پوسٹ تلاش کریں

گل چاہت عورت سے مشابہ ہے تو اس کا نام معاویہ کی جگہ ہندہ یا کچھ اور رکھ دینا چاہیے تھا

گل چاہت عورت سے مشابہ ہے تو اس کا نام معاویہ کی جگہ ہندہ یا کچھ اور رکھ دینا چاہیے تھا اخبار: نوشتہ دیوار

گل چاہت عورت سے مشابہ ہے تو اس کا نام معاویہ کی جگہ ہندہ یا کچھ اور رکھ دینا چاہیے تھا

جماعت اسلامی نے ٹرانس جینڈر کے قانون کو اپنا معنی پہنا کر شور مچایا لیکن جب گل چاہت نے مرد بن کر تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگائے ، شکایتوں کا انبار لگادیا تو اس پر خاموشی اختیار کی گئی؟

قرآن کی بڑے بڑوں نے ایسی غلط تفسیر کی ہے جیسے شلوار الٹی نہیں بلکہ پائنچے کی طرف سے پہنی جائے۔ بزرگوں کا احترام ہے لیکن قرآن کی تعلیمات پر ظلم دیکھنا منافقت ہے۔

فرقہ وارانہ اور گروہی تعصبات سے بالاتر ہوکر قرآن کی طرف اُمت مسلمہ رجوع کریگی تو مسلم ریاستوں سمیت مدارس ، مساجد، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی

گل چاہت ایک پشتون خسرہ تھی۔ ناچتی گاتی ،اپنا اور لوگوں کا دل بہلاتی لیکن اس فن میں اس کی کیا عزت ہوتی؟۔ بے چاریوں کوماں باپ بھی اولاد کی طرح عزت نہیں دیتے۔ جنسی خواہشات بھی نہیں رکھتی ہیں۔ کھانے پینے کیلئے بھی ترستی ہیں۔عزت وتوقیر تو وہم وگمان میںبھی نہیں ہوتی ہے کہ مل سکے گی۔ گل چاہت نے عمرہ ادا کرنے کے بعد تبلیغی جماعت میں چار مہینے لگادئیے۔ اپنا نام بھی کسی کی طرف سے تجویز کرنے پر معاویہ رکھ دیا۔ زنانہ بال بھی کٹوادئیے اور اپنی جنس بھی بظاہر بدل ڈالی۔ لیکن اس کو داڑھی نہیں آئی اور سینے بھی اُبھرے ہوئے تھے۔ تبلیغی جماعت میں بھی جنسی ہوس کا شکار بن گیا۔ اب اسکے سامنے دو تصویریں ہیں ایک یہ کہ جب وہ ڈانس کرتی تھی اور دوسرا یہ کہ مسجد کے منبروں پر بیٹھ کر تقریریں کرتی ہے۔ تہبند پہنے ہوئے ایک پنجابی تبلیغی کو دیکھا جاسکتا ہے کہ ویڈیو میں پپی جھپی لینے کی کوشش کررہاہے اور اس کے ساتھ پھردوسراپٹھان اس سے خوب بغل گیر ہوکر آخر میں اس کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے۔ تبلیغی جماعت آج تک لاؤڈ اسپیکر سے آذان اور نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال سے گریز کرتے ہیں لیکن ایسی بیہودہ ویڈیوز بنانے کا مقصد کیا ہے؟۔
ہمارے مرشد حاجی محمد عثمان کے ایک مرید بھائی سرورالنور سوسائٹی کراچی کیساتھ تبلیغی جماعت میں ہماری تشکیل تھی۔ ایک سابقہ معروف غنڈہ قمر ٹیڈی بھی اس جماعت میں تھا۔ قمر ٹیڈی کیساتھ ایک بے ریش لڑکا جماعت میں کچھ ضرورت سے زیادہ گھوم رہاتھا تو ہم نے سرور بھائی سے کہا کہ ان کو روک دو۔ مگر اس نے پرواہ نہیں کی تو تبلیغی جماعت کی شوریٰ کے منبر کو مکی مسجد میں اطلاع کردی تھی مگر اب پتہ چلا ہے کہ کچھ ریٹائرڈ فوجی سیکیورٹی نے بھی مکی مسجد میں کچھ افراد کو بدفعلی کرتے ہوئے پکڑا تھا لیکن اسکی شکایت کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔
سوشل میڈیا پر بستی نظام الدین میں مولانا سعد پر الزام تراشی ہورہی تھی مگر یقین نہیں آرہاتھا ۔ گل چاہت کا نام معاویہ رکھنے کے بجائے ہندہ وغیرہ رکھنا تھا جو امیرمعاویہ کی ماں اور یزید کی گھر والی کا نام تھا۔اس کو مستورات کی جماعتوں میں وقت لگواتے۔ جہادی تنظیموں اور مدارس کے بعد تبلیغی جماعت کا کردار کچھ پردے میں تھا وہ بھی سامنے آگیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے کے سارے گندے انڈے ہیں لیکن انکے ظرف کا اس سے ضرور پتہ چلنا چاہیے۔ جب یہ کھلم کھلا معاملہ ہے اور اس کی تشہیر بھی بڑے زوروں پر ہے۔
تبلیغی جماعت کے لوگوں میں سمجھ بوجھ نہیں ہے کہ گل چاہت کا نام معاویہ رکھنے کے بعد بھی اس کی اصل جنس تبدیل نہیں ہوگی۔ شریعت میں جس خسرے کے ظاہری اعضاء مردوں کے مشابہ ہوں گے تو اس کو مردوں میں شمار کیا جائے گااور جس کے ظاہری اعضاء عورتوں کے مشابہ ہوں گے تو اس کو عورتوں میں شمار کیا جائے گا۔ جیسے داڑھی اور سینہ وغیرہ۔اگر اس کی داڑھی بھی اور سینے بھی ہوں تو پھر مشکل خنسیٰ بھی ہوسکتا ہے۔ انسان جنسی خواہشات کے لحاظ سے بہت کمزور ہے۔ مفتی منیرشاکر نے گل چاہت معاویہ کا کہا کہ ” اس کو دیکھ کر آدمی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے”جس سے معاملے کی نزاکت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
جب لاہور سے جمعیت علماء اسلام کے رہنماشیخ الحدیث مفتی عزیزالرحمن کی ویڈیو صابرشاہ کیساتھ وائرل ہوئی تھی تو مدارس کیخلاف طوفان بدتمیزی کھڑا ہوا تھا۔ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا تھا کہ ” اس کو مینار پاکستان سے پھینک دیا جائے،اسلئے کہ شہر میں اُونچی جگہ سے اس کو گرانے کا حکم ہے”۔سعودی عرب کی حکومت شرعی سزائیں دیتی ہے لیکن کبھی کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ قوم لوط کے جرم میں کسی کو مکہ ٹاور سے گرادیا گیا ہے۔ جب تک علماء ومفتیان کی خود ساختہ شریعت کو پارلیمنٹ قومی اسمبلی ، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں چیلنج کرکے میڈیا پر عوام کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جائیگا تو قیامت تک بھی اسلام نہیں آسکتا ہے۔
افغانستان میں امیرالمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد اخون کے دور اور موجودہ طالبان کے اسلام میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ موجودہ دور کا اسلام کافی بہتر ہے لیکن اب بھی اس میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ پہلے تصاویر پر مکمل پابندی تھی اور اب آزادی ہے۔ پہلے زبردستی سے نماز پڑھانے کا اہتمام ہوتا تھا ،اب اس جبری نظام کا خاتمہ ہوا ہے۔ پہلے زبردستی سے داڑھی رکھوائی جاتی تھی ، اب زبردستی کا تصور ختم ہوگیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جو علماء کے شاگرد ہیں۔ یہاں استاذ اور علماء پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ استاذ علماء نے سودی نظام کو جائز قرار دے دیا ہے۔ جماعت اسلامی جاہلوں کی جماعت اور جمعیت علماء اسلام علماء کی جماعت بھی اس میں غرقاب ہوگئی ہیں۔ مدارس کے علماء کرام جو پہلے اس سودی نظام کے سخت خلاف تھے وہ بھی رام لال چندر ہوگئے ہیں۔
قرآن میں زنا بالرضا میں رجم کی سزا نہیں ، البتہ جبری زنا پر قتل کرنے کا حکم ہے اور نبیۖ نے زنا بالجبر میں ایک عورت کی گواہی پر مجرم کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔ قرآن وحدیث بالکل فطرت کے عین مطابق ہیں۔
مکتبہ بینات علامہ بنوری ٹاؤن کراچی نے کتاب” رجم کی شرعی حیثیت”1:مولانا مفتی محمد شفیع۔2:مفتی ولی حسن ٹونکی۔3:مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی تحریرات شائع کی ہیں۔ اس کتاب میں جس بھونڈے انداز میں قرآنی آیات سے غلط استدلال پیش کیا گیا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ حضرات کی طرف ”رجم” کو رد کرنے والوں کے خلاف تھوڑاساتو عقل سے کام لیناچاہیے تھا۔
مفتی محمد شفیع نے جس طرح تصویرکے شرعی احکام میں بالکل کم عقلی کی بنیاد دلائل دئیے تھے تو جب ہم نے اس کا رد اپنی کتاب ”جوہری دھماکہ ” میں کردیا تو پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے سارے علماء ومفتیان نے اپنی روش تبدیل کی۔ رجم کے بارے میں اتنی ضخیم کتاب لکھ ڈالی تو بھی انشاء اللہ سارے علماء کرام اپنا مؤقف تبدیل کرلیںگے۔ چونکہ معاملہ ہمارا ذاتی نہیں ہے بلکہ قرآنی آیات کا ہے اسلئے بہت سادہ لفظوں میں غلط تفسیر وتشریح کی وضاحت کرتے ہوئے اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ” قرآن کی آیات سے رجم ثابت کرنے کیلئے کوئی معقول دلیل نہیں دی ہے ۔اپنی شلوار کو بھی صرف الٹا نہیں پہنا ہے بلکہ پائنچے کی طرف سے زیب تن کرنے کی ناکام کوشش کی ہے جو ایک کم عقل بچہ بھی نہیں کرتا ہے”۔
میرے محترم بڑے بھائی نے مجھے کافی دیر سمجھانے کی کوشش کی کہ میں اپنی زبان نرم رکھوں، احسن انداز میں بات کروں۔ جاوید غامدی کی طرح شائستہ طرز عمل اور میٹھے لہجے میں بات کروں۔ قارئین سے گزارش کروں کہ میری ایک رائے ہے ،اس سے اتفاق یا اختلاف کرسکتے ہیں۔ مجھے گھر والے سمیت اپنے دوست اور احباب بھی یہ نصیحت کرتے ہیں لیکن جب اللہ کی کتاب قرآن کے ساتھ اور خواتین کی عزتوں کیساتھ مجھے کھلواڑ نظر آتا ہے تو مجھے اپنے آپ پر قابو پانا ایک منافقت لگتی ہے۔ جب تک زور دار الفاظ میں غلط روش کی مذمت کرنے سے دل کی بھڑاس نہیں اتارتا ہوں تو اپنے ایمان کا ٹمٹماتاہوادِیا بھی بجھا بجھاسا دکھائی دیتا ہے۔ایک حق کی ضرب لگاکر باطل کا بھیجانکال باہر کرنے کی خوبی اللہ نے اپنے فضل سے مجھ میں رکھ دی ہے اگر اس سے محروم ہوگیا تو پھر کس کام کا ؟،اسلئے مجھے تھوڑا سا برداشت کرنے کی صلاحیت اپنوں میں ہونی چاہیے۔
مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں” قرآن میں صراحةً اس سزا کا ذکر نہیں ہے ،البتہ سورۂ المائدہ کی آیات یاایھاالرسول لایحزنک الذین یسارعون فی الکفرتا ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکٰفرون (5:41تا44)میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ کیونکہ ان آیات کے مستند شان نزول کے مطابق ان آیات میں ”حکم اللہ” اور ” ماانزل اللہ ” سے مراد زانی کو رجم کی سزا دینے کا حکم ہے”۔(رجم کی شرعی حیثیت صفحہ نمبر4)
یہ بھی شلوار کو پائنچے کی طرف سے پہنا ہے مگر مفتی ولی حسن اور مولانا یوسف لدھیانوی نے تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر مزید انوکھا کرتب دکھایا ہے۔
لکھا ہے کہ وکیف یحکمونک و عندھم التوراة فیھا حکم اللہ ثم یتولون من بعد ذٰلک وما اولٰئک بالمؤمنین ترجمہ :اورکیسے یہ لوگ آپ کو منصف بنائیں گے جبکہ ان کے پاس توراة ہے جس میں اللہ کا حکم ہے۔ پھر یہ اس کے بعد پھر جاتے ہیں اور یہ لوگ مؤمن نہیں ہیں۔
اس آیت کے ذیل میں بغوی نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خیبر کا یہود مرد اور عورت نے جو کنوارے نہ تھے زنا کیا، باوجود یکہ توریت میں اس کی سزا رجم تھی مگر ان دونوں کی بڑائی مانع تھی کہ یہ سزا جاری کی جائے۔ …….
حضورۖ نے ان دونوں پر توریت کے حکم کے مطابق رجم کی سزا جاری فرمائی۔ یہ واقعہ کب کا ہے ۔ اس کے متعلق مولانا انورشاہ قسطلانی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ 4ھ کا ہے ۔ اس کے بعد سورہ النساء کی ذیل آیت نازل ہوئی ۔
واللاتی یأتین الفاحشة من نساء کم فاستشہدوا علیھن اربعة منکم فان شہدوا فامسکوھن فی البیوت حتٰی یتفوفاھن او یجعل لھن سبیلًا واللذان یأتیانھا منکم فاٰذوھما فان تابا واصلحافاعرضوا عنھما ان اللہ توابًا رحیمًاترجمہ: اور جو تمہاری عورتوں میں سے فحاشی کا ارتکاب کرے تو ان پر اپنوں میں سے چار گواہ ڈھونڈ لیں۔ پس اگر وہ گواہی دیں تو ان کو گھروں میں ٹھہراؤ یہاں تک کہ ان کو اُٹھالے موت یا اللہ ان کیلئے کوئی راہ نکال دے۔ اور تمہارے مردوں میں جو فحاشی کے مرتکب ہوں تو ان دونوں کو اذیت دو۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان سے اعراض کرو ، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہے”۔
اس سے پہلی آیت ہم نے نقل کی اس میں ”حکم اللہ ” سے مراد اور اس آیت کریمہ میں ” سبیل ”سے مراد رجم ہی ہے۔ جو لو گ قرآن کریم میں رجم کا انکار کرتے ہیں وہ ایک بہت بڑی حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔ (مفتی ولی حسن )
مولانا محمدیوسف لدھیانوی نے مزید بات بڑھاکرنہلے پر دہلا کردیا ہے۔
ہمارے لئے یہ تینوں شخصیات بہت بڑے اللہ والے اور معتبر علماء ہیں لیکن ایک تو فقہ حنفی کے بنیادی اصولوں سے واقف نہیں۔ دوسرے احادیث سے بھی بالکل نابلد ہیں اور تیسر ے تفسیر کی اہلیت سے بالکل ہی محروم ہیں۔
احادیث میں یہودیوں کا یہ معاملہ مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ بغوی نے اس کو آیت کی تفسیر بنانے کیلئے لکھ دیا کہ دونوں شادی شدہ اور مالدار تھے۔ جبکہ دوسری روایت میں ہے کہ عورت شادی شدہ اور مرد غیرشادی شدہ تھا۔ جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے کہ ” یہ لوگ کیسے آپ کو منصف بنائیںگے جبکہ ان کے پاس تورات ہے اور اس میں اللہ کا حکم ہے۔ جس سے وہ پھرتے ہیں”۔
اس کی تفسیر قرآن میں چند وجوہ سے بالکل روز روشن کی طرح واضح ہے۔
1:اللہ نے قرآن میں تورات کے حوالہ سے واضح کیا کہ جان کے بدلے میں جان اور کان ،ناک ، دانت کے بدلے میں میں کان، ناک ، دانت ہیں مگر یہود نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ نیز وہ یہودی کے بدلے میں غیر یہود کو قتل کرتے تھے لیکن غیریہود کے بدلے میں یہود کو قتل نہیں کرتے تھے۔ حنفی مسلک کو چھوڑ کر جمہور نے بھی یہود کے نقش قدم پر مسلم کے بدلے میں غیر مسلم کے قتل کا مسلک رائج کیا لیکن غیرمسلم کے بدلے میں مسلم کا قتل جائز نہیں قرار دیا۔
2:اللہ نے واضح کیا کہ قرآن محفوظ ہے اور تورات میں تحریف ہوئی ہے۔ تورات میں ”حکم اللہ” سے وہی حکم مراد ہے جو قرآن میں بھی تورات کے حوالہ سے واضح طور موجود ہے جس پر یہود عمل نہیں کرتے تھے۔ آج ہماری حالت بھی یہی ہے کہ رجم پر بحث کررہے ہیں لیکن جان کے بدلے جان اور اعضاء کے بدلے اعضاء کے کاٹنے کو ترک کردیا ہے جو قرآن وتورات دونوں میں ہے اور یہو د بھی اپنے دور میں اسی طرح بدعملی کا شکار تھے اور رجم کا کسی کسی پرحکم جاری ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں حضرت مغیرہ ابن شعبہ کے حوالے سے روایات میں عجیب قسم کا واقعہ ہے جس پر مسالک میں عجیب وغریب اختلافات ہیں۔
3: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح کیا تھا کہ اگر یہود قرآن کے مطابق اپنا فیصلہ کروائیں تو ٹھیک ہے ورنہ ان کی کتاب سے ان کا فیصلہ نہ کریں اسلئے آپ کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اس سے بھی فتنہ میں ڈال دیںگے۔
قرآن کی واضح آیات اور ارشادات کے ہوتے ہوئے تورات سے دلیل پکڑنے کی بات انتہائی افسوسناک بات ہے۔ پھر قرآن کی آیات میں معنوی تحریف کی اس بڑھ کر کیا کھلی مثال ہوسکتی ہے کہ ” اللہ نے فرمایا کہ فحاشی کے بعد اپنی عورتوں کو گھروں میں قید رکھو یہاں تک کہ موت ان کا فیصلہ کردے یا پھر اللہ کوئی راہ نکال دے ”۔ اس میں ” راہ” سے رجم مراد لیا جائے۔ ہمارے علماء کرام ومفتیان عظام کی ان حماقتوں کی وجہ سے پڑھا لکھا طبقہ ان سے بدظن ہوکر جدید دانشوروں کو قابلِ اعتماد سمجھتاہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کتاب ” تدوین القرآن” جامعہ بنوری ٹاؤن نے چھاپ دی تھی۔ اس میں بہترین مواد ہے۔
علماء احناف نے پہلے قرآن کے مقابلہ میں متضاد اور ضعیف روایات نہیں صحیح روایات کو بھی قابلِ قبول قرار نہیں دیا تھا لیکن انہوں نے اپنی واردات ایک اور طریقے سے ڈال دی اور وہ یہ کہ من گھڑت قرآنی آیات کو خبر احا د ومشہور کے درجہ میں قابل قبول قرار دیا۔ رجم کو من گھڑت آیت(الشیخ و الشیخة اذا زنیا فارجموھما) سے منسوخ التلاوت حکم قرار دیا۔ جبکہ امام شافعی نے ایسا عقیدہ رکھنے کو کفریہ قرار دے دیا تھا۔ امام شافعی نے بھی امام محمد سے امام ابوحنیفہ کے علم کی حقیقی وراثت حاصل کی تھی لیکن امام ابوحنیفہ نے جیل میں زہر سے شہادت کی موت پائی تھی اور امام شافعی پر رافضیت کے فتوے لگائے گئے تھے۔
قرآن میں دو مردوں کی بدفعلی پر دونوں کو اذیت دینے کا حکم بھی ہے ، جب وہ توبہ کریں تو ان سے اعراض کرنے کا حکم اور اللہ کے تواب ورحیم کا ذکر بھی۔
امام ابویوسف اور امام محمد کی طرف منسوب ”کتاب الآثار” میں عہد فاروقی کے حوالے سے باہمی مشاورت ” مجالس مذاکرہ ” کا ایک اہم نمونہ دیکھ لیں۔
4: بدفعلی کی سزا میں مشاورت
یہ واقعہ شیعہ علماء نے بھی کتاب الحدود باب الحد فی اللواط میں درج کیا ہے یہاں فروغ کافی کی عبارت پیش کی جاتی ہے۔
………..قال سمعت ابا عبداللہ علیہ السلام یقول……..
” امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ عمر بن خطاب کی خلافت کے زمانہ میں ایک مرد نے دوسرے مرد سے بدفعلی کی۔ ایک فرار ہوگیا ،دوسرا گرفتار ہوا۔ ( عمر بن خطاب کی خدمت میں لایا گیا) عمر بن خطاب نے حاضر لوگوں سے اس کی سزا دریافت کی۔ بعض نے کہا کہ اس طرح سے کریں، دوسروں نے کہا کہ اس طرح سزا دیں۔ عمر بن خطاب نے علی المرتضیٰ سے دریافت کیا : اے ابولحسن تمہاری کیا رائے ہے؟۔ علی المرتضیٰ نے کہا کہ اس کی گردن اڑادیں۔ گردن مار دی گئی ۔ لاش اٹھانے لگے تو علی االمرتضیٰ نے کہا ٹھہرئیے ابھی کچھ سزا باقی ہے۔ عمر بن خطاب نے کہا کہ وہ کیا ہے؟۔ علی بن ابی طالب نے کہا اس کو جلانے کے لئے لکڑی منگوائیے۔ پھر حکم دیا کہ اس کو جلادو۔ چنانچہ وہ جلادیا گیا۔
کتاب ”رُحمآء بینھم” صفحہ نمبر458حضر ت مولانا محمد نافع
دارالکتاب: یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ ،اردو بازار لاہور۔
042.37241268.4650131
E.mail:[email protected]
قرآن کی آیت میں اذیت دینے اور توبہ کی تلقین کا ذکر ہے اور یہاں اتنی سخت سزا کا ذکر ہے؟۔ یہ قوم لوط کے عمل کی اس وقت ہوسکتی ہے کہ جب کوئی اتنا بے ضمیر بن جائے کہ لڑکااور مرد بن کر بدفعلی کروانے کی علت میں مبتلاء ہوجائے اور ایسا بے ضمیر انسان پھر کچھ بھی کرسکتا ہے۔ بارود کے ذریعے مساجد میں جتنے خود کش حملہ آور ہیں یا بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث عناصر ہیں تو ایسے افراد کو عبرت کا نشان بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خوارج نے حضرت علیکو شہید کیا تھا۔ حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت حسین کی شہادت میں ملوث لوگ بے ضمیر تھے اور بے ضمیروں کو عبرت کا نشان بنانے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن لواط کی سزا کا قرآن میں ذکر ہے اور اس میں اذیت کا حکم ہے اور توبہ کے بعد طعنہ زنی کا بھی اللہ تعالیٰ نے صاف صاف قرآن میں منع کردیا ہے۔
قرآن کی سورۂ نور میں زنا کی سزا100کوڑے ہیں۔ لونڈی اور متعہ والی سے نکاح کے بعد50کوڑے ہیں اور ازواج مطہرات پر فحاشی میں دوھری سزا یعنی200کوڑے کا حکم واضح ہے۔ زنا بالجبر کی سزاقرآن میں قتل اور حدیث میں سنگساری ہے۔ لعان کی صورت میں شوہر چار مرتبہ قرآن کے الفاظ بول کر بھی بیوی کو سزا دلواسکتا ہے اور اگر بیوی جھٹلائے تو پھر اس سے سزا اٹھائی جائے گی۔ شوہر کے مقابلے میں سزا کے حوالے سے عورت کی بات کا اعتبار کیا جائیگا۔
قرآن کے قوانین پر آج دنیا میں عمل کیا جائے تو خوشحال معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ عورت ماحول کو بگاڑ رہی ہو تو اس پر چار گواہوں کے بعد گھر میں پابندی لگانا بھی فطرت کا تقاضہ ہے یہاں تک کہ اس کو موت آئے یا پھر اس کیلئے کوئی راستہ نکلے۔ اس کی شادی ہوجائے تو بھی یہ راستہ نکلنا ہے اور اس پر سورۂ نور کی آیت کے مطابق100کوڑے لگانا بھی اللہ کی طرف سے راہ نکلنا تھا۔
چونکہ پہلے کوڑوں کی سزا نازل نہیں ہوئی تھی اسلئے قوم لوط کے عمل والوں کو اذیت دینے کا ذکر تھا۔ جب عورت اور مرد کو فحاشی کے ارتکاب پر کوڑے کی سزا کا حکم نازل ہوا تو مردوں کو بھی کوڑے لگائے جاسکتے ہیں ،دیگر اذیت بھی ہے۔
گل چاہت جس کا نام معاویہ رکھا گیا ہے۔اس کا نام ہندہ یا کوئی اور زنانہ نام رکھا جائے۔ مستورات کی جماعتوں میں تبلیغ کرے۔ تبلیغی جماعت والے شوق سے ویڈیوز بنائیں مگر اس سے جماعت کی بدنامی ہوئی ہے۔ تبلیغی جماعت والے ”اللہ کے احکام” میں کامیابی کی رٹ لگاتے ہیں لیکن اللہ کے احکام سیکھتے نہیں۔اللہ کے احکام علماء کو بھی پتہ نہیں اسلئے کہ احکام قرآن میں ہیں اورقرآن کو امت نے چھوڑ رکھا ہے جس کی نشاندہی قرآن میں اللہ نے خود کی ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز