پوسٹ تلاش کریں

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔ اخبار: نوشتہ دیوار

پاکستان میں انگریزی ڈھانچے کی جگہ اسلامی نظام کی روح کیسے پھونکی جاسکتی ہے؟۔

تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی

امریکہ نے پاکستان کے سفیر کو دھمکی دے کر اپنی سازش کی تکمیل کا کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا؟۔ مذہبی اور لسانی انتہاء پسند و دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیوں سے ملک و قوم کو اتنا نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تھا جتنا ایک خط نے اپنا کرشمہ دکھایا ہے۔ اگر اس کی وجہ سے افرا تفری کی فضاء پھیل جاتی ہے اور ملک کا استحکام خطرے میں پڑ جاتا ہے تو یہ بڑی کامیاب سازش ہوگی۔ شہبا ز شریف اور عمران خان دونوں اسٹیبلشمنٹ کے سگے ہیں اور دوسروں کو سیکورٹی رسک کہنے والے اب خود سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

سندھ کی معروف شخصیت نورالہدیٰ شاہ کی ٹوئٹ میں پاکستان کی زبردست عکاسی ہے جس میں فرح خان گوگی احتساب کے خوف سے بھاگی ہوئی ہے اور دوسری طرف خود کش بمبار شاری بلوچ نے وکٹری کانشان بنایا ہوا ہے۔
دوسری سائیڈ پر عیدالفطر کے دن کراچی میں بلوچ مسنگ پرسن کیلئے ایک بلوچ خاتون کی وائرل ویڈیو کی تصویر ہے جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ” بلاول بھٹو زرداری کیا جانتے ہیں کہ پرامن جدوجہد، مذمت اور مزاحمت کیا ہوتی ہے اور کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ہوتا ہے؟۔ جب ماما قدیر اور فرزانہ مجید کیساتھ ہماری خواتین، مردوں اور بچوں نے پہلے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا تو کن کن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ پرتعیش کنٹینر میں شراب پی کر بلاول بھٹو زرداری کراچی سے اسلام آباد مارچ کرتا ہے تو اس کو مذمت اور مزاحمت کا کیا پتہ چلتا ہے۔ پنجاب میں ہماری بیٹیوں ،ماماقدیر اور فرزانہ مجید پر ٹرک چڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری میں اگر بلوچ نسل اوپر سے کہیں ملتی ہے تو بلوچیت کا اظہار کرنے کیلئے ہمارے ساتھ یہاں سڑک پر بیٹھ جائیں”۔
جب اتنے بڑے لانگ مارچ کو بھی میڈیا میں کوئی اہمیت نہیں ملی کہ پہلے ماما قدیر کی قیادت میں کوئٹہ سے کراچی پیدل مارچ ہوا اور پھر جب ان کے مطالبے کو نہیں مانا گیا تو کراچی سے براستہ لاہور اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا لیکن نہ مطالبات مانے گئے اور نہ ہی میڈیا میں کوریج مل سکی تھی۔ شاری بلوچ کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے اور وہ خود بھی ایک انتہائی پڑھی لکھی خاتون تھی اور ایک خوشحال گھرانے سے اس کا تعلق تھا اور تربت مکران میں سرداری نظام نہیں ہے۔ عوام کی توجہ لکھنے پڑھنے پر ہے۔ جہاں کا ہر لکھا پڑھا بندہ خود ہی سردار ہے۔ غوث بخش بزنجو، میرحاصل بزنجو اورڈاکٹر عبدالمالک کا تعلق بھی تربت سے ہے اور غوث بخش بزنجو کو بابائے جمہوریت کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے بلوچ سٹودنٹ آرگنائزیشنBSOمیں اپنی جوانی گزاری۔ انقلابی سوچ کی آبیاری میں اپنا کردار ادا کیا اور پھر ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ بھی بن گئے لیکن انقلابی جوانوں میں اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ پنجاب وسندھ ،خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں یہ فرق ہے کہ بے نظیر بھٹو، زرداری، نوازشریف اور عمران خان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلیشمنٹ کیلئے بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں تو انقلابی بن جاتے ہیں اور ان پر عوام کو بھی انقلابی ہونے کا یقین آجاتا ہے۔ بینظیر بھٹو نے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی ایم آر ڈی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں جنرل ضیاء الحق کے دستِ راست غلام اسحاق خان کو اس وقت صدر بنایا تھا کہ جب صدر کے پاس حکومت کو ختم کرنے کے اختیارات تھے۔ نوازشریف نے اقتدار کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ پر حملہ کرکے سپریم کورٹ کے پچھلے دروازے سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایکس ٹینشن دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد جونہیPDMکے پلیٹ فارم سے موقع ملا تو آرمی چیف اور ڈی جیISIکو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ مسلم لیگ کے کارکنوں اور پنجاب کی عوام نے مان لیا کہ نوازشریف اب انقلابی بن گیا ہے۔ پھر عمران خان تسلسل کیساتھ فوج کیساتھ ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرتا رہالیکن اب فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے علاوہ ہر بات کی ذمہ داری فوج پر ڈال رہاہے اور فرح گوگی کی وکالت کررہا ہے تو پھر اس کی اپنی لیڈر شپ کہاں کھو گئی تھی؟۔ عمران خان نے اعتراف کیا کہ جنرل باجوہ اور فوج اگر نوازشریف کے خلاف عدالت کی مانیٹرنگ نہ کرتے تویہ سزا بھی نہیں ہوسکتی تھی جو اقامہ پر دی گئی ہے۔ جب پارلیمنٹ، میڈیا اور قطری خط کے علاوہ ناقابل تردید شواہد سے لندن کے ایون فیلڈ فلیٹ پر عدالت نے کوئی سزا دینے کے بجائے اقامہ پر سزا دی اور اس میں فوج کی پشت پناہی بھی تھی تو ایسے عدالتی نظام سے فرح گوگی کو کیا سزا مل سکتی ہے؟۔
عمران خان نے آخری بال تک مزاحمت کی جگہ آخر میں گورنر پنجاب کو ہٹادیا اور وزیراعلیٰ بزادر کو ہٹادیا اور اسد قیصر سے استعفیٰ دلواکر ایاز صادق کے ذریعے ووٹنگ کروائی۔ اب اس کے سوشل میڈیا کے جانثار عمران ریاض خان گوگی کہتا ہے کہ اب تک نام نہیں لیا نوازشریف تو نام بھی لیتا رہا لیکن جب ضرورت پڑی تو نام لیکر بھی بتائے گا کہ میرجعفر اور میر صادق سے مراد کون ہے ؟۔ اور وقار ملک بتارہاہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے ………..یہ سب کچھ کیاہے اور ان کو ڈیلیٹ کا بٹن دبا کر واپس اس پوزیشن پر جانا پڑے گا۔ حامد میر نے بھی جنرل رانی کے بزدل بچوں کی بات کی تھی ، مولانا فضل الرحمن نے بھی امریکہ کا حشر کرنے کی دھمکی دی تھی اور عمران خان بھی حقیقی آزادی کی بات کررہاہے۔
چہرے بدل رہے ہیں لیکن نظام نہیں بدل رہاہے۔ قرآن نے مردوں کیلئے الرجال قوامون علی النسائ” مرد عورتوں کے محافظ ہیں”کی بات فرمائی ہے۔ ایک دوسرے پر فضیلت کی وجہ تحفظ فراہم اور مال خرچ کرنا قرار دیا ہے۔ اس میں حکمرانی کی بات نہیں ہے۔ ملکہ سبا بلقیس اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے دور کی حکمران تھی جس نے حضرت سلیمان کے خوف سے اطاعت اسلئے قبول کی تھی کہ جب ملوک شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو عزتدار لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ یہ امر واقع بیان کیا تھا۔ مرد وں کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے تحفظ اور مال خرچ کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے یہ امر واقع ہے۔ عورت کو بچے جننے ، دودھ پلانے اور پرورش کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے اور نازک اندام کی مالک ہوتی ہے اسلئے اس کی حفاظت کی ذمہ داری کی غیرت اللہ نے مردوں میں ودیعت فرمائی ہے۔ عورت فطری طور پر عاجز، صالحات اور اپنی عزتوں کی غیب میں بھی حفاظت کرنے والی ہوتی ہے اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں حساس قسم کی فطرت رکھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی امر واقع ہے جو اللہ نے قرآن کی ایک ہی آیت میں بیان کی ہے۔ نظام کا بنیادی تعلق گھر کے ماحول اور قوانین سے چلتا ہے۔ میاں بیوی اور والدین اور بچوں میں ایک گھر کا ماحول ہوتا ہے تو نظام کیلئے اس سے ملک وقوم کا آئینہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر جب ریاست ڈائن بن جائے تو لوگوں کو ڈراؤنے خواب کے علاوہ کیا دیکھنے کو مل سکتا ہے؟۔ حکمران کا کردار باپ کی طرح ہونے کے بجائے ڈائن کی زن مرید والا بن جائے تو قوم وملک کی اس میں کس طرح بھلائی ہوسکتی ہے؟۔
پاکستان دنیا کا وہ عظیم ملک ہے کہ جس سے پوری دنیا کو بدلنے میں دیر نہیں لگے گی لیکن ہمارا ماحول عمران خان کیساتھ سیتا وائٹ، جمائما، ریحام، پنکی پیرنی اور ان کے بچوں والا بن گیا ہے اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور اس کی بیگمات والا بھی سمجھا جائے تو ٹھیک ہے بلکہ مفتی عبدالقوی اور اسکے سیکنڈلز بنانے والیوں کا سمجھا جائے تو برا نہیں ہے اور یہی حال حمزہ شہباز اور عائشہ احد کے علاوہ تہمینہ اور شہبازشریف کا تھا۔ اس سے زیادہ کہو تو نعیم بخاری کی اہلیہ طاہرہ سید اور نواز شریف کو چھپاکر مولانا سمیع الحق اور میڈم طاہرہ کا جو سیکنڈل دکھایا گیا تھا۔
حال ہی میں افغان طالبان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک مجاہد کہتا ہے کہ دنیا بھر سے کافروں کا خاتمہ ہمارا مشن ہے، جہاد جس سر زمین پر فرض ہوگا وہاں ہم پہنچیں گے اور جہاد کریں گے۔ ہم نے جہاد سے غیرملکی طاقتوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے لیکن پھر ویڈیو کی آواز میں خلل آگیا اور یہ اس وقت کی ویڈیو ہے کہ جب پاکستان سے افغانستان کو بہت بڑی تعداد میں اناج وغیرہ کا امدادی سامان پہنچایا گیا ۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کو افغانیوں کی مدد کیلئے بڑی رقم جاری کی تھی۔ افغانستان میں داعش کا وجود طالبان اورپاکستان کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے لیکن افغان طالبان اور داعش کی سوچ یہی ہوسکتی ہے جو ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ ایک امیرالمؤمنین کو پوری دنیا کیلئے خود ہی نامزد کردیں۔ اگر عیسائیوں کا ایک پوپ ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ کیوں نہیں ہوسکتا ہے؟۔ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں شیخ الاسلام اور مفتی اعظم نہیں ہوتا تھا لیکن اچھا یا برا کوئی نہ کوئی خلیفہ ہوتا تھا۔
جب پاکستان کی طرف سے دنیا کیلئے خلیفة المسلمین کا اعلان ہوجائے تویہ ایک اسلامی فریضہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، ترکی اور تمام اسلامی ممالک کو جمہوری اور اسلامی بنیاد پر اس کو تسلیم کرنے کی بھی دعوت دی جائے۔ جو نامعلوم لوگ اپنی طرف سے کوئی خلیفہ مقرر کرکے دہشت مچائے ہوئے ہیں ان سے اس خطے اور مسلم دنیا کی اس فریضے سے جان چھوٹ جائے گی۔ جس طرح خلافت عثمانیہ کے دور میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت اور ایران ومصر اور حجازوغیرہ آزاد وخود مختار ریاستیں موجود تھیں اسی طرح سے پاکستان سے خلیفہ المسلمین کے تقرری کے بعد تمام ممالک کی خود مختاری کا وجود برقرار رہیگا۔ پھر جمہوری بنیادوں پر نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا بھر کے سارے انسانوں کو جمہوری بنیادوں پر تابع فرمان بنانے کی کوشش کی جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام کے فطری نظام کو مسلمانوں سے پہلے مغرب کی حکومتیں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیں گی۔ ہماری افواج، سیاسی اشرافیہ اور انقلابی اور باغی لوگوں میں ڈھیر ساری خوبیاں بھی ہیں اور کمزوریاں بھی ۔ جب خوبیاں ہم اجاگر کریں گے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پالیں گے تو بہترین اور عزتدار انسان بن جائیں گے۔ ہم ایکدوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں بہت کچھ کھو رہے ہیں لیکن تنزلی کی شکار قوم کو دلّوں اور دلّالوں سے عروج کی منزل پر نہیں پہنچاسکتے ہیں۔ اصحاب حل وعقد کو مل بیٹھ کر اسلام کے فطری نظام کے ذریعے سے قوم کی حالت بدلنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی توتب ہی ہمیںکوئی چھٹکارا مل سکے گا۔

www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
https://www.youtube.com/c/Zarbehaqtv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اسی بارے میں

پاکستان کے ماہرین معیشت دلے سمجھتے نہیں یا جان بوجھ کر دلال بن گئے؟ شاہد علی
ہندو سینیٹر نے سود سے متعلق اللہ کا حکم سناکر حکمران اور علماء کو پانی پانی کردیا؟
جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا