پوسٹ تلاش کریں

عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ صحیح بخاری کی حدیث کا عنوان

عورت کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی نہیں ہو سکتی۔ صحیح بخاری کی حدیث کا عنوان اخبار: نوشتہ دیوار

عورت کی حق تلفی کے معرکة الآراء مسائل کی بنیادیںاور ان کے حل کی طرف توجہ طلب امور کے مختصر تذکرے اور نشاندہی!

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
نوشتہ دیوار کراچی۔ سوشل میڈیا پوسٹ ماہ نومبر

صحیح بخاری کی احادیث کا عنوان ہے کہ ” عورت کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں کرایا جاسکتا ہے”۔ رسول اللہ ۖ سے ایک خاتون نے شکایت لگائی کہ اس کا نکاح اس کے ولی نے اس کی مرضی کے بغیر کردیا ہے تو رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ” یہ نکاح نہیں ہوا ہے”۔ قرآن کے بعد فقہ کے اصول میں حدیث کا نمبر ہے۔ جب رسول اللہۖ کی بات سامنے آئے اور وہ قرآن کے خلاف ہو تو پھر اس کو رد کیا جائے اسلئے کہ قرآن پہلے نمبرپر ہے لیکن اس کے بعد کسی دوسرے کے قول حجت نہیں بلکہ قرآن وسنت اور شرعی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کے استاذ اور وفاق المدارس العربیہ کے سابق صدر مولانا سلیم اللہ خان نے صحیح بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری ” میں ایک عنوان ” ولایت اجبار” کے نام سے نقل کیا ہے۔ جس میں کسی امام کا یہ مسلک بھی نقل کیا ہے کہ ” عورت کنواری یا طلاق شدہ وبیوہ ، بہر حال ولی کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کا نکاح جبری طور پر اس کی اجازت اور رضامندی کے بغیر کسی بھی اس شخص سے کردے ”۔دوسرا مسلک یہ ہے کہ ” بچی اور کنواری بالغ لڑکی کا زبردستی سے اس کی اجازت کے بغیر نکا ح کرانا ولی کیلئے جائز ہے لیکن طلاق شدہ بچی اور بالغ عورت کا زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ یہ شافعی مسلک ہے ۔ اور تیسرا حنفی مسلک یہ ہے کہ ” بچی کنواری ہو یا طلاق شدہ اس کا نکاح زبردستی کرانا ولی کیلئے جائز ہے مگربالغ کنواری اور بیوہ وطلاق شدہ کا زبردستی نکاح کرانا جائز نہیں ہے”۔ چوتھا مسلک یہ ہے کہ ” بچی ،بالغ ، کنواری ، بیوہ و طلاق شدہ کا ولی کیلئے زبردستی سے نکاح کرانا جائز نہیں اور بچی کا نکاح جائز نہیں ہے ”۔ علامہ شبرمہ کے اس مسلک پر جامعہ ازہر مصر کی رہنمائی سے مصر کی حکومت نے بھی1923ء میں قانون سازی کی تھی۔ یہی عدالتوں کیلئے معیار بن گیا ہے۔
مسالک کے نام پر بچیوں اور خواتین کے استحصال کی اجازت انتہائی غلیظ اور گھٹیا بات ہے اور مردوں کے معاشرے میں عورت پر اس سے بھی زیادہ جبر روا رکھا جاتا ہے لیکن اسلام کے نام پر چلنے والی حکومتوں نے اس کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیا ہے۔ حضرت مالک بن نویرہ کے قتل کے بعد اس کی خوبصورت بیگم سے اس کی عدت میں جب حضرت خالدبن ولید نے جبری نکاح کرلیا تو حضرت عمر نے خلیفۂ وقت حضرت ابوبکر صدیق سے عرض کیا کہ اس جرم میںخالد بن ولید پر سنگساری کا حکم جاری کردیتے ہیں۔ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ تنبیہ کافی ہے اسلئے کہ اس فتنے وارتداد کے دور میں ہمیں حضرت خالد کی ضرورت ہے۔
قرآن میںحضرت داؤد کے مشہور واقعہ کا ذکر ہے کہ جب کچھ لوگ اچانک محراب میں داخل ہوگئے تو وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسئلہ پوچھنے آئے ہیں، یہ میرا بھائی ہے اور اس کی99دنبیاں ہیں اور میری ایک دنبی ہے ،اس کی چاہت ہے کہ ایک دنبی بھی مجھ سے چھین لے۔ حضرت داؤد نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو تیرے ساتھ یہ ظلم ہے اور پھر سمجھ گئے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے اپنے غلط عزائم کی معافی مانگ لی ۔پس اللہ نے اسکو معاف کردیا”۔ قرآن کے اس واقعہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ حضرت داؤد کی99بیویاں تھیں اور ان کے مجاہد حضرت اوریا کی ایک بیوی تھی اور حضرت داؤد کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھی اپنے مجاہد اوریا سے لے لے۔ پہلے ادوار میں عورت کی اپنی حیثیت ایک جانور کی ہوتی تھی۔ بڑے پیمانے پر لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا اور طاقتور کمزوروں سے عورت چھین لیتے تھے۔اسلام نے عورت کو ایک انسان اور اپنی جان کے مالک اور اپنے اوپر اختیارات رکھنے کا تصور دنیا کو دے دیا تھا۔
قرآن وسنت کے خلاف مختلف مسالک گھڑ کر اختلافات کے انبار کھڑے نہ کئے جاتے تو آج دنیا میں قرآن وسنت کا نظام عملی طور پر رائج ہوتا۔ پاکستان کی حکومت نے مرد اور عورت کی شادی کیلئے18سال کا قانون اسلئے بنادیا ہے کہ مرد اور عورت کا معاشرے کی طرف سے شادی پر مجبور کرانے کی رسم وروایت کا خاتمہ ہوجائے لیکن جب کوئی بالغ لڑکا اور لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو ان کو معاشرے اور حکومت کے قوانین سے بغاوت کرنے کے نتائج دیکھنے پڑتے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی کا معاملہ بھی اصل میں اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔جنسی خواہشات اور شادی کیلئے جب دو افراد سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے سماج، رسم ورواج، مذہب اور کسی بھی رکاوٹ اور قانونی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ مغرب نے اس کے حل کیلئے جنسی آزادی کو بنیاد قرار دیا ہے اور شادی کیلئے مشترکہ جائیداد اور طلاق کے بعد جائیداد کی تقسیم کو قانون بنادیا ہے۔
عورت کے حق کیلئے نظریۂ ضرورت ہر دور میں حائل رہاہے۔ جب قرآن کی آیات لعان کے حوالے سے سورۂ نور میں نازل ہوئیں تو انصار ی سردارحضرت سعد بن عبادہ نے کہا کہ میں قرآن کے اس حکم لعان پر عمل نہیں بلکہ قتل کروں گا۔ نبیۖ نے انصار سے کہا کہ تمہارا صاحب یہ کیا کہتا ہے؟۔ انصار نے عرض کیا کہ یار سول اللہ صل اللہ علیک وسلم ! یہ بہت غیرت والا ہے۔ ہمیشہ کنواری سے شادی کی اور جب طلاق دی تو کسی اور سے اس کو شادی نہیں کرنے دی۔ طلاق شدہ اور بیوہ سے کبھی شادی نہیں کی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” میں اس سے زیادہ غیرتمند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرتمند ہے”۔ (صحیح بخاری)
انصارنے اپنی غیرت کیلئے حضرت سعد بن عبادہ کی غیرت کو ڈھال بنایااور ان کے دلوں میں یہی تھا کہ اگر بیوی کیساتھ کسی اجنبی کو فحاشی کی حالت میں دیکھ لیں گے تو ہم بھی غیرت کی وجہ سے قتل کردیں گے۔ نبیۖ نے یہی صورتحال دیکھ لی تو فرمایا تھا کہ ” اسلام اجنبیت کی حالت میں شروع ہوا تھا اور یہ عنقریب پھر اجنبی بن جائے گا۔ پس خوشخبری ہے اجنبیوں کیلئے”۔ نبیۖ نے یہ خواب دیکھا تھا کہ دین اسلام محض ایک مذہب نہیں رہے گا بلکہ معروضی حقیقت بن جائے گا۔ تمام ادیان پر غالب ہوگا اور آسمان وزمین والے دونوں اس سے خوش ہوں گے۔ اس کو حقیقت میں بدلنے کیلئے وہ اجنبیوں کی جماعت ہوگی جو قرآن کے احکام سے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونکے گی۔قرآن کے الفاظ کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے اور اس کے معانی اپنے طور پر بہت واضح ہیں لیکن افسوس کہ علماء ،دانشور اور عوام اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔
مرد کی سب سے بڑی کمزوری عورت اور عورت کی سب سے بڑی مرد ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی تو تقدیر سے ویسے مل جاتے ہیں لیکن بیوی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مرد چار وجوہات کی وجہ سے بیگم کا انتخاب کرتا ہے۔نمبر1:حسن وجمال، نمبر2:حسب ونسب، نمبر3:مالداراور صاحب حیثیت،نمبر4:کردار واخلاق، نبیۖ نے ان چاروں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”تیری ناک خاک آلود ہو ، آپ کردار کو سب سے زیادہ ترجیح دو”۔پہلے تین وجوہ کیلئے ترغیب کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں میں حسن وجمال، حسب نسب اور مالدار ہونے کی ویسے بڑی رغبت ہوتی ہے مگر نبیۖ نے اصل چیز کی نشاندہی فرمادی۔ وفاق المدارس کے صدر مولانا سلیم اللہ خان نے اس حدیث کی تشریح میں لکھ دیا کہ ”پہلے تو یہ چاروں کی چاروں صفات اس عورت میں ہونے ہوں لیکن اگر سب نہ ہو ں تو پھر کردار ضرور ہونا چاہیے”۔ علماء کرام میں دنیا کی محبت اتنی گھرکر گئی تھی کہ نبیۖ کی اس حدیث کی درست تشریح کرنے کی توفیق بھی اللہ نے نہیں دی تھی۔
انسان کی فطرت میں حب الشہوات من النساء (عورتوں سے شہوت کی محبت) موجود ہے اور اس کی نشاندہی قرآن نے کردی ہے۔ نبیۖ کو آئندہ شادی نہ کرنے سے اللہ نے منع کرتے ہوئے فرمایا: ولواعجبک حسنھن ” اور اگرچہ ان کا حسن آپ کو اچھا لگے”۔پھر الا ماملکت یمینک ”مگر جو آپ سے ایگریمنٹ والی ہو” کی اجازت دیدی۔حضرت ام ہانی حضرت علی کی ہمشیرہ کوفتح مکہ کے بعدنبیۖ نے شادی کی پیشکش کی لیکن حضرت ام ہانی نے معذرت کرلی۔ جس پر نبیۖ نے ان کی تعریف کی تھی اور پھر اللہ نے فرمایا کہ ” ہم نے تمہارے لئے چچااور ماموں کی ان بیٹیوں کو حلال کیا ہے جنہوں نے آپ کیساتھ ہجرت کی تھی….. اور پھر آئندہ کسی سے بھی نکاح نہ کریں ، چاہے ان کا حسن کتنا اچھا کیوں نہ لگے مگر جس سے آپ کا معاہدہ ہو”۔
علامہ بدر الدین عینی نے نبیۖ کی28ازواج کا ذکر کیا ہے جن میں حضرت ام ہانی کو بھی شامل کیا ہے۔ حالانکہ قرآن کے الفاظ میں ان سے ایگریمنٹ ہی ہوسکتا تھا لیکن باقاعدہ نکاح کی ممانعت تھی اسلئے کہ ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ سے پہلے وہ اپنے مشرک شوہر کیساتھ ہی رہی تھیں۔ مشرکوں سے نکاح منع ہونے کے باوجود کسی نے بھی انکے ازدواجی تعلقات کو حرام کاری قرار نہیں دیا تھا۔ البتہ مولیٰ علی نے اس کے شوہر کو قتل کرنا چاہا تھا جس پر آپ نے نبیۖ سے اپنے شوہر کیلئے پناہ کی درخواست کی تھی۔ نبیۖ نے فرمایا کہ” صرف شوہر ہی نہیں جس کو چاہو پناہ دے سکتی ہو”۔قرآن اور نبی ۖ کی سنت فطرت کے اتنے محافظ ہیں کہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بعد جو مرد شرک چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا تو اس کو واپس کردیا جاتا لیکن جب خاتون شرک اور اپنے شوہر کو چھوڑ کر مدینہ پہنچ جاتی تو نبیۖ اس کو واپس نہ کرتے۔ اللہ نے سورۂ ممتحنہ میں فرمایا کہ ”ان ہجرت کرنے والی عورتوں سے امتحان لو،اگر واقعی انہوں نے اسلام قبول کیا ہو تو پھر انکو واپس مت لوٹاؤ۔ اسلئے کہ وہ اپنے شوہروں کیلئے اب حلال نہیں ہیں اور نہ ان کے شوہر ان عورتوں کیلئے حلال ہیں۔ ان کوحق مہر دے کر ان سے نکاح کرلو”۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ عورت کیلئے وہ حلال نہیں ہیں کیونکہ مسلمان کو حلال وحرام کا لحاظ کرنا تھا لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ مشرک شوہروں کیلئے وہ حلال نہیں ہیں؟۔ یہ شرعی مسئلہ نہیں تھا بلکہ سماجی مسئلہ تھا۔ اگر ان خواتین کو واپس بھیج دیا جاتا تو پھر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔اسلئے دونوں طرف حلال نہ ہونے کی نسبت کی گئی اور جب ام ہانی نے ہجرت نہیں کی تھی تو ان پر اس بات کا اطلاق بھی نہیں ہوتا تھاکہ وہ اور اس کے شوہر ایک دوسرے کیلئے حلال نہیں۔
قرآن نے سماجی غیرت کا اتنا لحاظ رکھا کہ جب مشرکوں کی مسلمان عورتیں اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر مسلمانوں کے پاس آرہی تھیں تومسلمانوں کو بھی اللہ نے یہ حکم دیا کہ ” کافر عورتوں کو اپنے پاس چمٹائے مت رکھو، ان کو رخصت کردو”۔ اس سے بڑھ کر یہ بھی واضح کردیا کہ مشرکوں کے دورِ جاہلیت کے خاص رواج کے مطابق ان کی جو عورتیں بھاگ کر تمہارے پاس آئی ہیں تو ان کے وہ خرچے جو ان کے شوہروں نے ان پر کئے ہیں وہ ان کو واپس لوٹادیں اور تم بھی ان سے وہ خرچہ لے لو جو تم نے ان کافر عورتوں پر کیا ہے اور اگر یہ تمہیں چھوڑ کر خرچہ واپس نہ کریں تو اللہ سے ڈرو اور ان کو معاف کردو”۔
ترجمہ وتفسیر والوں نے کھلے الفاظ کے باوجود یہ مغالطہ کھایا ہے کہ اگر کافر اپنی عورتوں کو وہ خرچہ نہ لوٹائیں تو تمہیں بھی بدلے میںکافر عورتوں کے حق مہرنہیں لوٹانا ہے۔ حالانکہ کافر کیساتھ انکے رواج کے مطابق معاملہ کرنیکا حکم دیا تھا اور اگر ان کی طرف سے اسکی پاسداری نہ ہو تو پھر اللہ نے انتقامی کاروائی سے روکا تھا اور اگر قرآن کا درست ترجمہ اور درست تفسیر ہو تو طالبان،شیعہ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک والے شدت پسندی کی جگہ آج بھی اعتدال پر آسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء کو جس شجرہ کے قریب جانے سے روکا تھا تو وہ جنسی خواہشات کاشجرۂ نسب تھا۔ اللہ نے انسانوں سے فرمایا ہے کہ ” اے بنی آدم ! شیطان تمہیں ننگا نہ کردے ، جیسے تمہارے والدین کو ننگا کرواکر جنت سے نکال دیا تھا”۔ شجرۂ نسب ہی وہ چیز ہے جس کے قریب جانے سے بھوک و ننگ کا معاملہ ہوتا ہے۔ اکل کے معنی عربی میں کھانے کے بھی ہوتے ہیں اور کنگھی کرنے کے بھی۔ جس طرح جماع کیلئے قرآن میں لامستم النسائ، مباشرت اور مقاربت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اسی طرح آدم و حواء کے قصے میں بہت زبردست طریقے سے اخلاقیات کے اعلیٰ درجے کے ادب کی زبان میں بات کی گئی ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل میں یا اپنی حدود سے تجاوز کرنے کیلئے یہ الفاظ بہت موزوں ہیں کہ ” ہم نے اپنے اختیار سے ایسا نہیں کیا ہے”۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا بھی سچ ہے کہ ولم نجد لہ عزمًا ”اورہم نے اس کا عزم نہیں پایا”۔لیکن تاہم جس چیز سے اللہ نے منع کیا تھا وہ بہر حال ہوچکی تھی اسلئے اللہ نے فرمایا کہ عصی آدم ربہ فغوی ” آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور پھر وہ بہک گیا”۔ اس فعل کی نسبت حضرت آدم وحواء دونوں کی طرف ہوتی ہے لیکن فاعل اور مفعول میں فرق ہوتا ہے۔ اصل ذمہ دار فاعل حضرت آدم ہی کو قرآن نے قرار دیا ہے لیکن افسوس کہ جرم کے ارتکاب کی ذمہ دار پھر حضرت حواء کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ اس نے حضرت آدم کو ورغلایا تھا اور یہ بھی ایک معاشرتی حقیقت ہے کہ جب تک عورت راضی نہ ہو تو مرد کیلئے زبردستی کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ ایک رشتہ بیوی کا ہوتا ہے اور دوسرا ماں کا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کئی بہنوں اور بیٹیوں کا بھی معاملہ ہوتا ہے اور محرم وغیرمحرم رشتہ داروں کا بھی معاملہ ہوتا ہے۔ جب تک انسان کے دل ودماغ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ سب خواتین کے مفادات کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے اس وقت تک مسائل کا حل ممکن نہیں اور اگر قرآن وسنت کو دیکھ لیں اور پھر مقابلے میں مسلک سازی کے اختلافات کا جائزہ لیں تو مکڑی کے جالوں کی طرح سب صاف ہوجائیں گے۔
اللہ نے فرمایا: الذین یجتنبون کبائر الاثم والفواحش الا اللمم ”وہ لوگ جو اجتناب کرتے ہیں بڑے گناہوں اور فحاشی سے مگراللمم کے”۔ انسان بہت کمزور ہے اور اس میں جنسی خواہشات موجود ہیں اور کہیں نہ کہیں اس سے غلطیوں کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے لیکن اس کی مجموعی زندگی مؤمنانہ کردار کے اندر گزرتی ہو، بڑے گناہوں اور فحاشی سے بچتا ہو تو قرآن نے اللمم کی چھوٹ بھی دیدی ہے۔ اللمم سے کیا مراد ہے؟۔ یہ انسانوں کے ماحول میں ایک مجبوری کا نام ہے جس میں دل ودماغ اور انسان کو اپنے عزائم پر قابو نہیں رہتا ہے اور یہ معاشرے کے اجتماعی رویوں اور انسانوں کے انفرادی اعمال میں ایک راز ہے جس کی وجہ سے انسان اپنی نہیں بلکہ اپنے ربّ کی تعریف اور پاکی بیان کرنے پر ہی دل سے مجبور ہوتا ہے۔ دوسروں کیلئے اچھے جذبات اور اپنی کمزوریوں کے احساس میں زندہ رہتا ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ ” غیبت کرنا زنا سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے” اور اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ”ایک دوسرے کی غیبت مت کرو کیاتم میں سے کوئی اپنے مردے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے”۔
اپنے لئے خدا سے اللمم کی ایک لمبی تاریخ اور زندگی کی تفسیر بیان کرنا لیکن اپنے مسلمان بھائی کے لمحات کی غلطیوں کو سرپر اٹھالینا کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔ بہترین قوانین اور ان پر عمل کرنے سے ہی ہمارا معاشرہ بہترین بن سکتا ہے۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز