فرقہ واریت کا بیج بونے والے غلام احمد پرویز پر اشرف میمن کا تبصرہ
مارچ 7, 2017
نوشتۂ دیوار کے پبلشر اشرف میمن نے کہا : پاکستان میں فرقہ پرستی،متعصبانہ رویہ اور قتل وغارتگری میں نادیدہ قوت ملوث قرار دی جاتی تھی لیکن اس کی نشاندہی کرنے میں ریاست، علماء، دانشور، حکمران کامیاب نہ ہوسکے ۔ غلام احمد پرویز نے بڑاباریک کام کیا، قرآن کا نام لیکر فرقہ پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی ۔ امام ابوحنیفہؒ نے بھی قرآن کے مقابلہ میں بہت سی احادیث کو قبول نہیں کیا۔ حنفی مسلک کا ماحول غلام احمد پرویز کی پذیرائی کا بہت بڑا سبب بنا ، وہ روانی سے قرآنی آیات کے ترجمے اور مفہوم کو بیان کرتا تھا، پڑھا لکھا طبقہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا، بیوروکریسی افسران کی زیادہ تر تعداد غلام احمدپرویز کو اپنا مذہبی پیشوا مانتی ہے، علماء نے پرویز پر انکارِ حدیث کافتویٰ لگادیامگر اس کا کیا اثر پڑتا؟۔ علماء خود بھی تو اہلحدیث کی مخالفت کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے ایک تو حدیث کی صحاحِ ستہ کو ایران و شیعہ کی بہت بڑی سازش قرار دیا۔ دوسرا یہ تشہیر کی کہ قرآن میں بہتان کا واقعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے متعلق نہ تھا، اس کو سازش کے تحت درج کیا گیا تاکہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کی سیرت کو داغدار بنایا جاسکے۔ واقعہ کسی عام خاتون سے متعلق تھا۔حضرت عائشہؓ پر بہتان لگادیا جاتا تو توہین رسالت و اذیت رسولﷺ کی وجہ سے 80کوڑے کی سزا نہ ہوتی بلکہ یقیناًان کو قتل کیا جاتا۔ جب پرویز کی اس فکر کو لکھے پڑھے طبقہ نے قبول کیا تو سنی مکتبۂ فکر میں اس واقعہ سے متعلق روایتوں کوشیعہ کی سازش قرار دیاگیا۔ جنکے دل ودماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شیعہ نے اتنی بڑی سازش کی تو ان کو قتل کرنا ثواب سمجھا گیا۔ ہم غلام احمد پرویز اور اس کے ساتھیوں پر سازش کرنے کا الزام لگانا تو بہت دور کی بات ہے کوئی شبہ تک نہیں کرتے۔ جس طرح مولانا طارق جمیل نے نماز کیلئے پر جوش خطاب کیا اور فون کی بیل بنادیاگیا، اسی طرح غلام احمد پرویز کا پروگرام قتل وغارتگری نہ تھا۔ بیوروکریسی کی ذہنیت میں’’ اسٹیٹس کو‘‘کا خمار بڑی بات نہیں جیسے تبلیغی جماعت کے دل میں نماز کا خمار بیٹھ جاتاہے ۔ نماز کا پڑھنا بہت ہی زبردست کام ہے جو شرک، کفر، بے حیائی اور منکرات سے روکنے کا زبردست ذریعہ ہے۔
وہ اک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے ہزاروں سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات
اسٹیٹس کو اور فرقہ پرستی نے بیڑہ غرق کردیا، پرویز اور مولاناالیاسؒ برابر نہیں ہوسکتے۔ یاد رہے کہ فرقہ پرستی واسٹیٹسکوکا باہمی تعلق سمجھے بغیرفتنہ وفساد ختم نہ ہوگا۔
غلام احمدپرویز نے نیک نیتی سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے دفاع کیلئے اپنا نظریہ پیش کردیا، قبول کرنیوالے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی بیوروکریسی اور حب رسولﷺ سے سرشارعوام تھی۔ بڑا افسر اپنے چپڑاسی اور چوکیدار کی عزت اپنے برابر نہیں سمجھتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓکے ناموس کو کسی عام خاتون کے برابر سمجھا جائے؟۔ ہمیں ان کی نیت، ایمان، خلوص، علم، سمجھ اور کسی بھی وہم وگمان پر ذرا بھی سازش کا کوئی شبہ نہیں ہوسکتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے ، اٹل حقیقت ہے، واضح حقیقت ہے، بے باک حقیقت ہے ، رب ذولجلال کی طرف سے انسانی وہم وگمان اور عام ماحول سے بالکل ہی بالاتر حقیقت ہے کہ بہتان ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر ہی لگایا گیا تھا۔ اس کی سزا بھی ایک عام خاتون کے برابر 80کوڑے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکرؓنے قسم کھائی کہ میں آئندہ ان بہتان لگانے والوں پر احسان نہ کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ مالداروں کی یہ شان نہیں ،احسان جاری رکھنا چاہیے۔( سورۂ نور)
تکبر ورعونت اور جاہلیت کے سرکردہ انسانوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اپنے برابر اپنے سے کمتر لوگوں کی عزت کا احسا س نہیں رکھتے ۔ یہ معاملہ اتنا باریک اور خطرناک ہوتا ہے کہ شیطان نے جنت میں اسی بات کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ اس نے تکبر اسلئے کیا کہ حضرت آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا۔ نبیﷺ نے عرب و عجم ، کالے گورے، سب رنگ ونسل والوں کو ایک آدمؑ کی اولاد قرار دیا لیکن اسلام نے جو سبق دیا تھا وہ ہم بھول گئے۔ انگریز کے پروردہ جاگیردار،سرمایہ داراورساختہ وپر داختہ بیوروکریسی میں نشو ونما پانیوالے دماغ کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آسکتی کہ عام عوام کی عزتیں دن رات لٹتی ہیں ، صبح و شام تماشہ لگتاہے اور کوڑی جتنی عزت رکھنے والی خواتین کی چیخ و پکار کو کچرا کنڈی میں ڈال دی جاتی ہے۔ جو ایسا ڈاکخانہ ہے کہ اس کی ہر ڈاک منوں مٹی میں دبا دی جاتی ہے، یا ری سائیکل کرکے اس کی شناخت تک مٹادی جاتی ہے اور اگر اس کی شناخت قائم بھی رہتی تو کون سے نتائج اسکے نکل سکتے ہیں؟۔
اللہ تعالیٰ نے جان ، آنکھ، کان، ناک اور دانت کے بدلے میں کوئی فرق نہ رکھا۔ سب کیلئے یکساں قانون بنایا۔ عزت پر بھی یکساں حد نافذ کا حکم دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت کو اعلیٰ اخلاقی نمونہ قرار دیا۔ معاشرے میں کوئی طاقتور اپنی عزت کو کسی کمزور کے برابر نہیں سمجھتاہے ، اس روایت کو اسلام کے ذریعے ختم کردیا۔ طاقتور اور کمزور کی جان وعزت قانون کی نگاہ میں برابر ہوگی تو فتنہ وفساد اور خود کُش حملوں کیلئے کسی کو افراد میسر نہیں آئیں گے۔ دنیا کے سامنے قرآن و سنت کا یہ قانون آئیگا کہ جان اور انسانی اعضاء آنکھ، کان، ناک اور دانت میں تو برابری ہی ہے مگر اسلامی قانون میں عزتوں کا بھی کوئی فرق نہیں تو دنیا میں یہ بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گا اور سب سے پہلے پاکستان کی بیوروکریسی نے اس کا اعلان کرنا ہے اسلئے کہ جب ہمارا آئین پابند ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی تو یہ کونسا اسلام ہے کہ افتخار چوہدری کی ہتک عزت کا دعویٰ 20ارب ہو اور نعیم بخاری کی بیوی بھی چھن جائے تو اُف نہ کرسکے؟۔اس کو قرآن وسنت کے مطابق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ شوہر اپنی بیوی کی ناک کاٹے، دانت توڑے اور کسی کمزور اورغریب سے جو سلوک روا رکھے اس پر قانون کی گرفت نہ ہو۔ ناک کے بدلے جیل کا قیدی بنانا بھی غلط ہے ، ناک کے بدلے میں ناک کاٹی جائے تو کوئی یہ جرم نشہ پی کر بھی نہ کریگا۔
دنیا میں اسلامی قانون سب سے ممتاز ہے اور اخلاقیات کے درس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، اس سے بڑھ کر کیا اعلیٰ اخلاق ہونگے کہ حضرت ابوبکرؓ جس رشتہ دار پر احسان کررہا تھا، اسی حضرت مسطح رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہؓ پر بہتان لگایا تھا۔ صحابہؓ سے بڑھ کر جذبہ کس کا ہوسکتاتھا؟ اور حضرت ابوبکرؓ سے زیادہ کس کو تکلیف ہوگی؟۔ پھر احسان جاری رکھنے کا حکم کس قدر اعلیٰ اخلاقی اور انسانی اقدار کا نمونہ ہے۔ قرآن تعصبات کی آگ بھڑکانے کے بجائے عزت،جان اور مال کوکتنا تحفظ فراہم کرتاہے ؟ اور کتنے اعلیٰ اخلاقی قدروں کی ترویج کرتاہے؟۔ غلام احمد پرویز نے سب کا بیڑہ غرق کردیا۔ مولانا الیاسؒ نے تبلیغی جماعت کے ذریعہ اسٹیٹس کو توڑدیا تھا۔ اعلیٰ افسران اپنے ماتحت کیساتھ بستر اٹھاکر گھوم رہے ہوں، ساتھ کھا پی رہے ہوں تو خاکساری اور تواضع پیدا ہوتی ہے۔ سید عتیق گیلانی کے مرشد حاجی عثمان میمنؒ نے بھی اس جماعت میں بہت وقت لگایا تھا، حاجی عبدالوہاب سے پہلے کے بزرگوں میں تھے ۔ حاجی محمد عثمانؒ تبلیغی جماعت کے اندر بھی اسٹیٹس کو کے مخالف تھے۔ عوام کیساتھ اجتماعات میں بیٹھتے اور عوام کیساتھ دسترخوان پر کھاتے ۔ اسی وجہ سے یہ تأثر پیدا کیا گیا کہ ان کی وجہ سے تبلیغی جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہوسکتی ہے۔ عوامی اجتماعات میں انکے بیانات پر پابندی لگی، اس صورتحال کا مولانا طارق جمیل کو بھی کافی عرصہ سامنا رہاہے۔ ’’حاجی عثمانؒ کے خلیفہ سرورالنورسوسائٹی گلبرگ کراچی کی جماعت میں بدمعاش قمر ٹیڈی ایک نوعمر لڑکے کو ساتھ لیکرگھمارہا تھا تو عتیق گیلانی نے اسکی شکایت مکی مسجد میں شوریٰ سے بھی کردی کہ تبلیغی جماعت میں لوگ اصلاح کیلئے اپنے بچوں کو بھیجتے ہیں‘‘۔ اگر مولانا الیاسؒ ہوتے تو ہماری تحریک کے بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کا ٹاسک دیتے ۔جماعتی اکابرین کو چاہیے کہ مشاورت سے مثبت فیصلہ کریں،ورنہ مساجد پر قبضہ کرنیوالے غنڈے پھرجماعت پر بھی قابض ہونگے محمداشرف میمن
لوگوں کی راۓ