پوسٹ تلاش کریں

حنفی مسلک میں حلالہ کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا مگر لعنتی فعل میں ملوث حنفی بہت بگڑ چکے ہیں!

حنفی مسلک میں حلالہ کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا مگر لعنتی فعل میں ملوث حنفی بہت بگڑ چکے ہیں! اخبار: نوشتہ دیوار

حنفی مسلک میں حلالہ کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا مگر لعنتی فعل میں ملوث حنفی بہت بگڑ چکے ہیں!

کمال کی بات یہ ہے کہ علماء حق ہر دور میں حلالہ کو ناجائز اورموردِ لعنت سمجھتے رہے ہیں مگر عادی مجرموں نے حلالے کو دورِ جاہلیت کی طرح اپنا بڑادھندہ بناکر رکھا ہوا ہے

 

سب سے زیادہ کام صحیح بخاری کی روایات نے بگاڑ دیا جس پر گرفت لازم تھی

اہل حدیث بہت فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ کی کتاب کے بعد اہل سنت کے نزدیک صحیح ترین کتاب بخاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امت یہ سمجھ رہی ہے کہ بخاری میں زیادہ سند کے اعتبار سے صحیح احادیث کا خیال رکھا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بخاری کی ہر روایت صحیح ہے چاہے قرآن کے مخالف بھی ہو۔ ہم حنفی اور اہل حدیث میں موازنہ کرنے کے چکر میں نہیں ہیں بلکہ صحیح بخاری کی طرف متوجہ کرکے اتفاق رائے بنانے کی فکر رکھتے ہیں۔
بخاری میں حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ اگر بیوی کو حرام کہہ دیا تو بعض علماء کا اجتہاد یہ ہے کہ اس سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اور یہ حرام کھانے پینے کی اشیاء کی طرح نہیں ہے کہ کفارہ ادا کرنے سے حلال ہوجائے۔ جب وہ عورت دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرلے تو پہلے کیلئے حلال نہیں ہوگی۔
حسن بصری حضرت علی کے شاگرد تھے جیسے مفتی حسام اللہ شریفی بھی شیخ الہند کے شاگردمولانا رسول خان کے شاگردہیںاور مولانا مودودی کے استاذ مولانا شریف اللہ کے بھی شاگردہیں اور مولانا مودودی کیساتھ ان سے ملنے بھی گئے۔ حضرت علی کے بارے میں مستند کتابوں میں یہ وضاحت موجود ہے کہ آپ حرام کے لفظ کو تین طلاق قرار دیتے تھے۔ حضرت حسن بصری نے بعض علماء سے مراد حضرت علی کے شاگرد لئے ہیں اور اس میں بھرپور صداقت بھی ہوگی۔
ایک طرف علی نے حرام کے لفظ سے تین طلاق مراد لئے۔ دوسری طرف حضرت عمر نے اکٹھی تین طلاق کو تین قرار دیا۔ تیسری طرف بخاری سمیت صحاح ستہ میں اکٹھی تین طلاق کے جواز کا عنوان ، جمہور کے دلائل کی احادیث کاا ندراج کردیا۔ چوتھی طرف فقہاء نے اکٹھی تین طلاق پر حلالہ کی بھرمار کردی تو امت کی قرآن اور حدیث صحیحہ کے صحیح فہم کی طرف توجہ کہاں سے جائے گی؟۔
اہل حدیث کے مشہور عالم شیخ زبیر علی زئیاکٹھی تین طلاق کے قائل تھے اور انجینئر محمد علی مرزا بھی قائل ہیں۔ انجینئر محمد علی مرزا مفتی تقی عثمانی کے اسلامی بینکاری کے بھی معتقد ہیں۔ گویا اہلحدیث اور علماء دیوبند کے جمہور کے خلاف مرزا صاحب نے وہ پوزیشن لی ہے جس میںسعودی عرب کا سرکاری مؤقف بھی ایک ساتھ تین طلاق اور اسلامی بینکاری کا اب قائل ہے۔
نبی کریم ۖ نے فرمایا : کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار ” ہر نئی چیزبدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا نتیجہ آگ میں ہے”۔ کیا حضرت علی کا بیوی کو حرام قرار دینے پر تیسری طلاق یا تین طلاق کا فتویٰ بدعت ، گمراہی اور اس کا نتیجہ آگ ہے؟۔ حضرت عمر سے منسوب ہے کہ حرام کے لفظ کوایک طلاق رجعی قرار دیتے تھے۔ حضرت عمر اور حضرت علی میں حلال وحرام کی یہ تفریق درست ہے یا غلط ہے؟۔ قرآن تو اس کی قطعی طور پر اجازت نہیں دیتا ہے کہ زبانوں کو اس بدعت میں ملوث کیا جائے کہ اپنی طرف سے کہا جائے کہ ھٰذا حلال و ھٰذا حرام یہ حلا ل ہے اور یہ حرام ہے ۔
دو جلیل القدر صحابہ کرام خلفاء راشدین حضرت عمرفاروق اعظم اور حضرت علی المرتضیٰ میں طلاق جیسے اہم مسئلے پر حلال وحرام کا یہ بڑا اختلاف کیسے ہوگیا؟۔
اس کا جواب انتہائی گمراہانہ، ضیغ وضلالت اورانحراف وسرکشی سے یہ دیا جاتا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی دونوں مجتہد تھے اور اجتہاد میں ایک غلطی پر ، دوسرا صواب پر ہوسکتا ہے اور غلطی پر بھی اجرملتا ہے اور صواب پر دو اجر ملتے ہیں۔
اہلحدیث تویہ اجتہاد مانتے نہیں ہیں اور ان کو یہ پتہ نہیں کہ بخاری نے صحیح میں اجتہاد کی روایت ڈال کر اُ مت مسلمہ کے دل ودماغ میں کیا گل کھلائے؟۔
شیعہ حضرت علی کو امام اور معصوم عن الخطاء مانتے ہیں اور آپ کے مقابلے میں حضرت عمر کے اجتہادکو بالکل کھل کر کفروگمراہی اور ضیغ وضلالت سمجھتے ہیں۔
فقہ کے امام اعظم امام ابوحنیفہ نے یہ راستہ اپنایا تھا کہ صحابہ کرام کے اقوال ان کی رائے ہے ، خبر واحد کی حدیث صحیحہ کو بھی قرآن پر پیش کرو اور اگر حدیث کی قرآن سے مطابقت نہ ہو تو حدیث کو چھوڑ دو اور قرآن پر عمل کرو۔ البتہ اگر کوئی ضعیف حدیث بھی اس قابل ہو کہ اس کی تأویل ہوسکتی ہو تو اس کی تردید نہ کرو۔
امام ابوحنیفہ کے نالائق شاگردوں اور نام لیواؤں نے امام اعظم کے اصول پر درست عمل نہیں کیا تو اس میں امام ابوحنیفہ کے شاگردوں اور مسلک کی طرف منسوب فقہاء وعلماء کا اپنا قصور تھا۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد ابویوسف کے حیلے مشہور تھے، دوسرے شاگرد عبداللہ بن مبارک کا حدیث وفقہ ، جہاد و تصوف میں بڑا مقام تھا۔ امام ابوحنیفہ کافروں سے جہاد کرنے کی بہ نسبت اور اپنے حاکموں اور نظام کی اصلاح چاہتے تھے اسلئے جیل میں قید کرکے شہید کردئیے گئے تھے۔
حضرت عمر اور حضرت علی کے اختلاف کو مسلک حنفی کے اصول کے مطابق حل کیا جاتا تو قرآن میں اللہ نے بار بار واضح فرمایا کہ صلح واصلاح اور معروف کی شرط پرکسی بھی طلاق کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔ حضرت عمر نے تحقیق کے بعد فیصلہ دیا ہوگا کہ عورت رجوع پر راضی ہے تو حرام کے لفظ کے بعد رجوع ہوسکتا ہے۔حضرت علی نے تحقیق کے بعد فیصلہ دیا ہوگا کہ عورت راضی نہیں ہے اسلئے حرام کا لفظ استعمال کرنے کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا۔ دونوں خلفاء راشدین کی بات قرآن کے عین مطابق تھی، ان میں اجتہادی مسئلے پر حرام وحلال کا اختلاف نہیں تھا۔ امام ابوحنیفہ کے اصل اصول پر محنت ہوتی تو فقہاء واقعی فقیہ ہوتے۔
امام بخاری سے پہلے امام ابوحنیفہ کے کسی اچھے شاگرد کو فقہ حنفی کی تدوین کا درست موقع فراہم کردیا جاتا تو صحیح بخاری میں یہ متضاد اقوال لکھنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی کہ حضرت حسن بصری کے قول کو نقل کیا جاتا کہ بعض علماء کا اجتہاد ہے کہ حرام کا لفظ تیسری طلاق ہے اور حضرت ابن عباس کا قول کو نقل کیا جاتا کہ بیوی کو حرام کہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا ، طلاق اور نہ قسم وکفارہ اور یہی سیرت طیبہ کا تقاضا ہے۔ بخاری میںصحابی اور تابعی کی ذہنیت میں فرق بالکل واضح ہے۔
ابن تیمیہ نے چاروں فقہ کی تقلید کو فرقہ واریت قرار دیا ۔ انکے شاگرد ابن قیم نے اپنی کتاب ” زادالمعاد ” میں حرام کے لفظ پر20اجتہادی اقوال نقل کئے، حالانکہ جب نبی ۖ نے اپنے اوپر حضرت ماریہ قبطیہ اور شہد کو حرام کردیا تواللہ نے سورۂ تحریم نازل کردی ۔پھرآپ ۖنے حضرت ماریہ پر کفارہ ادا نہ کیا اور شہد پر کفارہ ادا کیا۔قرآن کی طرف توجہ کرتے تو گمراہی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

 

امام ابوحنیفہ سلاخوں کے پیچھے زہر دیکر شہید نہ کئے جاتے توماحول مختلف ہوتا

ہمیں ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ پڑھنے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کا حکم اسلئے ہے کہ یہ دنیا میں پل صراط سے کم نہیں ہے۔ بڑے بڑے اس برج سے منہ کے بل گر کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں ؟، اللہ کا خاص فضل درکار ہوتا ہے ورنہ انسان اپنی محنت، علم ، ماحول اور عقل وفہم کے باوجود بھی ٹھوکر کھاتاہے۔
امام ابوحنیفہ نے ایسے وقت میں جب احادیث کی بہت بھرمارتھی اور سچے لوگوں کے علاوہ جھوٹے راویوں کی طرف سے بھی ایسی بمباری کا سلسلہ تھا جیسے امریکہ نے تورا بورا کے پہاڑوں پر بمبارمنٹ کی تھی تو حضرت نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہ ڈٹ کرکھڑے ہوگئے۔ قرآن کے مقابلے میں خبر واحد کی حدیث کو بھی غیرمعتبر اور ناقابلِ عمل قرار دے دیا۔ بدقسمت اُمت کو دیکھئے، امام ابوحنیفہ نے قرآن کے مقابلے میں احادیث صحیحہ کو قربان کیا ، انکے نام پروہ لوگ کھڑے ہوگئے کہ جنہوں نے اپنی فقہ پر قرآن کو قربان کردیا اور اس کا یہ نتیجہ نکل آیا کہ ان کے دلوں میں حلالے کی لعنت کامرض تھا تو اللہ نے انکے گند مزید بڑھا دئیے۔
مدارس کے نصاب میں ہے کہ حتی تنکح زوجًا غیرہ ”یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”( آیت:230البقرہ) میں عورت کو اپنی مرضی کا مالک اور خود مختار بنایا گیا ہے۔ خبرواحد کی حدیث میںنبی ۖ نے فرمایا:۔” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ حدیث میں عورت کی مرضی اور خود مختاری پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے جو قرآن کے منافی ہے اسلئے ہمارے نزدیک یہ حدیث غیر معتبر ہے۔ جمہور ائمہ اور امت مسلمہ دوسرے فقہاء نے امام ابوحنیفہ پر گمراہی کا فتویٰ لگادیا تھا کہ اپنے دور کا غلام احمد پرویز تھا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کا مسلک حنبلی تھا اور آپ نے امام ابوحنیفہ اور حنفی فقہاء پر ایسا رد کیا تھا جیسا مولانا احمد رضابریلوی نے دیوبندی اور دوسرے فرقوں پر کھل کر رد کیا تھا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ حدیث کی بنیاد پر قرآن کو رد کرنا جمہور کی بڑی گمراہی تھی اور اس آیت میں طلاق شدہ کا ذکر ہے اور اس سے زیادہ واضح الفاظ میں بیوی کی عدت چار ماہ دس دن کے بعد خود مختار ہونے کا اعلان ہے۔ جمہور کے نزدیک تو بیوہ اور طلاق شدہ بھی قرآن کی وضاحت کے باوجود آزاد وخود مختار نہیں ہیں بلکہ ولی کی اجازت کے محتاج ہیں۔ جبکہ احناف کے ہاں کنواری بھی ولی کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے جس سے چاہے نکاح کرسکتی ہے۔ موجودہ عدالت میں حنفی فقہ کا مسلک رائج ہے۔ آئے روز لڑکیاں بھاگ کر کورٹ میرج کرتی ہیں اور حنفی فقہ کا سہارا لیتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ نکاح کیلئے دو صالح گواہ ضروری ہیں مگر بھاگی ہوئی لڑکی کے نکاح کیلئے کون شریف و صالح لوگ گواہ بنتے ؟ اسلئے حنفی فقہاء نے دوسری حدیث کو بھی بکواس سمجھ کر چھوڑ دیا اور دوفاسق گواہ بھی کافی قرار دے دئیے۔ پھر حدیث میں مسجد کے نکاح اور دف بجاکر اعلان کرنے کا حکم تھا۔ بھاگی ہوئی لڑکی کس طرح سے اعلانیہ کرسکتی تھی تو حنفی فقہاء نے حدیث کی ایک مزید دیوار مسمار کرکے فتویٰ دے دیا کہ دو فاسق گواہ کی خفیہ گواہی اعلان ہے۔ حنفی فقہاء نے طبق عن طبق گمراہیوں کے زبردست ریکارڈ قائم کردئیے۔
حالانکہ قرآن میں طلاق شدہ عورت کا ذکر ہے اور حدیث سے کنواری مراد ہوسکتی تھی۔امام ابوحنیفہ کے مسلک کایہ تقاضا تھا لیکن گمراہ فقہاء نے امام ابوحنیفہ کے مسلک کو قرآن وحدیث سے آزاد کرکے دین کو اجنبی بنانے کی انتہاء کردی ہے۔گمراہانہ دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو صحیح حدیث کو اسلئے رد ی کی ٹوکری میں ڈال دیا کہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر دوسری طرف متفقہ مسئلہ لکھ دیا کہ ” اگر خاندان میں برابری نہ ہو تو پھر لڑکی کا نکاح اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے”۔ کیا صحیح احادیث سے بھی یہ متفقہ مسئلہ بہت معتبر ہوگیا اور قرآن سے بھی یہ بازی لے گیا؟۔ پتہ نہیں فقہاء کی حیثیت عرب میں غلام ولونڈیوں کی تھی کہ لکھ دیا کہ عجم میں کفوء کا اعتبار نہیں ہے۔ اگر کوئی عربی یا عام آدمی کسی کی بالغ لڑکی کو بھگا کر لے جائے اور ڈرادھمکاکر اس سے نکاح کرلے تو اب یہ نکاح رضامندی کا نکاح ہے اور پھر اگر لڑکی یا اس کے رشتہ دار اس نکاح سے جان چھڑانا چاہتے ہوں تو اسکے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں کہ اس آدمی سے طلاق لینی پڑے گی۔ فتاوی عثمانی جلد دوم صفحہ
اگر بنوامیہ اور بنوعباس کے دور میں یہ فقہ حنفی ایجاد ہوا ہے تو وہ عجم کو لونڈی قرار دیتے تو بھی اتنا برا نہیں ہوسکتا تھا لیکن لگتا ہے کہ اچھوت ذہنیت کے علماء نے ایسے اختراعی اور انتہائی ظالمانہ اور بیہودہ وغلیظ فتوؤں اور فقہ ایجاد کی ہے۔
قرآن کی آیت حتی تنکح زوجًا غیرہ ” یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” کا مقابلہ ومجادلہ حدیث سے نہیں ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا ہے بلکہ طلاق دینے والے شوہر کی دسترس سے اللہ نے اسکو باہر نکالنے کیلئے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں کیونکہ ایک رسم بد یہ بھی ہے کہ بیوی کو چھوڑنے کے بعد شوہر اسکی مرضی سے جہاں چاہے نکاح نہیں کرنے دیتا ہے۔
البتہ جب اس سے پہلے آیت226البقرہ میں اللہ نے فرمایا کہ ” ایلاء کرنیوالوں کیلئے چار ماہ ہیں ،پس اگر وہ آپس میں مل گئے تو اللہ غفور رحیم ہے”۔
یہ وہ صورت طلاق ہے جب طلاق کا زبان سے اظہار نہ کیا ہو۔ اس میں بھی اللہ نے واضح کیا ہے کہ دونوں میاں بیوی کی رضامندی سے رجوع ہوسکتا ہے۔ جب نبیۖ نے ایلاء کیا تو ایک ماہ کے بعد رجوع فرمایا۔ ظاہر ہے کہ امہات المؤمنین بہت خوش تھیں مگر اللہ نے نبیۖ کو حکم دیا کہ آپ انہیں طلاق کا اختیار دے دو۔یہ امت پر واضح کرنا تھا کہ اس طلاق میں بھی جس میں طلاق کا اظہار نہیں کیا ہے تو عورت کو مکمل اختیارمل جاتا ہے کہ وہ رہے یا نہ رہے۔
آیت228البقرہ میں اللہ نے طلاق کے بعد اصلاح کی شرط پر رجوع کی اجازت دی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس آیت کی وضاحت کیساتھ بہت کھل کرکوئی خبر واحد کی حدیث ہوتی کہ عدت میں رجوع نہیں ہوسکتا، تو حدیث قابل اعتبار نہ ہوتی۔ آیت:229البقرہ میں معروف کی شرط پر رجوع ہے لیکن علماء اور مذہبی طبقات کو اصلاح کی شرط اور معروف کی شرط بھی نظر نہیں آتی ہے۔ آیت:230میںحلال نہ ہونے کا لفظ بو بکروں اور بزاخفش کو بھی دکھائی دیتا ہے۔ قاضی فضل اللہ صوابی امریکہ چلے گئے۔ کاش! وہ ان معاملات کو دیکھ لیں۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز