پوسٹ تلاش کریں

ہم نے فتنہ بنایا عوام کیلئے وہ خواب جوآپ کودکھایا اور شجرہ ملعونہ کو قرآن میں۔ آیت:60بنی اسرائیل

ہم نے فتنہ بنایا عوام کیلئے وہ خواب جوآپ کودکھایا اور شجرہ ملعونہ کو قرآن میں۔ آیت:60بنی اسرائیل اخبار: نوشتہ دیوار

ہم نے فتنہ بنایا عوام کیلئے وہ خواب جوآپ کودکھایا اور شجرہ ملعونہ کو قرآن میں۔ آیت:60بنی اسرائیل

معراج میں اسلام کا تمام ادیان پر غلبہ اللہ نے دکھایا
اورشجرہ ملعونہ سے مراد قرآن میں حلالے کا ذکرہے

سورۂ بنی اسرائیل آیت60میں2چیزیں آزمائش ۔1:نبی ۖ کا خواب اور2:شجرہ ملعونہ

مسخ اسلام مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں اسلئے خلافت کی بحالی نہیں چاہتے اور عالم انسانیت اپنی خواتین کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اسلئے دنیا میںہر جگہ اسلام دشمنی کی فضاہے

1:اللہ نے تمام ادیان پر اسلام کے غلبے کا وعدہ کیا،2: اسلام نے حلالہ کو جڑ سے ختم کیا، 3:عورت اورتمام انسانی حقوق بحال کردئیے ،4: قرآن سے انحراف نے جاہلیت اُولیٰ بحال کردی

واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس وماجعلنا الرء یا ارینٰک الا فتنة للناس والشجرة الملعونة فی القراٰن وتخوفھم فما یزیدھم الا ظغیانًا کبیرًاOترجمہ ”اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ بیشک تیرے رب نے لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور ہم نے نہیں بنایا خواب کو جو ہم نے آپ کو دکھایا مگر لوگوں کیلئے آزمائش اور ملعونہ درخت کو جو قرآن میں ہے اور ہم انہیں ڈرا تے ہیں پس وہ نہیں بڑھتے مگر بڑی سرکشی میں”۔ ( بنی اسرائیل :60)
اور کوئی بستی نہیں جس کو ہم ہلاک نہ کردیں قیامت سے پہلے یا اس کو سخت عذاب نہ دیں۔یہ کتاب کی سطروں میں لکھا ہے۔(بنی اسرائیل آیت:58)
سورہ ٔ بنی اسرائیل پارہ15پہلی آیتِ معراج ہے ۔ مہینہ تیس دن ، قرآن تیس پارے، ہفتہ سات دن، قرآن کی سات منزل۔ مہینہ یا ہفتہ میں قرآن ختم کی سہولت ہے۔ پارہ میں پاؤ، نصف اور پونا ہے۔ دو دن یا چار دن میں پارہ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی میں استاذ شیخ التفسیر مولانا بدیع الزمانکی نصیحت تھی کہ روزانہ ایک رکوع ترجمہ وتفسیر کے سمجھنے کی کوشش کریں۔ نماز میں رکعت ہیں۔ ہررکعت میں رکوع۔ تسبیح فاطمہ میں100کی گنتی کیلئے33بار سبحان اللہ33بار الحمد للہ34بار اللہ اکبر ہے۔ ریاضی میں کواٹر سسٹم کی بڑی اہمیت ہے ۔1/4چوتھائی ،1/2نصف اور3/4تین چوتھائی پر دنیا کانظام چلتا ہے۔پاؤ، نصف، پونا آسان فریکشن ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا پڑھا لکھا جاہل ہے۔ قرآنی پارے سازش نہیں بلکہ اخبار ی کالم کی طرح ہیں، ان کا مضمون پر اثر نہیں پڑتا ۔ اخبار پر اعتراض کیا جائے کہ کالم کی تقسیم کا مقصد مضامین کو خراب کرنا ہے تو یہ کتنی جہالت ہوگی؟۔ قرآنی پارہ اور پارہ کی تقسیم سہولت کیلئے بہترین ذریعہ ہے۔
مرزا صاحب اَیویں بھونکتا ہے کہ قرآن کی پاروں میں تقسیم سازش تھی۔ اگر پارہ میں ایک آیت ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا اسلئے کہ قرآن کی آیات پورا پورا فصل ہیں۔ پارہ13کے آخر میں الر تلک اٰےٰت الکتٰب وقراٰن مبینOپارہ14میں ربما یود الذین کفروا من اہل الکتاب لوکانو ا مسلمینO”یہ آیات ہیں واضح کتاب کیOقریب ہے کہ کافر اہل کتاب میںپسند کریں کہ کاش وہ مسلمان ہوتے”۔دونوں آیات مستقل مضامین ہیں ۔ جن کو الگ کرنے سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جب سورہ الحدید کے مطابق انقلاب آئیگا تو لوگ آیات کو سمجھ لیں گے۔ اہل کتاب نے افغانستان ، عراق ، لیبیا میں جو مظالم کئے اور پھر مسلمان عالمی خلافت میں انسانیت کا ثبوت دیں گے تو اہل کتاب اس وقت چاہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے توشرمندہ نہ بنتے۔
بعض جگہ اللہ نے مضمون کے بیچ میں ایسی آیت ڈالی جس کا مفہوم بالکل الگ تھلگ ہے۔ جیسے اللہ نے فرمایا کہ ” نمازوں کی حفاظت کرو، خاص کر وسط کی نماز اوراگر تمہیں خوف ہو تو پیادہ چلتے چلتے یا سواری کرتے ہوئے اور جب امن کی حالت میں آجاؤ تو اس طرح نمازپڑھو ،جیسا کہ تمہیں سکھایا گیا ہے”۔ اس نماز کا اطلاق جہاد اور سفر پر نہیں ہوتا بلکہ گھریلو مسائل اور کسی قسم کا خوف ہو تو بھی اللہ نے اس کی اجازت دی ۔ ایک مرتبہ نبیۖ کا نماز عصر میں صحابہ نے انتظار کیا پھر پتہ چلا کہ مریض کی عیادت کیلئے گئے۔ صحابہ وہاں پہنچے تو نبی ۖ نے فرمایا کہ یہیں نماز پڑھ لیتے ہیں۔ نبی ۖ نے بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لی اور صحابہ نے قیام ،رکوع اور سجود کا اہتمام کیا ۔ نبی ۖ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ آپ لوگ بھی میری طرح نماز پڑھتے۔ ( صحیح بخاری) یہ خوف کے بغیر ضرورت کے وقت نماز کا طریقہ سکھانا تھا۔ بس، ریل اور جہاز میں حدیث سے رہنمائی لی جاسکتی تھی۔ یورپ یا امریکہ میں خاتون فٹ پاتھ یا کسی عوامی مقام پر نماز پڑھ رہی تھی اور لوگوں نے عجیب وغریب حرکتیں کرکے تماشا بنادیا ۔ اگر حدیث کا علم ہوتا تو یہ قابل مذمت ویڈیو وائرل نہ ہوتی اوریہ پٹھان کی بیگم ہوتی تو مار پڑتی۔
قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے لیا مگرحدیث و اصول فقہ کی کتابوں میں قرآن کے خلاف انتہائی غلط باتیں ہیں۔ مرزا جہلمی کو علم یا جرأت نہیں؟۔ قرآن کہتا ہے کہ کما انزلنا ہ علی المقتسمینOالذین جعلوا القراٰن عضینO”جیسا کہ ہم نے ان بٹوارہ کرنے والوں پر نازل کیا ہو ، جنہوں نے قرآن کی تکہ بوٹیاں بناڈالی ہیں”۔ مولانا انورشاہ کشمیری نے لکھا :” قرآن میں معنوی تحریف تو بہت ہے، لفظی بھی ہے یا جان بوجھ کر ایسا کیا یا مغالطہ سے”۔ احادیث و اصول فقہ میں قرآن کی لفظی تحریف کی نشاندہی کرکے علماء و عام عوام کو یہ فرض پورا کرنا چاہیے۔مرزا جہلمی کی اوقات نہیں کہ دیوبندی بریلوی کو اشرف رسول اللہ ، چشتی رسول اللہ کے خواب پر مرزائیوں کیساتھ کھڑا کردیں۔ نبوت کا دعویٰ کیا نہ ان کی نبوت نہ ماننے پر رنڈی کا بچہ کہا۔ البتہ خوابوں کی تعبیر یہ تھی کہ عملی طورپر اکابر کو رب بنانے اور رسول کا درجہ دینے والوں کو توبہ کرنا چاہیے۔
قرآن میںمعنوی تحریف پر دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اورشیعہ معترف ہیں ۔حقائق پر جمع ہوںگے اور مرزاقادیانی دجال ثابت ہوگا۔مرزا قادیانی نے جھوٹی نبوت سے اسلام کو نقصان پہنچایا۔ سید مودودی نے مسخ شدہ اسلام کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش سے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ برطانیہ اور امریکہ نے برصغیر کے دورِ غلامی میں مرزا قادیانی اور آزادی کے بعد سید مودودی کو سپورٹ کیا۔ خلافت حضرت آدم وحواء سے شروع تھی۔گھر ریاست کا آئینہ ہوتا ہے ۔ پڑوس سے عالمی دنیا تک تمام بنی آدم کے حقوق ہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی کذاب نے اپنی رشتہ دار محمد ی بیگم کا جینا حرام کردیا تھا۔اسلام نے جتنے حقو ق خواتین کو دئیے ہیں ،فقہاء نے قرآن کامعنوی طور پر ستیاناس کرکے سب غصب کرلئے۔ فتاویٰ کی کتابوں سے جاہلانہ،ظالمانہ، جابرانہ مسائل دیکھ لئے جائیں تو عام مسلمان بھی یہ جعلی اور انسانیت کش اسلام مسترد کردے گا۔ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہے مگر خواتین کی عزتوں کو آگ لگاکر مسلم ممالک اوردنیا بھرمیں اسلامی تعلیم کو انتہائی بدنام کرکے رکھا ہواہے ۔
رسول ۖ کا خواب دین کا غلبہ آزمائش ہے۔ حلالہ سے فقہاء نے اسلام کو دو انتہاؤں پر پہنچادیا۔ میاں صلح چاہتے ہیں تو فقہاء حلالہ کو رکاوٹ بناتے ہیں اور دوسری طرف عورت خلع چاہتی ہے مگر فقہاء فتویٰ نہیں دیتے۔ نکاح و لونڈی میں عورت پر جبر اوردنیا میں مظالم کے خلاف قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے لیکن فرشتوں کو اللہ اجازت نہیں دیتا تو پھر انسانوں کی مغفرت کیلئے دعا کرتے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے لکھا”قریب تھا کہ فرشتوں کے بوجھ سے آسمان گرجاتا” حالانکہ سودکے بوجھ سے دنیا کا نظام گر سکتا ہے مگر اصل رکاوٹ مسخ شدہ اسلام ہے۔
عورت اور انسانی حقوق کا چند نکاتی چار ٹر دنیا میں بالکل عام کرنا ہوگا۔
1: اسلام سے پہلے جنگوں میں ، بردہ فروشی اور مزارعت کے ذریعے غلامی کا نظام اتنا عام تھا جیسے آج فارمی مرغیاں بازار میں عام بکتی ہیں۔ اسلام کا پیغام دنیا میں انسانوں کی غلامی ختم کرکے صرف اور صرف اللہ کی غلامی کا نظام تھا۔
A:نبی ۖ نے عورتوں اور غلاموں کے حقوق کاخیال رکھنے کا حکم فرمایا۔ اللہ نے انسانوں کو غلام بنایا تھااور نہ ہی غلام بنانے کا قرآن میں کوئی درس دیا ہے۔
B:آل فرعون نے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنایا۔اسلام نے جنگوں میں عورتوں پر ہاتھ اُٹھانا منع کردیا تو لونڈیاں بنانا کہاں جائز تھا؟۔
C: اسلام نے جنگی قیدی کو قتل کرنا، غلام یا لونڈی بنانا ، عمر بھر قید کرنا ختم کردیااور یہ واضح حکم دیا کہ ” ان کو احسان کرکے چھوڑ دو یا فدیہ لیکر چھوڑ دو”۔ سورہ محمدۖ
D: مزارعت ، سود ، جواء ، بردہ فروشی اور ذاتی دشمنی کا اسلام نے بالکل خاتمہ کردیا تھا، لوگ اپنی بیوی اور بچوں کو بیچ ڈالتے تھے اور اپنی آزادی کھو دیتے تھے۔
E:نبی ۖ نے فتح مکہ اور ابوبکر نے فتح شام کے موقع پر حکم دیا کہ عورتوں پر ہاتھ نہ اُٹھاؤ۔حضرت عمر نے فارس و روم کی فتح پر خواتین کولونڈیاں بناکر بیچ دیا ۔ ہاتھ اُٹھانا غلط تھا تو شاہ فارس کی بیٹیوں کو مال غنیمت بنانا کیسے جائز ہوسکتاتھا؟۔
F: سلطان عبدالحمیدکی ساڑ ھے چار ہزار لونڈیاں تھیں۔ مغل کی حرم سراؤں میں سینکڑوں لونڈیاں تھیں۔ اسلام کا مقصد عوام کو غلام بنانانہیں بلکہ آزاد کرانا تھا۔
G: افغان طالبان بھی حضرت عمر سے ملاعمر تک کے اسلام کو نافذ کرنے کا اعلان نہیں کرسکتے ہیں اسلئے کہ یہ مسخ شدہ شرمناک اسلام دنیا کیلئے قابلِ قبول نہیں ۔
H: فارس کے شاہ کی بیٹیاں شہربانوودیگر دو بہنیں مال غنیمت میں لائی گئی تھیں۔ کیا آج مسلمان امریکی ،یورپی اورہندوستانی خواتین کولونڈیاں بنائیں گے؟۔
2: اسلام نے یہود کیساتھ میثاق مدینہ اور مشرکینِ مکہ کیساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرکے اندرونی وبیرونی قوتوں کیساتھ امن قائم کرنے کا عالمی پیغام دیا۔
A:رسول اللہ ۖ کی مجبوری نہ تھی کہ مشرکینِ مکہ اور یہود مدینہ سے زندگی بھر کیلئے معاہدہ کرتے ،اگر وہ معاہدہ نہ توڑتے تو نبیۖ اسی پرہمیشہ قائم رہتے۔
B: دجال ابن صائد نے کہا کہ آپ امیوں کے رسول ہیں اور میں جہاں کا رسول ہوں۔ نبی ۖ سے قتل کی اجازت مانگی توفرمایاکہ اسکے قتل میں کوئی خیر نہیں۔
C: اللہ نے نیکی، تقویٰ اور لوگوں میں صلح کرانے سے نہیں روکا ۔ فرقہ واریت کے علم بردار لوگوں اور میاں بیوی کے درمیان صلح میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
D: کافر سمجھتا ہے کہ اگر مسلمان کا بس چلے تو ہماری عورتوں کو لونڈیاں بنادے گا۔ مسلمانوں میں حلالہ کی لعنت جاری ہے تو پھرلونڈیاں بنانے میں کیا برائی ہے؟۔
E: اسلام کواجنبیت سے نکال کر دین فطرت کو بحال نہ کریں گے تو یہ اسلام دشمنی اور قرآن جلانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اصل اسلام کی نشاندہی کرنی ہوگی۔
F: مدارس گمراہی کے قلعے ہیں، مفتی بغیر علم کے فتویٰ دیکرخود گمراہ اور عوام کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ علماء حق جلدی مذہبی تجارت چھوڑ کر علم اور قرآن کو رائج کریں۔
G: جو گمراہی میں پکے ہوچکے ہیں اور زیادہ عمر کی وجہ سے راہِ راست پر نہیں آتے تو ان کو چھوڑ دیں، وہ اپنی کمزوری اور مفاد کی وجہ سے حق کو مانناموت سمجھتے ہیں۔
H: ہمارے پیش نظر صرف حلالہ وطلاق اور عورت کے حقوق کے مسائل نہیں بلکہ وہ اسلامی انسانی انقلاب چاہتے ہیں جس سے دنیا کا پورانظام جلد بدل جائیگا۔
3: قرآن نے عورت کو خلع کا بھرپور طریقے سے مکمل حق دیا ہے لیکن فقہاء نے قرآن میں معنوی تحریف کرکے عورت کو خلع کے حق سے بالکل محروم کردیا۔ فرمایا: ۔”اے ایمان والو! عورتوں(بیویوں) کے زبردستی مالک مت بن بیٹھو۔ اور نہ انکو اسلئے روکو کہ جو کچھ تم نے دیا اس میں سے بعض واپس لو مگر جب وہ کھلی فحاشی کی مرتکب ہوں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تمہیں بری لگیں اور اللہ اس میں بہت سارا خیر پیدا کرے” ۔ (آیت19سورہ النساء )
A: جیسے شوہر طلاق کے الفاظ سے عورت کو اپنی زوجیت سے باہر کرسکتا ہے تو اسی طرح بیوی بھی اپنے شوہر کا گھر اعلانیہ چھوڑ کر خلع کا راستہ اختیار کرسکتی ہے۔
B: دورِ جاہلیت میں بھی عورت کے خلع کا اختیار غصب تھا۔ اسلام نے عورت کو خلع کا اختیار دے دیا لیکن پھر فقہاء نے اس حق سے عورت کو محروم کردیا ہے۔
C: بدمعاش مذہبی طبقہ عورت کو خلع کا حق نہیں دیتااسلئے کہ معتقدکی بیٹیاں ان کو قریب سے جانچنے کے بعد خلع چاہتی ہیں تو مظلوم طبقے کو قابومیں رکھتا ہے ۔
D: مغرب نے مذہبی طبقات کے غیرفطری دین اور مسائل کو ختم کردیا۔ جمہوری پارلیمنٹ مسائل حل کرتا ہے اسی طرح پاکستان نے عورت کو خلع کا حق دے دیا ۔
E: جس دن سرکاری سطح اور الیکٹرانک میڈیا چینلوں پر یہ ڈبیٹ شروع ہوئی کہ علماء قرآن وسنت کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں یا نہیں؟تو بڑا انقلاب برپا ہوگا۔
F: قرآن نے عورت کو خلع کا حق دیااور حق مہر کے علاوہ شوہر کی دی ہوئی چیزوں میں وہ چیزیں جو لے جانے کی ہیں وہ بھی شوہر واپس نہیں لے سکتا ہے۔
G: فقہاء نے معاملہ اتنا گھمبیر کردیاکہ اگر شوہر طلاق کے بعد مکر جائے۔ عورت کے پاس دوگواہ نہ ہوں اور خلع بھی نہ دے توپھر عورت حرامکاری پرمجبور ہوگی۔
H: مرد کو حق ہو کہ جب چاہے عورت کو طلا ق دیکر فارغ کرے اور عورت کا کوئی حق نہ ہو، بچے بھی چھین لئے جائیں تو عورت کا نکاح سے بڑا رسک کیاہوگا؟۔
4: اللہ نے نکاح کے بعد عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ دیامگر فقہاء نے خلع کا حق چھین لیا جس سے نکاح عورت کیلئے بدترین غلامی بن گئی ،وہ غیر فطری مسائل فقہ کے نام پر گدھے فقہاء نے گھڑلئے کہ اگر عوام کے سامنے وضاحت سے پیش کئے جائیں تو مولوی منہ چھپاتے پھریں گے۔ سورہ النساء آیت:19میں خلع پرشوہر کی دی ہوئی منقولہ اورالنساء آیات:20،21میں طلاق کے بعد عورت کو دی ہوئی منقولہ وغیر منقولہ اشیاء کامکمل حق حاصل ہے ۔جس سے یہ واضح ہے کہ خلع میں عورت کے حقوق کم اور طلاق میں بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
A: شوہر زبردستی بیوی کا مالک نہیں بن سکتا جو چیزیں دی ہیں۔کپڑے ، گاڑی ، زیورات وغیرہ ان میں بعض واپس نہیں لے سکتا ہے مگر فحاشی کی صورت میں۔
B: عورت خلع لے تو بھی وعاشروھن بالمعروف حسن سلوک کا حکم ہے لیکن مذہبی گدھا طبقہ یہ نہیں سمجھتا کہ جب خلع کا حق چھین لیا تو حسنِ سلوک کیا ہوگا؟۔
C: خلع کی صورت میں عورت ہوسکتا ہے کہ بری لگے لیکن اللہ نے فرمایا کہ ہوسکتا کہ وہ تمہیں بری لگیں مگر اللہ اس میں تمہارے لئے بہت سارا خیر پیدا کرے۔
D: عورت کو خلع کا حق نہ ہو تو پھرعزت فالودہ ہوگی، آشناء سے ملکر شوہرکو بھی قتل کریگی اور سیماحیدر کی طرح بھاگ کرملک ملت کی ذلت افزائی بھی کرے گی۔
E: طلاق پر عورت شوہر کی دی ہوئی منقولہ غیرمنقولہ جائیدادکی مالکن ہو، گھر سے بے گھر نہ ہو، عورت کو جتنا صدمہ طلاق سے پہنچے گا تو شوہربھی بہت کچھ بھگتے گا۔
F: شوہر جب چاہے ، جتنے بچوں کو جنوانے کے بعد چاہے ، طلاق دے، گھر سے نکالے، بچے چھین لے؟ ، عورت کو تمام حقوق سے محروم کردے یہ اسلام نہیں!۔
G: یہودی علماء اور عیسائی پادریوں نے اپنے مذاہب ایسے بگاڑ دئیے تو مغرب والوں نے ان کو گرجے تک محدود کرکے جمہوری بنیاد پر حقوق کی بنیاد رکھ دی ۔
H:جب علماء ومفتیان نے عورت سے خلع کا حق چھین لیا اور بچپن کی شادی جائز قرار دے دی تو پاکستان نے عائلی قوانین کے ذریعے ملاؤں کو مسترد کردیا ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی طبقہ قرآن کے واضح قوانین کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا ہے ورنہ اسلام نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں نافذہوچکا ہوتا۔
5:اگر قرآن کی معنوی تحریف مسترد نہ کریں تو انسانوں کو جانور سے بدتر بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ النساء آیت19میں عورت کو خلع کا حق اور مالی تحفظ دیا۔ مدارس کی تعلیم انتہائی گمراہ کن ہے کہ سورہ البقرہ آیت229میں دو مرتبہ طلاق کے بعد خلع ہے۔ حنفی مسلک میں البقرہ آیت230کا تعلق خلع سے ہے لیکن اس کے باوجود حلالہ کافتویٰ اپنے اصولی تعلیم کے خلاف دیتے ہیں۔
قرآن میں شجرہ ملعونہ حلالہ کا معرکة الآراء مسئلہ ہے۔ اسلامی غلبہ کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے۔ تبلیغی جماعت لاکھ ورد کرتی پھرے کہ اللہ کے حکموں میں کامیابی کا یقین ہمارے دلوں میں آجائے لیکن جب بات آتی ہے اس حکم کی کہ جس میں بیوی چھوڑنی پڑے یا حلالہ کی لعنت کروانی پڑے تو اپنا اعتماد کھو دیتی ہے کہ دونوں صورتوں میں اللہ کے حکم پرکامیابی کا یقین کبھی نہیں آسکتا ہے۔
طالب علم مشکل سوال اُٹھاتاہے، جواب نہ ملے تو حل خود تلاش کرتاہے۔ اساتذ ہ کرام سے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور انوارالقرآن آدم ٹاؤن نیوکراچی اور دیگر مدارس میں یہی سیکھا اور اسی وجہ سے کامیابیوں کے زینے پر چڑھ گئے۔
سوال ہے کہ اللہ نے فرمایا ” اللہ کواپنے اَیمان کیلئے ڈھال مت بناؤکہ نیکی کرو، تقویٰ اختیار کرو اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ”۔ (البقرہ:224) اللہ کہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان صلح کیلئے اللہ کو رکاوٹ مت بناؤ تو دوسری طرف یہی اللہ کہتا ہے کہ ” اگر اس نے طلاق دیدی تو اس کیلئے حلال نہیں ہے جب تک وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرلے”۔ اتنی اہمیت والے رشتے میں رکاوٹ کا ذریعہ بن جائے تو اس سے زیادہ تضاد کیا ہوسکتا ہے؟۔ بینوا توجروا۔
اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی صورت نہیں کہ جس میں صلح کرنے کو اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے درمیان حلال نہیں قرار دیا ہو۔ اسلئے کہ آیت230البقرہ کی طلاق سے پہلے وہ صورت واضح ہے کہ جس میں دونوں کا پرواگرام واضح ہو کہ انہوں نے صلح نہیں کرنی ہے۔ جب صلح نہیں کرنی ہے تو پھر اس جملے سے مرد اور عورت کو اپنی اپنی فطرت کے مطابق وہ ترغیب دینا ہے کہ جس کی معاشرے کوبہت سخت ضرورت ہے۔ مرد کیلئے ترغیب یہ ہے کہ جب وہ اس کی بیوی نہیں رہی تو پھر اس کو اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کرنے دو اور عورت کو یہ ترغیب ہے کہ جب شوہر نے چھوڑ دیاہے تو پروین شاکر مت بنو۔
جب آیت228البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کیا کہ عدت میں باہمی صلح کی بنیاد پر رجوع ہوسکتا ہے۔ آیت229میں دہرایا کہ معروف رجوع ہوسکتا ہے۔ پھر آیت231اور232میں فرمایا کہ عدت کی تکمیل کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی دوبارہ نکاح میں رکاوٹ نہ بنو ،جب وہ دونوں آپس میں معروف طریقے سے رجوع پر راضی ہوں۔ جسکے بعد یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ہے کہ اللہ کسی صورت میں بھی رجوع کیلئے رکاوٹ ہیں۔ البتہ طاقتورشوہرکے اختیار کو ختم کرنے کی اللہ نے ہر ممکن وضاحت کی۔
6: دورجاہلیت کی ایک ایک رسم کا اللہ نے خاتمہ کردیا جس میں طاقتور مرد سے بے بس عورت کو بچانے کیلئے زبردست متبادل قوانین رائج کردئیے تھے۔ پہلے لوگ سمجھتے تھے کہ میاں بیوی صلح چاہتے ہوں تو بھی اللہ کی وجہ سے ان پر صلح کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اللہ نے آیت222البقرہ سے طلاق کے معاملات کا مقدمہ شروع کردیا۔ جس میں سب سے زیادہ حیض وطہر کا معاملہ ہے اور عورت کی اذیت اور اس سے توبہ کرنے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ لیکن جب اذیت نظر نہیں آتی تو توبہ کس بات سے دکھائی دے گی۔ پھر آیت223البقرہ کے معانی پر بھی اختلافات اسلئے ہوئے کہ عورت کی اذیت کے مسئلے کو بالکل نظر انداز کیا گیا۔
A: کچھ الفاظ پر لوگ سمجھتے تھے کہ تعلق حرام ہوا۔ فرمایا:اللہ تمہیں لغو عہدوپیمان سے نہیں پکڑتا مگر جو تمہارے دلوں نے کمایا اس پر پکڑتا ہے۔(آیت225)
B: ایک مذہبی مسئلہ یہ تھا کہ اگر عورت کو زبان سے طلاق نہیں دی تو وہ زندگی بھر بیٹھی رہے گی۔ اللہ نے ایلاء کی عدت چار ماہ رکھ دی ۔ (آیت:226البقرہ)
C: اگر طلاق کا عزم تھا تو یہ دل کا گناہ ہے اسلئے ایک ماہ کی اضافی عدت عورت گزارے گی (آیت:227البقرہ)یہ آیات کئی گھمبیر مسائل کاواضح حل ہیں۔
D: جمہورفقہاء کے نزدیک ایلاء میں چار ماہ بعد عورت طلاق نہ ہوگی اسلئے کہ شوہر نے طلاق کا حق استعمال نہیں کیا، احناف کے نزدیک طلاق ہوجائے گی۔
E: مقصد عورت کو اذیت سے بچانا تھا اور فقہاء میں اختلاف ہوا کہ شوہر نے حق استعمال کیا یا نہیں ؟۔مقصد مرگیاتو واضح قرآن بیچاروںکو سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔
F: یہ کوئی معمولی اختلاف نہ تھا کہ ایک فریق کہے کہ چار ماہ بعد عورت طلاق ہے اور دوسرا کہے کہ نکاح زندگی بھر بدستور قائم ہے۔ اتنا بڑا تضاد کیسے ہوسکتا ہے؟۔
G:جب نبیۖ نے ایلاء کیا تو اللہ نے فرمایا کہ ازواج مطہرات کواختیاردیں اگر وہ رجوع نہ کرنا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہے تاکہ امت مسلمہ کو سبق مل جائے۔
H:ایلاء میں شوہررجوع کرے مگر عورت راضی نہ ہو تو طلاق یا خلع کے حقوق ہونگے؟۔اس پر بحث اس وقت ہوتی جب بنیادی مسائل واضح کئے جاتے ۔
8:دورِ جاہلیت میں دومسائل بہت جاہلانہ تھے ،ایک ساتھ تین طلاق کے بعد حلالہ اور ایک طلاق کے بعد عدت میں شوہر کو غیرمشروط رجوع کا حق تھا۔ اللہ نے دونوں مسائل سے آیت228البقرہ کی وضاحت سے جان چھڑا دی۔
A:عدت کے تین مراحل ہیں…… عدت میں انکے شوہر ان کو لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں،بشرط یہ کہ اصلاح چاہتے ہوں۔ اس آیت میں اللہ نے طلاق سے رجوع کیلئے طلاق کے عدد کو چھوڑ کر عدت میں صلح واصلاح کی شرط پر اجازت دی۔ جس سے حلالہ کا تصور ختم ہوا ۔ شوہر کے غیر مشروط رجوع کا حق بھی ختم ہوا۔
B: فقہاء نے کبھی یہ دھیان نہیں دیا کہ رجوع کا تعلق اصلاح کی شرط پر عدت کیساتھ ہے۔ ورنہ حلالہ کی لعنت کا خاتمہ اور عورت کے اختیارکا حق واضح تھا۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں
C: طلاق دومرتبہ ہے پھرمعروف طریقے سے روکنا یا احسان کیساتھ چھوڑ نا ہے ّ(آیت229)۔ فقہاء نے معروف رجوع کی جگہ منکر رجوع ایجاد کیا۔احناف کے نزدیک غلطی سے شہوت کی نظر پڑگئی تو رجوع ہوگیا اور شافعی کے نزدیک اگر نیت نہ ہوتو جماع سے بھی رجوع نہیں ہوگا۔ عورت کا اختیار ہی سلب کرلیا گیا۔
D: جن آیات کی بنیاد پر اسلام کی معاشرتی نرسری میں تناور پھل داردرختوں کی بہار آنی تھی ان کو فقہاء نے روند ڈالا ہے تو امت مسلمہ اچھی قوم کیسے بنے گی؟۔
E: آیت228میں عدت کے3ادوار ہیںاور آیت229میں3مرتبہ طلاق کا ذکر ہے۔ احادیث میں واضح ہے کہ3مرتبہ طلاق کا تعلق عدت کے3مراحل سے ہے اور آیت229میں تسریح باحسان ہی قرآن میں تیسری طلاق ہے ۔
F: تین مرتبہ طلاق کے بعد اللہ نے فرمایا: تمہارے لئے حلال نہیں کہ جو کچھ بھی ان کو دیا ہے کہ اس میں سے کچھ واپس لو(منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کچھ بھی) مگر دو شرائط کے ساتھ پہلی یہ کہ دونوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیزواپس نہ کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے( ناجائز جنسی تعلق سے) اور دوسری شرط یہ کہ فیصلہ کرنے والے بھی یہی سمجھیں کہ اگر وہ دی ہوئی چیز واپس نہیں کی گئی تو دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو عورت کے فدیہ کرنے میں پھر دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے ۔یہ اللہ کی حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اورجو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ (آیت229البقرہ )
G: ” اگر پھر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” (آیت230البقرہ)۔ حنفی مسلک ، حدیث،قرآن اور ابن عباس کے قول (ابن قیم نے زادالمعاد )کا تقاضہ یہی ہے کہ اس طلاق کو اس سے پہلے کے ذکر کردہ صورتحال سے مشروط کیا جائے جس کامقصد حلالہ نہیں بلکہ اس عورت کو پہلے شوہر کی دسترس سے باہر نکالنا ہے۔تاکہ وہ پابندی نہ لگاسکے۔
اللہ کی حکمت بالغہ دیکھئے کہ قرآن میںبار بار عورت کا حق واضح تھا اوراس کا کوئی اختیار نظر نہیں آتاتھا مگر حلالہ ملعونہ کی ہڈی مذہبی طبقہ کے سامنے پھینک دی تو عورت کی تذلیل کیلئے ساری حدیں پھلانگ دیں ۔ واللہ خیرالماکرین حیلہ ساز لوگ اپنی چال چلتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز