ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیں خانہ کعبہ ہے
اکتوبر 17, 2023
ہمارا قبلہ اوّل بیت المقدس نہیںخانہ کعبہ ہے
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے حضرت آدم کے قبلے کی بنیاد پر دوبارہ نبی ۖ کیلئے کعبہ تعمیر کیا
اللہ نے فرمایا: ان اول بیتٍ وضع للناس للذی ببکة مبٰرکًا و ھدًی للعٰلمینO(آل عمران)
رسول اللہ ۖ نے مکہ مکرمہ میں بعثت کے بعد 13سال گزارے۔ جب قرآن کہتا ہے کہ پہلا گھر جو لوگوں کیلئے بنایا گیا مکہ میں ہے جو مبارک ہے اور لوگوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ تو مسلمانوں کیلئے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ اس کے باوجود مسجد اقصیٰ یا بیت المقدس کو قبلہ اول کہیں۔ البتہ جب رسول اللہ ۖ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو شروع میں آپ ۖ کا یہ معمول تھا کہ اہل کتاب کے مطابق ان چیزوں پر چلتے تھے جس میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ انبیاء کرام کی شریعتوں کا منہاج ہر دور میں بدلتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت یوسف اور بہت سارے انبیاء کرام حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے اور ان کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ نبی ۖ کی خواہش یہ تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا جائے۔ جس کا قرآن میں بہت واضح الفاظ میں تذکرہ ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حرم پاک خانہ کعبہ کو قبلہ بناؤ۔ جس پر شروع میں یہود و نصاریٰ کو تکلیف بھی پہنچی کہ ان کے قبلے کو کیوں چھوڑ دیا گیا ہے؟۔ انہوں نے بیوقوفی کرتے ہوئے سوالات بھی اٹھائے کہ کیوں قبلہ تبدیل کیا گیا ہے؟۔ جس کا اللہ نے زبردست جواب دیا ہے کہ مشرق اور مغرب کی طرف رُخ کرنا کوئی نیکی نہیں بلکہ تقویٰ اصل نیکی ہے۔ جس طرف اللہ کا حکم ہو اس کو قبلہ بنانا ہی عبادت ہے۔ یعنی اصل چیز کوئی خاص مقام نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔
جب مسلمانوں کو مشرکین مکہ کی طرف سے خطرات تھے تو اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کو مرکز بنانے کا حکم دیا۔ جونبی کریم ۖ نے فتح مکہ کے بعد بھی برقرار رکھا۔ جب مسلمانوں میں آپس کے فسادات ہوئے، حضرت عثمان کو مسند خلافت پر مدینہ میں شہید کیا گیا تو حضرت علی نے دار الخلافت کو کوفہ منتقل کیا۔ پھر بنو اُمیہ کے دور میں دار الخلافت شام کے شہر دمشق منتقل ہوا۔ اور پھر بنو عباس کے دور میں دار الخلافت عراق کے شہر بغداد منتقل ہوا۔ پھر خلافت عثمانیہ کے دور میں دار الخلافت ترکی کے شہر استنبول میں منتقل ہوا۔ سن1924میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان سے مولانا محمد علی جوہر اور انکے بھائی مولانا شوکت علی کی قیادت میں تحریک خلافت شروع ہوئی۔ جس میں ہندو بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں نے مشترکہ تحریک آزادی کانگریس کے پلیٹ فارم سے بھی لڑی ہے۔ انگریز نے جانے کا فیصلہ کیا تو ہندو کی اکثریت اور بہت سارے مسلمان چاہتے تھے کہ متحدہ ہندوستان تقسیم نہ ہو۔ مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کی زیر قیادت مسلمانوں کیلئے ایک الگ اور آزاد ریاست کی تحریک چلائی جس کی وجہ سے مشرقی بنگال مشرقی پاکستان بن گیا اور سندھ ، پنجاب، پختونخواہ اور بلوچستان پر مشتمل مغربی پاکستان بن گیا۔ پاکستان بنانے کی مثال اقبال کا ایک شعر تھا۔
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
قائد اعظم محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان مذہبی لوگ نہیں تھے اور جو علماء و مشائخ پاکستان کی تائید میں پیش پیش تھے ان میں ایک بڑا نام علامہ شبیر احمد عثمانی کا تھا۔ جن کے بڑے بھائی مفتی عزیز الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند کے رئیس دار الافتاء تھے ، جو جمعیت علماء ہند سے تعلق رکھتے تھے اور کانگریس کی حمایت کرتے تھے۔ جن کے ایک بڑے صاحبزادے مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے سن1938میں ”ندوة المصنفین” کی بنیاد رکھی۔ اور سن1964میں جمعیت علماء ہند سے الگ ہوگئے اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد رکھی۔ جن میں دیوبندی ، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ سب شامل تھے۔ مفتی عتیق الرحمن عثمانی کی صدارت میں دیوبندی،بریلوی، جماعت اسلامی اور اہل حدیث کے بڑے علماء کرام اور دانشوروں کا ایک سیمینار ”تین طلاق” کے موضوع پر احمد آباد شہر میں سن1973کو منعقد ہوا۔ مقالات میں دیوبندی اکابرین اور جماعت اسلامی کے مرکزی عہدیداروں نے اپنی تحقیقات میں یہ انکشاف کیا کہ کوئی ایک بھی ایسی معتبر روایت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ ہونا چاہیے۔ جبکہ قرآنی آیات کی معتبر تفاسیر بھی نقل کی گئیں۔ جن میں ایک ساتھ تین طلاق پر حلالہ کے خلاف دلائل دئیے گئے اور اہل حدیث حضرات تو ویسے بھی اپنا یہ مسلک نہیں رکھتے۔ ایک بریلوی مکتبہ فکر کے عالم دین نے حلالہ کے حق میں بات کی لیکن وہ بھی متفقہ اعلامیہ سے اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ یہ کوئی متفقہ مسئلہ نہیں ہے۔ جبکہ یہ سیمینار پاکستان لاہور سے اہل حدیث حضرات نے کتابی شکل میں چھاپہ ہے اور اس میں علامہ پیر کرم شاہ الازہری کی کتاب ”دعوت فکر” کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
مفتی عتیق الرحمن عثمانی کا سن1984میں انتقال ہوا اور اگر وہ ہماری تحقیقات کو دیکھ لیتے تو یقینا اس طرح سے تائید فرماتے جس طرح مفتی حسام اللہ شریفی مدظلہ العالی بھرپور طریقے سے حق ادا فرمارہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنے ”فتاویٰ عثمانی، جلد دوم” میں مفتی عتیق الرحمن سنبھلی کا ایک خط چھاپہ ہے اور اس کا جواب بھی دیا ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ عورت کا حق مہر شریعت میں کیا ہے؟۔ قرآن میں اس کو صدقہ بھی قرار دیا گیا ہے اور اجر بھی ۔ جس کے جواب میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا ہے کہ ”حق مہر میرے نزدیک ایک اعزازیہ ہے اور یہ میری ذاتی رائے ہے”۔ ساڑھے14سو سال سے کسی کو یہ خبر نہ ہوئی کہ حق مہر کی حیثیت شریعت میں کیا ہے؟۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی گاؤں میں جاہلوں کا بسیرا تھا اور اس میں ایک قدرے ہوشیار بھی رہتا تھا۔ ایک مرتبہ گاؤں میں کوئی ایسا پرندہ آیا جو پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ سب اس پر اپنے اپنے انداز سے عجیب و غریب تبصرے کررہے تھے۔ آخر میں ہوشیار کو بلایا گیا ۔ ہوشیار نے اپنا سر پکڑا اور اپنے ذہن پر پورا زور دینے کے بعد کہا کہ پہلے پہلے تو ہو نہ ہو لگڑ بگڑ ہے اور اگر لگڑ بگڑ نہیں ہے تو پھر جو بلا بھی ہے مجھے پتہ نہیں۔
جاہلوں میں ہوشیار پرندے کو لگڑ بگڑ سمجھ رہا تھا تو واقعی اس کی یہ بہت بڑی حماقت تھی کہ یہ پتہ بھی نہیں تھا کہ پرندہ الگ چیز ہے اور جانور الگ ۔ مفتی تقی عثمانی نے حق مہر کو اعزازیہ کہہ کر جاہلوں کے سرغنے کو بھی بڑی مات دے دی ہے اور اعزازیہ قرآن و سنت کی سمجھ کی وجہ سے نہیں کہا ہے بلکہ مدارس میں زکوٰة کے مال سے جلسہ تقسیم انعامات دیکھ کر حق مہر کیلئے اعزازیہ کا اندازہ لگایا ہے۔ حق مہر کو سمجھائیں گے تو پھر بیت المقدس کی بات بھی کچھ نہ کچھ سمجھ میں آئے گی۔
****************
نوٹ:اخبار نوشتہ دیوار خصوصی شمارہ اکتوبر2023کے صفحہ2پر اس کے ساتھ متصل مضامین”حماس اور اسرائیل کی جنگ پر ایک مختلف نظر”
”سنی حدیث ثقلین کا ذکر نہیں کرتے : مفتی فضل ہمدرد”
اور ”حق مہر ”اعزازیہ” نہیں بلکہ گارنٹی و انشورنس ہے” ضرور دیکھیں۔
****************
اخبار نوشتہ دیوار کراچی
خصوصی شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ