پوسٹ تلاش کریں

جنرل فیض اور بیرسٹر سیف نے پختونخواہ کو تباہ کردیا،کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ اصغر خان اچکزئی

جنرل فیض اور بیرسٹر سیف نے پختونخواہ کو تباہ کردیا،کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ اصغر خان اچکزئی اخبار: نوشتہ دیوار

جنرل فیض اور بیرسٹر سیف نے پختونخواہ کو تباہ کردیا،کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں۔ اصغر خان اچکزئی

آج پورا پشتونخواہ دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے فورسز غیر محفوظ ہیں ۔ طالبان نے افغانستان میں خواتین کے تعلیمی اداروں پر پابندی لگادی۔

ANP کے اصغر خان اچکزئی نے ایوان کے در و دیوار ہلادئیے۔ ویڈیو بیان
اصل میں اس طرح کے معاملات میں قرار دادلانا اور پھر اس کی حمایت یا مخالفت میں بات تب ہوسکتی ہے جب ایک چیز معلوم ہو۔ ہمیں تو آج تک ان واقعات کے اصل محرکات کا پتہ نہیں کہ جھگڑا کس بات کا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ اکثر مسئلے مسائل ہوتے ہیں دونوںکے دفتر خارجہ اسٹیٹمنٹ جاری کرتے ہیں کہ یہاں پر اس طرح کی زیادتی ہوئی ہے۔ یہاں پر دونوں طرف سے خاموشی ہے اور ابھی ہم حمایت میں یا مخالفت میں بات کریں اور کل پھر وہ پرسوں ترسوں ایک دوسرے کو بٹھائیں اور چائے پلائیں بس معاملہ ختم ہوگیا۔ اصل میں اس جرم کے مرتکب دونوں طرف ہیں۔ جناب اسپیکر! قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ جنگ اور یہ جھگڑا کس بات پر ہے۔ جس طرح آج یہاں پر دوستوں نے بات کی ہے کہ” آج کے اس ماحول کیلئے اور افغانستان کو بنانے کیلئے ہم نے کم و بیش40سال محنت کی ہے”۔ اپنے افغانوں اورانکے ملک کو اپنی جگہ چھوڑ دیں ۔ ان کی جو حالت ہم نے یہاں سے کردی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ لیکن آج کے اس موجودہ رجیم کیلئے افغانستان میں ہم نے اپنے ہی ملک کو نہ صرف فرقہ واریت سے دوچار کیا ۔ یہاں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ دیا، ٹارگٹ کلنگ، منشیات کلچر، اسلحہ کلچر ، دنیا جہاں کے جرائم کو ہم نے اس پالیسی کی وجہ سے اپنے ہی ملک میں فروغ دیا۔ ایسا کوئی جرم دنیا میں کہیں پر نہیں جو یہاں پر ابھی نہیں ہورہا ہے؟۔ ہر لحاظ سے۔ یہ سارا سب کچھ ہم نے صرف کابل کو فتح کرنے کیلئے کیا۔ ہمیں یاد ہے جب مجاہدین کی حکومت بن گئی ۔ جنرل ضیاء الحق اس وقت زندہ نہ تھے تو نواز شریف کابل گئے کہ آج ہمارے لئے افتخار کا دن ہے اور اسکا خواب جنرل ضیاء الحق نے دیکھا تھا کہ میں پل خشتی مسجد میں دو رکعت نفل بطور فاتحانہ انداز میں ادا کرلوں۔ ایک وہ وقت تھا اور ایک جب یہ ٹیک اوور ہوا تو جس طرح بھائی نے بات کی اسی طریقے سے جنرل فیض نے کابل میں فتح کا جشن کابل منایا۔ ابھی مسئلہ یہ ہے کہ جھگڑا کس بات پر ہے؟۔ ابھی جب میں یہاں پر آیا تو ہم نے بشیر بلور کیلئے فاتحہ خوانی پڑھی۔ اس کی کیا دشمنی تھی؟ یہ دہشتگردی ہمارے ملک میں کس کیوجہ سے پھیلی؟۔ جسکی نذر عوامی نیشنل پارٹی سے لیکر ہماری فورسز ، جرنیلوں، پولیس کے سپاہیوں، لیویز، سیاسی ورکرز، وکلاء تک سب ہوئے، 8 اگست کا واقعہ سامنے ہے۔ اس طرح کے ہزاروں واقعات میں ہمارا خون پانی کی طرح بہایا، ہمارے سیاسی ورکر سے لیکر ہماری قیادت تک کسی کو نہیں بخشا گیا یہاں تک کہ ہمارے علماء کرام بھی اس کی نذرہوگئے۔ ابھی آپ کے توسط سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔ جمعیت علماء اسلام کے اس ایوان میں کافی سینئر ساتھی بیٹھے ہیں۔ مولانا حسن جان جیسا بندہ بھی اس دہشت گردی کی نذرہوا۔ اس دہشت گردی کی مولانا نور محمد، مولانا معراج الدین اورباجوڑ کے علماء نذر ہوئے۔ اسی دہشت گردی کی نذر کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمن پر ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں حملے ہوئے۔ زندگی دینے والا تو اللہ ہے اور لینے والا بھی اللہ ہے یہ اپنی جگہ اور اس دہشت گردی کی وجہ سے ہمارا کوئی گھر ایسا نہیں بچا جو کسی نہ کسی طریقے سے متاثر نہ ہوا ہو۔ جناب اسپیکر! اس میں کوئی گڈ او ربیڈ نہیں ۔ یہ سب ایک جیسے لوگ ہیں۔ آج بھی ان پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا پورا پختونخواہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ آپ کے تھانے، سی ٹی ڈی کے تھانے قبضہ ہورہے ہیں۔ پھر انکے لئے پلے گراؤنڈ کس نے بنایا؟۔ جنرل فیض اور بیرسٹر سیف نے۔ کوئی بات نہیں کرسکتا کہ فیض اور بیرسٹر سیف کون ہے کہ وہ پشتونوں کی زمینوں اور دھرتی کا فیصلہ کرلے۔ انہوں نے خود کہا کہ میں نے مذاکرات کئے اور افغانستان سے انتہا ء پسند اور دہشتگردوں کو اپنے علاقے حوالہ کردئیے اور جس طرح کسی کے ماموں کا بیٹا ہوتا ہے ، کسی کی خالہ کا بیٹا ہوتا ہے اس طرح لوگوں کو لاکر کسی کو دیر حوالے کیا، کسی کو بونیر حوالے کیا، کسی کو سوات حوالے کیا۔ یہ کوئی الزام نہیں ہے ہمارے ملک کے سیکورٹی اداروں کا اسٹیٹمنٹ تھا ڈیڑھ مہینے پہلے کی پالیسی جو یہاں پر مذاکرات کے نام پر بنائی گئی تھی اس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ ہر دو مہینے کے بعد ہم پچھلے دو مہینے کے اعمال پر پشیمان ہوتے ہیں اور یہ تو40سال کی پالیسی ہے۔
میں یہاں پر دہشت گردی کی رواں لہر پر بات کررہا تھا کہ آج پورا پشتونخواہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ پورا بلوچستان ان ڈائریکٹلی لپیٹ میں ہے۔ فورسز غیر محفوظ ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات اور واردات ہم دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سارا انہی کا تسلسل ہے اور انہی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ آج افغانستان پر جب ہم بات کرتے ہیں ایک عجیب و غریب، پرسوں ترسوں انہوں نے ایک فرمان جاری کیا کہ اوور آل پورے افغانستان میں خواتین کے تعلیمی اداروں پر پابندی ہے۔ یہ دنیا پر کہیں آپ نے دیکھا ؟ اگر اسکا درس اسلام دیتا ہے تو کوئی اس کی نشاندہی کردے۔ کوئی ہماری رہنمائی کرے۔ گائڈ لائن دیدے کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر یونیورسٹی لیول پر پابندی ہے۔ یہ حکومت ہماری ریاست نے وہاں پر براجمان کردی ،افغان تو تباہ و برباد تھے ان کی پالیسیوں اور حکمرانی کی وجہ سے بلکہ اس کے تسلسل میں ہم یہاں پر دربدری سے دوچار ہیں، غیر محفوظ ہیں، ہر لحاظ سے ہمارے یہاں پر منفی اثرات اُدھر کے اِدھر پڑ رہے ہیں۔
جناب اسپیکر! ہمارے حکمرانوں کو آج ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ یہ تو ہم نے دیکھا کہ ہم نے بلوچستان کیساتھ زیادتی کی۔ ہم نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کی پالیسیوں کو اپنا کر اس ملک کو تباہ و برباد کیا۔ یہ ہم نے دیکھا کہ یہاں پر انہوں نے معافی مانگی ہے کہ ووٹ پر ہم نے ڈاکہ ڈال کر اس ملک کو دو لخت کیا۔ آج بھی ہم کہتے ہیں کہ خدارا ! دہشت گردی کی اس پالیسی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اس کو ری ویو کردیں۔ جو پالیسی آپ کوخون بہنے ، دربدری اور تباہی کے سوا کچھ دے نہیں پارہی ہے تو اس پالیسی کو اپنا کر آپ دھرتی پر رہنے والی مختلف اقوام کو کیا میسج دیں گے؟ اس کا نتیجہ پھر کیا ہوگا؟۔ تو جناب اسپیکر ! میں کہتا ہوں کہ بجائے اسکے کہ کوئی قرار داد کی حمایت اور مخالفت پر بات کرے ، اس پر بات کرنی چاہیے کہ واقعہ کیوں ہوا؟۔ دونوں طرف یہ بحث ہونی چاہیے اور محرکات سامنے لانے چاہئیں کہ اصل واقعے میں پس پردہ وجوہات کیا ہیں؟ جب تک یہ سامنے نہیں آئیں گے ہر دوسرے تیسرے دن اِ س نے اُس کو مارا اُس نے اِس کو مارا، یہاں پر بم پھٹا، وہاں پر بم پھٹا۔ اور نتیجہ یہ کہ دو دن کے بعد پھر مذاکرات ۔ کہتے ہیں گفتاً ، نشستاً برخاستاً، لوگوں کی جانیں گئیں، گھر اور کاروبار تباہ ہوگئے اور ہم پانچ دن کے بعد پھر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا مسئلہ حل ہے تو اس طرح سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ اس قرار داد کی حمایت یا مخالفت سے کوئی اثر پڑے گا۔ وہاں پر ان چیزوں کو دیکھنے والے کوئی بیٹھے ہوئے ہیں؟۔ ان چیزوں کا اثر لینے والے کوئی بیٹھے ہوئے ہیں؟، وہاں پر تو ایسی رجیم بٹھادی گئی کہ نہ تو ان کو اپنی خواتین، بچیوں ، اپنی بہنوں اور ماؤں کے علم اور مستقبل کا کوئی سوال انکے ذہن میں ہے، نہ اپنی ڈولپمنٹ کا کوئی سوال انکے ذہن میں ہے۔ سوائے مارا ماری کے، خون بہانے کے ، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے ان کو آتا کیا ہے؟۔ اور ان سب کی قصور وار ہماری ریاست ہے ، ریاستی ادارے ہیں، جسکے بل بوتے پر یہ لوگ وہاں پر بیٹھ گئے۔ ابھی یہ ہمارے اداروں کا کام ہے کہ کیسے ان مسائل ، انتہاء پسندی اور دہشتگردی سے اپنے آپ کو نکالیں اور وہاں پر لوگوں کی حمایت ، تمام افغانوں کی حمایت سے ایک ایسی حکومت ہم کیسے تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں کہ جس پر سب کا اتفاق ہو ، جو تمام افغانوں کو قابل قبول ہو۔ اور یہ عجیب مذاکرات ہوئے جناب اسپیکر! یہاں پر بات ہورہی ہے اصل فریق تھا جو کابل کا وہ کابل میں بیٹھا تھا اور دوحہ میں مذاکرات پاکستان، طالبان اور امریکہ کے درمیان ہورہے تھے۔ اصل فریق ادھر بیٹھا تھا اور سب نے مل کر جس طریقے سے اس کو ہٹایا آج کے موجودہ افغانستان اور اس ریجن کی ذمہ دار دنیا ہے بالخصوص ہمارا اپنا ملک ہے جس نے نہ صرف وہاں کے حالات کو اس نہج پر پہنچادیا بلکہ اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں اس وقت جو صورتحال ہے ان سب کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں ۔
بلوچستان اسمبلی میں نصراللہ زیرے کی تقریر بھی اس قسم کی تھی کہ کابل سرینا ہوٹل میں جنرل فیض حمید کی تصویر نے دنیا کو کیا پیغام دیا؟۔ چمن میںNLCکو جگہ دینے کیلئے یہ جھگڑا مصنوعی طریقے سے اٹھایا گیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز