پوسٹ تلاش کریں

دعا زہرہ عرصہ بعد والدین کیساتھ چل دی!

دعا زہرہ عرصہ بعد والدین کیساتھ چل دی! اخبار: نوشتہ دیوار

دعا زہرہ عرصہ بعد والدین کیساتھ چل دی!

کراچی سے شیعہ لڑکی سیدہ دعازہرہ کاظمی لاہور پنجاب کالج کے ظہیرکے ساتھ محبت کی شادی کرکے گھر سے بھاگ گئی تھی۔ دونوں کا کورٹ میرج ہوا تھا اور عدالت میں کیس اغواء برائے تاوان تھا لیکن جب پیش کیا گیا تو عدالت نے دعا زہرہ کو زہیر کیساتھ جانے دیا۔ پھر عرصہ بعد دوبارہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ تبدیل ہوئی اور دعا زہرہ کو16سال سے کم ثابت کرکے دارالامان بھیج دیا گیا۔ اب عرصہ بعد دعا زہرہ اپنے والدین کیساتھ دارالامان سے گھر چلی گئی ہے۔
پاکستان میں نکاح کے قانون بھی دو ہیں اور علماء کی شریعت بھی دو ہیں۔ پنجاب میں16سال سے زیادہ عمر کی لڑکی قانونی طور پر شادی کرسکتی ہے لیکن سندھ میں شادی کیلئے قانونی عمر کم ازکم18سال ہے۔ اگر لڑکی کورٹ میرج کا شکار ہوگی تو پنجاب میں16سال اورسندھ میں18سال تک دارالامان میں رہنا پڑے گا۔ پھر شوہر کیساتھ جاسکتی ہے۔ اگر پہلے دارالامان سے نکلنا چاہے تو والدین کیساتھ جاسکتی ہے۔ دعا زہرہ نے والدین کیساتھ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اغواء اور دیگر الزام نہیں لگائے۔ اب میڈیا والے اپنی کہانیاں چھوڑدیں۔ کل اگر دعا کے والدین اس شادی پر راضی ہوگئے تو کہانیوں کا کیا بنے گا؟۔
علماء کی شریعت دو ہیں۔ حنفی مسلک میں بالغ لڑکی کو والد کی اجازت کے بغیر نکاح کی اجازت ہے۔ اسلئے دعا زہرہ نے جو نکاح کیا، وہ شرعاًدرست ہے جبکہ اہلحدیث، شیعہ، مالکی، شافعی ،حنبلی کے شرعی مسلکوں میں والد کی اجازت کے بغیر نکاح شرعاًدرست نہیں۔ جمہور کی دلیل حدیث نبوی ۖ ہے کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ دعا زہرہ نے والد کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اسلئے یہ نکاح باطل اور ناجائز ہے۔ جمہور کے ہاں اس پر حرامکاری کے فتوے لگتے ہیں۔
حنفی کے نزدیک قرآنی آیت حتی تنکح زوجاً غیرہ ” یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرے” سے عورت خود مختارثابت ہے ۔آیت میں نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہے ۔ حدیث کو صحیح سمجھنے کے باوجود خبر واحد کا درجہ دیتے ہوئے قرآن کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اصل حنفی مسلک یہ ہے کہ پہلے تطبیق دینے کی کوشش کی جائے گی، اگر تطبیق ہوسکے تو پھر حدیث کو ناقابلِ عمل نہیں قرار دیا جائیگا۔ اگر حدیث سے کنواری لڑکی مراد لی جائے اسلئے کہ آیت میں طلاق شدہ کی بات ہے تو پھر اس حدیث کو بھی رد کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب اس حدیث پر معاشرے میں عمل ہوگا تو لڑکیوں کا گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کا سلسلہ رُک جائے گا۔ برصغیر کے علاوہ جہاں حنفی مسلک جمہور کی وجہ سے رائج ہے کہیں یہ دلخراش واقعات نہیں ہوتے۔ بڑے علماء و مفتیا ن کے ہاں بھی لڑکیوں کے ایسے مسائل کا معاملہ ہوتا ہے جو اپنے اثر ورسوخ کی وجہ سے دبا دیتے ہیں لیکن غریب والدین کو بہت رُلنا پڑتا ہے۔
جب شیعہ واہلحدیث کی لڑکی کو بھاگنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو حنفی مسلک کا سہارا لیا جاتا ہے اور جب اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ کی لعنت سے بچنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اہلحدیث اور شیعہ مسلک کا سہارا لیا جاتاہے۔ جب تک قرآن وحدیث کے اصل احکام سامنے نہیں لائے جائیں تو اسلام علماء و مفتیان کیلئے بازیچۂ اطفال بنا رہے گا۔آخرمیں ہم یہ کھل کر کہنے پر مجبور ہوںگے کہ
شریعت کے پاسباں ہم ہیں فتویٰ چلے گا ہمارا
اے جاہلوں کے جاہل! جاہل ملا تمہارا
شیعہ سنی دونوں اس جاہلیت کا شکار ہیں کہ” شوہر جب تک طلاق نہ دے تو عورت نکاح میں رہنے پر مجبور ہے۔اگر عورت خلع لینا چاہے تو جب تک شوہر اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے گا تو عورت نکاح میں رہنے پر مجبور ہوگی”۔
اس جاہلیت کا قرآن وحدیث سے تعلق نہیں ۔عورت کو خلع کا حق قرآن کی واضح آیت19سورہ ٔ النساء میں موجود ہے۔ مذہبی طبقات نے جاہلیت کی حد کو پار کرتے ہوئے آیت229البقرہ کے آخری حصہ سے خلع مراد لیا ۔ جس سے خلع مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن جاوید غامدی اور مولانا مودودی کیلئے ربوبیت کے درجے کا یقین رکھنے والے بھی حقائق ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔
علامہ سید جواد حسین نقوی جامعہ عروة الوثقیٰ لاہور نے بتایا کہ ایران کے علمی مرکز قم میں قرآن پڑھانے کا کوئی استاذ بھی نہیں تھا۔ جن آیات میں نبیۖ کو تلقین کی گئی کہ ”ہم نے آپ کیلئے ان چچا کی بیٹیوں کو حلال کیا جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی ”۔ اس کی تفسیر میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟۔ اہل سنت کی تفاسیر میں واضح ہے کہ حضرت علی کی ہمشیرہ ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی جو مشرک کے نکاح میں تھیں، فتح مکہ کے وقت حضرت علی نے اسکے شوہر کو قتل کرنا چاہا اسلئے کہ مشرک کیساتھ نکاح قرآن میں منع تھا ۔ام ہانی کو مشرک شوہر سے اتنی محبت تھی کہ ہجرت بھی نہیں کی اور اسکے نکاح میں رہی۔ نبیۖ نے اسکے شوہر کو قتل سے بچایا۔ پھر اس کا شوہر چھوڑ کر گیا تو اسکے بعد نبیۖ نے حضرت ام ہانی کو نکاح کی پیشکش کردی لیکن امام ہانی نے یہ پیشکش قبول نہیں کی اسلئے کہ وہ سنی تھی اور نہ شیعہ بلکہ حضرت ابوطالب کی بیٹی اور حضرت علی کی ہمشیرہ تھیں۔ مشرک سے نکاح کو حرامکاری نہیں قرار دیا جاسکتا تو پھر غیرسید اور سنی سے نکاح کو کیوں حرامکاری کہا جائے گا؟۔ اگر قرآن وسنت ،سیرت وتاریخ اور فقہ اسلامی کا درست علم ہوتا تو حضرت ام ہانی کے مشرک سے نکاح کو بھی حرامکاری قرار دینے کے بجائے اپنا اپنا فقہی مسلک درست کیا جاتا اور فرقہ واریت کی آگ میں بھی اپنی قوم کو نہیں جھلسایا جاتاتھا۔ شیعہ کے جب تک امام غائب حاضر نہیں ہوتے تو ان کو انکے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک والے قرآن وسنت کی بنیاد پر سود کو حلال کرنے کا دھندہ چھوڑ کربڑا انقلاب برپا کریں۔
علامہ سید جواد حسین نقوی نے کہا تھا کہ ” والدین اپنے ایسے نافرمان اولاد کا پیچھا چھوڑ دیں” ۔مگر علامہ شہریار عابدی نے علامہ جواد نقوی کو اس بات پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک اتحاد امت کے علمبردار ہیں اور دوسرے انتشار امت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں جو سنیوں کی کتابوں سے حوالہ جات نکال نکال کر اتحاد واتفاق کی فضاء کو بہت دھچکا پہنچارہے ہیں۔ ایک دوسرے پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کرنے میں کوئی باک نہیں سمجھتے ہیں۔ ہماری گزارش صرف اتنی ہے کہ قرآن نے ایک انسان کے ناجائز قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیا ہے اور پھر ایک انسان کے زندہ کرنے کو تمام انسانیت کے زندہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ایک لڑکی کی عزت بچانا تمام انسانیت کی عزت بچانے کے مترادف ہے۔ اور اس کی تذلیل کرنا تمام انسانیت کی تذلیل کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان کی جمہور عوام کا مسلک حنفی ہے اور دعا زہرہ کیلئے عدالتوں کا فیصلہ حنفی مسلک کے مطابق ہوگا۔ لڑکی شیعہ ہے جو نکاح کیلئے شیعہ مسلک چھوڑ کر سنی بن سکتی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی بات طے ہوئی تورتن بائی کی عمر16سال تھی۔ اس کا والد پارسی تھا،جو بڑی عمر کے مسلم سے اپنی لڑکی کو نکاح کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ رتن بائی نے کورٹ میرج کا فیصلہ کیا تو انگریز عدالت میں نکاح کیلئے لڑکی کا خودمختار ہونا،18سال شناختی کارڈکی عمر ضروری تھی۔والد کو عدالت میں مقدمہ درج کرنا پڑاکہ” پارسی عورت کا اہل کتاب سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے”۔ قائداعظم نے لکھ دیا کہ ”میرا کسی کتابی مذہب سے تعلق نہیں ”۔ جس پر مجلس احرارالاسلام کے شیعہ رہنما نے قائداعظم کو کافراعظم اسلئے کہا کہ غیرمسلم لڑکی کی خاطر اسلام کو چھوڑ دیا۔ رتن بائی کا انتقال ہوگیا تو آغا خانیوں کے مذہبی عالم نے اس کا جنازہ پڑھنے سے اسلئے انکار کردیا کہ رتن بائی نے ہمارا دین اسلام قبول نہیں کیا ۔ قائداعظم نے سر آغا خان سے سفارش کیلئے کہا لیکن سرآغا خان نے کہا کہ” مذہبی عالم جو کہتاہے ٹھیک کہتا ہے، میراکوئی جبر نہیں” ۔
رتن بائی نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں؟۔لیکن اگر وہ زندہ رہتی تو کلثوم نواز ، نصرت بھٹو، بشریٰ بیگم کی طرح خاتون اول سے بڑھ کر مادرملت کہلاتی۔ محترمہ شہلارضا نے کہا کہ ” دعا زہرہ ایک تعلیم یافتہ شریف خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور زہیرایک مالی کا بیٹا ہے”۔ اگر اونچ نیچ کا یہ معیار معتبر ہے تو پھر کہاں بینظیر کی حیثیت پیپلزپارٹی کے جیالوں میں اور کہاں آصف علی زرداری؟۔ جس کی بڑی لیڈر بینظیر بھٹو کے مقابلے میں مالی کی حیثیت بھی نہیں تھی۔ البتہ ان کی شادی پر والدہ کو اختلاف نہیں تھا والد تو مرحوم ہوچکے تھے۔ بھائی جلاوطن اور راضی نہ تھے تو الگ بات تھی۔ پھر بینظیر بھٹو نے راستہ ہموار کیا تو مرتضیٰ بھٹو واپس پاکستان آسکا تھا۔ مریم نواز نے بھی نوازشریف کوسعودی عرب جلاوطن کرنے کا اوراب دوبارہ لندن سے پاکستان آنے کا راستہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قائداعظم کی بیٹی دینا جناح نے باپ کی مرضی کے بغیر پارسی سے نکاح کیا تھا۔ قائداعظم کا جنازہ دیوبندی علامہ شبیراحمد عثمانی نے پڑھایا اور شیعہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایک جنازہ پہلے خفیہ طور پر انہوں نے بھی پڑھایا۔ بڑے آدمی کیلئے نکاح اور جنازے کے مسائل نہیں ہوتے مگر مولوی غریب کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجاتے ہیں۔ دعا زہرہ بہت غریب تو نہیں مگر امیر کبیر بھی نہیں ہے۔
قرآن وسنت کی روشنی میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث اس مسئلے کو ایساحل کرسکتے ہیں کہ دعا زہرہ کیلئے بھی آئندہ کی زندگی میں کوئی عار نہ ہو اور قرآن وحدیث کی وضاحتیں بھی مذہبی طبقات اور عوام الناس کے سامنے کھل کر سامنے آجائیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحیح حدیث میں اس نکاح کو باطل کہا گیا ہے اسلئے کہ والد کی طرف سے اجازت نہیں تھی لیکن باطل کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نکاح کو حرام کاری قرار دیا جائے۔ والد اجازت دے تو پھر یہی نکاح برقرار ہی رہے گا اور والد اجازت نہ دے تو لڑکی اپنے شوہر کے گھر میں یتیم لڑکی سے بھی زیادہ لاوارث کی طرح زندگی گزارے گی اسلئے کہ خاندان کی سپورٹ سے محروم رہے گی اور اس سے بڑھ کر نکاح کا باطل ہونا اور کیا ہوسکتا تھا کہ قرآن نے سسرالی رشتے کو بطور احسان جتلایا ہے اور یہ دشمنی میں بدل جائے؟۔
اگر والدین کی بات دعا زہرہ مان لے تو نکاح کے باطل ہونے کا مطلب بالکل واضح ہے کہ اس نکاح کی شرعی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ جس کا نقصان شوہر سے زیادہ عورت کو اسلئے ہوگا کہ طلاق کے مالی حق سے محروم ہوگی۔ شریعت میں طلاق اور خلع میں عورت کا مالی حق ہے۔شیعہ سنی ،دیوبندی بریلوی اور حنفی اہلحدیث نے نہ صرف عورت کو خلع کے حق سے محروم کیا ہے بلکہ عورت کیلئے بہت سارے مسائل بھی کھڑے کردئیے ہیں۔ عورت سے منہ مانگی قیمت وصول کئے بغیر شوہر خلع کیلئے راضی نہ ہو تو عورت کی جان بھی نہیں چھوٹ سکتی ہے۔اگر عورت کو اتنا فائدہ مل جائے کہ والدکی اجازت کے بغیر نکاح باطل قرار دیا جائے تو یہ بھی عورت کیلئے اس وقت بڑی غنیمت ہوگی کہ جب وہ طلاق چاہتی ہو۔
مفتی تقی عثمانی کے والد مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع مولانا اشرف علی تھانوی کے طفل مکتب تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب ”حیلہ ناجزہ” میں لکھا ہے کہ ” اگر شوہر نے بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور پھر مکر گیا تو اس کے بعد عورت کو اپنی جان چھڑانے کیلئے دو عادل گواہ لانے پڑیںگے۔ اگر اس کے پاس دو گواہ نہ ہوئے اور شوہر نے جھوٹی قسم کھالی کہ اس نے طلاق نہیں دی ہے تو عورت خلع لے، اگر شوہر خلع نہ دے تو پھر عورت حرام کاری پر مجبور ہوگی”۔
یہ شریعت اور اسلام نہیں بلکہ پرلے درجے کی بے غیرتی ہے لیکن پختون قوم اس بے غیرتی کو اسلئے قبول کرنے پر مجبور ہوںگے کہ اپنی بہن و بیٹی کو بڑی رقم کے بدلے بیچ دیتے تھے۔ پنجابی جہیز دیتے ہیں۔ عرب وعجم میں جہیز و حق مہر کے نام پر عورت کو مسلنے کی رسم نے شریعت کی حقیقت کو بالکل غیرمؤثر بنادیا تھا۔ قرآن وسنت میں حق مہر برائے نام نہیں بلکہ استطاعت کے مطابق اچھا خاصہ ہے۔ عورت کو خلع کا اختیار اور مالی حقوق ہیں۔خلع سے زیادہ عورت کو طلاق میں مالی حقوق حاصل ہیں۔ عورت طلاق کا دعویٰ کرتی ہو تو اس کو مالی حقوق زیادہ ملتے ہیں اسلئے شوہر کے انکارکی صورت میں مالی حقوق حاصل کرنے کیلئے دوگواہ پیش کرنے ہونگے۔ فقہاء نے طلاق سے رجوع میں عورت کی صلح کا اختیارچھین لیا تو عورت کو اندھیر نگری میں دھکیل دیا۔جس طرح مغرب نے یہود ونصاریٰ کے دین سے اپنا معاشرہ جمہور کے ذریعے چھڑا دیا ہے اسی طرح سے مسلمانوں کی اکثریت بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ہم سادات کاکام شریعت کو تحفظ دینا ہے۔
قرآن میں جس طرح طلاق شدہ وبیوہ ، غلام اور لونڈی کا نکاح کرانے کی تلقین ہے ،اسی طرح کنواری لڑکیوں کے نکاح کا مشکل مسئلہ بھی حل کردیا ہے۔ فرمایا کہ ولاتکرھوا فتےٰتکم علی البغاء ان اردن تحصنًا ” اور اپنی لڑکیوں کوبغاوت پر مجبور مت کرو،جب وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔ جب لڑکی کسی کے عشق میں مبتلاء ہوجائے تو والدین کو چاہیے کہ اس کو بغاوت پر مجبور نہیں کریں بلکہ نکاح کی اجازت دیں۔ عربی میں بغاء کے معنی بغاوت اور بدکاری ہے۔ کھل کر اعلانیہ نکاح کرنا بغاوت ہے اور چھپی یاری کرنا بدکاری ہے اور دونوں صورتوں سے بچنے کیلئے والدین کو اپنا فرض پورا کرنا چاہیے۔ بچیوں کی ایسی جگہ بھی نکاح کی خواہش ہوسکتی ہے کہ والدین اس کو اپنے خاندانی وجاہت کے خلاف سمجھتے ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ اپنے خاندانی وجاہت کی وجہ سے اپنی بچیوں کی عزت کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ حدیث میں واضح ہے کہ اگر لڑکی کا نکاح والدین نے اس کی اجازت کے بغیر کردیا تو اس کا نکاح نہیں ہوا۔ عورتوں کو یہ رعایت بھی قرآن نے دی ہے کہ اگر ان کو مجبور کیا گیا تو اللہ ان کو نہیں پکڑے گا۔
ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار کے مختلف مضامین میں دلائل سے بھرپور تمام مسائل سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مسلک حنفی کی مثال ایک موٹر وے ہے جس کو چھوڑ کر حنفی مسلک والے اور دوسرے مسالک والے پگڈنڈیوں میں سرگرداں مختلف وادیوں میں گمراہ شاعروں کی طرح گھوم پھر رہے ہیں۔جس دن حقائق کی طرف سب متوجہ ہوئے تو پھر اسلامی انقلاب کا دھماکہ راتوں رات ہوگا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز