پوسٹ تلاش کریں

حضرت حاجی محمد عثمان ایک عہد ساز شخصیت اور علماء سوء اور مفتیانِ خران کا بڑابدترین کردار!

حضرت حاجی محمد عثمان ایک عہد ساز شخصیت اور علماء سوء اور مفتیانِ خران کا بڑابدترین کردار! اخبار: نوشتہ دیوار

حضرت حاجی محمد عثمان ایک عہد ساز شخصیت اور علماء سوء اور مفتیانِ خران کا بڑابدترین کردار!

تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس کے صاحبزادے مولانا محمد یوسف نے حاجی محمد عثمان کیلئے یہ رعایت رکھی تھی کہ6نمبروں کے علاوہ جس موضوع پر بھی بیان کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔ حضرت حاجی محمد عثمان ایک بہت بڑے اللہ والے تھے۔ جب حضرت مولانا یوسف کے بعد تبلیغی جماعت کے اندر اکابرین اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا ہونا شروع ہوا تو آپ نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ اس طرح اکابرین کی اصلاح بھی نہیں ہوگی۔ تبلیغی جماعت میں پیران طریقت اور علماء کرام کے علاوہ بڑے پیمانے پر دنیا دار اور بڑے لوگ آتے ہیں اور اپنے بستر کو خود اٹھاکر وقت لگاتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے برتن دھوتے ہیں۔ کھانے پکاتے ہیں اور عوام کی خدمت کرتے ہیں، جس سے ان کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ اگر کچھ اکابر بن کر بیٹھ جائیں اور ان کا مخصوص کھانا پینا ہو ، جماعتوں میں وقت نہ لگائیں اور طبقاتی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو ان کی اصلاح کون کرے گا؟۔
حاجی محمد عثمان نے35سال مسلسل تبلیغی جماعت میں لگائے ، جس میں چلے سہ روزوں کے علاوہ محلے اور بیرون محلے کی گشت اور روزانہ کی تعلیم شامل تھی۔ جب تبلیغی جماعت میں فضائل درود شریف کو اپنے نصاب سے نکال دیا تو حاجی صاحب نے اس کو ہفتہ وار معمول بنادیا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا نے یہ خواب اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے خواب میں فرمایا کہ شیخ زکریا فضائل درود کی وجہ سے اپنے معاصرین میں سبقت لے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے شیوخ کی وجہ سے تبلیغی جماعت نے فضائل درود کو اپنے نصاب سے نکال دیا تھا لیکن پھر بھی وہ پابندی سے نہیں بچ سکیں ہیں۔ اکابرین نے شروع میں حاجی محمد عثمان پر بہت زور ڈالا کہ ہمارے طبقے میں شامل ہوجائیں ، اچھے کھانوں کے عیش اڑائیں اور خود کو عوام کی طرح مشکلات میں نہ ڈالیں۔ لیکن یہ مرد کا بچہ اپنی حق بات اور اپنے عمل صالح پر ڈٹا رہا۔ جب منبر پر تقریر کرتے تو وہ اکابرین کے بھی پیر طریقت لگتے تھے۔ لیکن جب وہ اکابرین کے بیانات سنتے تھے تو عوام کے ساتھ عام مجمع میں بیٹھ جاتے۔ یہ روش اکابرین کو پسند نہیں تھی اور اس کی وجہ سے انکے خلاف طرح طرح کے پروپیگنڈے اندرون خانہ کرتے ۔ سب سے زیادہ مؤثر پروپیگنڈہ یہ تھا کہ حاجی عثمان کی وجہ سے جماعت شخصیت پرستی کا شکار ہورہی ہے۔ حضرت حاجی عثمان نے اپنے مریدوں میں ایک تقریر کی اور اس میں تبلیغی جماعت والوں کو بھی آنے کی اجازت دی۔ خانقاہ کا بیان صرف مریدوں کیلئے ہوتا تھا اور کبھی کبھار علماء کرام بھی اس میں تشریف لاتے تھے۔ تبلیغی جماعت کراچی کے پرانے مرکز مکی مسجد میں جمعرات کے اجتماع میں اعلان کروایا کہ اس مرتبہ اتوار کو حاجی عثمان خانقاہ میں بیان کریں گے تو اس میں تبلیغی جماعت کے افراد بھی شرکت کرسکتے ہیں۔ اس بیان میں شخصیت موضوع تھا۔ حاجی صاحب نے فرمایا کہ جماعت کا مقصد بھیڑ اکھٹا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ شخصیات بنانا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ۖ نے صحابہ کرام میں شخصیات بنائی تھیں۔ پھر یہ بیان شیخ الحدیث مولانا زکریا کے پاس بھی آڈیو ریکارڈ کی شکل میں بھیج دیا تھا۔ مولانا زکریا نے تبلیغی جماعت کے سارے اکابر کو بلاکر یہ بیان سنایا تھا اور ان سے کہا تھا کہ حاجی صاحب کی بات100فیصد درست ہے اپنا رجحان بدلو۔ حاجی صاحب مکی مسجد میں بھی عوام کے ساتھ بیٹھتے تھے اور اجتماعات میں بھی عوام کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دورہ حدیث کا ایک طالب علم مولانا نور زمان ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بتایا کہ لاکھوں کے مجمع میں جب بہت دور سے حاجی عثمان کے اوپر نظر پڑی تو میں نے پوچھا کہ یہ کون شخصیت ہیں؟۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ حاجی عثمان صاحب ہیں۔
جب خانقاہ آتے جاتے وقت کبھی راستے میں ٹریفک کی وجہ سے راستے میں نماز پڑھنے کیلئے مسجد میں جاتے تو لوگ جانتے نہیں تھے لیکن نمازی لائن بناکر ان سے مصافحہ کرتے۔ دار العلوم دیوبند کے بہت سے فاضل آپکے مرید تھے۔ جن میں مفتی محمد تقی عثمانی ومفتی محمد رفیع عثمانی کے اُستاذ مولانا عبدالحق صاحب بھی تھے اور دار العلوم کراچی کے مولانا اشفاق احمد قاسمی بھی تھے۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اُستاذ حدیث مولانا فضل محمد بھی آپ کے مرید و خلیفہ تھے۔
آپ کو سعودی حکومت کی طرف سے اعزازی اقامہ بھی ملا ہوا تھا۔ مدینہ اور مکہ میں آپ کی وجہ سے تبلیغی جماعت کا کام بہت پھیلا۔ کراچی میں زیادہ لوگ آپ ہی کی وجہ سے تبلیغی جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ تبلیغی جماعت کے امیر بھائی امین اور ان کے صاحبزادے مفتی شاہد اور مفتی زبیربھی آپ کے عقیدتمند تھے۔ سعودی عرب اور شام کے عربی بھی آپ کے مرید تھے۔3مرید ابراہیم ، جاوید اور طیب نے آپ سے دعا لیکر کاروبار شروع کیا تو اس میں بہت برکت ہوئی۔ کچھ لوگوں نے شمولیت کی درخواست کی تو آپ نے علماء و مفتیان کی رہنمائی میں شریعت کے مطابق کاروبار کی اجازت دی۔ شروع میں اس کا نامTJابراہیم تھا۔ پھر تبلیغی جماعت نے اشتہار دیا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں اور جب حاجی صاحب نے اشتہار دیکھا تو ان کو کمپنی ختم کرنے کا حکم دیا۔ جس پر انہوں نے کمپنی ختم کرنے کے بجائے الائنس موٹر کے نام سے کام جاری رکھا۔ مفتی تقی عثمانی و دیگر علماء و مفتیان نے بھی کمپنی میں اپنا اور دوسروں کا سرمایہ لگایا ہوا تھا۔ کمپنی کا اصول یہ تھا کہ60فیصد منافع کمپنی کا اور40فیصد سرمایہ کار کا۔ ایجنٹ کے توسط سے سرمایہ لگانے والے2فیصد ایجنٹ کو دیتے تھے۔ مفتی تقی اور دوسرے علماء و مفتیان باقاعدہ ایجنٹ بنے ہوئے تھے۔ مفتی تقی اورمفتی رشید کی طرف سے باقاعدہ رائیونڈ کے تبلیغی اکابرین کے خلاف فتویٰ جاری کیا گیا جس کا مقصد حاجی محمد عثمان کے مشن اور مریدوں کا دفاع تھا۔
جب حاجی عثمان نے اعلان کیا کہ جن مریدوں نے کوئی مشاہدات دیکھے ہیں تو وہ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ ہزاروں کے مجمع میں سے اکثریت ان کی تھی جو مشاہدات بیان کرنے کیلئے ایک سائڈ پر ہوگئے۔ میں وہ شخص تھا کہ جب کسی نے بھی کوئی مشاہدہ نہیں دیکھا تھا تو میں نے دیکھا تھا۔ وہ بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کے سال اول میں۔ اور غالباً کچھ طلباء کو ان کے اصرار پر اپنا مشاہدہ بتایا ۔ میں نے مشاہدے کے دوران بھی مشاہدے کو دیکھنا منع کردیا تھا کہ میرے لئے لا الہ الااللہ کا پڑھنا کافی ہے۔ میں مشاہدات والوں کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مشاہدات بیان کرنا شروع کئے تو آخر کار صرف ان لوگوں کو مشاہدات بیان کرنے کی اجازت دی گئی جن کے پاس علم کی سند ہو یا تبلیغی جماعت میں چار ماہ لگائے ہوں یا پھر حضرت کے خلیفہ ہوں۔ کئی دنوں تک مشاہدات کا سلسلہ جاری رہا لیکن مشاہدات ختم نہیں ہورہے تھے۔ پھر یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔ لیکن حاجی عثمان صاحب نے بتایا تھا کہ ایک آزمائش آنے والی ہے جس میں لوگ تین اقسام پر تقسیم ہوجائیں گے۔ ایک دنیا دار وہ نکل جائیں گے۔ دوسرے آخرت والے اور تیسرے اللہ والے۔ دنیا دارکھدڑے ہیں ، آخرت والے عورتوں کی طرح ہیں اور اللہ والے مرد ِ میدان ہیں۔
پھر اچانک حاجی صاحب کے بارے میں اعلان ہوا کہ بہت سخت شوگر ہے اور جو کوئی کسی اور جگہ پر بیعت ہونا چاہتا ہے تو اس کو حضرت نے اجازت دی ہے۔ کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ حاجی صاحب کو قید کیا گیا ہے۔ جب ان کو گھر سے رہا کرکے خانقاہ لایا گیا تو الائنس موٹر والے دار العلوم کراچی پہنچے۔ دار العلوم کی طرف سے الاستفتاء کے نام سے ایک سوالات اور انکے جوابات کا فتویٰ مرتب کیا گیا۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ”سود کھانے والے ایسے اٹھیں گے جیسا کہ جنات کی طرف سے بدحواس کئے ہوئے افراد اٹھتے ہیں”۔ مفتی تقی عثمانی کا یہ کارنامہ تھا کہ جنرل ضیاء الحق نے جب زکوٰة کے نام پر سود کی رقم کاٹنی شروع کی اور مفتی محمود سمیت تمام علماء کرام و مفتیان عظام نے اس کی مخالفت کی تو مفتی تقی عثمانی و مفتی رفیع عثمانی نے اس سُودی رقم کو ہتھیانے کیلئے فتویٰ دے دیا۔ یہ سُودی رقم الائنس موٹر میں بھی لگائی گئی جہاں پر حرام کا مال لینا ممنوع تھا۔ لیکن ان علماء پر اعتبار کرکے یہ مال لیا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی پر کتیا کی طرح مستی چڑھ گئی اور اس کے پیچھے کتوں کے ریلے لگ گئے۔ شرافت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔
بدحواس اور خرمست دار العلوم کراچی کے مفتیوں نے پہلا سوال یہ لکھ دیا کہ کیا فرماتے ہیں علماء شرع مبین اس پیر کے بارے میں جس کے خلیفہ اول کا کہنا ہے کہ مجھے حاجی عثمان بار بار مجبور کرتے تھے کہ تم نبی ۖ کو دیکھتے ہو یا نہیں؟۔
کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پیر اپنے مرید سے کہے کہ میں نبی ۖ کو خود نہیں دیکھ سکتا لیکن تم زبردستی سے ڈنڈے کے زور پر دیکھتے ہو یا نہیں؟۔ حالانکہ اس کا پیر بہت ضعیف العمر اور کمزور ہو اور خلیفہ جوان اور صحتمند ہو۔ یہ تو ممکن ہوتا ہے کہ اگر پیر کہتا کہ مجھے مشاہدہ ہوتا ہے اور آپ کو نہیں ہوتا لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کہے کہ تم زبردستی سے دیکھتے ہو یا نہیں؟۔ یہ سُود خوری کا پہلا نتیجہ تھا جس نے جن کی طرح مفتی صاحبان کو بدحواس کرکے رکھا تھا۔ پھر ہمیں معلوم تھا کہ انہوں نے پیری مریدی کی الف ب کو بھی نہیں سمجھا ہے۔ جن لوگوں میں درس نظامی کی تعلیم سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو وہ ایک ایسے شعبے کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس کا ان سے دور دور کا بھی واسطہ نہ ہو؟۔ ہم نے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ، شاہ ولی اللہ ، شیخ الحدیث مولانا زکریا اور علامہ محمد یوسف بنوری کے حوالے سے مستند کتابوں کے کچھ واقعات نقل کئے جن میں ایک عبارت کا تعلق مولانا عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب ”اخبار الاخیار” سے تھا۔ جس کا ترجمہ مولانا سبحان محمود نے کیا تھا ۔ جس نے عمر کے آخری حصے میں اپنا نام سحبان محمود کردیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ جب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی وعظ کرتے تھے تو تمام انبیاء کرام بھی تشریف فرما ہوتے اور نبی کریم ۖ بھی جلوہ افروز ہوتے تھے۔ دار العلوم کراچی سے اس کا ترجمہ ہوا تھا ۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی نے اس پر فتویٰ لگایا تھا اور مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی ولی حسن ٹونکی نے بھی دستخط کئے تھے۔ دار العلوم کی طرف سے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا گیا تو ان سے ہم نے کہا کہ آپ اس کی تائید کریں یا تردید کریں۔ لیکن انہوں نے دونوں سے انکار کردیا تھا۔ جب ہم نے عبارات کے حوالہ جات لکھے تو سب بہت پریشان ہوگئے لیکن حاجی محمد عثمان نے فتویٰ شائع کرنے سے منع کردیا۔ جمعیت علماء اسلام ف اور س دونوں کے علماء کرام اس وقت حاجی صاحب کی تائید کررہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ چھرا تمہارے ہاتھ میں ہے اگر ان بکروں کو ذبح کردو اور یہ ٹانگ ہلائیں تو ہم پکڑ لیں گے۔ جب کورٹ کی طرف سے ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کا نوٹس بھیجا گیا تو مفتی تقی عثمانی نے ساری خدمت اپنے ذمے لی اور نوٹس کا یہ جواب دیا کہ ہم نے حاجی عثمان کے خلاف نام سے کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے۔
پھر ایک شخص نے الگ الگ الفاظ سے فتویٰ طلب کیا جس کے جواب میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء و مفتیان نے لکھا کہ ”نکاح بہرحال جائز ہے اور جو باتیں حاجی صاحب کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اگر وہ ان میں نہیں ہیں تو فتویٰ بھی نہیں لگتا ہے”۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی کے شاگردوں مفتی عبد الرحیم وغیرہ نے لکھا کہ نکاح جائز نہیں ہے۔ مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی سے یہ پوچھا گیا تھا کہ نکاح منعقد ہوجائے گا کہ نہیں ؟۔ جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ نکاح منعقد ہوجائے گا۔ بہتر ہے کہ انکے حالات سے آگاہ کریں۔
پھر سوال جواب ایک قلم سے مفتی عبد الرحیم نے مرتب کئے اور اس میں لکھا کہ ”اس نکاح کا انجام کیا ہوگا عمر بھر کی حرامکاری اور اولاد الزنا”۔ اس پر مفتی تقی عثمانی و رفیع عثمانی نے نوٹس لکھا کہ ”نکاح جائز نہیں گو منعقد ہوجائے”۔
جس پر میں نے دارالعلوم کراچی کی مسجد میں نماز مغرب کے بعد ان کو چیلنج کیا تو وہ سارے بھاگ کر گھروں میں گھسے۔ میں نے ان سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کے خلاف ان کی مسجد میں تقریر کی اور طلبہ نے حق زندہ باد کے نعرے لگائے۔
جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے علماء و مفتیان اور مولانا سلیم اللہ خان صاحب اس سازش پر پشیمان تھے ۔دار العلوم کراچی والوں کے ہاتھ میں استعمال ہونے کا افسوس کرتے تھے۔ مولانا عبد اللہ درخواستی کے نواسے مولانا انیس الرحمن درخواستی اس فتوے کے بعد حاجی عثمان صاحب سے بیعت ہوئے تھے۔ مولانا محمد مکی حجازی اور مولانا سیف الرحمن جامعہ صولتیہ مکہ مکرمہ والے بھی حاجی عثمان کی اس فتوے کے بعد بھی حمایت کرتے تھے۔ مولانا سلیم اللہ خان مسجد الٰہیہ بھی اس کے بعد تشریف لائے تھے۔MNAقاری گل رحمن سے بھی مولانا سلیم اللہ خان نے کہا تھا کہ علماء نے اس فتوے پر بہت پیسے کھائے ہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے کہا تھا کہ امام مالک پر فتویٰ لگانے والوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے لیکن امام مالک کو دنیا جانتی ہے۔ اسی طرح تاریخ میں حاجی عثمان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ان پر فتویٰ لگانے والے مٹ جائیں گے۔
آج اللہ تعالیٰ نے ہم سے وہ کام لیا ہے جس کی وجہ سے دینی نصاب کی بھی بہت بڑے پیمانے پر اصلاح ہونے والی ہے۔ دوسری طرف مفتی تقی عثمانی نے عالمی سُودی نظام کو معاوضہ لے کر جائز قرار دیا ہے اور اپنے چہرے پر وہ کالک ملی ہے جس سے نہ صرف مفتی تقی عثمانی فرعون کی طرح یادگار بنارہے گا بلکہ اس کے وہ اسلاف بھی تاریخ میں از سر نو عوام کے نوٹس میں آجائیں گے جنہوں نے حیلہ سازی کے ذریعے سے ہمیشہ درباری بن کر علماء سوء کا کردار ادا کیا ہے۔ جب مفتی محمود کے بارے میں ان کی وفات کے بعد مشہور ہوا کہ ان کوپان میں زہر دے کر شہید کیا گیا ہے تو مجھے بڑا تعجب ہوا کہ مفتی تقی عثمانی نے اپنی تحریر میں لکھ دیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو مفتی محمود نے زکوٰة کے مسئلے پر جامعہ بنوری ٹاؤن بلایا تھا اور چائے کی پیشکش کی تو ہم نے کہا کہ دن میں ایک مرتبہ سے زیادہ ہم چائے نہیں پیتے۔ جس پر مفتی محمود نے کہا کہ میں خود زیادہ چائے پیتا ہوں لیکن جو نہیں پیتا تو میں اس کو پسند کرتا ہوں۔ ہم نے پان کا بٹوا دکھایا کہ ہمارے ساتھ یہ علت لگی ہوئی ہے۔ جس پر مفتی محمود نے فرمایا کہ یہ تو چائے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ پھر معمول کی گفتگو لکھی اوریہ تحریر پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ کتنا بڑا جھوٹ گھڑا گیا ہے۔ اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مفتی محمود کو پان کھلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر جب اقراء ڈائجسٹ کا” بنوری و محمود نمبر” چھپا تو اس میں مفتی تقی عثمانی کی یہ تحریر بھی تھی جو البلاغ میں شائع ہوئی تھی ۔مولانا یوسف لدھیانوی کی تحریر بھی تھی جو بینات میں شائع ہوئی تھی۔ مولانا لدھیانوی نے یہ بھی لکھا تھا کہ” پھر مفتی تقی عثمانی نے اصرار کرکے مفتی محمود کو پان کھلایا اور جب تھوڑی دیر کے بعد ان پر دورہ پڑا تو مفتی رفیع عثمانی نے ان کے حلق میں دورہ قلب کی خصوصی گولی ڈال دی ”۔ اس پر ہم نے اپنی کتابوں اور اخبار میں معاملہ اٹھایا تو مولانا یوسف لدھیانوی نے بتایا کہ مجھے مفتی تقی عثمانی نے ڈانٹ پلائی ہے کہ اس کے لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ اب بدحواسی میں مفتی تقی عثمانی نے ایک آڈیو بیان جاری کیا کہ مفتی محمود سے میری بے تکلفی تھی اور وہ مجھے کہتے تھے کہ بھیا اپنا پان ذرا کھلائیے ۔ انشاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ مفتی تقی عثمانی سے جھوٹ اور فتوؤں کا حساب مانگا جائیگا۔ انقلاب آئیگا اور سربستہ راز کھلیں گے۔ عتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز