ہم قرآن و بائبل پر پابندی لگائیں، ہندو
جنوری 7, 2024
ہم قرآن و بائبل پر پابندی لگائیں، ہندو
غیر ہندی مذاہب میں عورت کا احترام نہیں ہندی مذاہب میں ہے۔
ہندوستان بہت مقروض ہے کرپشن بڑا مسئلہ ہے عوام کو ٹیکس دینا ہوگا
انڈین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشوینی اُپادھیائے نے ویڈیو بیان میں کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر)نہیں ہے سیاستدانوں نے ہمیں پڑھا دیا ہے اور ہم نے اس کو سن لیا ہے۔ دین کیلئے انگریزی میں کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔Religionدھرم (دین) نہیں ہوتا۔Religionپنتھ (مذہبی فرقہ) ہوتا ہے۔اگر بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر) ہوتا تو نہ ہائیکورٹ کے جج کی کرسی پرلکھا ہوتا ستیم، شیوم، سندرم (حق، خوبی، حسن) اور نا سپریم کورٹ کے جج کی کرسی پر لکھا ہوتا ”مذہب اول ہے“ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، بھارت دھرم نرپیکش (سیکولر)نہیں ہے بھارت پنتھ نرپیکش (مخصوص فرقہ کی نمائندگی کرنیوالا) ہے۔ اب سوال یہ آیا کہ وید پڑھا سکتے ہیں تو بائبل قرآن کیوں نہیں پڑھاسکتے؟۔ سردار جی شاید یہی بات کہنا چاہتے ہیں۔ نہیں کہہ پارہے میں کہہ دیتا ہوں۔ بالکل نہیں پڑھا سکتے۔ بائبل قرآن نہیں پڑھاسکتے کیونکہ بائبل میں سبھی انسانوں کو ایک جیسا احترام اور عزت نہیں دی جاتی لیکن ہمارا تصور ہے کہ سب ایک جیسے ہیں۔ بائبل میں کرسچن اور غیر کرسچن کے درمیان فرق ہے اسلئے نہیں پڑھائی جاسکتی۔ قرآن نہیں پڑھائی جاسکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اسلام اور غیر اسلام، مسلم اور غیر مسلم کو برابر نہیں مانا گیا، اس میں فرق کیا گیا ہے۔ وید پران یہ نہیں کہتا ہے آپ سکھ ہو، جین ہو، ہندو ہو، کچھ نہیں کہتا۔ وہ تو کہتا ہے کہ ستانگ یوگ (ستانگ مطلب سات ستون۔یوگ مطلب اتحاد) پر عمل کرو۔مسلم ہو،قوانین پر عمل کرو۔ ذہنی اور جسمانی طور پر مثبت کام کرو۔ اخلاق، کردار، نیکی، شرافت، سچائی، امانت، دیانت اورایماندار ی کرو۔ اسی طرح کی باتیں ہیں اسلئے وید پران پڑھایا جا سکتا ہے۔ آپ اس کو دو طریقے سے سمجھئے۔ دنیا میں 11سو مذاہب ہیں اور بھارت میں دو طریقے کے مذاہب ہیں۔ ایک بھارت کا اصل مذہب اور دوسرا غیر ملکی مذہب۔ بھارت میں دو طریقے سے فرقے ہیں دھرم (دین) نہیں دین تو پوری دنیا میں ایک ہی ہے۔ سکھ ازم، جین ازم، بدھ ازم بھارت میں شروع ہوا اس کو کہتے ہیں انڈین مذہب۔ عیسائیت، اسلام یہ غیر ملک میں ہوا اسلئے اس کو کہتے ہیں غیر ملکی مذہب۔ انڈین مذہب اور غیر ملکی مذہب میں فرق کیا ہے اس کو سمجھئے۔ انڈین مذہب جین ازم، بدھ ازم، سکھ ازم اور ہندو ازم میں عورتوں کو بہت عزت و احترام دیا گیا ہے۔ عورتوں کو(پوجنی) مقدس مقام حاصل ہے۔ کسی بھی غیر ملکی مذاہب میں عورت کو یہ تقدس حاصل نہیں ہے۔ انڈین مذہب میں انسانوں کے درمیان تفریق نہیں کی گئی ہے۔ گروواڑیں میں کہیں لکھا ہوا ہے آپ مجھے بتاؤ؟۔ جو سکھ فرقہ مانے وہ تو ٹھیک جو سکھ نہ مانے وہ غلط ہے کہیں لکھا ہے؟۔ گروگرنتھ صاحب میں کہیں لکھا ہوا ہے کیا؟ نہیں لکھا ہوا ہے۔، اس میں لکھا ہوا ہے۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں دھرم (دین) ایک ہے۔ پنتھ (مذہب، فرقے) الگ الگ ہیں۔ لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سب دھرم ایک جیسے ہیں بالکل غلط بات ہے جب سب کی کتابوں کی تعلیمات الگ الگ ہے، کتابوں میں اونچ نیچ کی تفریق ہے، کچھ کتابوں میں اچھوت اور غیر اچھوت کی باتیں ہیں تو سب ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ ہاں ہندو ازم، جین ازم، سکھ ازم، بدھ ازم کی تعلیم تقریباً ایک جیسی ہے۔ نہ اس میں کسی کو مذہب تبدیل کرنا سکھایا گیا ہے۔ نہ اس میں یہ سکھایا گیا ہے کہ جو نہ مانے اس کو قتل کردو۔ کہیں یہ نہیں لکھا کہ جو نہیں مانتا اس کو کیسے بھی کرکے دھوکہ دے کر، لالچ دے کر پیار سے ان کو کنورٹ کرکے لاؤ۔ نہ سکھ ازم میں لکھا ہے نہ کہیں جین ازم میں لکھا ہے نہ بدھ ازم میں لکھا گیا ہے نہ سنتن دھرم (ابدی مذہب) میں لکھا ہواہے۔ اسلئے بھارت دھرم نرپیکش نہیں ہے بھارت پنتھ نرپیکش ہے۔ اور یہ باتیں ہمیں اسلئے نہیں پتہ ہیں کیونکہ ہم لوگوں کو اسی لئے وید پران کو پڑھانا ضروری ہے۔ ہمارے بچوں کو پتہ رہے ہمارے پاس ہر چیز کا جواب ہو۔ ہم کہیں غلط قدم نہ اٹھالیں۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بھارت میں سناتن شکشا(قدیم تعلیم، جس کے اصول میں ایک خدا کی عبادت کرنا، نیک اعمال کرنا، برے اعمال سے بچنا، تمام مخلوقات سے محبت کرنا، مشکلات میں صبر کرنا اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا شامل ہے۔) لاگو ہو۔ سناتن شکشا لاگو ہوتی تو نہ آپ مجھ سے یہ سوال کرتے نہ میں آپ کو جواب دیتا۔
اس وقت بھارت پر ٹوٹل150لاکھ کروڑ کا قرضہ ہے۔70لاکھ کروڑ کا قرضہ صوبوں پر ہے اور80لاکھ کروڑ کا قرضہ وفاق پر ہے۔6لاکھ کروڑ اتر پردیش پر ہے،4لاکھ کروڑ مدھیا پردیش پر ہے، کوئی ایسا صوبہ نہیں جو گھاٹے میں نہیں ہے۔ دلی جو کہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ مفت خوری چل رہی ہے وہ بھی50ہزار کروڑ کے قرضے میں ہے۔ کیرالہ جیسے چھوٹے صوبے پر3لاکھ کروڑ کا قرضہ ہے۔3لاکھ کروڑ کا قرضہ آپ کے چھتیس گڑھ پر ہے۔4لاکھ کروڑ کا قرضہ بہار پر ہے۔ سارے صوبے قرضے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اب اُدھار لے کر گھی پینا یا اُدھار لیکر مٹھائی کھانے سے کیا حالت ہوگی یہ توآپ اپنے خاندان میں سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں موج مستی ہورہی ہے گھر کے اوپر قرضہ بھی ہے اُدھار چڑھا جارہا ہے پھر بھی بڑی موج مستی ہورہی ہے تو گھر کی کیا حالت ہوگی؟ گھر بچے کا کیا؟۔ جب گھر نہیں بچے گا تو ملک کیسے بچے گا؟۔ ہمارے یہاں مفت خوری روکنے والی جو پٹیشن ہے وہ تین ججوں کو ریفر ہوگئی ہے۔ ہم نے اس میں یہ کہا کہ جو چیزیں حکومت عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے دے رہی ہو وہ تو مفت میں ہوسکتی ہے۔ تعلیم مفت میں ہوسکتی ہے، سڑک میں چلنا مفت میں ہوسکتا ہے، پانی بھی ایک طرح سے مفت میں ہوسکتا ہے حالانکہ پانی مفت میں نہیں دینا چاہئے کیونکہ پانی کی بربادی زیادہ ہوتی ہے۔ پانی کا استعمال محدود نہیں ہے کہ اس کو مفت میں دے دیا جائے۔ کچھ لیٹر دیا جاسکتا ہے کہ غریب آدمی کو لیکن مفت میں نہیں ہونا چاہیے۔ اور ویسے بھی ہمارے پاس4%پانی ہے۔ یہ بہت ہی اہم معاملہ ہے اسلئے سپریم کورٹ بھی ایگری ہے اسلئے دو ججوں کی بنچ کے بعد تین ججوں کو ریفر کردیا۔ اور پارلیمنٹ میں بھی اس کا شور ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی اس کو مفت کی ریوڑی قرار دیا۔ ابھی سیاستدانوں کو لگتا ہے کہ عوام مفت خور ہے۔ جو ٹیکس نہیں دیتا اس کو پریشانی نہیں۔ اپنے بچے کو5سو کی نوٹ دیتے ہو اگلے دن پھر5سو مانگتا ہے پوچھتے ہو ناکہ کل5سو دیا کیا کیا؟۔ اور ہر سال لاکھوں روپے ٹیکس دے رہے ہو اور پوچھ ہی نہیں رہے ہو منتخب ہونے والے نمائندے اور پارلیمنٹ سے میرے ٹیکس کے پیسے کا ہو کیا رہا ہے یہ؟۔یہ میرا پیسہ بربادی میں کہاں جارہا ہے؟۔ اس ملک میں 10کروڑ ٹیکس پیئر ہوچکے۔ بدعنوانی اور کرپشن ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر بھی بھارتی کورٹ میں ایک پٹیشن چل رہی ہے۔100روپے سے بڑے نوٹ کی ضرورت نہیں بھارت میں۔ لیکن جھوٹ جرم ہوجائے تو بس آدھی پریشانیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ صرف جھوٹ بولنے اور جھوٹا ایفی ڈیوٹ دینے پر، جھوٹا بیان دینے پر سزا ہو۔
انڈین سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اشوینی اُپادھیائے کو جواب: نوشتہ دیوار
وکیل صاحب نے جتنی باتیں کی ہیں ان میں بہت بڑے حقائق ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس نے ہندو مذہب کے ویدوں کو دین قرار دیا ہے اور باقی عیسائی، اسلام، یہودیت اور سکھ و بدھ مت وغیرہ کو مذاہب قرار دیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وکیل صاحب نے ہندوستان میں داخلی طور پرپروان چڑھنے والے مذاہب ہندو، بدھ مت، جین اور سکھ کو ایک الگ حیثیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں خواتین کو بہت احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں خواتین کو اس طرح کا احترام بالکل بھی حاصل نہیں ہے۔
تیسری بات یہ کی ہے کہ اسلام اور عیسائیت وغیرہ میں یہ مسئلہ ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے اندر شمولیت کی دعوت دیتے ہیں جبکہ ہندوستان میں پیدا ہونے والے ملکی مذاہب دوسروں کو اپنے مذہب کی دعوت نہیں دیتے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں پیدا ہونیوالے مذاہب انسانوں میں کوئی فرق نہیں رکھتے جبکہ دوسرے رکھتے ہیں۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ہندوستان میں قرآن اور بائبل پر پابندی لگانی چاہیے جبکہ ویدوں کو پڑھانا چاہیے۔
وکیل صاحب کی ان تمام باتوں میں بہت وزن ہے اور ان ساری باتوں کو ایک ایک کرکے اسلام اور ویدوں کا موازنہ کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ جس طرح وید نے خود کو مذہب نہیں دین کہا ہے اور ہندو اس کو دین سمجھتے ہیں تو یہی بات سب کو قرآن میں بھی مل جائے۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ دین ایک ہے البتہ جب لوگ دین چھوڑ کر مذہب بنالیتے تھے تو پھر اس دین کی تجدید نئے نبی کے ذریعے سے ہوجاتی تھی۔ ویدوں میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ برہمن اور اچھوت میں فرق رکھا جائے مگر جب ہندوؤں نے دین کو مذہب بنادیا تو بہت سارے بگاڑ پیدا ہوگئے۔ اور ان بگاڑ میں نسلی تفریق کے علاوہ عورتوں کا بیوہ بن جانے کے بعد زندہ جلادینا اور انگریز سرکار کی طرف سے اس پر مہربانی کرکے پابندی لگائی گئی تو آج اس کے بال بھی منڈوائے جاتے ہیں جو عالمی منڈیوں میں بکتے ہیں۔
ہم طعنہ نہیں دے رہے ہیں جو حال ہندوؤں نے ویدوں کا کیا ہے وہ مسلمانوں نے قرآن و سنت کا کیا ہے۔ اگر اپن مل جائیں تو وید اور قرآن ایک ہی دین ہیں جن میں صرف زبان کا فرق ہے۔ وید نوح علیہ السلام پر نازل ہوا تھا، قرآن آخری نبی حضرت محمد ﷺ پر جس کا ہندوستان کی مشہور شاعرہ لتا حیاء نے بار بار ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرح جن جن مذاہب نے اپنا دین بگاڑا ہے ان کو ہم مل جل کر قرآن اور ویدوں کے ذریعے سے مذاہب سے ہٹ کر ایک دین میں لوٹا سکتے ہیں۔ و السلام
اخبار نوشتہ دیوار کراچی،شمارہ جنوری 2024
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ