پوسٹ تلاش کریں

حضرت علی اور جاوید غامدی، اسلام میں نسب کا مقام، حسینی اور یزیدی کا فرق، قریش کے بارہ خلفاء میں سے ہوں گے

حضرت علی اور جاوید غامدی، اسلام میں نسب کا مقام، حسینی اور یزیدی کا فرق، قریش کے بارہ خلفاء میں سے ہوں گے اخبار: نوشتہ دیوار

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

حضرت علی اور جاوید غامدی
معروف اسلامی اسکالر جاویداحمد غامدی نے بالکل درست کہا ہے کہ عرب میں داماد اہل بیت میں سے نہیں ہوتا ہے۔ حضرت ابوسفیان کے داماد نبیۖ تھے لیکن نبیۖ ان کے اہل بیت نہیں تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” میں تمہارے اندر دوبھاری چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، ایک قرآن اور دوسرے میرے اہل بیت”۔ ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے پوچھا کہ اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہیں؟۔ جس کے جواب میں فرمایا کہ ” ازواج مطہرات اہل بیت ہیں لیکن یہاں نبیۖ کے دادا کے خاندان والے مراد ہیں”۔ دوسری روایت میں ہے کہ ” اس صحابی سے پھر پوچھا گیا کہ ” کیا ازواج مطہرات اس اہل بیت میں شامل نہیں ہیں؟۔ پھر صحابی نے عرض کیا کہ نہیں ، جب شوہر بیوی کو طلاق دیتا ہے تو وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ جاتی ہے”۔ صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم ہے۔ نبیۖ نے خطبہ حجة الوداع کے موقع پر بھی یہ فرمایا تھا کہ ” میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک قرآن اور دوسری میری عترت، جب تک ان دونوں کو مضبوط پکڑے رکھوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے”۔ جامع ترمذی۔ جس کامقام بخاری ومسلم کے بعد ہے۔ اور علامہ البانی نے تحقیق کرکے ان احادیث کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔
علماء وفقہاء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ نبیۖ کے جن اہل بیت پر زکوٰة کا مال حرام ہے وہ نبیۖ کے دادا کی طرف سے وہ خاندان ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کی وجہ سے ان کی ازواج وغیرہ بھی شامل ہیں۔ان میں حضرت علی اور آپ کے سب بھائی اور ان کے آل شامل ہیں۔
جاویداحمد غامدی صاحب نے اپنا نام شوقیہ غامدی رکھا ہے۔ قصائیوں نے قریش، تیلیوں نے عثمانی، جولاہوں نے انصاری اور دیگر لوگوں نے بھی خاندان کے نام بدلے ہیں۔ جب سورۂ نور کی آیات نازل نہیں ہوئیں تھیں تو نبیۖ نے اہل کتاب کے مطابق غیرمسلم اور مسلموں پر زنا کی حد سنگساری کی جاری کی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا تو نبیۖاہل کتاب کے مطابق اس پر عمل کرتے تھے۔ ایک یہودی کی عورت کو بھی سنگسار کیا تھااور ایک مسلمان مرد اور ایک مسلمان عورت بھی سنگسار کی گئی تھی۔ جس صحابیہ کوسنگساری کی سزا دی گئی تھی تو وہ غامدی قبیلے سے تھی جس کو غامدیہ کے نام سے ہی یاد کیا گیا ہے، جب اس کا بچہ اس قابل ہوا کہ وہ روٹی کھا سکتا تھا تو نبیۖ نے اس کے بعد حد جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ جب جاوید احمد غامدی کو یاد دلایا گیا کہ غامدی کی طرف نسبت کرنے سے یہ امکان بھی ہوسکتا ہے کہ اسی بچے کی نسل سے ہو۔ تو اس نے وضاحت کردی کہ میں نے غامدی شوقیہ نام رکھا ہے۔
نبیۖ کا قبیلہ بنوہاشم تھا تو ہاشمی وہی کہلاسکتا ہے جو ہاشم کی اولاد سے ہو۔ ابوسفیان سے قیصرروم نے پوچھا تھا کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کا خاندان کیسا ہے؟۔ حضرت ابوسفیان نے جواب دیا تھا کہ قریش میں سب سے معزز اور شریف ترین خاندان سے تعلق ہے۔ اگر غامدی صاحب کھل کر کہتے کہ میں احادیث صحیحہ پر یقین نہیں رکھتا ہوں تو کوئی بات نہیں ۔بہت سارے لوگ احادیث کو نہیں مانتے۔ حضرت عمر فاروق اعظم نے حدیث قرطاس میں عرض کیا تھا کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ حنفی مسلک میں بہت سی احادیث کی تردید کی جاتی ہے لیکن غامدی صاحب عرب وعجم کے خاندانی نظام کو سمجھنے سے ہی قاصر لگتے ہیں۔ اگر ان کے خاندان والے غامدی ہوتے تو چچازاد کی حیثیت کا بھی پتہ ہوتا۔ اب شاید ان کے داماد کو بھی بعد میں شوقیہ غامدی ہی لکھنا پڑے گا۔ میرا مقصد کسی کی توہین نہیں ہے لیکن حقائق کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

_ اسلام میں نسب کا ایک مقام _
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا ہے کہ ” اے بنی اسرائیل ! یاد کرو ، میری اس نعمت کو ،جو میں نے تم لوگوں پر کی تھی اور تمہیں تمام جہاں والوں پر میں نے فضیلت بخشی تھی”۔ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے یہ فرمایا ہے کہ ”میں نے قومی حیثیت سے تمہیں نعمت بخشی تھی اور تمام جہاں والوں پر تمہیں فضلیت بخشی تھی ” ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں اور خاندانوں کو من حیثیت القوم نعمت بخشنے کا اعزاز دیا ہے۔ ہندوستان پر مغل خاندانوں نے حکومت کی ہے تو آج مغل برادری سے تعلق رکھنے والے بڑے فخر سے مغل ہی لکھتے ہیں۔ ہندوستان پر کچھ عرصہ تک خاندانِ غلامان نے بھی حکومت کی ہے مگر کوئی اپنے آپ کو خاندانِ غلامان کی طرف منسوب کرنے کی جسارت نہیں کرتا ہے اسلئے کہ لوگ صرف حکومت کو نہیں بلکہ خاندانی حیثیت کو بھی دیکھتے ہیں۔
رسول اللہۖ کو اللہ تعالیٰ نے قریش کے معزز ترین خاندان سے مبعوث فرمایا تھا لیکن آپ ۖ کے چچا ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت بھی قرآن میں آئی ہے۔ بنی اسرائیل کو جہان والوں پر اسلئے فضیلت بخشی گئی تھی کہ انبیاء کرام اور بادشاہوں کی کثرت اللہ تعالیٰ نے اس قوم میں پیدا کی تھی لیکن پھر قرآن میں ان کے بارے میں یہ بھی واضح ہے کہ ضربت علیھم الذلة والمسکنة والباء بغضبٍ من اللہ ”ان پر ذلت،دربدری اور پھٹکار ان پر اللہ کے غضب کی وجہ سے مسلط کی گئی”۔ یہود نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ”جاؤ ، آپ اور آپ کا ربّ خود ہی لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں”۔ القرآن۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے زعم کے مطابق تشدد کرکے پھانسی پر چڑھایا تھا مگر اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت زیادہ اتباع کرنے والے عطاء کردئیے۔ یہود اپنے اعلیٰ نسب کے زعم میں پوری دنیا میں دربدری کا عذاب کھا رہے ہیں۔
رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے کی گئی تھی، کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عجم کو عرب پر اور عرب کو عجم پر کوئی فضلیت حاصل نہیں ہے، فضلیت کا معیار تقویٰ (کردار)ہے”۔
انصار ومہاجرین میں خلافت کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اپنا مقدمہ اس حدیث کی بنیاد پر جیت لیا کہ نبیۖ نے فرمایا کہ ” امام قریش میں سے ہوںگے”۔ رسول اللہۖ نے فرمایا” قیامت تک ائمہ قریش میں سے ہوںگے چاہے دو آدمی باقی رہیں”۔(بخاری ومسلم )انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ حضرت ابوبکر و عمر سے خلافت کے مسئلے پر سخت ناراض تھے ،یہان تک کہ انکے پیچھے نماز تک نہیں پڑھتے تھے۔ جنات نے ان کو قتل کردیاتھااسلئے ان کے قاتلوں کو تلاش کرکے سزا نہیں دی جاسکی تھی۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر نے اپنے بعد اس بات کا خیال رکھا تھا کہ کسی کو نامزد کرکے اس خلافت کے مسئلے کو حل کیا جائے۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس بہت شاکی رہتے تھے کہ جس طرح انصارسے زیادہ خلافت کا استحقاق قریش کا تھا تو اس طرح اہل بیت کی حدیث سے قریش میں خلافت کیلئے زیادہ اہلیت ان میں تھی۔ حضرت ابوبکر نے اپنے بیٹے کی بجائے حضرت عمر کو خلیفہ بنانا مناسب سمجھا اور اگر وہ اپنے بیٹے کو نامزد بھی کردیتے تو اس کو کثرت رائے سے مسترد کیا جانا تھا۔ حضرت عمر نے بعض لوگوں سے مشاورت کی تھی تو انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر کی نامزدگی کا مشورہ بھی دیدیا۔ حضرت عمر نے ان پر پابندی لگادی کہ آپ کو خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ ” جو طلاق کا مسئلہ نہیں سمجھ سکا اس کو امت میں خلافت کا مسئلہ کیسے سپرد کرسکتے ہیں”۔ بنوامیہ اوربنوعباس نے قبضہ کیاتو آج یزیدیوں کاعراق وشام میں اپنا الگ مذہب اور قوم بھی ہے۔

حسینی ویزیدی میں فرق کیا؟
عراق وشام میں ایک فرقہ ہے جو خود یزیدی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کومانتے ہیں اور توراة وانجیل اور حضرت ابراہیم و نوح سب کو مانتے ہیں۔ عام مسلمان بھی سب کو مانتے ہیں لیکن وہ خود کو مسلمان نہیں کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک وہی اہل حق ہیں اسلئے کہ تمام مذاہب کا ملغوبہ ہیں۔ جب بنو امیہ کے اقتدار کو بہت ظالمانہ طریقے سے بنوعباس نے ختم کردیا تو شاید یزیدی اسلام سے کنارہ کش ہوگئے۔ مشرکینِ مکہ ، یہود اور نصاریٰ سب دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابراہیمی ہیں اور حضرت ابراہیم ان کے تھے، جس کی اللہ نے قرآن میں نفی کی ہے۔ داعش کی طرف سے عراق وشام میں یزیدی مذہب کی خواتین کو زبردستی لونڈی بھی بنایا گیا تھا اور اس پر دستاویزی ویڈیوزبھی موجود ہیں۔ تحقیق کرنے والوں نے اس پر قسم قسم کے تجزئیے کئے ہیں کہ یزیدی مذہب کا تعلق کس سے ہے؟۔
اہل تشیع اپنے آپ ہی کو حسینی سمجھتے ہیں لیکن ہندوؤں میں حسینی موجود ہیں۔ اہل سنت کی اکثریت بھی یزیدی کے مقابلے میں خود کو حسینی قرار دیتی ہے ۔ شیعہ میں آغاخانی اور بوہری ایک شاخ کی دو کڑیاں ہیں۔ان کے نزدیک حضرت حسن حضرت علی کے بعد امام نہیں تھے بلکہ حضرت حسین امام تھے۔ جب ایک امام نے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا تو وہ اپنے والد کی وفات سے پہلے ہی فوت ہوگئے، جس کی وجہ سے فرقہ امامیہ اثنا عشریہ کے نزدیک امام نے دوسرے بیٹے کو اپنا جانشین نامزد کردیا۔ جس سے مہدی غائب تک بارہ اماموں کا سلسلہ پورا ہوگیا۔ جبکہ آغاخانیوں اور بوہریوں کے نزدیک ایک دفعہ امام مقررہوگیا تو اس کو منصب سے نہیں ہٹایا جاسکتا تھا،اسلئے اسماعیل کی اولاد میں امامت منتقل ہوگئی۔ اسماعیلیوں نے فاطمیوں کے نام سے تاریخ میں حکومت بھی کی ہے جبکہ امامیہ اثنا عشریہ پہلی مرتبہ ایران میں برسرِ اقتدار آئے ہیں۔
ایک معروف شیعہ کی معروف کتاب ”الصراط السوی فی احوال المھدی” میں ایک روایت لکھی ہے کہ ” حضرت آدم سے حضرت عبدالمطلب تک نبوت و ولایت کا نور ایک ساتھ منتقل ہوتا رہاہے۔ پھر نور نبوت حضرت عبداللہ سے منتقل ہوکر حضرت محمدۖ کی بعثت سے دنیا کو پہنچا اور ولایت کا نور حضرت ابوطالب سے منتقل ہوکر حضرت علی کی شکل میں دنیا کو پہنچا”۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت حسن میں ولایت کا نور منتقل ہوا تو پھر امام حسن سے ان کے بھائی امام حسین میں کیسے منتقل ہوسکتا ہے؟۔ اگر براہِ راست حضرت امام حسین کی شکل میں منتقل ہوا تو امام حسن کی ولایت کہاں سے ثابت ہوگی؟۔اور اگر دونوں میں منتقل ہوا تھا تو پھر دونوں کی اولاد میں اپنی اپنی حیثیت میں باقی رہنا چاہیے۔ اور جب ایک مرتبہ ایک امام نے اپنے بڑے بیٹے اسماعیل کو نامزد کردیا تھا توپھر نورولایت کسی دوسرے بیٹے کی طرف کیسے جاسکتا تھا؟۔ شیعہ منطقی لوگ ہیں اور اس منطق کا وہ خود ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں اور یہ انکے آپس کا معاملہ ہے۔
حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ نے ولایت کے اعتبار سے اثنا عشریہ کو اپنی کتابوں میں جو اہمیت دی ہے ، وہ بھی اپنی جگہ بہت ہے اور اس سے زیادہ شاید اہل تشیع بھی تصور نہیں کرسکتے ہیں لیکن افغانستان میں جس طرح داعش نے پہلے جمعہ کو قندوز اور پھر قندھار میں شیعوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے تو یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ اسلام میں حسینیت کا دعویٰ کرنے والے شیعوں کو تو بہت دور کی بات ہے،یزیدی مذہب کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا بھی جائز نہیں ہے جو اسلام کھلم کھلا چھوڑ چکے ہیں۔ہم امید رکھتے ہیں کہ تہذیب کے دائرے میں اپنے اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے سے گریز کیا جائیگا،ورنہ پھر سب کا نقصان ہوگا۔

بارہ خلفاء قریش میں ہونگے
اہل سنت کیلئے سب سے مشکل حدیث یہی ہے کہ رسول اللہۖ نے جس کی وضاحت فرمائی ہے کہ ”بارہ خلفاء قریش میں ہونگے” لیکن تاریخ میں ایسی کوئی بارہ شخصیات نہیں ہیں جن کو امتیازی حیثیت حاصل ہو۔ خلفاء راشدین اور امام حسن کے تین سالہ دور کوخلافت راشدہ میں شمار کرتے ہیں ۔پھر حضرت امیرمعاویہ کے بعد یزیداور بنوامیہ وبنوعباس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ ایسی ممتاز شخصیات کو ڈھونڈ نکالنے میں ناکام ہیں جن کو مہدی آخری زمان سے ملاکر بارہ کی تعداد پوری کی جاسکے۔ جبکہ خلافت عثمانیہ والے قریش نہ تھے۔ جب اہل تشیع اہل سنت کو اس حدیث میں لاجواب پاتے ہیں تو ان کے لہجے میں سختی ، تلخی اوردرشتی آجاتی ہے۔جب اہل سنت ان کو معقول جواب نہیں دے سکتے ہیں تو ان کے خلاف غلط پروپیگنڈے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔
اہل تشیع کے ہاں ”الصراط السوی فی احوال المہدی” بہت معتبر کتاب ہے اور اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ ”مہدی آخرزمان کے بعد گیارہ ایسے افراد بھی اہل بیت میں سے آئیں گے جن کو حکومت ملے گی”۔ لیکن پھر وہ اس پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ مہدی کے بعد گیارہ افراد آئیںگے تو اس کا آخری امیر ہونا کیسے ثابت ہوگا؟ روایت کو صحیح ماننے کے باوجود اپنے مسلک کی خلاف ورزی کی وجہ سے اس پر سوال کھڑا کردیا ہے۔ جس حدیث میں ہے کہ” وہ امت کیسے ہلاک ہوسکتی ہے جس کا اول میں ہوں، اس کے درمیان میں مہدی اور آخر میں عیسیٰ ہیں”۔ اس کوبھی الصراط السوی فی احوال المھدی نے صحیح مانا ہے لیکن مہدی آخرزمان کا تعلق تو آخری زمانے اور حضرت عیسیٰ کے دور سے ہوگا اسلئے الصراط السوی فی احوال المھدی کے مصنف نے لکھ دیا ہے کہ ”ہوسکتا ہے ، اس درمیانہ زمانے کے مہدی سے مراد بنوعباس کے دور کے مہدی ہوں”۔ مولانا بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نے اپنی کتاب ” ترجمان السنة” میں وضاحت کی ہے کہ ”بنوامیہ کے عمر بن عبدالعزیز بھی مہدی تھے مگران کے دور میںانصاف پورا قائم نہیں ہوسکا تھا اور مہدی کے تمام صفات اس میں نہیں تھے اسلئے اصل مہدی بعد میں آئیںگے”۔ علامہ جلال الدین سیوطی اور پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف نے الحاوی للفتاویٰ اور تصفیہ مابین شیعہ وسنی میں واضح کیا ہے کہ” بارہ امام آئندہ ہی آئیں گے جن پر امت کا اجماع بھی ہوگا۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا خلیفہ نہیں گزرا ہے جس پر امت کا اجماع ہوا ہو”۔الحاوی للفتاویٰ میں علامہ سیوطی نے روایت نقل کی ہے کہ ” مہدی کے بعد قحطانی امیر ہوگا، جسکے کانوں میںسوراخ ہونگے اور وہ مہدی سے ہدایت میں کم نہیں ہونگے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس امت کے آخری امیر کی بعثت کریںگے جو نیک ہوں گے اورجن کے دور میں عیسیٰ ہوں گے”۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتابوں میں مندرجہ بالا روایت میں سے آخری امیر کا ٹکڑا نقل کیا ہے مگر مہدی اور قحطانی امیر کی بات چھوڑ دی ہے اور یہ بہت بڑی خیانت ہے اور اس پر آنکھیں بند کرنے کی گنجائش بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ قحطانی امیر سے پہلے کے مہدی کو درمیانہ زمانے کا مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی کا اس پراتفاق بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح درمیانے زمانے کے مہدی کے بعد گیارہ افراد کو مہدی قرار دیا جائے تو شیعہ سنی روایات اور مسلکوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ علامہ طالب جوہری نے ایک روایت نقل کی ہے کہ مشرق سے دجال نکلے گا اور اسکے مقابلے میں اہل بیت کا فرد ہوگا۔ یہ کوئی دوسرا دجال ہوگا اور اہل بیت سے مراد سید گیلانی ہوسکتا ہے جو امام حسن کی اولاد سے ہوگا۔ (ظہور مہدی: علامہ طالب جوہری)
پیش گوئیوں پر یقین کرنے والوں کو حقائق چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟۔

اسلام کی بیخ کنی میں فقہاء کا کردار!
کراچی کی معروف مذہبی شخصیت علامہ شاہ تراب الحق قادری نے جمعہ کے دن، رمضان کے مہینے میں اپنے مقتدیوں سے یہ ایک فقہی مسئلہ بیان کیا تھا کہ ”روزے کی حالت میں پوٹی کی جائے تو مقعد سے آنت نکلتی ہے جو پھول کی شکل میں ہوتی ہے۔ اس پھول کو دھونے کے بعد کپڑے سے نہ سکھایا جائے اور وہ پانی سے گیلا اندر چلا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فطری طور پر آنت خود بخود اندر چلی جاتی ہے تو سانس پھلا کر اس کو مقعد کے اندر جانے سے روکا جائے اور اگر پانی سے دھونے کے بعد اس کو مقعد کے اندر جانے سے نہیں روکا گیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا”۔ علامہ شاہ تراب الحق قادری کے معتقد نے شاہ صاحب کے ہاں جمعہ پڑھا تھا اور وہ میرے پاس آیا۔ میں نے اس وقت ماہنامہ ضرب حق میں اس کو مین صفحے پر جگہ دی اور اس غلط مسئلے کی تردید کردی اور بریلوی دیوبندی علماء نے ہمارے اخبار کے توسط سے اس کی تردید کردی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے یہ مسئلہ فقہاء کی معتبر کتابوں میں موجود ہوگا اسلئے مذہبی طبقات نے اپنی مساجد اور مدارس کے پلیٹ فارم سے اس کی تردید نہیں کی۔ پھر دعوت اسلامی کے مفتیوں نے اپنی مجالس اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے اسی مسئلے کو دوبارہ خوب پھیلادیا اور اس میں یہ اضافہ بھی کیا کہ ”استنجاء کرتے وقت سانس روک دی جائے اسلئے کہ اس بے احتیاطی کی وجہ سے پانی مقعد میں داخل ہوکر روزہ ٹوٹ سکتا ہے”۔
جب ہم نے2004ء میں مفتی محمد تقی عثمانی کی کتاب سے مسئلہ اٹھاکر اخبار میں شہہ سرخی سے شائع کیا کہ ” سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے علاج کیلئے لکھنا جائز ہے” اور عوام کی طرف سے اس کے خلاف ردِ عمل سامنے آیا تو مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ” فقہی مقالات جلد چہارم” اور ” تکملہ فتح المہلم” سے اس کو نکالنے کا اعلان کردیا اور توجہ دلانے پر شکریہ بھی ادا کردیا۔ لیکن ایک دو دن بعداس نے پھر اسی روزنامہ اسلام میں اشتہار دیا کہ ” مجھ پر بہتان لگانے والے اللہ کا خوف کریں”۔ اور پھر ہفت روزہ ضرب مؤمن کراچی میں اپنی کتابوں سے مسئلے کو نکالنے کی وضاحت والا مضمون اور بہتان لگانے والا اشتہار دونوں ایک ساتھ شائع کردئیے۔ یہ سب میڈیا کے ریکارڈ کا حصہ تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ عمران خان کے نکاح خواں مفتی محمد سعید خان نے اپنی کتاب ” ریزہ الماس” میں اپنے مسلک کی تائید کرتے ہوئے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کیا اور سوشل میڈیا پر مولانا الیاس گھمن نے بھی حنفی مسلک کی تائید کردی ہے۔
جاہل مذہبی طبقے کو جاہل علماء ومفتیان نے جاہل فقہاء کی کتب کے ذریعے جس طرح قرآن وسنت کے رشد وہدایت سے دور کردیا ہے،اگر فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات سے نکل کر عوام فطری دین اسلام کی طرف راغب ہوگئی تو بہت بڑا انقلاب آجائیگا۔ قرآن نے جاہل اور ہٹ دھرم عربوں کو اس وقت راہِ حق پر ڈال دیا تھا جب دنیا بے شعوری کی اندھیرنگری میں ڈوبی ہوئی تھی۔ آج فکر وشعور کے عروج کا دور ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے موبائل فون کے کمالات سے آگاہ ہیں تو قرآن وسنت کی فطری تعلیمات عالمِ انسانیت کو کس طرح اس ظلم وجبر کے نظام سے نجات نہیں دلاسکتی ہے؟۔ بھونکنے والا لیڈر، گیدڑ بھبکیاں مارنیوالی عورت اورڈھینچو ڈھینچو کرنے والے حکمران ابھی اپنے آپ زندہ باد کا نعرہ لگاکر عوام کو اسلئے بیوقوف بنارہے ہیں کہ مذہبی طبقات نے اپنے لوگوں کو ان سے بھی زیادہ بیوقوف بنارکھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو چاہیے کہ مذہبی طبقے کے جھوٹ کو اور مقتدر طبقات کے لوٹ کھسوٹ کو عوام کے سامنے لائیں۔ جاہلیت، مفادات اور تعصبات کا خاتمہ کرکے پاکستان کو ترقی وعروج کی طرف لے جائیںگے تویہ دور اور پاکستان ایک عظیم انقلاب کابہت بڑا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز