پوسٹ تلاش کریں

حضرت حاجی محمد عثمان پر لگنے والے فتوے کے ایک ایک نکتے پر زبردست ومدلل جوابات!

حضرت حاجی محمد عثمان پر لگنے والے فتوے کے ایک ایک نکتے پر زبردست ومدلل جوابات! اخبار: نوشتہ دیوار

حضرت حاجی محمد عثمان پر لگنے والے فتوے کے ایک ایک نکتے پر زبردست ومدلل جوابات!

1:حاجی عثمان اپنے استخارے کو قطعی سمجھتے تھے؟۔2:مرید کے مشاہدے پر حدیث صحیحہ کاانکار کیا؟۔3:مولانا فقیرمحمد نے خلافت سلب کی اوریہ تصوف کے اصولوں کیخلاف ہے؟

اگر اپنا استخارہ قطعی سمجھتے تو مرید کے مشاہدے پر کیوں اعتبار کیا؟۔ یہ دونوں نکات آپس میں متضاد ہیں۔ مولانا فقیر محمد نے دوبار خلافت کیسے دی تھی؟۔ سچ کیوں نہیں بتایا اے دتو جھوٹے !

ایک طرف علماء ومفتیان نے ”الائنس موٹرز” کی وجہ سے حاجی عثمان پر فتوی لگایا تھا اور دوسری طرف سید عبدالقادر جیلانی، شاہ ولی اللہ، علامہ یوسف بنوری اور شیخ الحدیث مولانا زکریا اس کی زد میںآگئے۔ حوالہ دئیے بغیر فتویٰ طلب کیا تو ان اکابر پر کفر ،زندقہ ، قادیانیت کا فتویٰ لگایا، ہفت روزہ تکبیر کراچی کو بھی دیا کہ ” یہ خاص مرید سید عتیق الرحمن گیلانی نے اپنے پیر حاجی عثمان کے بارے میں لیا ”۔ ہفت روزہ تکبیر نے بھی یہاں تک لکھ دیا کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والے پیر کی خانقاہ پر حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پرپابندی لگادے۔
جبکہ حوالہ جات کے ساتھ اہل فتویٰ کو اس شعر کیساتھ خبردار کردیا تھا کہ
ہم ضبط کی دہلیز سے اترے تو سمجھ لو پھر شہرِ پراَسرار میں تم چل نہ سکوگے
مفتی رشیداحمد لدھیانوی اور مفتی عبدالرحیم کی جان نکلی تھی کہ اہل شریعت و تصوف دونوں پر ہم نے کس درجہ جہالت کا ثبوت دیکر فتویٰ لگادیا اور عوام کو پتہ چلے تو ہمارا کیا بنے گا؟۔ علماء کو فتویٰ چھاپنے سے روکنے کیلئے دیگر علماء کی خدمات حاصل کی تھیں اور کرایہ کے پالتو دہشت گرد بھی رکھے ہوئے تھے۔
ہمارا ظرف تھا کہ سال کے بعد ہفت روزہ تکبیر کراچی کو حقائق سے آگاہ کیا تو انہوں نے لکھ دیا کہ ”علماء ومفتیان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو غلط بیانی سے کام لینے کے بجائے کھل کر معذرت کرلیں،اسی میں عزت کا راستہ ہے”۔
ہتک عزت کا دعویٰ کرنے پروکیل کے نوٹس پر مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ ” ہم نے حاجی عثمان پر نام سے کوئی فتویٰ نہیں لگایا ”۔ کسی نے اپنے داماد کے بارے میںالگ الگ فتویٰ طلب کیا۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے لکھا کہ ” نکاح بہرحال جائز ہے”۔ دارالعلوم کراچی نے لکھا کہ ” نکاح منعقد ہوجائے گا”۔ مفتی عبدالرحیم نے لکھ دیا کہ ”نکاح جائز نہیں ہے” اور حوالہ کفو کا دیا،حالانکہ کفو کا مسئلہ تو اس وقت ہوتا جب لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی۔ پھر مفتی عبدالرحیم نے سوال جواب خود مرتب کرکے فتویٰ لکھ دیا جس کی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دیگر مفتیان نے تصدیق نہیں کی کیونکہ جائز قرار دے چکے تھے اور فتویٰ ان پر لگ رہا تھا۔ البتہ مفتی ولی حسن ایک مجذوب الحال تھے۔ اسلئے دستخط کردئیے۔ اگر کوئی دوسرا فتویٰ لاتا تو بھی اس نے یہی دستخط کرنے تھے۔ مولانا بدیع الزمان مدرس جامعہ بنوری ٹاؤن مفتی تقی عثمانی کے بھی استاذ تھے۔ فتویٰ کی مخالفت میں میرے کردار پربہت خوش تھے اور ملنے انکے گھر بھی گیا تھا۔
اگر حاجی عثمان پر مکاشفات کی بنیاد پر فتویٰ لگتا تو علماء کا یہ منصب تھا۔پھر ہر فراڈیہ مکاشفہ بیان کرتا اور جاہلوں کی مزید گمراہی کا سبب بنتا۔ ان علماء و مفتیان کا اصل مسئلہ شریعت وتصوف نہ تھا بلکہ الائنس موٹرز میں سرمایہ لگایا تھا۔ الائنس کا اصول یہ تھا کہ ماہانہ منافع میں40فیصد سرمایہ کار اور60فیصد کمپنی کو جاتا اور ایجنٹ کے ذریعے سرمایہ آتا تھا تو38فیصد سرمایہ کار اور2فیصد ایجنٹMDکو ملتا تھا۔ سرمایہ ڈوبنے میں مفتی عبدالرحیم کا کردار تھا۔ اسلئے کہ کمپنی کا اصول یہ تھا کہ ” رقم واپس لینے کیلئے سرمایہ کار ایک ماہ پہلے اطلاع دے گا اور اس کا منافع نہیں ملے گا”۔ مفتی عبدالرحیم نے فتویٰ دیا کہ اطلاعی مدت کمپنی یکطرفہ3ماہ کرسکتی ہے۔پھر فتویٰ دیا کہ ” اطلاعی مدت6ماہ ہے”۔ الائنس موٹرز کو ان فتوؤں کے ذریعے فرار کا موقع ملا اور شریعت کو بالکل ناجائز استعمال کیا گیا تھا۔

___ فتویٰ کے چیدہ نکات اور ان پر تبصرہ ___
1:فتوے میں بیعت وارشاد کی اہلیت کی نفی ہے۔ حالانکہ بہت بڑی تعداد میں مدارس کے علماء اور ان کے اساتذہ کے علاوہ عرب وعجم کے تعلیم یافتہ لوگ بیعت تھے اور ان کی اصلاح وتزکیہ کا سلسلہ مثالی طور پر جاری تھا۔ یہ فتویٰ اصل میں مولانا فقیر محمد اور تھانوی سلسلے کی خلافت کے خلاف ہے جہاں بیعت وارشاد کی تصدیق ایک مرتبہ نہیں بلکہ دوبار کی گئی ۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ مولانا فقیرمحمد سے کہہ دیا جاتا کہ آپ نے ورود کی نسبت سے خلافت دیکر گمراہی پھیلائی ہے ۔
2: اگر بیعت کا سلسلہ جاری رکھا تو شدید گمراہی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ فتویٰ خدشہ پر نہیں امر واقع پر دیا جاتاہے اور جو دارالعلوم کراچی والے شادی بیاہ میں لفافے کی لین دین پر سود کا فتویٰ بھی لگاتے تھے اور70سے زیادہ گناہوں میں سے کم ازکم گناہ اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیتے تھے، پھر انہوں نے عالمی بینکاری کے سودی نظام کو اسلامی قرار دیکر کتنی بڑی گمراہی کا ثبوت دیا؟۔ اگر مفتی تقی ورفیع عثمانی اپنے استاذ مولانا عبدالحق فاضل دارالعلوم دیوبند اور مولانا اشفاق احمد قاسمی کی طرح حاجی عثمان سے بیعت ہوتے تو کئی علتوں سے بچ جاتے۔ مفتی محمود کی چائے سے انکار نہ کرتے۔ جب یہ کہہ دیا کہ حضرت ہمارے ساتھ یہ (پان کا بٹوہ دکھاکر) علت لگی ہے اورجواب میں مفتی محمود نے کہا کہ ”یہ توچائے سے بھی بدتر ہے”۔ اسکے باوجود اصرار کرکے پان نہ کھلاتے اور نہ حکیم تھا اور نہ دورہ قلب کا مریض لیکن مفتی رفیع عثمانی نے دورہ ٔ قلب کی گولی مفتی محمود کے حلق میں ڈال دی۔ حاجی عثمان سے بیعت کا شرف حاصل ہوتا تو یہ حرکتیں نہ کرتے ۔نہ اپنی تحریر میں چھپاتے اور مولانا یوسف لدھیانوی کے لکھنے پر ڈانٹ نہ پلاتے ۔ جھوٹ نہیں بولتے کہ مفتی محمود سے بے تکلفی تھی اور وہ بھیا کہہ کر پان مانگ کر کھاتے تھے۔ مفتی شفیع نے فتنہ اولاد کیلئے دارالعلوم کی وقف زمین میں مکانات خریدے اور مفتی تقی عثمانی نے استاذ کو اسکے خلاف فتویٰ دینے پر ماراپیٹا ۔ مکان واپس کرتے اور مفتی رشیداحمد لدھیانوی سے اعلانیہ معافی مانگتے۔ ڈاکٹر عبدالحی سے جنرل ضیاء کے بیٹے ڈاکٹر انوارالحق کا نکاح قادیانی جنرل رحیم کی قادیانی بیٹی سے نہ پڑھواتے۔ جنرل ضیاء الحق کو غلط فتویٰ دے کر اسلام کے نام پر ریفرینڈم نہ لڑواتے۔ اپنے فتاویٰ عثمانی میں گمراہ کن فتوے شائع نہ کرتے اور نہ لوگوں کو گمراہ کرتے۔ سودی نظام کیلئے علماء حق کا بھی مقابلہ کرنے تک پھر نوبت نہ پہنچتی۔ حاجی محمد عثمان سے عقیدت ومحبت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے رشد وہدایت کا وہ کام لیا ہے جس کو دنیا مانتی ہے۔
3: آپ کے بعض معتقدات اہل حق کے معتقدات کے خلاف ہیں ۔
1: اپنی تحقیق یا استخارہ کو بالکل قطعی اور یقینی سمجھنا۔
2: ایک خلیفہ کے مشاہدے کی بنیاد پر ایک صحیح حدیث کا انکار کرنا۔
اس سلسلے میں20نکات لکھ دی ہیں جن میں تضادات اور بار بار ایک ہی بات پر زور دیا گیا ہے کہ آپ میں اہلیت نہیں ، گمراہ ہیں اوراپنی اصلاح کریں۔ حالانکہ گمراہی الگ اور اصلاح الگ چیز ہے۔ گمراہی کی ضد ہدایت اور بدعملی کی ضداصلاح ہے۔ اگر عورت کو حلالہ کی ضرورت نہیں مگر حلالہ کا فتویٰ دیا جاتاہے تو یہ گمراہی ہے اور حلالہ لعنت ہے۔ کوئی حلالہ کو پیشہ بناتا ہے تو اس کو توبہ اوراصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر حاجی عثمان کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تو حلالہ کی لعنت سے توبہ کرکے اصلاح حاصل کرلیتے اورپھر آج ہماری علمی رہنمائی سے حلالہ کے غلط فتوؤں کو چھوڑ کر رشد وہدایت کے راستے پر لگ جاتے۔
اگر حاجی عثمان اپنی تحقیق یا استخارے کو قطعی سمجھتے تو پھرخلیفہ کے مشاہدے کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔ ان پہلی دونوں باتوں میں بڑا تضاد موجود ہے۔ جواپنی تحقیق یا استخارہ کو قطعی سمجھتا ہو تو وہ خلیفہ کے مشاہدے پر رائے کیوں قائم کرے گا؟۔ دونوں باتوںمیں کوئی ایک بات ہی ہوسکتی ہے۔
حاجی عثمان شریعت کے معاملہ میں بہت پابند تھے۔ مسئلے مسائل میں علماء کا فتویٰ ضروری سمجھتے تھے۔ مشاہدے ، مکاشفے اور خواب کے بارے میں کہتے تھے کہ شیطانی بھی ہوسکتے ہیں۔ فرماتے تھے کہ شیطان کے ایک لاکھ نورانی حجابات ہیں جن میں بندوں اور بڑے بڑے اللہ والوں پر نیکی کی شکل میں وار کرتا ہے۔
انبیاء کرام اور رسول اللہۖ گناہوں اور لغزشوں سے پاک ہیں۔ حضرت عائشہ نے نبی ۖ سے عرض کیا کہ ” اللہ نے آپکے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے ” گناہ کے الفاظ پر حاجی عثمان نے خلیفہ سے کہا کہ ”حدیث کا پوچھ لو”۔ اسلئے کہ وہ مکاشفات بیان کرتا رہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ” نبی ۖ نے فرمایا حدیث صحیح ہے مگر الفاظ میں ردو بدل ہے”۔ مولانا عبدالستار رحمانی ڈیرہ غازی خان والے نے کہا کہ ” یہ الفاظ قرآن میں ہیں”تاکہ اللہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردے”۔ اس وقت میں موجود تھا اور مشکوٰة شریف میں یہ حدیث پڑھی تھی اور اس کی توجیہات بھی مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید نے بیان کی تھیں۔ جن کا تفصیل سے مجلس میں ذکر کیا۔ مولانا شہید نے فتوؤں کے بعد حاجی عثمان سے بیعت کی اور ان کے بڑے بھائی مفتی حبیب الرحمن درخواستی نے حاجی عثمان کے حق میں فتوے بھی لکھے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ الائنس موٹرزوالوں نے ایک چال کھیلنے کی کوشش کی تھی اور بروقت ناکام بھی ہوئے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کے اس ترجمہ پر بڑا اختلاف ہے۔ جس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ نصاب کی کتابوں میں غلط بنیاد پر صحیح حدیث کا انکار کیا جاتا ہے تو اس گمراہی کو روکنا ضروری ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ الحمدللہ حاجی عثمان کے استخارے کی برکت سے صحیح حدیث کے انکار کا دروازہ بند ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی لیکن آپ ا ستخارہ کو قطعی نہ سمجھتے تھے۔کمال کی بات یہ ہے کہ جس طرح مولانا فقیر محمد نے بار بار ورود کی نسبت سے خلافت کی پیشکش کی اور پھر مسلسل انکار ہی کرتے رہے اور پھر مسجد نبوی ۖ میں رمضان لیلة القدر کو ورود کی انتہاء ہوگئی ۔ پھر آپ کو بھی اجازت مل گئی اور تحریری شکل میں لکھ کر دینے کا کہا۔ اس تحریر میں جو جملے اور الفاظ ہیں وہ بڑے کمال کے ہیں۔ مولانا فقیر محمد نے اپنے مرشد مولانا اشرف علی تھانوی کے نہیں بلکہ ان کے مرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مشابہ لکھ دیا ہے۔ پھر خلافت کو کسی کے مشورے سے واپس لینے کا اعلان اور پھر خلافت کو دائم اور قائم قرار دینے کی بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ علماء ومفتیان کی اپنی شریعت سے اس میں قلابازیاں بھی ایک زبردست اور واضح ثبوت ہیں کہ مخالفین کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق تھے؟۔ مولانا یوسف لدھیانوی معتقد تھے لیکن ان کی طرف جھوٹا خط لکھ کر منسوب کیا گیا تھا۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن کے ترجمہ میں گستاخانہ الفاظ یا تحریف کی ایک بڑی بحث فرقہ وارانہ بنیادوں پر موجود ہے۔ نبیۖ کی طرف گناہ کی نسبت کے مفہوم سمجھنے کیلئے قرآنی آیات کے سیاق وسباق کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ” کسی سے کہا جائے کہ میں فتح مبین کا انعام اسلئے دے رہا ہوں کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں”۔ اس کیلئے تو مصیبت کھڑی ہونے کا لفظ ہونا چاہیے کہ اس آزمائش میں اسلئے مبتلا ء کررہا ہوں کہ تیرے گناہ معاف ہوجائیں۔ آیت میں ذنب کا معنی گناہ نہیں بلکہ بوجھ ہے اور اس بوجھ کا اللہ نے فرمایا کہ ”ہم نے وہ بوجھ اٹھالیا جس نے آپ کی کمر دوہری کردی تھی” توڑنے کا لفظ مناسب نہیں توگناہ کا لفظ کیسے مناسب ہوگا۔ حاجی عثمان کا خلیفہ مشاہدات دیکھتا اور مولانا فقیر محمد نے بھی ورود کا تحریری بیان دیا۔ وہ دونوں اچھے قرار پائے اور حاجی عثمان پر فتوے لگے کیونکہ آپ کو ہدف بنانے کا بھاڑہ وصول کیا گیا تھا۔ مشاہدات میں تو بڑے بڑے علماء حضرات بھی شامل تھے تو ان کا کیا بنتا؟۔
اصل بات یہ تھی کہ مولانا مسعودالدین عثمانی نے ”توحید خالص” کتاب لکھ کر علامہ بنوری سے اسلاف تک سب کو مشرک قرار دیا تھا۔ علماء ومفتیان جواب دینے کے بجائے اپنی دُموں سے اپنے لتھڑے ہوئے چوتڑ صاف کرتے پھر رہے تھے۔حاجی عثمان کی خانقاہ کو اللہ نے اسلاف سے عقیدت قائم رکھنے کا بڑا وسیلہ بنالیا لیکن فتویٰ فروشان اسلام نے اہل حق پر فتوے لگانے والوں کی تاریخ زندہ کردی کہ کیسے دنیاوی مفادات کیلئے آنکھیں بند کرکے بلعم بن باعوراء کتے کا کردار ادا کیا جاتا ہے؟۔ آج بھی علماء سوء اور علماء حق کا کردار بالکل واضح ہے۔
حاجی عثماننے فرمایا: ” یہ رشتہ مقدر میں ہے۔ اللہ والے لوح محفوظ کو پڑھ لیتے ہیں”۔میں نے بات نہیں مانی۔مجھے استخارہ کرنے کا کہا میں نے استخارے سے بھی انکار کیا اور ایک ساتھی عارف بھوجانی نے کہا کہ حضرت نے استخارہ کیا ہے تو اس پر میں بہت شدید غصہ ہوا کہ تمہارا کیا کام ہے،پھر وقت آیا کہ تقدیر کی بات حاجی عثمان کی وفات کے بعد غیرمتوقع انداز میںپوری ہوئی۔پہلی وحی کی حدیث اقراء اور ماانا بقاری پر منکرینِ حدیث نے اتنے جاندار اعتراض کئے کہ اہلحدیث اور حنفی بھی اس کا انکار کرنے لگے۔ مگر حاجی عثمان کے استخارہ سے یہ رہنمائی مل گئی کہ ”حدیث میں لوح محفوظ کا دل سے پڑھنا مراد ہے”۔ جس پر جاندار اعتراض بالکل ٹھس ہوجاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: ” اندھا دل کا اندھاہے” اور انہی کیلئے فرمایا کہ ” جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے”۔ دنیاوی مفادات قرآن کی موٹی موٹی باتوں کو سمجھنے سے بھی اندھا کردیتے ہیں۔
”جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکانکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ یہ حدیث قرآن سے متضاد نہیں، طلاق شدہ عورت کا ولی نہیں ہوتا۔ بیوہ کو واضح الفاظ میں قرآن نے اختیار کامالک کہا۔ جعلی عربی نسل عثمانی اچھوت کی لڑکی کیلئے الگ فتویٰ ہو۔ درخواستی ، لاہوری اور سندھی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور طالبان کی لڑکیوں کیلئے الگ فتوی ہو۔ اس کو تسلیم کرنا سرائیکی، پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی اور مہاجروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔فوج کے غیرتمند جرنیلوں ، علماء حق اور عوام الناس کو اس کا نوٹس لینا ہوگا۔ سیدعتیق گیلانی

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 5)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 4)
عورت کو خلع کا حق نہ ملنے کے وہ بہت خطرناک نتائج جن کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا (پارٹ 3)