ا بن مبارک کے درس میں40ہزار طلبہ شریک ہوتے مگرفقہ حنفی میں انکے نام کاذکر نہیں؟
جنوری 11, 2023
ا بن مبارک کے درس میں40ہزار طلبہ شریک ہوتے مگرفقہ حنفی میں انکے نام کاذکر نہیں؟
شاگردامام ابوحنیفہ، فقیہ العصر ،محدث اعظم، صوفی باصفا، مجاہدکبیرحضرت عبداللہ بن مبارک
علماء حق کی اصل ذمہ داری صرف اسلام کا تحفظ ہے
آج عوامی سطح پر علماء و مفتیان مجبور ہیں کہ عبد اللہ ابن مبارک کے مطابق قرآن کی حفاظت کا عقیدہ لوگوں کو بتائیں۔ درباری علماء نے درسِ نظامی میں جو عقیدہ شامل کیا وہ چھپایا جارہا ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے قرآن اوراصل مسلک حنفی کا معاملہ اُٹھایا تو انگریز نے دارالعلوم دیوبند سے نکلوادیا ، مولانا انورشاہ کشمیری نے بعد میں معافی مانگی مگر نصاب درست نہیں ہوسکا
وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ماشاء اللہ قرآن کے تحفظ کی بات کی ہے تو مدارس کے نصاب میں قرآن کے علاوہ آیات اور بسم اللہ میں شبہ کی تعلیم کا نوٹس لیکر تحریف قرآن کا سلسلہ ختم کیا جائے
عام مسلمان امام ابوحنیفہاور عبداللہ بن مبارک کے عقیدے پر ہیں۔ منبر و محراب پر علماء یہ تعلیم دیتے ہیں کہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا اور اس میں تحریف ، شک وشبہ کا عقیدہ کفر ہے ۔1980کی دہائی میںمولانا محمد منظور نعمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی نے شیعہ پر کافر کا فتویٰ لگایا تھا۔ جس کی تائید پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان کے مدارس اور علماء ومفتیان نے کی مگر مفتی محمد تقی عثمانی اور دارالعلوم کراچی نے تائید اسلئے نہ کی کہ وہ جانتے تھے کہ”گدھوں کو پتہ نہیں کہ شیعہ کتب میں تحریف قرآن ہے تو سنی میں بھی ہے”۔ پھر مولانا سلیم اللہ خان ، جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر علماء نے شیعوں پر کفر کے فتوے سے رجوع کرلیا۔کیا درسِ نظامی میں تحریف قرآن کا عقیدہ ہے ؟۔ عبداللہ بن مبارک ، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ وہ حنفی علماء تھے جنہوں نے عوام کا عقیدہ ٹھیک کیا۔ درباری علماء کا عقیدہ کتے کی دُم ہے جو ٹھیک ہونے کیلئے تیار نہیں۔مفتی تقی عثمانی پہلے درباری تھا ۔ اب جامعة الرشید کا مفتی عبدالرحیم نمبر لے گیا ۔ مفتی محمود اور جمعیت علماء اسلام پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ حاجی محمد عثمان کے خلاف سازش کی۔ پہلے شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی سگی ماں سے زنا کے برابر قرار دیا پھر عالمی سودی بینکاری کو بھی اسلامی قرار دیا۔ ریاست کی پشت پناہی سے سودی نظام مدارس کے نصاب کا حصہ بن جائیگا۔ علمائِ حق نے مخالفت کی تھی لیکن ان کی اولاد یہ نصاب پڑھائیں گے۔تاریخ میں ہمیشہ یہ دھندہ چلتا رہا اور نصاب گندا رہا۔ جب کور کمانڈروں ، لیفٹینٹ جنرلوں اور برگیڈئیروں کی تعداد کم ہوتی تھی تو جنرل ضیاء الدین خواجہ ، کورکمانڈر جنرل نصیر اختر ،8برگڈئیرحاجی عثمان سے بیعت تھے۔ مفتی تقی و مفتی رفیع عثمانی کے استاذ مولانا عبدالحق، استاذ جامعہ بنوری ٹاؤن مولانا فضل محمداور بڑی تعداد میں مدارس کے فضلائ،مدرسین اورمساجد کے ائمہ بیعت تھے۔ مدینہ منورہ کے عرب سرکاری آفیسر اورشام کے عربی بھی بیعت تھے۔ شیخ الحدیث مولانا انیس الرحمن درخواستی شہید وغیرہ تو فتوے کے بعد بیعت ہوئے تھے۔
الائنس موٹرز کا پیسہ لگانے والوں سے یہ معاہدہ تھا کہ ”رقم واپس لینے کیلئے ایک ماہ پہلے اطلاع دینی ہوگی اور اس اطلاعی مدت کا منافع نہیں ملے گا”۔ پھر مفتی عبدالرحیم نے الائنس موٹرز کے کہنے پر پہلے اس اطلاعی مدت کو 3ماہ تک اور پھر بعد میں6ماہ تک بڑھانے کا شرعی فتویٰ لکھ دیا۔ مفتی رشیداحمد لدھیانوی کی اجازت سے اس کی طرف سے الجواب صحیح کے دستخط بھی خود کردئیے تھے۔
کیا فریقین کا معاہدہ یکطرفہ فتویٰ سے بڑھایا جاسکتا ہے؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سودی کٹوتی کو زکوٰة قرار دیا اور پھر عالمی سودی بینکاری کو اسلامی قرار دیا۔ علامہ زاہدالراشدی نے کہا کہ ” مدارس کے علماء کے پاس جدید تعلیم یافتہ طبقے کو سمجھانے کا اسلوب نہیں۔ سود کے حوالہ سے قرآنی آیات، احادیث اور فقہ کی کتابوں کا حوالہ دیںگے تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ قرآنی آیت میں نفع کے مقابلے میں زیادہ نقصان کا ذکر ہے۔ جدید طبقے نے سودی نظام کے نقصانات کا ذکر کیا ہے تو وہ بتانا شروع کردیں۔ سود کی شرح کو کم ازرکھیں۔کتنا کم رکھیں؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زیرو فیصد رکھیں”۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے ”حرمت سود کانفرنس” کراچی میں شرکت کی تو اس نے بتایا کہ جب اسلامی بینک میں شرح سود عام بینکوں سے بھی 2فیصد زیادہ ہے تو کون ان بینکوں میں آئے گا؟۔ آپ اس کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں یا ناکام؟”۔ وفاق المدارس کے سابق صدور مولانا سلیم اللہ خان اور ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سمیت ملک بھر کے علماء ومفتیان نے سودی بینکاری کیخلاف فتوے دئیے تھے لیکن حرمت سود کانفرس کے نام پر ”حلت سود کانفرنس” میں بڑے مدارس کے نمائندوں اور صاحبزادوں کی شرکت نے بھی مفتی محمدتقی عثمانی اورمولانا فضل الرحمن کا حوصلہ نہیں بڑھایا اسلئے کہ ہمارا دنبے کے کپوروں کی تصویر کیساتھ ”کٹاکٹ بنے گا یا دودھ نکلے گا” کا اخبار پہلے شائع ہوچکا تھا اورسود کانفرنس کے ہال میں بھی پہنچ چکا تھا۔
جامعة الرشید اور پنچ پیر والوں کا الگ وفاق بن چکاہے۔ آنے والے وقت میں سارے مدارس کو اسی طرزمیں بدل دیا جائیگا۔ امریکہ واسرائیل نے پہلے جو جہادی تنظیمیں بنائی تھیں جن کے ذریعے روس کے خلاف جہاد ہوا لیکن کشمیر اور فلسطین کیلئے کچھ نہیں ہوا۔ ضرب مؤمن کراچی نے اس کو سپورٹ کیا اور اب یہ شکل تبدیل ہوچکی ہے اور امریکہ نے جامعة الرشید کی شکل میں اسلامی اقتصادی نظام کوتبدیل کرنا شروع کردیا ہے اور مدارس بھی بدلیںگے۔ مدارس کو تجارت اورمذہبی سیاسی جماعتوں کو دین کے تحفظ سے نہیں بلکہ سیاسی قوت حاصل کرنے سے غرض ہے۔ مولانا عبیداللہ سندھی نے المقام المحمود میں سورة القدر کی تفسیر میں پاکستان اور افغانستان کو قرآن اوراصل مسلک حنفی کی طرف رجوع کی بنیاد قرار دیا ہے اور یہ عبداللہ بن مبارک سے کڑی ملانے کی کوشش تھی۔
__حضرت عبداللہ بن مبارک حنفی __
افغان طالبان دیوبندی ہیں۔ خیبر پختونخواہ، بلوچستان ، پنجاب اور سندھ میں دیوبندی اکابرین کی سند میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ، مجدد الف ثانی، عبداللہ بن مبارک، امام ابوحنیفہ ، عبداللہ بن مسعوداور حضرت عمر شامل ہیں۔
عبداللہ بن مبارک کا والد غلام اورباغ کا چوکیدار تھا۔مالک نے اس سے ترش انار مانگا تو میٹھا نکلا۔ مالک نے ناراضگی کا اظہار کیا تو مبارک نے کہا کہ میں چکھتا تو پتہ چلتا کہ کونسا انار ترش ہے۔ مالک نے کہا کہ نہیں چکھا؟۔ مبارک نے کہا کہ ” چوکیداری کیلئے رکھاتھا، ،انار چکھنے کیلئے تو نہیں ”۔ مبارک کا مالک اتنا متأثر ہوا کہ اپنی بیٹی سے شادی کرادی اور خوب مال ودولت سے بھی نواز دیا۔
مبارک ہندو سے مسلمان بنا تھا۔ خراسان ترکمانستان کے شہر مرو سے تعلق تھا۔ بیٹا عبداللہ کنیز کے عشق میں مبتلاء ہوا ۔ ایک رات انتظار کے بعد خیال آیا کہ اللہ کیلئے رات گزارتا تو اچھا ہوتا۔ خواب میں دیکھا کہ چڑیا آیت پڑھ رہی ہے کہ ” کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ لوگوں کے دل اللہ کی طرف متوجہ ہوں”۔ توبہ کی توفیق مل گئی اور والد نے تجارت کیلئے رقم دی لیکن آپ نے علم حاصل کیا۔ والد نے مزید رقم دی کہ علم حاصل کرے۔ پھر والدہ کی طرف سے بہت سارا مال وارثت میںملا اور ایک اچھے تاجر تھے۔ ابوحنیفہ ، مالک اور معروف ائمہ حدیث کے شاگرد تھے اور چار ہزار افراد سے احادیث کی روایات حاصل کیں مگر صرف ایک ہزار اساتذہ کرام کو اس قابل سمجھا کہ ان سے روایات نقل کی جائیں۔
عبداللہ بن مبارک نے فرمایا کہ ” اگر میں امام ابوحنیفہ سے سیکھنے کی توفیق نہ پاتا تو عام لوگوں جیسا ہوتا”۔ آپ کے درس میں40ہزار افراد شریک ہوتے تھے۔آپ کی بہت تصانیف نایاب ہیں۔ درسِ نظامی میں امام ابوحنیفہ اور آپ کے دوسرے شاگردوں کا مسلک ہے ۔ عبداللہ بن مبارک کا مسلک نہیں جو فقیہ، محدث، صوفی اور مجاہد تھے۔ حالانکہ اسماء الرجال میں عبداللہ بن مبارک کے مقام کو کوئی نہیں پہنچتا ۔ بڑے بڑوں نے لکھا ہے کہ ”آپ اور صحابہ کے اندر ایک فرق تھا کہ آپ نے نبی کریم ۖ کی صحبت نہیں اٹھائی تھی”۔ جب فقہاء اور محدثین اور علماء وصوفیاء میں کسی بھی بات پر اختلاف ہوتا تو عبداللہ بن مبارک پر سب اتفاق سے آپ کو فیصل بناتے۔جب عبداللہ بن مبارک نے نمازمیں رفع الیدین کیا تو امام ابوحنیفہ نے کہا: ”میں سمجھ رہا تھا کہ آپ نماز میں اُڑ نہ جائیں۔ جس کے جواب میں عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ ” اگر تکبیر تحریمہ کے وقت آپ رفع الیدین کرتے ہوئے نہیں اُڑے تو رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت میں بھی رفع یدین سے کیسے اُڑ سکتا تھا؟”۔ رفع یدین کی احادیث میں اختلاف ہے۔ اور زیادہ روایات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ معمول کا حصہ بھی تھا اسلئے کہ خلاف معمول چیز زیادہ روایت کی جاتی ہے۔ جیسے کالی پگڑی کی روایات بھی سب سے زیادہ ہیں لیکن اس سے معمولات کے زیادہ ہونے کی دلیل نہیں بنتی۔
بریلوی دیوبندی علماء شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مجدد الف ثانی اور عبداللہ مبارک کواپنی سند سمجھتے ہیں۔ حنفی مسلک کے دو مختلف روپ ہیں۔ ایک میں شیخ الاسلام قاضی القضاة امام ابویوسف سے لیکر شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن تک کا ایک درباری سلسلہ ہے اور دوسرا عبداللہ بن مبارک، مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ اور اسیرمالٹا شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور کالے پانی کی قید کاٹنے والے مولانا فضل الحق خیر آبادی کے توسط سے مفتی محمد حسام اللہ شریفی اور مفتی خالد حسن مجددی تک موجودہ دور کے علماء حق ہیں۔
جامعہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے اساتذہ سے تلمذ اورحاجی محمد عثمان سے طریقت کا شرف ملا۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد نے چیف جسٹس کے عہدے پر تعیناتی اختیار کرکے دربارکا شرف حاصل کیا اور امام ابوحنیفہ جرم کے بغیر جیل میں قید کرکے شہید کردئیے گئے۔ عبداللہ بن مبارک مایہ ناز شاگرد تھے لیکن سکہ رائج الوقت نہ بن سکے ۔ جس طرح امام ابوحنیفہ کے مسلک کو بگاڑنے والے درباری علماء نے ریاست کی مدد سے مدارس پر قبضہ کیا ۔ حاجی محمد عثمان کے خلفاء نے سازش کرکے فتوے سے سولی پر چڑھانے کی کوشش کی اور عبداللہ بن مبارک کی طرح ان کے مشن کو زندہ رکھنے والے عتیق گیلانی کو منظرعام سے غائب کرنے پر مجبور کیا گیااور سازشی ومفاد پرست ٹولہ خانقاہ پر قابض ہوا۔
عبداللہ بن مبارک کے توسل سے علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب ”تاریخ الخلفائ” میں لکھا کہ ” وقت کے خلیفہ کا دل اپنے باپ کی لونڈی پر آیا تو امام ابویوسف نے جواز فراہم کرنے پر معاوضہ مانگا اور پھر باپ کی لونڈی کو بیٹے کیلئے جائز کردیا”۔ یہی باتیں امام غزالی نے لکھ دیں تو ان کی کتابوں کو مصر کے بازاروں میں جلادیا گیا۔ ٹانک شہر میں علماء دیوبند کے سرخیل جمعیت علماء اسلام کے امیرمولانا فتح خان نے جلسۂ عام میں میرے مشن کی تائید میں فرمایا کہ ”امام غزالی کی کتابوں کو جلانے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا مگر غزالی کو دنیا جانتی ہے”۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید نے فرمایاکہ ” جس طرح امام مالک کے خلاف فتوے لگانے والے علماء کو آج کوئی نہیں جانتا ،اسی طرح وہ وقت آئیگا کہ تاریخ حاجی محمد عثمانکے نام سے واقف ہوگی لیکن ان پر فتوے لگانے والے تاریخ میں نہیں ہوںگے”۔ ہمارافرض بنتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے درست مسلک کو عبداللہ بن مبارک کی طرح عام کریں۔ لوگوں نے قرآن واحادیث کے ترجمے اور تشریح کی طرح اپنے اپنے مسالک میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا کیا اور اس کو درست کرنا ہوگا۔صحیح عقیدہ یہی ہے کہ قرآن محفوظ ہے لیکن درس نظامی میں امام ابوحنیفہ سے متعلق غلط عقیدہ پڑھایا جاتاہے کہ قرآن محفوظ نہیں ہے۔
اصولِ فقہ ہم نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذالاساتذہ مولانا بدیع الزمان سے پڑھی۔ کتاب میں قرآنی آیت کے مقابلے میں صحیح حدیث کو مسترد کیا گیا ہے کہ” حتی تنکح زوجًا غیرہ (یہاں تک کہ وہ عورت کسی اور شوہر سے نکاح کرے) میں عورت خود مختار ہے اور حدیث ( جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے) خبر واحد ہے اسلئے ناقابل عمل ہے”۔ میں نے مولانا بدیع الزمان سے عرض کیا کہ ” حنفی مسلک میں قرآن وحدیث کی تطبیق کی جائے گی۔ جبکہ یہاں قرآنی آیت میں طلاق شدہ مراد ہے اور حدیث سے کنواری مراد لی جائے”۔ استاذ کو بات بہت اچھی لگی اور میری حوصلہ افزائی فرمائی کہ” اس میں بڑا وزن ہے، جب آئندہ کتابوں کا علم حاصل کرو تو کسی نتیجہ پر پہنچ جاؤگے”۔
اس نکتے پر نہ صرف اصل حنفی مسلک کو سمجھا بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں راہِ حق ایسا دکھائی دیا کہ تمام فرقوں کو مسلکِ حق قبول کرنا پڑے گا۔ دعا زہرہ ایک شیعہ لڑکی کا ایک سنی لڑکے سے مسلک حنفی کے عین مطابق نکاح اور قرآن و احادیث سے مسئلے کا حل بہت بڑا چیلنج ہے۔ کیا یہ نکاح جائز یا حرام کاری ہے؟۔ قرآن وحدیث اور مسلک حنفی کی روشنی میں ہم نے شیعہ ، حنفی، اہلحدیث اور جماعت اسلامی سب کیلئے قابل قبول حل پیش کردیا۔ اس طرح تین طلاق سے حلالہ کے بغیر رجوع کا معاملہ بھی سب کیلئے قابلِ قبول حل پیش کردیا لیکن سفید پوش علماء ومفتیان نے بگلوں کی طرح آنکھیں بند کرکے مینڈکوں سے نہیں عوام کی عزتوں سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے جو قرآن کا بالکل مذاق ہے۔
حضرت عمرنے نبیۖ کے سامنے حدیث قرطاس کا منع کیا کہ ہمارے لئے قرآن کافی ہے۔ قرآن کے مقابلے میں خبرواحد کی تو دور کی بات متواتر حدیث کی بھی صرف امام ابوحنیفہ ہی نہیں بلکہ کسی امام کے نزدیک کوئی حیثیت نہیںتھی ۔
__اصل مسلک حنفی کیا تھا کیابنادیا؟__
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہاتھا جو ضرب مؤمن و ضربِ حق میں شائع ہوا کہ ” صرف15فیصد امام ابوحنیفہ اور باقی85فیصد انکے شاگردوں کا مسلک فقہ حنفی ہے”۔ مسلک حنفی یہ ہے کہ ” قرآن کے مقابلے میں اگر صحیح حدیث آئے تو قابلِ قبول نہیں ”۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھا کہ ” مسلک حنفی میں تطبیق ممکن ہو تو ضعیف حدیث کو رد نہیں کیا جائیگا”۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا کہ ” حدیث صحیح ہو تو وہی میرا مذہب ہے”۔ عبداللہ بن مبارک نے چارہزار راویوں میں ایک ہزار کو مستند سمجھا تویہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کی تفسیر تھی۔ ا بویوسف نے باپ کی لونڈی کو بادشاہ کیلئے جائز قرار دیا تویہ امام ابوحنیفہ سے انحراف تھا۔مجد د الف ثانی اور اکبربادشاہ کے درباری علماء میں سجدۂ تعظیمی اور دین الٰہی کا اختلاف تھا۔ فتاویٰ عالمگیریہ میں بادشاہ کیلئے قتل، زنا، چوری اور ڈکیتی پر شرعی حد نافذ نہ کرنے کا فتویٰ500درباری علماء نے دیا تھا جن کیخلاف شاہ ولی اللہ نے فک النظام ”نظام کی کایا پلٹ دو” کا نعرہ بلند کیا۔ حالانکہ ان کاوالد شامل تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے ریفرینڈم کو اسلام قرار دینے والے مدارس، علماء اور جماعت اسلامی نے درباری کا کردار ادا کیا لیکن مولانا فضل الرحمن اور حاجی محمد عثمان نے علماء حق کا کردار ادا کیا تھا۔ سود ی زکوٰة کیلئے فتویٰ دینے والے مفتی تقی عثمانی اور مفتی رفیع عثمانی نے علماء سو ء اور مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی نے علماء حق کا کردار ادا کیاتھا۔ مولانا فضل الرحمن بھی علماء حق کا کردار ادا کررہے تھے۔ سودی بینکاری پر مفتی محمد تقی عثمانی نے علماء سوء کا کردار ادا کیا اور مولانا سلیم اللہ خان ، مفتی زرولی خان، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ، مولانا عبدالمجید دین پوری شہید اور سارے علماء دیوبند نے علماء حق کا کردار ادا کیا۔ اب ایک طرف کتب خانوں اور مدارس میں سودی بینکاری کیخلاف متفقہ فتوے کا مواد ہے اور دوسری طرف اکابر اوراپنے باپ سے انحراف کرنے والے سود کی بینکاری کو اسلامی قرار دے رہے ہیں۔ شریعت کسی کے باپ کی مولی نہیں کہ جو معاوضہ لیکر اور ماحول کی زد میں آکر اس کو گٹر کے پانی میں اُگادے اور اس کو حلال بھی قرار دیدے۔
کہتے ہیں کہ لوہے کو لوہا کاٹتاہے۔ امام ابوحنیفہ نے بند باندھ دیا کہ ” قرآن کو احادیث سے مسترد نہیں کیا جاسکتا ” تو یہ راستہ نکالا گیا کہ” قرآن کے مقابلے میں جھوٹی آیات خبر احاد یا مشہور ہوں تویہ شریعت ہیں”۔ یہ بہت بڑی گھناؤنی بات تھی۔ امام محمد پہلے سے امیرزادے تھے اسلئے مذہب کو کاروبار نہیں بنایا اور امام شافعی جیسا شاگرد پیدا کیا جس نے قرآن کے مقابلے میں جعلی آیات کو کفر و نفاق قرار دیا۔قرآن پرامام شافعی اورامام ابوحنیفہ کا عقیدہ ایک ہی تھا۔
امام ابوحنیفہ، عبداللہ بن مبارک ،امام شافعی اور علمائِ حق کا عقیدہ مساجد کے منبروں پر سکھایا جاتا ہے کہ ”قرآن محفوظ ہے جس میں کمی بیشی نہیں ۔ ایک حرف اور حرکت کا اس میں ردوبدل ممکن نہیں اور نہ اس کے علاوہ کوئی آیات ہیں”۔ درسِ نظامی میں یہ کفریہ عقیدہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک میں ”قرآن کے مقابلے میں خبر واحد کی حدیث معتبر نہیں مگر خبر واحد کی آیت معتبر ہے”۔بڑا علمی مقام رکھنے والے علامہ مناظراحسن گیلانی نے ”تدوین القرآن” کتاب لکھ کر ان خرافات سے قرآن کو تحفظ دیا جس کو جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی نے بھی شائع کردیا ۔ عبداللہ بن مسعود پر بہتان ہے کہ ان کا الگ مصحف موجودہ قرآن سے مختلف تھا ، جس میں سورۂ فاتحہ اور آخری دو سورتیں شامل نہیں اور متعہ کے حوالہ سے یہ اضافہ تھا کہ ” الی اجل مسمٰی” (مقررہ مدت تک) کے قرآنی الفاظ انکے مصحف کا حصہ تھے۔ اگر یہ درست ہوتا تو درسِ نظامی میں یہ پڑھایا جاتا کہ مسلک حنفی میں متعہ قرآن کی آیت سے جائز ہے۔ درسِ نظامی میں تو امام مالک کی طرف منسوب ہے کہ” وہ وقتی نکاح (متعہ)کے قائل تھے”۔
مفتی حسام اللہ شریفی کے پاس اورنگزیب بادشاہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن ہے جس میں سورۂ فاتحہ اور آخری پانچ سورتیں نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اورنگزیب بادشاہ کا عقیدہ خراب تھا بلکہ اس نسخے کے کچھ صفحات پھٹ کر ضائع ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کے مصحف کی بھی اصل بات یہی تھی، جلالین کی طرح تفسیر بیچ میں لکھ دی تو اس کو نالائقوں نے الگ مصحف بنادیا ۔ علماء حق کو چاہیے کہ خرافات کو درسِ نظامی سے نکال باہر کرنے پر متفق ہوجائیں۔ حرمت سود کانفرنس کی طرح خرچہ دیکر ہم تمام مکاتبِ فکر کے علماء ومفتیان کو اکٹھا نہیں کرسکتے ہیں لیکن اگر دینی غیرت اور حمیت کوئی چیز ہوتو میدان میںاترنا ہوگا۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر یہ کام کرسکتے ہیں ۔ جن سیاسی پارٹیوں اور مذہبی تنظیموںکو جنم دینے کیلئے پاک فوج کوبدنام کیا جاتا ہے ۔ کارِ خیر میں پاک فوج اقدامات اٹھائے تو قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ جس کے اثرات افغانستان، بھارت، سعودی عرب ،ایران اور دنیا کے مسلم و غیر مسلم ممالک پر پڑیںگے اور پھردہشت گرداور ان کے استاذ بھی نئی اور مثبت سوچ پر مجبور ہوں گے۔
پاکستان بننے سے بھی پہلے علامہ سید سلیمان ندوی نے ”معارف اعظم گڑھ” میں مدلل طریقے سے صرف ان تصاویر اور مجسموں کو شریعت اسلامی بلکہ سابقہ شریعتوں میں بھی ناجائز قرار دیا جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ ان کے علاوہ مجسموں اور تصاویر کو قرآن واحادیث سے بالکل جائز قرار دیدیا۔ سات فقہاء مدینہ میں دو فقہاء کے عجائب گھر تھے جن میں عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مریم کی تصاویر اور مجسمے تھے۔ عیسائیوں کیلئے جو تصاویر ومجسمے پوجا پاٹ کا ذریعہ تھے وہ مسلمانوں کیلئے عجائب گھر کی حیثیت رکھتے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی موجودہ دور کی جدید تصاویر کو شرعاًجائز قرار دیا تھا لیکن جاہل مفتی محمد شفیع کو دارالعلوم دیوبند کے اکابر نے جواب کی تلقین کرتے ہوئے لالچ دی کہ ”تمہارا مضمون دیوبند کے ماہنامہ میں شائع کیا جائے گا” تو اس نے کم علمی وکم عقلی کا ریکارڈ قائم کرکے جواب دیا تھا۔جس پر جاہل کے سامنے علماء حق نے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔
پاکستان بننے کے بعدمفتی شفیع اندھوں میں کانا راجہ بن گئے تو جاندار کی تصویر کو ریاست و تجارت کیلئے جائز قرار دیا۔ اگر علامہ سید سلیمان ندوی کی کتاب ”معارف اعظم گڑھ” شائع کردی جاتی تو غلط فتوے سے علماء و عوام کو نجأت مل جاتی۔ اپنی خطاء سے اعلانیہ رجوع شعور میں بڑااضافہ کرتا ہے۔ ظہارکے مسئلے پر نبی کریم ۖ سے ایک عورت نے بحث وتکرار کا حق ادا کردیا تو اللہ نے عورت کے حق میں سورۂ مجادلہ نازل فرمائی۔ اپنی غلطی پر ڈٹ جانا اور اس کو چھپانا نبی کریم ۖ کی وراثت اور جانشینی نہیں بلکہ ڈھیٹ ابلیس کا وظیفہ ہے۔
مولانا فضل الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی منیب الرحمن،مولانا اویس نورانی، مفتی محمدانس مدنی ، علامہ ساجدمیر، علامہ شہنشاہ حسین نقوی اور علامہ جواد حسین نقوی کی قیادت میں علماء ومفتیان کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو چند دنوں میں فقہی مسائل کا قرآن کی روشنی میں متفقہ حل نکال لیں۔ مجھے بھی حاضر خدمت کا موقع دیا جائے تو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، ایران اور سعودی عرب کی طرف سے بھی ایک مثبت اسلامی انقلاب کی تائید ہوسکتی ہے جس سے ملک میں جاری دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے میں مدد ملے گی۔ امریکہ اس خطے میں اسلامی سود ی نظام اور دہشت گردی کا قیام چاہتا ہے۔الحاد سے ہمارے ذہین اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے ذہن ودل بہت متأثر ہیں اور اس میں غلطی ان ہٹ دھرم علماء ومفتیان، مدارس ، مذہبی تنظیموںاور سیاسی جماعتوں کی ہے جنہوں نے مذہب کو تجارت اور سیاست طاقت کیلئے آلۂ کار بنایا ہے۔
__دہشت گردی کی نئی لہرکا بڑا آئینہ__
پاکستان و افغانستان کیلئے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا تدارک ہے۔ جب تک امن وامان قائم نہیں ہوتا تو سیاسی اور معاشی حالات بہتر نہیں ہوسکتے ہیں۔9/11سے پہلے بینظیر بھٹو کے دور میں جنرل نصیراللہ بابر کے ذریعے ملاعمر کی حکومت قائم ہوئی تو نجیب اللہ شہیدکو لٹکایا گیا اور ناک میں سگریٹ ٹھونسے گئے۔ ملا محمد عمر کی طالبان حکومت کو پاکستان، سعودیہ اور عرب امارات نے تسلیم کیا۔ سیاسی پارٹیوں، مذہبی جماعتوں، صحافیوں ، علماء ومدارس اور عوام الناس کے علاوہ ریاستِ پاکستان کیلئے افغانستان کی تاریخ میں یہ پہلی دوست حکومت تھی۔
داڑھی ، تصویر، عورتوں کے پردہ، نماز میں جبر سمیت موجودہ طالبان کے مقابلے میںسابقہ طالبان کا طرزِ عمل سخت تھا ،اسکے باوجودامیرالمؤمنین ملا عمر اور طالبان سب کی آنکھوں کے تارے، دل کے چاند اور دماغ کے سورج تھے۔ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے بھائی کیلئے بھی پسند کرے۔ نصیراللہ بابر، بینظیر بھٹو ، ہماری ریاست نے جو افغانستان کیلئے پسند کیا اپنے لئے پسند کیا؟۔ افغانیوں کو جس دلدل میں دھکیل دیا گیا اس کا خمیازہ بینظیر بھٹو شہید نے بھائی مرتضی بھٹو ساتھیوں سمیت قتل ، اقتدار کا خاتمہ، آصف علی زرداری کی طویل جیل ، خود ساختہ جلاوطنی اور قتل تک بھگت لیا۔ طالبان نے نجیب اللہ سے لیکر افغانیوں پر جو مظالم کئے تواسکی سزا مقامی سطح سے گوانتا ناموبے تک بھگت لی ۔کرنل امام، خالد خواجہ اور ہمارے گھرانے نے بھی ظلم کی حمایت کرنے کی سزا بھگت لی ۔
طالبان نے افغانستان کے اندر کچھ اقدامات شروع کردئیے توISIکے ایک خٹک اہلکار نے مجھ سے کہا کہ آپ کا مشن خلافت کا قیام ہے ، افغانستان میں خلافت قائم ہوگئی ہے، آپ خود بھی جائیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے جائیں۔ میں نے کہا کہ ” یہ تم امریکہ کے کہنے پر کررہے ہوگے؟ اپنے ملک میں خلافت قائم نہیں کرنی ہے تو دوسرے ملک میں کیا ضرورت ہے؟”۔
پاکستان اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر بناتھا ۔ افغانستان حکومت کی بنیاد افغانی قومیت تھی۔پاکستان اپنے اوپر اسلام نافذنہیں کرتا تو دوسرے ملک پر اسلام نافذ کرنے میں کیسے مخلص ہوگا؟۔ طالبان کے حامی بڑے بڑے صحافی، مذہبی و سیاسی قائدنفاق کا شکار نظر آتے تھے۔ہم نے طالبان کو کچھ وجوہات کی بنیاد پر ہدفِ تنقید بنایا۔ اسامہ بن لادن پر امریکہ نے کروز میزائل سے حملہ کیا جس میں اسامہ بچ گیا ،150پاکستانی شہید ہوگئے تو ہمارے اخبار ضر ب حق کی شہہ سرخی یہ تھی کہ ” کلنٹن کی بیٹی کو اسامہ کی لونڈی بنایا جائے”۔ تفصیلی بیان یہ تھا کہ اسلام میں دہشت گردی نہیں ۔ اگر امریکہ سے جہاد کرنا ہوا تو اعلانیہ جہاد کیا جائے گا۔ اسلام کی دعوت دی جائے گی، پھر اسلام کی دعوت قبول نہ کرے تو جہاد کیا جائے گا اور قیدی بنانے کی شکل میں مردوں کو غلام اور عورتوں کولونڈی بنایا جائے گا۔
پھرطالبان حکومت قائم ہوئی تو امریکہ و پاکستان کی مخالفت کے باوجود طالبان نے اقتدار حاصل کیا۔ آرمی پبلک سکول کے واقعہ پر قومی ایکشن پلان کے تحت شمالی اور جنوبی وزیرستان محسود ایریا اور قبائلی علاقہ جات کے دیگر علاقوں سے عوام کو نقل مکانی کروانے کے بعد آپریشن کا فیصلہ ہوا تو بڑی تعداد میں خاندان افغانستان چلے گئے۔ پھردوبارہ ان کو اسلحہ سمیت واپس آنے دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اب کافی شور شرابے سننے کے بعد آرمی چیف کی کمان بھی بدل گئی اور پھر بنوں تھانے پر قبضے کا واقعہ ہوا اور اسلام آباد کو بھی خطرہ محسوس ہوا ہے۔
مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس پشاور میں جماعت اسلامی کے پروفیسر ابراہیم نے کہاکہ ”سن2001سے دہشت گردی کا معاملہ بتائیں۔…… ڈیرہ اسماعیل خان سے بنوں تک پولیس کے چیک پوسٹوں پر ہماری بے عزتی کی حد تک تلاشی ہوتی تھی، اب چوکیاں خالی ہیں ،لگتاہے کہ طالبان اور فوج کو لانے کا پروگرام ہے۔ جب وردی پہنتے تھے تو فوجی کا کردار ادا کرتے تھے اور جب وردی اتارتے تھے تو طالبان بن جاتے تھے۔یہاں کی گیس یہاں والوں کو دینے کی بجائے مرکز کو دی جارہی ہے، معدنیات منتقل ہورہے ہیں۔یہ وسائل پر قبضہ کرنے کا چکر تو نہیں ہے؟عجب ہے کہCTDپولیس کا سینٹر بنوں شہر سے باہر منڈان میں تھا تو چھاؤنی میں کیسے منتقل ہوا؟۔ جہاں حال ہی میں واقعہ ہوا۔ اگرCTDپولیس سول ادارہ ہے تو اس کو سول رہنا چاہیے اور فوجی ہے تو فوجی ہونا چاہیے۔ ساہیوال میں بھی بچوں کے سامنے والدین کو قتل کسی اور ادارے نے کیا اور نامCTDپولیس کا لیا گیا۔ جنرل پاشا نے سن2008میں ہمیں میٹنگ میں بتایا تھا کہ مغربی سرحد مشرقی سرحد کی طرح نہیں ہے کہ اس پر باڑ لگائی جائے۔ کیونکہ دونوں طرف ایک خاندان کے لوگ رہتے ہیں۔ ایک طرف گاؤں ہے دوسری طرف اس کی مسجد ہے۔ گیٹ پر دہشت گردوں کا راستہ نہیں روکا جاتا بلکہ وہاں پر بیٹھے فوجی اہلکار بھی عوام سے پیسہ لیتے ہیں۔ ایک دن بیمار بچہ والدین پشاور ہسپتال لانا چاہتے تھے مگر نہیں آنے دیا گیا۔
جب پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت تھی تو جمعیت علماء اسلام کھل کر دہشت گردی کی مخالفت کرتی تھی مگر جماعت اسلامی ان کی معشوقہ تھی۔ ریکارڈ پرمولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ حکومت کا سرکاری نہیں بلکہ شرعی فریضہ بھی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کرے۔روزنامہ مشرق پشاور۔ مولانا فضل الرحمن نے ان کو دجال کا لشکر قرار دیا تھا لیکن میڈیا نے رپورٹ نہیں کیا۔ پولیس نے عوام سے کوئی بدسلوکی کبھی نہیں کی لیکن اب واقعات کے بعدشاید خوفزدہ ہوںگے۔
منظور احمد پشتین قائدPTMنے جانی خیل بنوں میں بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” لاہور میں مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں، فرقوں اور مذاہب کے علاوہ متضاد کردار کے لوگ آپس میں ایکدوسرے کیساتھ رہتے ہیں اور کوئی لڑائی جھگڑا ، دنگا فساد اور بدامنی کی فضاء نہیں پھیلاتے ہیں تو پشتون قوم کو بھی چاہیے کہ آپس میں امن وامان سے رہیں۔ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، جمعیت علماء اسلام اور کسی بھی مذہبی سیاسی جماعت سے اس کا تعلق ہے لیکن پشتون قوم کو اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ جلسے، جلوس اور دھرنے سیاسی عمل ہیں اور اس سے امن وامان کی فضاء پیدا ہوتی ہے۔ پہلے جب یہاں ہمارا اجتماع ہوتا تھا تو دشمن نے کسی کو حملہ کرنے کیلئے کھل کر بٹھایا ہوتا تھا اور اب ایسا نہیں ہے۔ فضاء ہماری قربانیوں کی بدولت بہت بدل چکی ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ الیکشن ، ممبری، سیاسی مفادات پر لوگ لڑتے ہیں ہم الیکشن میں حصہ نہیں لیںگے ۔
محسن داوڑ نے باجوڑ میں بڑے جلسہ عام سے خطاب میں کہا : میں نے اب پارلیمنٹ میں بھی یہ بات اُٹھائی ہے کہ ہماری فوج کرائے کا کام کرتی ہے جبکہ امریکہ اپنی پراکسی کیلئے ہماری قوم اور ہماری مٹی کو استعمال کرتاہے۔ راناثناء اللہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں کاروائی کرینگے اورامریکی ترجمان نے اس کی تائید کردی۔ ہم اس کھیل کا حصہ نہیں بنیںگے۔ جنگ کی پرامن مزاحمت کرینگے۔
پشاور ہائی کورٹ نے بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک خانہ بدوش گجر خاندان میں جرگے اور دونوں خاندانوں کے فیصلے پر ریپیسٹ اور بچہ جننے والی مظلوم یتیم لڑکی میں صلح کراتے ہوئے دونوں کی آپس میں شادی کرانے پر فیصلہ دیاہے۔ جس پر ڈان نیوز میں وسعت اللہ خان وغیرہ نے ”ذراہٹ کے” میں اپناتبصرہ کیاہے اور ایک خاتون کی رائے بھی اس میں شامل کی ہے۔ ریپیسٹ کی سزابھی وہی ہو جو قرآن وسنت میں ہو اور زنا بالرضا کی سزا بھی وہی ہو جو قرآن وسنت میں ہے تو افغانستان ، پاکستان، ایران اور سعودی عرب کے اسلام کو دنیا قبول کرنے میں تھوڑی دیر بھی نہیں لگائے گی لیکن ہم اس میں مخلص بن جائیں۔
__دہشت گردی کا تدارک کیسے ہوسکتاہے؟ __
افغانستان میں داعش دھماکوں کی ذمہ داری قبول کررہاہے اور پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دھمکی دی گئی ہے اور پختونخواہ میں کافی عرصہ سے بدامنی کی فضاء کا ایک ماحول قائم ہے جس میں دن بہ دن خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ عوام میں مایوسی کی فضاء ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو جرائم کا ذکر کیا ہے کہ مدینہ میں انقلاب آنے کے بعد ایسا نہیں ہوگا کہ لوگ خواتین کو تنگ کریں اور دوسرا یہ کہ افواہ سازی کی فیکٹریاں ختم ہوجائیںگی۔ یہ لوگ معلون ہیں جہاں پائے گئے قتل کئے گئے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بارے میں افواہ چھوڑ دی گئی کہ وہ قادیانی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اسکے باپ اور دادا کی قبریں گھگڑ منڈی گوجرانوالہ میں ہیں۔ علامہ زاہدالراشدی نے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کے مسلمان ہونے کی تصدیق کی۔ غلط افواہ پھیلانے میں سابقہDGISIجنرل رضوان اختر کا کردار تھا جو بعد میں کور کمانڈر کوئٹہ تھے اور اس جرم کی پاداش میں جبری ریٹائرڈ کیا گیاتھا۔ اب جنرل سیدعاصم منیرکے بارے میں ٹاپ کے فوجی جنرل ، بیوروکریٹ اور سعودی اہلکار نے یہ افواہ اڑادی تھی کہ شیعہ ہیں۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب نے اس کی تعیناتی پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان اور دنیا میں سب سے بڑی بیماری افواہ سازی کی بنیاد پر دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر ان لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے صفائی کا بھی میڈیا پر بھرپور موقع دیا جائے مگر معقول بات پیش نہ کرنے پر قتل کی سزا دی جائے تو اس فتنے کا سدباب ہوجائے گا ۔ معاشرے کو اس سے بہت زبردست نقصان پہنچ رہاہے۔ سوشل میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی منظم افواہ سازی کی جاتی ہے۔
سورہ النساء کی ایک آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ” اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی کھلم کھلا فحاشی پھیلانے کے ارتکاب میں مبتلاء ہو تو اس کو اپنے گھروں میں بند رکھو،یہاں تک کہ اللہ کوئی راستہ بنالے”۔ ایک عورت بھی خراب ہوجائے تو معاشرے میں بہت زیادہ فحاشی پھیل سکتی ہے۔ اگر چار افراد یہ گواہی دیں تو پھر اس عورت کو گھر میں بند رکھنے پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتاتھا؟۔ قرآن کی بات آج بھی پوری دنیا کیلئے قابلِ قبول ہے کہ ایسے ناسور کا تدارک کرنا اسکے اپنے گھر والوں کا فرض ہے۔ یہ حکومت کا کام نہیں ہے اسلئے کہ حکومتی اہلکار کس کس خاتون کو کہاں کہاں سے اٹھاکر کیا کیا کریںگے؟۔
علماء نے لکھا ہے کہ ”اس آیت میں آئندہ حکم کیلئے انتظار ہے اورپھر سورۂ نور میں اللہ نے سزا کا حکم نازل کیا ”۔ سوال یہ ہے کہ سورہ ٔ نور میں کیا احکام ہیں؟۔ پہلا حکم یہ ہے کہ ” زانیہ عورت اور زانی مرد کو100،100کوڑوں کی سزا ہے۔ جن پر کچھ لوگوں کو گواہ بھی بنایا جائے”۔کیا علماء یہ حکم مانتے ہیں؟۔ صحیح بخاری میں ایک صحابی سے پوچھا گیا کہ ”کیا سورۂ نور کی آیات کے بعد کسی کو سنگسار کیا گیاہے؟”، تو اس نے جواب دیا کہ ”میرے علم میں نہیں کہ کوئی سنگسارہوا ہو”۔
حنفی مسلک بلکہ سارے مسالک میںیہ بات مسلمہ ہے کہ ”قرآن سے کوئی بھی حدیث متصادم ہو تو اسکے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہے”۔ قرآن میں زنا کی سزا100کوڑے ہیں تو سنگساری والی روایات قرآن کیخلاف ہیں۔ جن آیات سے قرآن کی دوسری آیات منسوخ ہوسکتی ہیں تو کیا ان سے احادیث کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا؟۔ غیرت اس سے بڑھ کر کس میں ہوسکتی ہے کہ ” شوہر اپنی بیوی کو کسی اور کیساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لے؟”۔ قتل کی اجازت نہیں تو کسی اور کو کیسے قتل کیاجاسکتا ہے؟۔ غیرت کاقتل اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے اکھاڑ پھینکا۔ سورۂ نور میں لعان کی آیات ہیں۔ عورت نے انکار کیا تو ا سے سزا نہیں دی جائے گی۔ لعان کی آیات کوعام کیا جائے اسلئے کہ انگریز نے برصغیرپاک و ہند میں غیرت کے نام پر قتل کی اجازت دی اور بے غیرت مولویوں نے حلالہ کے نام پر روئے زمین کی تاریخ میں بے غیرتی کے سب ریکارڈ توڑدئیے ۔
سوال یہ ہے کہ لعان یا سزا کے بعد کیا کاروائی کی جائے گی؟۔ اس کا جواب بھی قرآن نے دیا ہے کہ ” زانی کا نکاح زانیہ یا مشرکہ سے کیا جائے اور زانیہ کا نکاح زانی یا مشرک سے کیا جائے اور یہ مؤمنوں پر حرام ہے”۔ جس عورت کو جس مرد کیساتھ پکڑا جائے تو100کوڑوں کی سزا کے بعد اس کا نکاح اس مردسے کرایا جائے۔ وہ زانی مرد مسلمان ہو یا مشرک کوئی فرق نہیں۔ معاشرے میں خبیث کا تعلق عقیدے سے نہیں اس کے خباثت والے عمل سے ہے۔
اللہ نے مؤمن خواتین سے فرمایا کہ” ایسا لباس پہنو تاکہ تم پہچانی جاؤ اور تمہیں ستایا نہ جائے”۔ حکمرانوں کو یہ حکم نہیں کہ کسی کے لباس پر گرفت کریں۔ طالبان سعودی عرب اور ایران کے برعکس خواتین پر لباس کی پابندی نہ لگائیں بلکہ یہ قانون نافذ کردیں کہ ” اگر کسی نے جبری بنیاد پر کسی عورت سے زیادتی کی تو اس کو سنگسار کردیا جائے گا”۔ کچھ افراد سنگسار ہوجائیں تو پوری دنیا میں سب خواتین اور باضمیر مرد حضرات ان کے حق میں کھڑے ہوجائیںگے۔ یہی اسلام اور پشتو کا مشترکہ قانون ہے۔ قرآن میں قتل کرنے کا حکم ہے اور حدیث ایسے شخص کو سنگسار کرنے کا حکم دیتی ہے۔ طالبان کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔
نام نہاد احناف قرآن کے مقابلے میں صحیح حدیث کو بھی نہیں مانتے ۔ابن ماجہ کی روایت ہے کہ شادی شدہ کیلئے سنگسار کرنے اور بڑے آدمی کو دودھ پلانے سے رضاعت ثابت ہونے کی دس آیات تھیںجو نبیۖ کی وفات کے وقت بکری کے کھا جانے سے ضائع ہوگئیں۔ حالانکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عمر نے کہا کہ ” اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ لوگ کہیںگے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو رجم کا حکم قرآن میں لکھ دیتا”۔یہ متضاد روایات خرافات کی بڑی دلیل ہیں احناف کے نزدیک قرآن کے مقابلے میں احادیث قابلِ قبول نہیں لیکن قرآن کے مقابلے میں جعلی آیت قابلِ قبول ہے ۔ سورہ نور کی واضح آیت کے مقابلے میں جعلی آیت الشیخ والشیخة اذا زنیا فاجرموھما ”جب بوڑھا مرد بوڑھی عورت سے زنا کرے تو دونوں کو سنگسار کردو”۔ ایسی آیت ہے جس کا حکم باقی ہے اور تلاوت منسوخ ہے؟۔یہ شادی شدہ کیلئے نہیں بلکہ بوڑھوں کو رجم کرنے کا حکم ہے، چاہے بوڑھا شادی شدہ ہو یا کنوارا۔ یہ توراة کی آیت ہو تو مطلب ہوگا کہ بوڑھا بوڑھی کوزنا پرکوڑے مارنے کے بجائے لعنت بھیجو۔ شیطان لعنت بھیجنے سے رجیم ہے۔ کوڑوں کے کھانے کے بڈھے متحمل نہیں۔ ایگریمنٹ والی سے نکاح کے بعد آدھی سزا50اور نبی ۖ کی ازواج کیلئے ڈبل200کا حکم ہے۔درباری ملاجیون کے” نورالانوار”کی جگہ علامہ مناظر احسن گیلانی کی کتاب ”تدوین القرآن” کو درسِ نظامی میںہونا چاہے تھا۔
اگر ہمارے پشتون مخلص طالبان بھائی افغانستان میں درباری فقہ احناف کی جگہ درست فقہ احناف نافذ کردیںگے توپاکستان ، ایران اور سعودی عرب سے بھی اس کا خیرمقدم ہوگا اور پوری دنیا میں اسلامی انقلاب کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ داعش اور تحریک طالبان پاکستان بھی ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔ یہ خطہ دہشت گردی کی جگہ امن وامان کا گہوارہ بن جائے گا۔ افغانستان، ایران اور پاکستان کو امن وامان اور بھارت و چین وغیرہ کو راہداری دینے کے بدلے اتنا زرمبادلہ مل جائے گا کہ ہماری ریاستیں دنیا کی امیر ترین ریاستیں ہوں گی۔ مزارعین کو مفت میں زمینیں اور دنیا کو سستی راہداری دینے سے انقلاب آئے گا۔ ہند اور بیت المقدس لڑائی کے بغیر فتح ہوںگے لیکن ہم اسلام کو اپنائیں تو سہی!۔ ریاستِ پاکستان اصلی اسلام کوسامنے لانے کی ذمہ داری کی طرف توجہ دے۔
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv
لوگوں کی راۓ