڑی ہو اور دوسروں کیخلاف مہم جوئی کی جائے کہ ’’اس نے گدھی کو دم سے پکڑا ہے؟‘‘۔ صرف مفتی تقی عثمانی کی بات نہیں بلکہ صاحبِ ہدایہ کی اس بات کو عمران خان کے مفتی سعید خان نے بھی احناف کی کتابوں فتاویٰ قاضی خان وغیرہ کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’قرآن میں خنزیر کا گوشت حرام ہے لیکن بقدرِ ضرورت جائز ہے تو وہ انسان کے جسم کا حصہ بنتاہے مگر سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ نہیں بنتاہے‘‘ ۔( ریزہ الماس: مفتی سعید خان: چھترپارک اسلام آباد)
بریلوی مکتب کے علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے پر فتاویٰ شامیہ کیخلاف اظہار کیا تو اپنے علماء نے انکا گریبان پکڑلیا تھا۔ جب تک اپنی کتابوں سے وہ مواد نہ نکالا جائے جو دنیا کے سامنے نبیﷺ کی تضحیک کا ذریعہ ہے تو بے غیرتوں کی مذہبی اور سیاسی شوبازی کی اہمیت نہیں رہے گی۔ صحیح بخاری میں ابنت الجونؓ کا نامکمل واقعہ ہے جس کی تفصیل موجود ہے کہ نبیﷺ کو نومسلم حضرت الجونؓ نے بیٹیؓ کی رضامندی کا بتایا تھااور ازواج مطہراتؓ نے سوکناہٹ کی وجہ سے غلط رہنمائی کرکے بھیجا، جس کی بنیاد پر اس نے کہا کہ ’’ایک ملکہ اپنے آپ کو کسی بازاری کے حوالہ کرسکتی ہے؟، اور میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں‘‘۔ نبیﷺ نے سمجھا کہ وہ راضی نہیں تو گھربھیج دیا۔ پھر گھر والوں سے ابنت الجونؓ نے کہا کہ مجھ سے دھوکہ ہوا، وہ کہہ رہے تھے کہ تو بڑی کم بخت ہے کہ اس سعادت سے محروم ہوئی ۔
یہ واقعہ نبیﷺ کی سیرت کا اعلیٰ ترین نمونہ تھا ، اگر اس کو صحیح طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تو حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے زیادہ اس کی وجہ سے لوگ اسلام اور نبیﷺ کی عظمت کو سلام کرتے۔ ایک عورت کو پوری طرح سے دسترس میں آنے کے بعد نبیﷺ کا کمال تھا کہ پوچھ لیا کہ کہیں زبردستی کے نتیجے میں تو نہیں آئی ؟۔ اور جب سمجھ لیا کہ وہ راضی نہیں تو چھوڑ دیا۔ عورت کے حق کی الفاظ سے زیادہ اس عملی مظاہرے میں بہت بڑا کمال تھا، یہ بھی بخاری کی حدیث ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ ’’ عورت کا نکاح باپ نے اس کی رضامندی کے بغیر کردیا تو یہ نکاح نہیں ہوا‘‘۔ حضرت ابنت الجونؓ کے واقعہ میں اس کا عملی مظاہرہ تھا۔ ہوسکتاہے اسی تناظر میں ہی فرمایا ہو۔نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ اعلیٰ نمونہ ہے۔
دیوبندی مکتبۂ فکر کے وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان ؒ نے صحیح بخاری کی اپنی شرح ’’کشف الباری ‘‘ ، بریلوی مکتبۂ فکر علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے اپنی شرح ’’نعم الباری‘‘ میں علامہ ابن حجرؒ کی شرح ’’فتح الباری‘‘ سے یہ سوال اور اس کا جواب نقل کیا ہے کہ ’’ رسول اللہ ﷺ کا اس ابنت الجونؓ سے نکاح نہیں ہوا تھا تو نبیﷺ کا صرف اپنے پاس طلب کرنا، رغبت کا اظہارکرنا ہی نکاح کیلئے کافی تھا، چاہے عورت راضی نہ ہو اور اسکا ولی بھی راضی نہ ہو‘‘۔ یہ بکواس رحمت للعالمینﷺ کی شریعت نہیں جو نبیﷺ دوسروں کو تلقین کریں کہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر باطل ، باطل، باطل ہے۔ ان کی طرف ایسی نسبت بہت بڑی گستاخی اور گستاخوں کو موقع فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ جب علماء ومفتیان اپنے مذہبی کتابوں سے ایسے مواد کو نکالنے کی بھی جرأت نہیں کرسکتے تو دنیا میں اغیار کیلئے نیٹ پر پابندی کے مطالبے میں کوئی جان نہیں ہوسکتی ہے۔ بس اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے دوسروں پر جھوٹی تہمت لگانے کی مہم جوئی ہوسکتی ہے ، مسلمانوں کو اس معاملے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کا تعلق پہلے ایم کیوایم اور جیوٹی وی چینل سے تھا۔ زندگی کا ایک بڑا حصہ گھر کے بھیدی بن کر گزارا ۔ عالم کا دعویٰ بھی ہے اور علماء کو متحرک کرنے کی بروقت اور برملا کوشش بھی کرسکتے ہیں۔
لیلیٰ کے پاس مجنون کا پیغام آتا تو وہ دودھ بھیج دیتی، ایک دن لیلیٰ نے پھر امتحان لینے کا فیصلہ کیا، چھرا اور پلیٹ بھیج دی کہ جسم کاگوشت چاہیے۔ دھوکہ باز کہنے لگا کہ میں دودھ پینے والا مجنون ہوں ۔ گوشت دینے والا وہ کھڑا ہے۔ اصلی مجنون نے جسم کے ہر حصے کا گوشت کاٹ کر بھیج دیا۔جب حضرت عائشہؓ پر بہتان لگا تو دودھ پینے والا مجنون کوئی بھی نہیں تھا ورنہ بہت شور کرتا کہ قربانی دیدو، سارے سچے عاشق رسولﷺ صحابہؓ تھے، مذہبی سیاسی مفادات اور فرقہ وارنہ تعصبات نہیں تھے، اسلئے اللہ کے حکم کا انتظار کیا۔ اللہ نے نبیﷺ کی اعلیٰ سیرت کے ذریعے دنیا کے تمام انسانوں کی عزت کو تحفظ دیا اور لوگوں کو حقائق کا پتہ چلے تو سب طرزِ نبوت کی خلافت قائم کرلیں۔ مسلمان ہی نہیں کافر بھی اس عادلانہ نظام کو جمہوری بنیادوں پر نافذ کرنے میں سب سے آگے آگے ہوں گے ۔ انشاء اللہ تعالیٰ
حکومت اور ہماری ریاست کب سدھرے گی؟
پانامہ لیکس پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے ۔ ڈان نیوز کی خبر فوج کی عزت اور وقار کے حوالہ سے بڑی اہمیت رکھتاہے۔نواز لیگ نے چور مچائے شور کاتمام ریکارڈ توڑ دیا۔ زرداری کو11سال قید کے باوجود مجرم ثابت نہیں کیا جاسکاتو یہ عدالت کی نیک نامی نہیں۔ پانامہ لیکس کے ننگے بھوت کیلئے جو کپڑے سل رہے ہیں، اس کیلئے عدالت کے بھوت بنگلے میں بہت دیر لگ گئی ہے ، جب فیصلہ سنایا جائیگا تو کپڑے یا شلوار یا چڈی کا پتہ لگ جائیگا۔ قوم کا ریاست اور ریاستی اداروں پر کتنا اعتماد ہے؟۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سہیل وڑائچ کی کتاب میں نوازشریف کا انٹرویو موجود ہے کہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف کرپشن کے کیس بنانے کی غلطی آئی ایس آئی کے کہنے پر کی تھی۔ نوازشریف بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورقیمت پر قوم سے جھوٹ بولنے کی تلافی نہیں کرسکے کہ انڈیا کو بھی بجلی دینے کا اعلان کردیا۔ خواجہ آصف اس کو جوشِ خطابت قرار دے رہا ہے۔ کیا یہی ہماری قومی قیادت ہے؟۔
حامد میر جیسے صحافی اور خواجہ آصف جیسے سیاستدان کے سامنے کوئی ریٹائرڈ فوجی تجزیہ نگار کیا بات کریگا؟ جس نے زندگی بھر فوج میں رہ کر ویرانیوں میں قوم کا دفاع کیا ہوتاہے اور یہ لوگ تاریخ کے ہر موڑ سے آگاہ ہوتے ہیں۔ ان کو چرب زبانی کی مہارت سے قوم کو گمراہ کرنیکا ڈھنگ آتاہے۔ پرویز مشرف کہتاہے کہ طالبان کو ہم نے عالمی طاقتوں کے کہنے پر بنایا تھا تو جنرل ضیاء سے پرویز شرف تک فوج ہی کو مجرم گردانا جاتاہے لیکن سعید غنی اور فرحت اللہ بابر حالات کی مناسبت سے بولتے ہیں، کبھی بھٹو سے نصیراللہ بابر تک کریڈت لیتے ہیں اور کبھی سارا ملبہ جنرل ضیاء سے اشفاق کیانی تک فوج ہی پرڈالتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ اے ایمان والو! کہوسیدھی بات، تمہارے اعمال کی اصلاح کی جائیگی اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیا جائیگا‘‘۔ قوم کی حالت یہ ہے کہ سیدھی بات کرنے پر آمادہ نہ اعترافِ جرم پر تو اسکی اصلاح کہاں سے ہوگی؟۔ ایک ایسی لہر دوڑانے کی ضرورت ہے کہ کسی کا بھی ٹاؤٹ بن کر اور پیسے بٹورنے کیلئے بکبک کرنیکا طریقہ چھوڑ دیا جائے۔ مراد سعیدپر گھناؤنا الزام ہی نہیں لگا بلکہ اسکو بھڑوا بچہ قرار دیا گیا۔ پھر اسکو گالی قرار دینے کے بجائے میاں لطیف اور خواجہ سعد رفیق نے معافی کے نام پر گواہی بھی دی کہ ایساہے مگر ہمیں نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اخلاق اور کردار کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ عتیق گیلانی
لوگوں کی راۓ