پوسٹ تلاش کریں

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled.

If he had taken advantage of Dr. Abdul Razzaq Sikandar, he would have changed his Arabic. When Maulana Yusuf Banuri was alive, the pots for drinking the water of the Shia procession were cleaned and filled. اخبار: نوشتہ دیوار

ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر سے فائدہ اٹھایا جاتا تو اپنی عربی بدل جاتی!
جب مولانا یوسف بنوری حیات تھے تو اہل تشیع کے ماتمی جلوس کے پانی پینے کیلئے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔

سوادِ اعظم اہلسنت کے مولانا سلیم اللہ خان، مولانا مفتی احمد الرحمن پرنسپل جامعہ بنوری ٹان،شیخ الحدیث مولانا اسفند یار خان، ایڈوکیٹ عبدالعزیز خلجی اور کئی مدارس سے آئے ہوئے علما و طلبہ اہل تشیع کا جلوس روکنے کیلئے جمع تھے۔ ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر ناظم تعلیمات نے جامعہ بنوری ٹان میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھاتھا ۔استاذ محترم نے فرمایا کہ ” مفسدین کی باتوں میں مت آ، جب مولانا بنوری حیات تھے تو ماتمی جلوس سے پہلے پانی کے مٹکے صاف کرکے بھر دئیے جاتے تھے۔ ان کے علما اور ذاکرین مدرسہ میں آتے تھے”۔ ختم نبوت کی تحریک بھی شیعہ سنی علما نے مولانا بنوری کی قیادت میں کامیاب بنائی تھی۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے قدموں میں سارے عہدے آئے مگر پیرانہ سالی میں بہت دیر ہوچکی تھی۔ اگر آپ کو بروقت ختم نبوت کا امیر بنایا جاتا تو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ نہیں پڑسکتا تھا۔ اگر آپ بروقت جامعہ کے مفتی اور شیخ الحدیث ہوتے تو مفسدین جامعہ بنوری ٹان کی دارلافتا کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے کبھی استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اگر آپ بروقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر بنائے جاتے تو پاکستان کے مدارس میں جامعہ ازہر مصر اور مدینہ یونیورسٹی کے ہم پلہ نصاب سے بھی زیادہ اچھی عربی کتابیں پڑھائی جاتیں۔ اگر آپ صحیح وقت پر اقرا روض الاطفال کے سرپرست وصدر بنائے جاتے تو سکولوں کے نصاب پر عربی مدارس بھی رشک کرتے۔ ہمارے ہاں لالچی، مفسدین، فتنہ پرور اور بہت ہی غلیظ قسم کے شیاطین الانس اہم عہدوں پر ڈمی لوگوں کو فائز کرکے اپنا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسلئے ہم نے استاذ محترم کی حیات میں تجویز پیش کی تھی کہ مولانا امداد اللہ یوسفزئی جیسے لوگوں کو وفاق المدارس پاکستان کا صدر بنانا چاہیے تاکہ مدارس کی تعلیم وتربیت میں ایک فعال کردار بھی ادا کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے ہمیں صرف عربی کی خوشبو ہی سونگھائی تھی مگر پھر بھی جب اپنے سکول کبیر پبلک اکیڈمی میں تھوڑی بہت عربی بچوں کو پڑھائی تو جمعیت علما اسلام ف کے ضلعی امیر مولانا عبدالرف اور جمعیت علما اسلام کے ضلعی امیر مولاناشیخ محمد شفیع شہید نے جلسہ تقسیم انعامات میں اپنی طرف سے بھی طلبہ کو نقدی انعامات دئیے اور اپنی تقریروں میں کہا کہ” اتنی اچھی عربی ہمارے مدارس میں بھی نہیں ہے اور ایسی انگریزی سکول والوں میں بھی نہیں ہے”۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کی جمعیت علما اسلام کے اجتماع میں عربی سن لیں اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی بھی سن لیں۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی ایسی تھی جیسے رائے بریلی یا لکھنو کا کوئی ادیب شائستہ اردو زبان میں گفتگو کررہا ہو۔ اور شیخ الاسلام کی عربی ایسی لگتی ہے جیسے کوئی ان پڑھ بنگالی ارود کی ریڑھ لگارہا ہو۔ جب ضرورت پڑی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے ہر منصب کو شرف بخشا۔ایسا نہیں کہ خود ساختہ شیخ الاسلام یامفتی اعظم بن گئے۔ ایسا بھی نہیں کہ ناراض ہوکر عہدہ قبول کرنے سے انکار کیا ہو ؟۔ جامعہ بنوری ٹان کراچی کے پرنسپل کا منصب تو اپنی جان کو ہی ہتھیلی پر رکھنے والی بات تھی۔ ظالموں نے شیخ بنوری کے بیٹے مولانا سید محمد بنوری کا خون کردیااور پھر خود کشی کا بہتان لگایا۔ جامعہ کا دارالافتا اور مفتی اعظم پاکستان کا نام نہادعہدہ بھی غلط استعمال کیا گیا تھا اور روزنامہ جنگ ”آپ کے مسائل اور ان کا حل ” میں مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہید کی طرف یہ منسوب کیا گیا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام کے چچا نہ تھے، البتہ دوپھوپھیاں تھیں”۔ اور کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا؟ ۔ ڈاکٹر صاحب بہت بڑی شخصیت تھی اگر آپ سے بروقت عربی کی تجدید کا کام لیا جاتاتو قرآن اور صحیح بخاری کے ترجمہ میں بھی ایک انقلاب آجاتا۔ محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے بخاری کی اپنی شرح ”کشف الباری” میں دنیابھر کی تشریحات کا خلاصہ لکھ کر کمال کردیا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا ہے کہ ان تشریحات کے نتائج کتنے خراب نکلیں گے؟۔
احناف نے حرمت مصاہرت کے مسائل میں جس غلو سے کام لیا ہے وہ بھی قابل اصلاح ہے لیکن خود بخاری کی احادیث کی بھی درست وضاحتیں نہیں کی گئیں تو معاملات بہت گھمبیر ہیں۔ پھر فقہ ، اصولِ فقہ ، احادیث اور قرآن کے احکام میں بالکل بھی کوئی جوڑ اور ربط نہیں ہے۔ مولانا سلیم اللہ خان نے” کشف الباری
ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ حضرت علی نے ایک شخص کی بیوی کے فوت ہونے کے بعد کہا کہ اگر اس کی کوئی ایسی لڑکی ہے جس نے اس کے گھر میں پرورش نہ پائی ہو تو اس سے نکاح کیا جائے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ احناف وغیرہ کے نزدیک اگر بیوی کے سابقہ شوہر کے بیٹے سے لواطت کا عمل کیا جائے تو حرمت مصاہرت پیدا نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر صاحب بہت خرافات نکال دیتے۔
عام عربی میں ”فرج” خوشحالی کو کہتے ہیں مگر علما کے ہاں صرف عضو مخصوصہ کاتصور بیٹھ گیا ۔اگرعلما نے عربی ادب کیساتھ اپنا شوق و ذوق وابستہ نہ کیا تو قرآن وسنت کی کئی لغات میں غلطیوں کا تصور نہیں ٹوٹے گا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر نے مولانا بنوری سے مناسک حج سیکھے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کوئے کی طرح لنگڑا کر چلنے سے کسی کو ”رمل” سکھارہا تھا ۔ اللہ نے ممنوں کیساتھ ایسی جنت کا وعدہ کیا ہے کہ جسکا عرض زمین وآسمان کے برابر ہے لیکن مفتی تقی عثمانی نے قرآن کی غلط تفسیر کی کہ ” قریب ہے کہ آسمان ملائکہ کی عبادت میں زیادہ تعداد کے وزن کی وجہ سے پھٹ جائے”۔ ( آسان ترجمہ قرآن)
ڈاکٹر صاحب نے مفتی محمد تقی عثمانی کیخلاف سودی بینکاری پر مقف پیش کیا جو تحریری طور پر نیٹ پر موجود ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ”عصر حاضر حدیث نبویۖ کے آئینہ میں” اور ڈاکٹر حبیب اللہ مختار کی کتاب” مسلمان نوجوان ” دستیاب نہیں۔ دونوں کو شہید اوریہ کتابیں غائب کردی گئیں۔ ہماری لڑائی ذاتیات کیلئے نہیں ۔تفصیل لکھ دی تو پتہ چلے کہ بڑے علما ومفتیان ہیںیا لنڈا بازار میں بکنے والے گھسے پھٹے جوتے ہیں؟۔
میں نے دارالعلوم کراچی میں نماز کے بعد چیلنج کیا تھااور وہ بھاگ کرگھروں میں گھس گئے۔ پھر جامعہ بنوری ٹان کراچی کی جامع مسجد میں اعلان کیا تو استاذ محترم ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جنہوں نے فتوی لگایا ہے ، ان کو جاکر پکڑو؟ ۔ میں نے عرض کیا کہ ”فتوے پر یہاں کی مہریں لگی ہیں”۔ استاذ مفتی محمد ولی کو مولانا نجم الدین مردانی نے شلوار اتارنے کی دھمکی دی تھی اسلئے میرے اشعار گنگنا کر پڑھتااور کہتا تھا کہ اشعار سے امرا القیس کو بھی شرمندہ کردیا۔ مفتی محمد ولی نے کہا کہ یہ جرات تو شیعوں میں بھی نہیں کہ ہمیں یہاں چیلنج کریں، ہم ننگا کردیںگے تو میں نے کہا کہ” کسی کھدڑے میں جرات ہے تو سامنے آئے”۔ یہ وزیرستان کی مٹی کا کمال تھا۔ مولاناسیدمحمد بنوری شہید نے مولانا فضل الرحمن سے زندگی کی بھیک مانگی تھی مگرمولانا خود کشی کا جھوٹا الزام لگانے والوں کیساتھ کھڑے تھے۔ اگرڈاکٹر صاحب اپنے ذوق سے نصاب بناتے تو مدارس کی تقدیر بدل جاتی۔پھر مدینہ یونیورسٹی اور جامعہ ازہر مصر بھی نہ جانا پڑتا۔ دیسی علما کی عربی جدا ہے ۔مولانا ابولحسن علی ندویہندی مگر عربوں کے بھی استاذ تھے۔
ایا ایھاالجیش من النسا اہل المردان
ان کنتم رجالا فتعالوا الی المیدان
قد ماالتقیتم قط بااہل وزیرستان
کفی لکم واحد منہم موجود عتیق الرحمن

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

جب سُود کی حرمت پر آیات نازل ہوئیں تو نبی ۖ نے مزارعت کو بھی سُود قرار دے دیا تھا
اللہ نے اہل کتاب کے کھانوں اور خواتین کو حلال قرار دیا، جس نے ایمان کیساتھ کفر کیا تو اس کا عمل ضائع ہوگیا
یہ کون لوگ ہیں حق کا علم اٹھائے ہوئے