آخر ایسا کیوں نہیں کہ ہندو لڑکے سے اسلام قبول کرواکے پیروں نے اپنی بیٹیوں کی اس سے شادی کرادی ہو؟
اپریل 5, 2019
اسوقت سندھ کے اندر،اس سے پہلے کئی ہندو بچیوں کو اغواء کرکے زبردستی اسلام قبول کرواکے انکی شادیاں مسلمان بچوں سے کیں
جو معصوم بچی لیڈر منتخب ، ووٹ نہیں کرسکتی ، شناختی کارڈ ، اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی اسکا مذہب بدلنا،شادی کرنا کمیونٹی چھوڑنا کیسے تسلیم
ہمارا مذہب اسلام اسکی اجازت نہیں دیتا ہمارے مسلمان بھائیوں بہنوں کو سوچنا چاہیے کہ انکے مذہب کی تضحیک اڑائی جارہی ہے
یہ مسئلہ مسلمانوں کا ہے انکے مذہب کا مذاق اڑایا جارہا ہے دوسرا ان سندھیوں کا ہے جن کی قوم پر بن آئی ہے غیر ت کا مسئلہ ہے۔
کراچی (سوشل میڈیا ) سندھ کی ہدیٰ بھرگری بلوچ نے ویڈیو پیغام میں کہا :اس وقت سندھ کے اندر اور اس سے پہلے کئی بار ہندو بچیوں کو اغوا کرکے زبردستی اسلام قبول کرواکے ان کی شادیاں مسلمان بچوں کیساتھ کی گئیں۔ سندھ کی عوام، سندھ کی قوم کافی عرصے سے خود کو ایک پروگریسو، سیکولر اور صوفی کہلاتی ہے، اس طرح کی پریکٹسز سندھ کے وقار کو مجروح کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کررہی ہیں، میرے خیال سے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اب تک اکیسویں صدی کے اندر بھی عورتوں کو as a collateral damage یا as a commodity (اشیاء) Trade کرتے ہیں یا بطور instrument کے استعمال کرتے ہیں کہ مذہب کی بات آتی ہے ،فرقہ واریت کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ victim ہمیشہ عورت کو بنایا جاتا ہے ، نشانہ ہمیشہ عورت کو ہی بنایا جاتا ہے۔ اس وقت اگر ہم اس پورے مسئلے کو دیکھیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جو پیر ہے وہ کافی عرصہ سے اس طرح کی حرکت میں ملوث رہا ہے۔ یہ کئی بچیوں کیساتھ اس طرح کی حرکتیں کرچکا ہے لیکن افسوس کہ پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ جس نے کوشش بھی کی تھی کہforced conversion (جبری تبادلوں)کیخلاف قانون پاس کروا سکے اور وہ قانون اسلئے مسترد ہوگیا کیونکہ مُلوں کے کچھ عناصر کو یہ بات گوارہ نہ تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہپاکستان کا قانون ہے، مسلمان دوسرے مذہب میں کنورٹ نہیں ہوسکتا تو یہی قانون آخر ہندوؤں کیلئے کیوں نہیں ؟ دوسری بات کہ اگر کسی ہندو کا مسلمان ہونا consider ہو تو اسکی کوئی عمر متعین کیوں نہیں کی؟ جو معصوم بچی اپنا لیڈر منتخب نہیں کرسکتی ووٹ نہیں کرسکتی، شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتی 18سال سے کم، بینک کا اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکتی، زندگی کے چھوٹے سے فیصلے نہیں لے سکتی، اسکا مذہب بدلنے کا فیصلہ اسکا 18سال سے کم مسلمان سے شادی کا فیصلہ (decision)، اسکا گھر اپنی کمیونٹی کو چھوڑنے کا فیصلہ ، اسکا اپنی زندگی کے بارے میں self determination ، یہ سارے decision (فیصلے) آخر کس طرح سے صحیح مانے جارہے ہیں اور کس بنیاد پر انہیں justify کرکے پریس کانفرنس بلائی جارہی ہے؟۔ تیسری بات کہ اگر قانون کے تحت 18سال اور 17سال سے کم عمر کی بچیوں کی شادی نہیں ہوسکتی تو کس قانون کے تحت ان دونوں بچیوں کی شادیاں کی گئیں اور شادیاں کروانے والوں کیخلاف جو کاروائی ہونی چاہئے تھی وہ اب تک کیوں نہیں ہوئی؟۔ چوتھی بات یہ کہ آخر یہ مذہب قبول ہندو لڑکے کیوں نہیں کررہے؟۔ آخر یہ بچیوں ہی کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے؟۔ آخر ایسا کیوں نہیں ہوا کہ کسی گاؤں سے اٹھ کر کسی دس پندرہ سال کے معصوم بچے کسی لڑکے نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ مجھے اسلام قبول کرنا ہے اور ان پیروں نے اسے اسلام قبول کروا کر اپنی ہی بیٹیوں کی شادی اسکے ساتھ کروادی ہو، آخر ایسا کیوں نہیں ہوا؟۔ اگر کسی ہندو لڑکے کو اسلام قبول کرنے کے بعد کوئی مسلمان اپنی بیٹی نہیں دیتا لیکن وہیں پر یہ بات بالکل ٹھیک سمجھتا ہے کہ ایک ہندو بچی کو مسلمان کروا کر اپنے بیٹوں کیساتھ اس کی شادی کروادی جائے۔ یہی پر ہی ان مُلوں کی، ان پیروں کی، ان فقیروں کی سب سے بڑی جو مکاری ہے وہ ہمارے سامنے آجاتی ہے انکا مقصد مذہب کی خدمت کرنا نہیں ۔ ہمارا مذہب اسلام اس کی اجازت ہی نہیں دیتا، میں تو کہتی ہوں ہمارے مسلمان بھائی اور بہنوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی مذہب کی کس طرح کی تضحیک اڑائی جارہی ہے ان کو چاہیے کہ اسکے خلاف بات کریں۔ آپ کو اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ کسی کو اغوا کریں، اغوا کے بعد زبردستی مذہب قبول کروائیں۔ وہ بچی پریس کانفرنس کے دوران رو پڑی ہے۔ یہ کونسی پسند کی شادی ہے یا یہ پسند آخر consider بھی کیسے ہوگی جس کی شادی کی ابھی عمر نہیں ۔ میرے خیال سے سب سے بڑا کردار ہمارے tokan representative (ٹوکن کی نمائندگی ) کو ادا کرنا چاہیے جو سینٹ میں ہیں۔ جن میں کرشنا کوہلی شامل ہیں، جن کو پیپلز پارٹی آگے لیکر آئی ہم نے ان کی بڑی حوصلہ افزائی کی کہ وہscheduled caste سے خاتون کو لے کر آئے اور سینٹ میں جگہ دی، پھر سینٹ کا ایک سیشن چیئر بھی کروایا بہت شکریہ بہت اچھی بات تھی لیکن یہ چھوٹے چھوٹے سے ٹوکن representative اور ٹوکن participations جو یہ کروارہے ہیں جو ٹوکن لیڈر شپ یہ دکھارہے ہیں اس سے سندھی اور ہندو کمیونٹی کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ دوسری بات سندھی اور ہندو کمیونٹی یہ ایک کمیونٹی ہے یہ ایک قوم ہے اور اب یہ مسئلہ ہمارے قومی شعور کا اور قومی شناخت کا ہوگیا ہے کہ کیا اب ہم تیار ہیں کہ ہم اپنے سیکولر ہونے کا پروگریسو ہونے کا باشعور ہونے کا اور صوفی ہونے کا جو اسٹیٹس ہے اب ہم وہ گنوائیں؟ یا ہم تیار ہیں کہ سندھ کو ان مُلاؤں اور پیروں کے ہاتھوں میں دیں جنہیں کئی سال پہلے ہمارے صوفی، ہمارے شاعر، ہمارے فلسفی رد کرچکے ہیں۔ کیا ہم تیار ہیں اس دن کیلئے کہ جب اس دھرتی سے شاہ، سچل اور اس طرح کے جو صوفی ہیں جو یہاں سے پیدا ہوئے تھے وہاں سے اب اس طرح کے مُلا، دہشتگرد اور غنڈے پیدا ہونگے؟۔ خدارا! ہمیں چاہئے کہ پیپلز پارٹی اور ہماری سندھ گورنمنٹ سے یہ کہیں اور یہ درخواست کریں اس مُلائیت کے پیچھے جو سیاست کی دکان چلتی آرہی ہے اسے بند کریں اوران لوگوں کیلئے آواز اٹھائیں جن کی نمائندگی کا پارلیمنٹ، سینٹ اور اپنی اسمبلی میں ہے۔ان ہندو لیڈرز جو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی ٹکٹ پر اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں انہیں چاہئیے کہ اگر اس مسئلے کے اوپر ان بچیوں کی بازیابی کے اوپر کوئی اس طرح کا قانون نہیں پیش کرتے تو میرے خیال سے انہیں مستعفی ہوجانا چاہیے۔ وہ بری طرح سے فیل ہیں اپنے لوگوں کی نمائندگی کرنے میں۔ میرے خیال سے یہ مسئلہ ہندو کمیونٹی کا نہیں، مسلمانوں کا ہے کیونکہ انکے مذہب کو بہت ہی برے طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے اسکا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ دوسرا ان سندھیوں کا ہے جن کی قوم کے اوپر بن آئی ہے ان کی قومی شناخت خطرے میں ہے۔ میرے خیال سے پیپلز پارٹی کو اسکے لحاظ سے کچھ قوانین مرتب کرنے چاہئیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے ایک پریشر گروپ کی طرح ان کو پش کریں اور ان کی اس حرکت کیخلاف جتنا بھی ہم بات کرسکتے ہیں ہم کریں اور ہم اسے ایک ہندو کمیونٹی کا مسئلہ سمجھ کر ڈیل نہ کریں بلکہ ایک سندھی کمیونٹی کا مسئلہ سمجھ کر ڈیل کریں کیونکہ اب یہ ہماری قومیت اور ہماری شعوری غیرت کا سوال بن چکا ہے۔ خواتین کے حقوق کی سوشل ایکٹوسٹ سندھ کی ہدیٰ بھرگری بلوچ کی ایک ویڈیو یوم خواتین کے حوالے سے آئی ہے جس میں اس نے وضاحت کی ہے کہ ایک ہجڑے نے لکھا تھا کہ ’’کھانا میں گرم کروں گی بستر تم گرم کردینا‘‘۔ ہم خواتین جس طرح تیسری جنس سے نفرت کرتے ہیں اور مرد جس طرح کے جملے ان پر کستے ہیں ، جس طرح ان کو سمجھا جاتا ہے اور جو ان کا ماحول ہوتا ہے تو وہ اس طرح ہی کی باتیں کریں گے۔ جب تک مرد رنگے ہاتھوں پکڑا نہ جائے تو اس کو کوئی بدکار نہیں کہتا لیکن کوئی عورت اپنے حق کیلئے نکلتی ہے تو اس پر الزام لگادیا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو اور مریم نواز کی مثال لے لیں۔ یہ الزام مرد ہی لگاتے ہیں۔ اگر کسی نے یہ کہہ دیا کہ ہم اگر بدچلن ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حقوق کیلئے ہم پر جو الزام لگاتے ہو لگاؤ لیکن اس مرتبہ خواتین نے پچھلے سال سے بڑی تعداد میں اپنے حقوق کیلئے مظاہرہ کیا ہے۔ ہر قسم کی خواتین ہر طبقے سے نمائندگی کررہی تھیں۔ ہم نے اپنی جیب کے خرچے سے یہ ریلیاں نکالیں۔ این جی اوز اور پارٹیوں سے مدد نہیں لی۔ اگر اس طرح خواتین اپنے حقوق کیلئے نکلیں تو آئندہ آنے والے وقت میں وہ ہر میدان میں اپنے حقوق کا تحفظ کرپائیں گی۔
لوگوں کی راۓ