پوسٹ تلاش کریں

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال، بارہ اماموں کی حدیث کا تصور، خواتین کا حق اور اسلامی رنگ، مفتی تقی عثمانی اور سید منور حسن

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال، بارہ اماموں کی حدیث کا تصور، خواتین کا حق اور اسلامی رنگ، مفتی تقی عثمانی اور سید منور حسن اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوارکراچی ،سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر۔

اسلام اور جبر کے درمیان بڑافرق!
قرآن کہتا ہے کہ لااکراہ فی الدین ” دین میں کوئی جبر نہیں ہے”۔ مگر مسلمانوں کے دل ودماغ میںپے درپے خاندانی آمریت نے یہ تصور بٹھادیا کہ ” اسلام جبری نظام کا نام ہے”۔ جب رسول اللہ ۖ نے دنیا کی سپر طاقتوں کو اسلام قبول کرنے کے خطوط بھیجے تو اس میں تبلیغ کا عنصر ہی غالب تھا اسلئے کہ قیصرروم اور فارس کے بادشاہ کی ایسی پوزیشن نہیں تھی اور نہ مسلمانوں کی ایسی حیثیت تھی کہ ایسا حکم دیا جاتا کہ ہتھیار ڈال کر تسلیم ہوجاؤ ورنہ سر قلم کردیا جائیگا۔ البتہ رسول اللہ ۖ کو اعتماد تھا کہ ایک دن حق کے سامنے باطل سرنگوں ہوگا۔ اسلام نے جبری حکومت کے طرز پر خلافت راشدہ کا خواب مسلمانوں کو نہیں دکھایا۔ جب تک مذہبی طبقات کا دل ودماغ اعتدال پر نہیں آئے گا، مسلمانوں سے شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا درست تصور دنیا اور اپنی عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ افغان طالبان مخمصے کا شکار ہیں کہ اگر ملاعمرکے اقدامات سے منہ پھیر لیتے ہیں تو اپنے داعش میں شامل ہوتے ہیں اور اگر ملاعمر کی اطاعت کرتے ہیں تو دنیا میں تنہائی کا شکار ہوں گے۔ اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ضروری ہے کہ اسلام کا وہی تصور پیش کیا جائے جو اللہ اور اسکے رسول ۖ نے ساڑھے چودہ سوسال پہلے پیش کیا تھا اور پھر اسلام مختلف ادوار میں اجنبیت کی نذر ہوتا چلا گیا ہے۔
میثاق مدینہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی داخلہ پالیسی کے نظام سے تھا اور صلح حدیبیہ کا تعلق ریاستِ مدینہ کی خارجہ پالیسی کے نظام سے تھا۔دونوں پالیسی کا نظام ایمان واسلام پر مبنی تھا اور ان کا کفر ونفاق کے نظام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
صلح حدیبیہ کا معاہدہ محاذ جنگ کے کنارے کھڑے ہوکر نہیں کیا گیا تھا بلکہ مشرکینِ مکہ مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کیلئے مکہ میں آنے کی اجازت سے روک رہے تھے اور مسلمانوں کی خواہش تھی کہ احرام عمرہ کے بغیر کھولنے کے بجائے عمرہ ادا کرکے واپس چلے جائیں۔ جب یہ جھوٹی افواہ پھیلادی گئی کہ مسلمانوں کے قاصدحضرت عثمان کو شہید کیا گیا ہے تو رسول اللہ ۖ نے جنگ کیلئے بیعت لے لی۔ لیکن پھر معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان زندہ سلامت ہیں اور اس وقت پھر یہ افسوسناک صورتحال پیش آئی جب باغیوں نے حضرت عثمان کو تخت خلافت پر شہید کردیا تھا۔ کہاں مسلمانوں کا یہود کیساتھ میثاقِ مدینہ کرنا اور مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنا اور کہاں حضرت عثمان کومسند پر شہید کرنا؟۔آج تک مسلمانوں نے پھر زیادہ اچھے دن نہیں دیکھے ہیں۔ اگر نبیۖ کیلئے اللہ کی مدد نہ ہوتی تو صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف بھی بغاوت ہوسکتی تھی۔
کتنی گھمبیر صورتحال ہوگی کہ اللہ نے نبیۖ کی ازواج مطہرات کو حکم دیاتھا کہ وقرن فی بیوتکن ”اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہیں”۔ نبیۖ نے امہات المؤمنین سے فرمایا ”میرے ساتھ جو حج کیا، وہ کافی ہے، میرے بعد حج نہ کرنا اور تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب حواّب کے کتے آپ پر بھونکیں گے”۔ اور یہ بھی فرمایا کہ” وہ قوم کامیاب نہیں ہوسکتی ہے جس کی قیادت عورت کررہی ہو”۔ (صحیح بخاری) پھرحضرت علی کے خلاف لشکر کی قیادت حضرت عائشہ نے کی تھی۔ مگرحضرت عثمان کیلئے قرآن میں پہلے سے بیعت کا معاملہ بھی بہت سنگین تھااور حدیث قرطاس سے زیادہ پردۂ غیب میں نافرمانی کا تصور بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔

حدیث قرطاس اور اسلامی اعتدال
جب تک شیعہ سنی کے درمیان مکالمے کا دروازہ نہیں کھلے گا تو اسلامی تاریخ بھی سمجھ میں نہیں آئے گی۔ غالی شیعوں کا یہ حال ہے کہ کہتے ہیں کہ ”اگرفاطمہ نہ ہوتی تو نہ محمدۖ ہوتے اور نہ علی ہوتے”۔اہل تشیع کی اکثریت کا حال یہی ہے کہ وہ شخصیت پرستی کا بدترین شکار ہیں اور اس سے امت مسلمہ اور خاص طور پر شیعوں کو زیادہ نقصان پہنچنے کا سخت اندیشہ ہے۔ امریکہ دنیا میں37فیصد اسلحہ فروخت کرتا ہے اور اس میں24فیصد سعودی عرب اسلئے خرید رہاہے کہ یمن کے حوثی شیعہ سے ان کو خطرات لاحق ہیں۔ جونہی امریکہ افغانستان سے نکل گیا تو داعش نے شیعوں کی مساجد پر دھماکے شروع کردئیے۔ جب شیعہ شدت پسندوں کیلئے تحریر وتقریر کی آزادی ہے اور دلائل سے زیادہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی میں مسلسل لگے ہوئے ہیں تو اس کے نتیجے میں فرقہ واریت کو زبردست ہوا ملے گی۔ یہود شخصیت سوزی میں اس انتہاء کو پہنچ گئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ پر تہمت باندھنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اور عیسائی شخصیت پرستی کا اس طرح سے شکار ہوئے کہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو بھی اللہ کی خدائی میں شریک بنالیا۔ اہل تشیع ایک طرف اہل بیت کے حوالے سے بہت غلو کا شکار ہیں اور دوسری طرف سے صحابہ کرام کیخلاف گستاخانہ لہجہ استعمال کرتے ہیں اور یہ دونوں ہی اصل میں فساد کی وہ جڑیں ہیں جن پر بڑے بڑے درخت اُگ گئے ہیں۔
جب حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس کے سامنے نبیۖ نے فرمایا کہ ” ایک قلم اور کاغذ لیکر آؤ تاکہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ کردوں کہ میرے بعد آپ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ تو حضرت عمر نے عرض کیا کہ ہمارے پاس قرآن کافی ہے”۔
حضرت علی نے اس وجہ سے حضرت عمر کے خلاف کوئی تلوار نہیں اٹھائی کہ نبیۖ کی نافرمانی کی یہ انتہاء ہوگئی ہے۔ جب حضرت عائشہ نے حضرت علی کے خلاف جنگ کی تھی تو بھی حضرت علی نے آپ کے احترام میں کوئی فرق نہیں کیا اور جب اللہ نے ام المؤمنین قرار دیا تو اپنی ماں کی بے احترامی کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔اختلاف تو دو پیغمبروں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون میں بھی ہوا تھا۔داڑھی اور سر کے بالوں کو پکڑنے تک بھی بات پہنچ گئی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی ایک کی شخصیت سازی اور دوسرے کی شخصیت سوزی کی جائے۔ اہل تشیع کے جن لوگوں میں پشت درپشت اہل بیت کی شخصیت سازی اور صحابہ کرام کے خلاف شخصیت سوزی کا جذبہ ہے ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ، ان پر زبردستی سے اپنے عقائد ٹھونسنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام کا نزول ہوا تو ایک مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ کی پوجا کرنیوالی قوم عیسائیوں کے خلاف واجب القتل کے فتوے جاری نہیں کئے گئے اور نہ ہی اس وجہ سے یہود یوں کو قتل کرنے کے فتوے جاری کئے گئے کہ وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں کوئی گستاخانہ عقائد رکھتے ہیں۔اہل تشیع کو انکے بہیمانہ عقائد رکھنے کی وجہ سے واجب القتل سمجھنا اسلام کے بنیادی معاملات کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے۔
یہودونصاریٰ کی خواتین سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دی گئی تھی تو اس کا یہی مطلب تھا کہ شخصیت سوزی اور شخصیت سازی کرنے والوں کے خلاف اشتعال پھیلانے اور واجب القتل کے فتوے جاری کرنے کا ایجنڈا اسلام نہیں کسی اور کا ایجنڈہ ہے۔ امریکہ جس طرح داعش کو ختم بھی کرنا چاہتا ہے تو اس کو زندہ بھی رکھنا چاہتا ہے اور ایران اور اہل تشیع کیساتھ بھی ان کا یہی معاملہ ہے۔
اگر سیرت رسول ۖ کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے خلاف دہشت گرد پیدا نہیں ہوں گے لیکن ان کو نظر انداز کیا جائے تو خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عثمان اور حضرت علی کی شخصیات بھی شدت پسندوں کے ہاتھوں اذیت اور شہادت سے نہیں بچ سکیں۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔

کیامان لیا اپنی ماضی کی غلطیوں کو؟
جب وحی کا سلسلہ جاری تھا تو نبیۖ کی بھی بہت معاملات میں وحی کے ذریعے سے رہنمائی ہو جاتی تھی۔ سورۂ مجادلہ، سورۂ احزاب ، سورۂ عبس اور غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد کے بعد کی آیات میں اس حوالے سے بہت روشن دلائل ہیں ۔ جب وحی کا سلسلہ بند ہوا تو مشاور ت سے حضرت ابوبکر کی خلافت قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ ایک حادثہ تھا اسلئے کہ انصار کی چاہت تھی کہ خلیفہ انصار میں سے ہوتا اور انہوں نے کھل کر کہا تھا کہ پہلے معاملہ نبیۖ کا تھا۔ جب نبی مہاجرین میں سے تھے تو ہم نے تمہارا ساتھ دیا۔ نبی کا انتخاب اللہ خود کرتا ہے لیکن خلیفہ ہم نے منتخب کرنا ہوتا ہے۔ مہاجرین سے زیادہ انصار خلافت کے حقدار ہیں۔ جب یہ بات حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے نہیں مانی تو انہوں نے کہا کہ ایک امیر آپ میں سے ہو اور ایک امیر ہم سے ہو۔ لیکن یہ بات بھی مہاجرین نے نہیں مانی بلکہ یہ تجویز پیش کی کہ ہم امیر بنیں گے اور تم وزیر بن جاؤ۔ حضرت سعد بن عبادہ اس پر زندگی کے آخری لمحے تک ناراض رہے ۔ حضرت ابوبکر وعمر کے پیچھے نماز تک بھی نہیں پڑھتے تھے۔ حجاز وعرب میں قریش کی اہمیت اپنی جگہ پر تھی۔ نبیۖ نے بھی فرمایا تھا کہ ”امام قریش میں سے ہوں گے ”۔ لیکن اہل بیت حضرت علی و ابن عباس وغیرہ میں خلافت کے مسئلے پر دوسرے قریش سے اختلاف تھا۔ پھر حضرت ابوبکر سے حضرت امام حسن نے کہا تھا کہ آپ میرے باپ کے منبر پر بیٹھے ہیں اور حضرت امام حسین نے حضرت عمر سے یہی بات کہی تھی اور پھر جب حضرت عثمان مسندِ خلافت پر شہید کئے گئے تو حضرت علی کو بھی مدینہ چھوڑ کر کوفہ کو اپنا مرکز بنانا پڑا تھا۔ اما م حسن نے قربانی دیکر امیرمعاویہ کی سپورٹ کی تھی۔ پھر بنو امیہ اور بنوعباس نے باری باری خلافتوں پر قبضہ کیا اور آخر ترک عثمانیوں نے خلافت کو اپنے خاندانی قبضے سے نوازنے کا شرف حاصل کرلیا تھا۔ پھر ان کو محمود غزنوی نے بھی بلیک میل کیا کہ اگروہ جگہ میرے حوالے نہ کی توہاتھیوں کیساتھ حملہ کرنے تشریف لاؤں گا۔ اس وقت کے ترک عثمانی بادشاہ نے کہا تھا کہ کیا تم مجھے ہاتھی والوں کی طرح ڈراتے ہو ؟، جسکا ذکر سورۂ فیل میں اللہ نے کیا ہے۔
اہل بیت خاص طور پر امام حسن کی اولادپر عباسی خلیفہ قاہر نے بہت مظالم کی انتہاء کردی تھی۔ جب اما م حسین کی اولاد کو فاطمیوں کے نام سے حکومت مل گئی تو وہ آج آغا خان خانی اور بوہریوں کی شکل میں موجود ہیں۔ امامیہ فرقے نے پہلی مرتبہ ایران میں حکومت قائم کرلی ہے، حالانکہ ان کے اہل بیت کا قول یہ تھا کہ ہماری اولاد میں سے جس نے خروج کیا وہ ایسے پرندے کا بچہ ہوگا جو اغیار کا پالتو ایجنٹ ہوگا۔ امام خمینی نے فرانس سے ایرانی حکومت پر قبضہ کرلیا۔
اہل تشیع کی کتابوں میں ہے کہ نبوت اور ولایت کا نور حضرت آدم سے شیبہ حضرت عبدالمطلب تک ایک تھے۔ پھر حضرت عبداللہ کے توسط سے حضرت محمد ۖ اور حضرت ابوطالب کے توسط سے حضرت علی تک دونوں نور الگ الگ ہستیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوروالایت پہلے حضرت امام حسن میں منتقل ہوا تو پھر ان کی اولاد میں منتقل ہونا چاہیے اور پھر یہ نور حضرت امام حسین اور ان کی اولاد میں کیسے منتقل ہوا؟۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ نورامامت حضرت امام حسن اور نورولایت حضرت امام حسین میں منتقل ہوگیا تھا لیکن اہل تشیع فرقہ امامیہ نے اس کواپنے طور پر درست سمجھانہیں تھا؟۔

_ بارہ اماموں کی حدیث کا تصورکیا؟ _
اہل تشیع کے بارہ اماموں کا تصور بہت واضح ہے۔شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوینے بھی اپنی کتابوں میں ان کے حوالے سے بہت وضاحت کی ہے اور صوفیاء وعلماء کی کتابوں میں انکے تذکرے ہیں ۔ لیکن جس طرح کی احادیث اہل تشیع پیش کرتے ہیں ان پر ائمہ اہل بیت کا یہ سلسلہ پورا نہیں اترتا ہے۔ اسلئے کہ کشتی نوح اور قرآن واہل بیت کے حوالے سے مہدی ٔ غائب کے پھر غائب ہونے کی گنجائش نہیں بچ سکتی ہے۔ جب ہمارا امام غائب ہو تو امام زمانہ کو نہ پہچاننے کی ذمہ داری امت پر کیسے پڑے گی؟۔
جب امت کو ہلاکت سے بچانے میں قرآن کیساتھ دوسری چیز اہل بیت ہو تو اہل بیت کی غیبت میں ذمہ داری امت پر کیسے پڑسکتی ہے؟۔اگر اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی ہو تو پھر کشتی کے غائب ہونے کے بعد امت کی ہلاکت کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے گا؟ ۔ اہل بیت کو یا پھرامت مسلمہ کو؟۔ شیعہ بہت منطقی لوگ ہیں اور جب نااہل قسم کے ذاکرین اور علماء اپنے تضادات کو اجاگر کررہے ہیں تو اس اختلاف کو ختم کرنے کیلئے اللہ کرے کہ مہدیٔ غائب تشریف لائیں۔
جب اہل تشیع اہل سنت کی کتابوں میں بارہ ائمہ اہل بیت کا جواب دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں تو وہ اہل سنت پر برس پڑتے ہیں۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے پہلے مرشدپیر سید مہر علی شاہ گیلانی گولڑہ شریف نے اپنی ایک کتاب ” تصفیہ مابین شیعہ وسنی ” میں لکھ دیا ہے کہ حدیث میں جن بارہ اماموں کا ذکر ہے ،وہ ابھی تک نہیں آئے ہیں۔ جن میں سے ہر ایک پر امت کا اجماع ہوگا اور اس کا ذکر علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ” الحاوی للفتاویٰ” میں کیا ہے۔ جبکہ اہل تشیع کو اپنی حدیث کا جواب بھی اسی سے مل سکتا ہے۔ اہل تشیع نے لکھ دیا ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے کہ جس کے اول میں مَیں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ۔ اور ہوسکتا ہے کہ درمیانے زمانے کے مہدی سے مراد عباسی خلیفہ مہدی ہو۔ اسلئے کہ عباسی خاندان کے خلفاء سے ان کے ائمہ اہل بیت کے مراسم بھی اچھے تھے۔پھر یہ بھی لکھا ہے کہ ہماری کتابوں میں یہ حدیث ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ مہدی اور بھی آئیں گے جن کو اقتدار بھی ملے گا۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخری امیر کا آخری ہونا پھر کیسے ثابت ہوگا؟۔ اس کا جواب یہی ہے کہ عباسی مہدی کی جگہ درمیانہ زمانے میں ایک مہدی کو مانا جائے اور اس کے بعد گیارہ مہدیوں کو خلافت ملے گی تو آخری امیر بھی اپنی جگہ پر آئیں گے اور روایات پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ مشرق سے ایک دجال آئے گا اور اس کے مقابلے میں حسن کی اولاد سے کوئی شخص آئے گا ۔ یہ دجال کوئی اور دجال ہوگا اور حسن کی اولاد سے سید گیلانی مراد ہوسکتے ہیں۔
شیعہ اکثریت گیلانی سادات اور امام حسن کی اولاد پر اعتراض کرتی تھی مگر اب انہوں نے امام حسن کی اولاد سے اپنے شجرے بھی نکال لئے ہیں۔ ہماری کوشش صرف اتنی ہے کہ قتل وغارتگری کا بازار گرم ہونے کی جگہ ایک اچھا ماحول بن جائے۔ باقی جب صحابہ کرام اور اہل بیت کی موجودگی میں بھی بڑے بڑے فسادات ہوئے تھے تو موجودہ دور کے فسادیوں کو کون اور کس طرح سے روک سکتا ہے؟۔ اہل سنت کی مشہور کتاب مظاہر حق شرح مشکوٰة شریف میں روایت ہے کہ پہلے چھ افراد امام حسن کی اولاد سے ہوں گے اور پھر پانچ افراد امام حسین کی اولاد سے ہوں گے اور آخری فرد پھر امام حسن کی اولاد سے ہوگا؟۔ اہل تشیع کی کتابوں میں بھی یہ نقشہ واضح ہوگا اسلئے کہ علامہ طالب جوہری نے لکھا ہے کہ امام حسن کی اولاد سید گیلانی کے حوالے سے بہت تفصیلات روایات میں موجود ہیں۔ اور یہ کتاب1987ء میں شائع ہوئی تھی جب ہماری تحریک نہیں تھی۔

عورت کا حق اور اسلامی رنگ
آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
انسان، حیوان اورپرندہ اپنی اپنی جبلت رکھتے ہیں۔ جوڑے میں نرطاقتور اور مادہ کمزور ہوتی ہے۔ سائز میں بھی طاقتور نر اور صنف نازک کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ نر جنسی خواہشات کے مسئلہ میں جبر کا خوگر اور مادہ بہت محتاط ہوتی ہے۔ نر کو جنسی خواہش پوری کرنے کے بعد سنگین نتائج کا سامنا نہیں ہوتا ہے مگر مادہ کو بچے جننے سے لیکر دودھ پلانے تک بہت ساری ذمہ داریوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔
اسلام نے مرد پر نکاح کیلئے حق مہر کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ عورت اور بچوں کا سارا خرچہ، گھر بار مہیا کرنے، تعلیم وتربیت اور علاج معالجے تک سب کچھ مرد کے ذمے لگایا ہے۔ وہ خواتین بالکل غلطی پر ہیں جو دنیا بھر میں مردوں سے برابر کے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں کیونکہ اگر قانونی بندھن ختم ہوگیا توپھر مادہ جانوروں کی طرح وہ اکیلے بچے پالنے کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہوں گی اور کوئی عورت اپنے مضبوط بیک گراؤنڈ کے تحت یہ صلاحیت رکھتی ہو اور اس کو معاونت کی کوئی ضرورت نہ ہو تو پھر قرآن وسنت میں اس کا بھی راستہ موجود ہے۔ عبدالمطلب کا اصل نام شیبہ تھا۔حضرت ہاشم کے انتقال کے بعد اُن کی والدہ نے اُنکے بھائی مطلب کے پاس بھیج دیا تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ مطلب کا غلام ہے ،اس وجہ سے ان کا نام عبدالمطلب پڑ گیا۔ام المؤمنین حضرت خدیجة الکبریٰ تجارت کرتی تھیں، رسول اللہۖ سے شادی ہوئی تو اس مالدار خاتون کے احسانات نے اسلامی تحریک کوبہت فائدہ پہنچایا ۔نبیۖ نے فرمایا : سیدالقوم خادمھم ”قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے”۔مرد عورت کا چوکیدار ہوتا ہے جیسے فوج کے سپہ سالار کو اپنی قوم کی چوکیداری پر فخر ہوتا ہے،اسی طرح مردوں کو اپنی خواتین کی چوکیداری پر بہت فخر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسلامی آئین سے ڈرانے کیلئے ابلیس اعظم کی آواز کو برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں تک اردو میں پہنچایا ہے۔
الحذر آئینِ پیغمبر سے سوبار الحذر حافظِ ناموسِ زن مرد آزما مرد آفریں
قائداعظم کے مزارکراچی میںپنجاب سے آنے والی ایک نو بیاہی عورت کو بندوق کے زور سے یرغمال بناکر انتظامیہ کے ایک کمرے میں لے جایا گیا اور پھر اس کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ خاتون نے تینوں مجرموں کو پہچان لیا اور ان کاDNAسے بھی جرم مثبت آیا۔ کیس میڈیا کی زینت بھی بن گیا تھا لیکن اب مجرموں کو عدالت نے باعزت بری کردیا ہے۔ پرویزمشرف کے دور میں2006ء میںحدود آرڈنینس کے تحت زنا بالجبر میں چار عینی گواہوں کا قانون ختم کرکے اس کو تعزیرات پاکستان کی سزا دینے کا قانون بنایا گیا تھالیکن عدالت نے پھر بھی مجرموں کو سزا سے بچانے کیلئے اسی ختم شدہ قانون کے تحت مجرموں کو بری کردیا ہے۔ تفصیلات ڈان نیوز کے پروگرام ”ذرا ہٹ کے” میں اس خاتون کی وکیل سے سوشل میڈیا پر دیکھ لیں جس کی ناموس کو عدالت نے تحفظ نہیں دیا۔
مفتی محمد تقی عثمانی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں جیسے لوگوں کا ضمیر بالکل ختم ہے۔ ایک ایسی مظلوم عورت کے خلاف فتویٰ مرتب کرنا اور مذہب کے نام پر قرآن وسنت کا تماشہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے جس کو اپنے پرظلم کیخلاف آواز اُٹھانے پر بھی کوڑے مارے جائیں۔ یہ بہت زیادہ غیرت رکھنے والے اللہ اور اسکے غیرتمند رسول ۖ کا قانون نہیں ہے بلکہ ظالموں کے حامیوں کی فقہ ہے۔

_ مفتی تقی عثمانی اور سید منورحسن _
جب عورت کو جبری زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ انصاف کیلئے تھانہ کچہری جاتی ہے تو اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو باشرع اور باکردار ہوں اور عین موقع کی گواہی دیدیں۔ اگر عورت کے پاس چار موقع کے گواہ نہ ہوں تو پھر اس پرمرد کی ہتکِ عزت کرنے کے تحت سزا کا قانون بھی ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین اس قانون کے تحت تھانوں اور جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند ہوتی تھیں کہ ان کے پاس کوئی گواہ نہیں ہوتا تھا ۔ پرویزمشرف کے دور میں حدود آرڈنینس کی جگہ تعزیراتِ پاکستان کے تحت زنا بالجبر کے مجرموں کو سخت سزا دینے کا قانون اسمبلی میںلانے کی بات ہوئی تو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے اس کے خلاف ایک تحریر لکھی جس میں انتہائی بھونڈے دلائل تھے اور جماعت اسلامی نے اس کو شائع کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن سے صحافی نے پوچھا کہ اگر کسی عورت کیساتھ جبری جنسی زیادی ہوجائے تو پھر وہ کیا کرے؟۔ سیدمنور حسن نے کہا کہ ” وہ خاموش رہے اور برداشت کرے”۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی نے لکھا تھا کہ ”سورۂ نور میں زنا کی سزا کا ذکر ہے اور اس میں یہ قید نہیں ہے کہ زنا رضامندی سے ہو یا جبرسے ہو”۔ حالانکہ یہ سراسر بکواس بات تھی اسلئے کہ سورۂ نور میں رضامندی ہی کی وضاحت ہے۔اللہ نے فرمایا کہ” زانیہ عورت اور زانیہ مرد میں سے ہر ایک کو سوسو کوڑے لگاؤ” ۔ جس طرح کوئی عورت جبری جنسی زیادتی کی شکار ہوجائے تو اس کو کوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ رضامندی سے بدکاری کرے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے اسی طرح سورۂ نور میں یہ سزا بھی رضامندی سے بدکاری کرنے والوں کیلئے ہے۔
قرآن وسنت میں واضح ہے کہ زبردستی سے عورت کو ہراساں کرنے والوں کا حکم پہلے بھی قتل تھا اور اس امت میں بھی قتل ہے۔ جہاں یہ آیات نازل ہوئیں کہ جب نبیۖ کھانے کیلئے دعوت دیں تو وقت سے پہلے آکر مت بیٹھو اور نہ کھانا کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ جاؤ ، اس سے نبیۖ کو اذیت ہوتی ہے اور آپۖ یہ کہنے سے حیاء کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا ہے اور نبیۖ کی ازواج سے نکاح مت کرو۔ اس سے نبی ۖ کو اذیت ہوتی ہے ۔ تو اس کیساتھ دوسرے رکوع میں اللہ نے فرمایا ہے کہ ”مؤمنوں کی خواتین سے کہہ دیں کہ باہر نکلتے وقت ایسا لباس پہن کر نکلیں تاکہ وہ پہچانی جائیں اور پھر ان کو اذیت نہیں دی جائے۔ جو منافق لوگ اور جن کے دلوں میں مرض ہے شہر میں رہتے ہیں ،ان پر آپ کو مسلط کیا جائے گا تو وہ پڑوس میں رہیں گے مگر بہت کم عرصہ۔ یہ اللہ کی پہلوںمیںسنت رہی ہے کہ یہ لوگ جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور قتل کئے گئے”۔ ان آیات میں زنا بالجبروالوں کیلئے قتل کی سزا ہے۔
ایک خاتون سے ایک شخص نے زنا بالجبر کیا تو اس نے نبیۖ سے شکایت کردی۔ نبیۖ نے اس شخص کو پکڑ کر لانے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کردیا گیا۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ہم مشربوں کی بات نقل کردی کہ نبیۖ نے شہادتوں کے بغیر غلط فیصلہ کیا تھا اورآپ ۖ نعوذباللہ شریعت سے واقف نہیں تھے ۔کسی دوسرے شخص نے کہا کہ میں نے یہ جرم کیا ہے تو نبیۖ نے اقرار کرنے والے کو سنگساری کی سزا کا حکم دیا تھا۔ اگر یہ دوسری روایت صحیح ہو تو بھی نبیۖ نے قرآن اور فطرت کے مطابق عورت کی شکایت اور اس کی سچائی کے یقین پر ہی فیصلہ فرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے فقہاء اور دانشوروں کو بتادیا تھا کہ جب عورت اپنے خلاف زیادتی کی شکایت کرے تو چار گواہوں کی جگہ اس کی سچائی پر یقین کے بعد فوری طور پر مرد کو سنگسار کیا جائے اور قرآن میں اس کے قتل کا حکم ہے۔ طالبان کسی کو زنابالجبر پر سنگسار کردیں اور ہماری عدالتیں ظالموں کو چھوڑ دیں تو پاکستان میں طالبان کی طرز کے اقتدار کو ہی پسند کیا جائے گا۔

اسلا می قانون ہی قابلِ قبول!
مغرب میں عورت کی حفاظت کیلئے بہت سخت قوانین بنائے گئے ہیں، کوئی عورت کسی مرد کی شکایت لگادے تو اس کی خیر نہیں ہے لیکن پھر بھی بڑے پیمانے پرجبری جنسی جرائم کا قلع قمع ممکن نہیں ہوسکا اسلئے8آزادی مارچ عورت کے حقوق کیلئے مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی چند سالوں سے یہ مہم شروع ہے۔
مغرب میں عورت کو مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں۔ ہمارے مردوں کو جنسی بے راہروی کامعاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے جبکہ وہاں عورتوں کو بھی جنسی بے راہ روی کا معاشرتی اور قانونی تحفظ حاصل ہے۔اسلئے بہت سے لوگ پاکستان میں عورت آزادی مارچ کو مغرب اور جنسی بے راہ روی کا مقدمہ اور مشن سمجھتے ہیں اور بہت سی این جی اوز کو موردِالزام بھی ٹھہراتے ہیں۔
مغرب نے عورتوں کو جو حقوق دئیے ہیں تو اس کے مقابلے میں اسلام نے عورتوں کو بہت زیادہ حقوق دئیے ہیں لیکن افسوس کہ عورتوں کے حقوق کو ہمارے علماء وفقہاء اور معاشرے نے مسخ کرکے رکھ دیا ہے۔ مغرب نے مرد کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عورت کو پہلے خوب استعمال کرسکتا ہے اور پھر اگر اس کو اطمینان مل گیا تو اس سے شادی بھی کرسکتا ہے لیکن اگر پھر اس نے طلاق دیدی تو عورت سے اس کا آدھا مال بھی لے سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو جمائما نے بنی گالہ کا مکان گفٹ کیا ہے یا یہ جھوٹ ہے؟، لیکن اگر عمران خان چاہتا تو جمائما کو طلاق کے بعد اس کی آدھی دولت بھی قانونی طور پر واپس لے سکتا تھا۔
اسلام کا قانون یہ ہے کہ نکاح اور ایگریمنٹ سے پہلے عورت کو ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں ہے۔ پھر اگر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دیدی تو مقرر کردہ مال کا نصف پھر عورت کو دینا ہوگا۔ اگر پورا یا زیادہ دے تو قرآن نے یہ زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کی غلط تفاسیر سے عوام ہی نہیں علماء کرام کی ہستیاں بھی گمراہی کا شکارہیں اسلئے کسی امام ہدایت اور مہدی کا انتظار ہے۔
اگر اسلام کے مطابق جنسی بے راہ روی کی جگہ باقاعدہ نکاح یا ایگریمنٹ کا قانون نافذ کیا جاتا تو سیتاوائٹ کو امریکہ میں عمران خان کے خلاف اپنی بچی ٹیرن وائٹ کا کیس نہ لڑنا پڑتا۔ جہاں مغرب میں سنگل پیرنٹ بچے پیدا ہوتے ہیں تو وہاں ہمارے ہاں بھی جھولوں میں ڈالے جانے والے بچوں کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی جارہی ہے جن کو سنگل پرنٹ کا سایہ اور شناخت بھی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں شناختی کارڈ وں کا بھی بہت بڑا مسئلہ رہتا ہے۔
ایک جوان سال لڑکی کا شوہر شہید ہوجاتا ہے جس کو نشانِ حیدر بھی مل جاتا ہے تو اس وقت یہ مراعات اس کو ملتی ہیں جب تک وہ لڑکی کسی اور سے نکاح نہیں کرلیتی ہے۔ جب وہ کسی اور سے نکاح کرلے تو ریاست کی طرف سے پینشن اور تمام مراعات بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ اسلام نے اس کو جنسی خواہش کی تسکین اور اپنے دوسرے جائز بچے پیدا کرنے کا راستہ بھی دیا ہے اور دوسرے نکاح کی جگہ اس کو ایگریمنٹ کی اجازت دی ہے جسکے بعد اس کا سابقہ اسٹیٹس بھی برقرار ہوگا اور معاشرے میں بے راہروی بھی نہیں پھیلے گی۔ اسلام کاعورت کے تحفظ کیلئے ایک ایک حکم قابلِ تحسین ہے مگر معاشرے نے اس کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔
اگر ہم نے اسلام کی طرف رجوع نہ کیا تو بے راہروی اور جبری جنسی زیادتی کے معاملات اتنے بڑھ سکتے ہیں کہ زمین وآسمان والے ہم پر لعنت بھیجیں گے۔

دنیا سے بہتر ہے ہمارا اسلام!
مغرب میں کم شرح سود پر قرضہ ملتا ہے اور ہمارے ہاں زیادہ شرح سود پر قرضہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا نام اسلامی رکھنے سے کیا یہ اسلامی بن جائے گا؟۔IMFنے جتنے سودی قرضے دئیے ہیں ان کو شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن کو معاوضہ دیکر اسلامی غیر شرعی سود بنالو اور پھر ماہر معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن وغیرہ سے پوچھ لیں کہ کیا قوم کی تباہی میں تبدیلی کا امکان اس سے ہوسکتا ہے؟۔IMFکے ایجنٹ ضرور کہیں گے کہ اس کا بہت بڑا فائدہ ہے اور اسلام کی خدمت بھی چندے کے بغیر نہ کرنیوالی مذہبی جماعتیں بھی کہیں گی کہ ” اس کا اور کوئی فائدہ ہو یا نہیں ہو لیکن قرآن میں اللہ اور اس کے رسول ۖ کیساتھ سود کو اعلان جنگ کہاہے، اس وعید سے ہم بچ جائیں گے”۔
اگر اسلام کے نام سے جائز ہونے والے سود پر ایک زمانہ گزر جائے گا تو پھر علماء حق کے جانشینوں کو یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کبھی اس سود کی کسی نے مخالفت بھی کی تھی اور اسلام اجنبیت کے آخری کنارے تک پہنچ جائیگا۔ یہی حال عورت کے حقوق کیساتھ بھی روا رکھا گیا۔ آج قرآن وسنت کے اہم ترین قوانین کے حوالے سے ہمارے مدارس کے نصاب میں بھی ان کا سراغ نہیں ملتا ہے۔
پاکستان1988ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں پہلی مرتبہIMFکی گود میں گیا،جب آصف علی زرداری کے گھوڑوں کو سرکاری خزانے سے مربہ کھلایا جاتا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی باری باری حکومتوں نے اپنی بیرون ملک بڑی جائیدادوں سرے محل اور ایون فیلڈ کیلئےIMFسے سودی قرضے لیکر پاکستان کے بچے بچے کو مقروض بنایا اور مہنگائی کا طوفان کھڑا کیا تھا ۔جالب نے کہاتھا
ملک ہزاروں کا ہے مقروض پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
پرویزمشرف نے2004ء سے2008ء تکIMFکے چنگل سے نکالا تھا۔ڈاکٹر قدیر خان نے ملک کیلئے سب سے مخلص غلام اسحاق خان کو قرار دیا تھا لیکن نوازشریف نے اپنے دور میں ڈاکٹر قدیر خان کی کردار کشی شروع کروائی تھی اور پریزمشرف نے بھی معافی منگوائی تھی۔ ایک طرف ایٹم بم پاکستان کا بہت بڑا سرمایہ ہے تو دوسری طرفIMFکے گردشی سودی قرضوں نے ملک وقوم کو تباہی کے کنارے پہچادیا ہے۔مہنگائی کے خلاف عوامی ردِعمل سے بچنے کیلئے کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لایا جارہاہے اور کچھ نے پردہ ڈالنے کیلئے تماشا لگا رکھا ہے لیکن اصل مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور اب عمران خان نے بتدریج زیادہ سے زیادہ گردشی قرضوں میں ملک وقوم کو پھنسادیا ہے اور ان کوئلہ کے دلالوں نے منہ کالا کرنے کیساتھ ساتھ بہت کچھ کما بھی لیا۔
اگر اپنے ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کردیا اور مزارعت کاسودی نظام ختم کرکے واقعی میں اسلامی بنادیا تو ہماری بچت ہوسکتی ہے لیکن معاشرتی نظام کے بغیر اسلام کی افادیت کو اچھے اور مخلص لوگوں تک پہنچانا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مولانا محمد یوسف بنوری کے داماد مولانا طاسین کے حوالے سے تحریری تائید بھی کی تھی۔ مزارعت کے ناجائز ہونے اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے ان کی علمی خدمات کو بہت سراہا تھا۔ آج سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی سیاست کھیلنے کی جگہ پھٹی ہوئی بوریوں پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال رسول اللہۖ کا درس دینے والوں کی طرف لوٹ جائیں اور علامہ جواد نقوی کو حق پہنچتا ہے کہ امیر معاویہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ پر اعتراضات کے نشتر چلائیں لیکن مسجدالعتیق کے منبر ومحراب سے بھی اسی شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہی کا تومظاہرہ کیا جا رہا ہے؟۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب لمبی لمبی داستانیں اور فلسفیانہ ماحول کی جگہ اسلام کے سیدھے سادے نظام کو بہت ہی مختصر پیرائے میں پیش کریں تو پاکستان کی تقدیر بدلنے میں ان کا اثرو رسوخ بھی بہت کام آسکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز