پوسٹ تلاش کریں

ایدھی سینٹروں میں یہ کیاکیا ہورہاہے؟

ایدھی سینٹروں میں یہ کیاکیا ہورہاہے؟ اخبار: نوشتہ دیوار

ایدھی سینٹروں میں یہ کیاکیا ہورہاہے؟

پشتون عورتوں سے بغیر نکاح اور نکاح کے نام پر بڑادھوکہ؟

کراچی میں سعدیہ7سال کی عمر میں اغوا ہوئی،19سال کی عمر میں واپس ملی، وہ ان تیرہ سالوں میں کس کرب سے گزری؟۔ کرن ناز سما ء ٹی وی۔کراچی میں7سال کی عمر میں اغوا ہونے والی بچی سعدیہ13سال بعد اپنے والدین کو مل گئی۔ ٹیم7سے8ان کے گھر گئی۔ اس بچی کے ساتھ ان کی زندگی کے بارے میں بات کی۔ دیکھئے اس معصوم بچی کے13سال کیسے گزرے؟۔منیزہ فاطمہ آپ کو بتارہی ہیں۔
منیزہ فاطمہ: کراچی کی سعدیہ جو7سال کی عمر میں لاپتہ ہوئی اور19سال کی عمر میں گھر والوں کو واپس ملی۔ ان13سالوں میں گھر والے اس کی تلاش میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ اور وہ خود نہ جانے کتنے مسائل کا سامنا کرتی رہی۔ اسے غائب کرنے والا کون تھا؟۔ وہ گھر والوں کو واپس کیسے ملی اور کس حال میں ملی؟۔ اور اس کے ساتھ ان13سالوں میں کیا کچھ ہوتا رہا آئیے جانتے ہیں۔
سعدیہ مجھے یہ بتائیے گا جب آپ کو یہاں سے لیکر گئے تھے جب انہوں نے آپ کو اغوا کیا تھا تو7سال کی تھی آپ بہت چھوٹی تھیں لیکن کچھ تو یاد ہوگا ناں کہ وہ کیسا وقت تھا کہاں لے جاکر انہوں نے رکھا تھا؟
سعدیہ: مجھے امی نے چیز لینے بھیجا تھا دکان پر تو ایک گاڑی آئی تھی اس میں پیچھے سے شیرین جاناں نکلا تھا یہ میرا پہچانا شخص ہے میری بڑی بہن قسمت آپی کا شوہر ہے۔ یہ اکثر میرے گھر میں بھی آتا تھا اسلئے مجھے پہچان ہے اس شخص کی۔ اس نے پہلے مجھے پیار سے بلایا لیکن جب میں نہیں گئی تو اس نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور یہ مجھے زبردستی کھینچ کر اندر لے کر جارہا تھا اور یہ قہقہے بھی مار رہا تھا اس کے ساتھ باقاعدہ4لوگ اور بھی تھے پاکٹ سے کچھ نکالا اور میرے ناک پر رکھ دیا۔ اس کے بعد مجھے نہیں پتہ چلا کہ یہ لوگ مجھے کہاں لے کر گئے۔ لیکن جب میری آنکھ کھلی تھی ایک کمرہ تھا بالکل اندھیرا چھایا ہوا تھا اور وہ مجھے کھانا دینے آیا تھا لیکن جب میں نے اس سے کھانا نہیں لیا تھا تو وہ مجھے دھمکارہا تھا کہ اگر میں نے تمہیں آزاد کیا ویسے تو میں تمہیں آزاد نہیں کروں گا اگر آزاد کر بھی دیا تم نے کسی کو بتایا بھی ناں تو تمہاری بہن میرے حوالے ہے میں اس پر فائرنگ کردوں گا۔ میں روتی تھی چیخ کر تو وہ مجھے تھپڑ مارتا تھا کھینچ کر۔ جس جگہ پر رکھا ہوا تھا وہ ایک جنگل جیسی جگہ تھی اندھیری اندھیری تھی۔ اگر آج بھی میں اس جگہ کو دیکھوں گی تو میں پہچان جاؤں گی۔ وہ4لوگ تھے ان میں سے میرے پاس2تو نہیں آتے تھے لیکن جوآتا تھا وہ بھی باقاعدہ اس کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ تھپڑ مارتے تھے میرے بال بھی کھینچتے تھے۔ اور انہوں نے2مہینے مجھے اپنے پاس کڈنیپ رکھا اور اسکے بعد مجھے ایدھی فاؤنڈیشن میں ڈراپ کردیا ان میں ایک پولیس کا آدمی تھا جو انہی کا ساتھی تھا۔ اس کو پیسے دیے اور اس کو کہا کہ اس کا پتہ ایسا لکھو کہ دنیا میں اس کا کوئی بھی نہیں ہے۔ جب ایدھی میں گئی تھی تو وہاں کے لوگ اچھے نہیں تھے اور انہوں نے شروعات میں جووہاں لیڈیز وغیرہ تھیں وہاں جو سنبھالتے تھے ان میں سے ایک تسلیمہ نام کی باجی تھیں اس سے میں نے کہا تھا کہ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے نام پتہ ہیں مجھے پلیز میرے گھر تک بھیج دو۔ وہ بے دھڑک اٹھی اور میرے منہ پر تھپڑ مارا کہ تو یہاں بچپن سے بڑی ہوئی ہے اور آج تم کہہ رہی ہو کہ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ اور پھر اس نے سیزر اٹھائی اور میرے بالوں پر چلادی۔ اسکے بعد حالات بہت برے گزرے۔ میرے روزے بھی بند کئے تھے اور مجھے سزا میں کھڑا رکھتے تھے۔ بے ٹیم کھانا دے دیتے تھے جب افطاری اور سحری کا وقت چلا جاتا تھا۔ اسکے بعدجب میں نے ان سے معافی مانگی تھی تو انہوں نے مجھے معاف کرتو دیا تھا لیکن میرا اسکول بندکیا تھا میں نے سال کی عمر میں4جماعتیں پڑھیں اس کے بعد میرا اسکول بند ہوگیا تھا پولیس والوں نے ایدھی فاؤنڈیشن میں چھاپا مارا ۔ انہیں لڑکیوں کے حالات کا پتہ چلا کہ وہاں حالات برے ہیں تو سعد اور احمد یہ دونوں سنبھالنے لگ گئے تھے ۔ میں نے ان کو کہا تھا تو ان لوگوں نے مجھے گھر تک پہنچادیا۔ یہ دونوں اچھے تھے۔ میرے ساتھ اور بھی بچیاں تھیں ان کو بھی ایسا رونا آتا تھا جیسے مجھے آتا تھا۔ کسی ایک کو مار پڑتی تھی ہم سب تڑپ جاتے تھے۔ اپنے ماں باپ کیلئے بد دعائیں بھی نکلتی تھیں۔ کچھ ماں باپ ایسے تھے جو اپنی اولادوں کو ایدھی کے دروازے کے پاس پھینک کر چلے جاتے تھے۔ اور کوئی سا بھی دن آتا تھا ناں یتیموں کے ساتھ اچھا نہیں منایا جاتا تھا۔ جیسے کہ ایک مدرز ڈے ہوتا ہے ماں کا دن ہوتا ہے ایک فادرز ڈے ہوتا ہے باپ کا دن ہوتا ہے اکثر ہم بچوں کو ماں باپ کیساتھ دیکھتے تھے تو میرے دل سے شیرین جانان کیلئے بد دعا نکلتی تھی۔ جب میں اپنے رحیم داد کے دو بچوں کو دیکھتی ہوں ابراہیم اور اسماء میرے دل سے بھی یہ بات گزر تی ہے کہ جب میرے ماں باپ میرے پاس نہیں تھے اور یتیم خانے میں تھی تو میں نے بھی ایسی بے بسی کی زندگی گزاری ۔ جیسے میرے آج دو بھتیجے گزار رہے ہیں۔ وہاں پر اکثر جب میں بیمار بھی ہوجاتی تھی کوئی خیال رکھنے والا نہیں تھا دیکھ بھال کرنے والا۔ تو مجھے اپنی ماں یاد آتی تھی کہ جب میں چھوٹی تھی مجھے ذرا سی چوٹ بھی لگتی تھی میری ماں کیسی تڑپ جاتی تھی میری چوٹ کیلئے ۔ اور میرے پاؤں اپنی گود میں رکھ کر کیسے مجھے سکون دلاتی تھی۔ وہاں پر دوستی پر بہت پابندی تھی۔ اگر پتہ چلتا تھا ناں کہ اسکے ساتھ دوستی ہے تو بہت برا مارتے تھے وہ چاروں لیڈیز بے چاری ایک لڑکی نازک سی ہوتی تھی اس پر سب جھپٹ جاتے تھے اور پہلے سے وہ یتیم اپنے دکھ اپنے اندر رکھتی تھی ماں باپ کی زندگی کے تمام شکوے اپنے دل پر رکھے تھے۔ پھر ان چاروں کی مار کھاتے تھے اس طریقے سے وہ بے بس ہوجاتی تھی۔ کچھ تو اپنی موت کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے تھے کہ یا اللہ ہمیں موت دیدے۔ اگر پتہ چلتا تھا کہ اسکی اسکے ساتھ دوستی ہے تو دوپٹوں پر آگ لگائی جاتی تھی اور ماچس کی تیلی لگاکر بالوں پر چھوڑ دیتے تھے۔ وہاں پر دو تین لڑکیاں ہیں انکے بالوں پر آگ لگائی تھی۔ راتوں رات ان کو کھڑا رکھتے تھے ایک ٹانگ پر سردی کے دن ہوتے تھے اور بستر کے بغیر فین سر پر کھلا ہوا اور نیچے پانی ہوتا تھا۔ اس طریقے سے زندگی ہم سب کی گزری ۔ کوئی بڑا شخص آجاتا تھا تو لڑکیوں کو بے دھڑک چھوٹے سے کمرے میں50سے زائد لوگ لڑکیوں کو بند کرتے تھے صبح سے بند ہوتے تھے رات تک۔ اسی حالت میں نہ کوئی واش روم کا پوچھتا تھا نہ کھانے کا پوچھتا تھا۔ اسی میں لڑکیاں چیخ کر روتی تھیں دروازہ پیٹتی تھیں ،بہت تڑپتی تھیں میں چاہتی تھی شیرین جانان جیسے لوگوں کو جس نے صرف میرے گھر والوں کو نہیں تمام لوگوں کے بہن بھائیوں کو در بدر کیا ہے ایسے لوگوں کو میں چاہتی ہوں پھانسی پر لٹکایا جائے۔ اب تک یہ میرے باپ کو بھی دھمکیاں دے رہا ہے جیل میں ہوکر بھی۔ میرے باپ نے اس کا کیا بگاڑا تھا؟ جس نے میرے باپ کی پوری زندگی کے پیسے اپنے سر پر اڑادئیے اور ان پولیس والوں کو بھی سزا دینی چاہیے جن پولیس والوں نے اس کا ساتھ دیا اور ان وکیلوں کو بھی۔ جو اس کے وکیل ہیں جو اس کیلئے آواز اٹھارہے ہیں۔ کیا انکے گھر میں ان کی بیٹیاں نہیں ہیں۔ اگر ان کو دربدر کیا جائے تو ان کے دل پر کیا بیتے گا؟۔
منیزہ فاطمہ: ناظرین اس وقت میرے ساتھ سعدیہ کی بڑی بہن موجود ہیں میں ان سے جانتی ہوں کہ انہیں اپنی بہن واپس کیسے ملی؟
سعدیہ کی بہن: میری بہن کو جب اغوا کیا تو دھمکیاں اس نے دیں کہ اگر تو نے اپنے والد یا والدہ کو بتایا تو ہم تمہیں بھی قتل کردیں گے تمہاری بہن کو بھی قتل کردیں گے۔ جب میری دوسری بہن کو پتہ چلا جو جانان شیرین کی وائف تھی قسمت بی بی کہ میرے شوہر نے میری بہن کو اٹھایا ہے تو اس کو بھی قتل کیا تین گولیاں ماریں ، اسی دوران میرا بڑا بھائی یہیں پر بیٹھا ہوا تھا اس کو بھی پتہ چل گیا اور میرابھائی جب اس کے گھر گیا ایک دن اسکے ساتھ بازار یا گھر میں لڑائی کی کہ میری بہن کو تم نے اٹھایا ہے واپس کردو ہم تمہیں کچھ بھی نہیں بولے گا مگر ہماری بہن کو واپس کردو۔ اس کو پتہ چلا کہ میرے سالے کو پتہ چل گیا ہے تو میرے بھائی کو زہر دے کر اس کو مار ڈالا۔ میری بہن کا قتل کروایا تو اسی وقت میرے والدین گئے مگر یہ مفرور ہوگیا تھا۔ میرے والدین نے اس پر رپورٹ کروایا ۔ میری بہن کا پوسٹ مارٹم کیا اس کی قبر کھودی، مگر یہ مفرور تھا اور کتنے سالوں تک یہ مفرور گھوم رہا تھا۔ ابھی تقریباً دو سال ہوئے ہیں ہم لوگوں نے اس کو پکڑا ہوا ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ یہ فلانی جگہ پر رہتا ہے تو ہم وہاں گئے وہاں ہم نے4نمبر کورنگی تھانے سے اس کو اٹھوالیا۔ ہم لوگ بھائی کی باڈی قائد آباد تھانے میں لے کر گئے تھے مگر وہ لوگ ہماری فریاد نہیں سن رہے تھے ہماری رپورٹ نہیں لے رہے تھے ۔ بھائی کی باڈی قائد آباد پولیس تھانے کے سامنے ہم لوگوں نے رکھی ہوئی تھی اوریہ اسی بھائی رحیم داد کے بچے ہیں جس کا قتل ہوا ہے۔ اس کو زہر دے کر مارڈالا ہے یہ اس کا بیٹا ابراہیم ہے یہ چا ر مہینے کا تھا، اور اس کی بیٹی اسماء ہے یہ ڈیڑھ دو سال کی تھی۔ میری بھابھی کا بھائی اور ان بچوں کا ماموں شیرین جانان کا دوست ہے وہ زبردستی آیا اور میری بھابھی کو اٹھا کر لے گیا اس کی شادی دوسری جگہ کردی۔ ان بچوں کیساتھ نہ ماں ہے اور نہ باپ ۔ اس کو سزائے موت دیا جائے ان لوگوں نے ظلم کیا ہے ۔ میری امی کی آنکھوں کی نظر چلی گئی میرا ابو شوگر کا مریض ہوگیا۔ ہم لوگوں کے پاس اپنی سوزوکیاں تھیں اور اپنی کاریں تھیں اور جب سعدیہ گم ہوگئی ابو نے اس کے اوپر لاؤڈ اسپیکر لگاکر گلیوں گلیوں ڈھونڈا ندیوں میں ڈھونڈا سب دولت اسی کے پیچھے اڑادیا۔ باقی ایسا دن بھی ابو کو دیکھنا پڑا کہ میرے ابو کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے ابو لوگ گھر پر بیٹھے ہوئے تھے مالک مکان نے اس کے پیچھے تالا لگایا تھا۔ یہ سعدیہ کے بچپن کے کپڑے تھے امی نے کل نکالے تھے تو سعدیہ رونے لگ گئی جب سعدیہ کو یاد آیا کہ یہ کپڑے میں نے اس دن پہنے تھے۔ اور یہ میں نے اپنے ہاتھوں سے بنائے تھے سعدیہ کیلئے پوری تھیلی بھر کر رکھی ہوئی ہے۔
سعدیہ : خوشی ہورہی تھی کہ آج تک میرے اپنوں نے بہت پیار کیا کہ بچپن کے کپڑے بھی سنبھالے ہیں۔
تبصرۂ نوشتۂ دیوار
معاشرتی برائیاں، اس پر پولیس اور وکلاء کی زیادتیاں اور ایدھی جیسے ادارے کی حالت کتنی افسوسناک ہے؟۔ ایک اچھے ماحول کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کو بنیاد بنایا جائے۔ حجاز مقدس میں اسلام سے پہلے کوئی حکومت نہیں تھی لیکن بڑی معاشرتی اور مذہبی جہالتوں کا معاشرے کو سامنا تھا۔ آج ہمارے حالات پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہوچکے ہیں۔ کراچی میں ڈکیتی کی وارداتیں کرتے ہوئے قیمتی جانوں کا ضیاع معمول کا حصہ ہے۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو موبائل چھین کر ایک14سالہ افغانی نے جان سے ماردیا اور اس کا دوسرا ساتھی فرار ہوگیا۔ اس کو پہلے بھی پولیس نے زخمی کرکے گرفتا رکیا تھا اور پھر عدالت سے رہائی مل گئی تھی۔ جب نوازشریف کو سزا کے باوجود بھی ملک سے باہر بھیج دیا گیا اور شہباز شریف نے اس کی ضمانت دی اور پھر اس کو بہت مختصر ووٹوں کیساتھ وزیراعظم بھی بنادیا گیا تو ہمارے ملک کی اخلاقیات کہاں سے بنیںگی؟۔ افغانستان سے آنے والے بچوں اور خواتین کو سندھ کی جیلوں میں ڈالنا بہت بڑی زیادتی ہے لیکن ایک طرف دہشت گردی کی فضاء ہے اور دوسری طرف ڈکیٹی کی فضاء میں اس سے اضافہ ہوتا ہے۔ اگر افغانستان میں بہترین ہسپتال، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں تو پوری دنیا سے بڑے پیمانے پر ان کی مدد ہوگی اور افغانی اس طرح جیلوں اور بے راہ روی کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔ پاکستانی پشتونوں کو بھی اپنے حالات درست کرنے ہوںگے۔ قوم پرستی کے بلند بانگ رہنما اپنی قوم کی اصلاح نہیں کرتے ۔ صرف دنیا پر الزامات تھوپتے رہتے ہیں۔

نوٹ: اس پوسٹ کو مکمل پڑھنے کیلئے ” صوابی سے بازار حسن تک کی واردات” کے عنوان کی پوسٹ ضرور پڑھیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز