دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
اگست 23, 2022
دعا زہرہ کیس کو اگر اسلامی تعلیم کے مطابق حل کیا گیا تو نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھرکی خواتین کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
تحریر: سید عتیق الرحمن گیلانی
ولاتکرھوھن علی البغاء ان اردن تحصنًا ” اور ان کوبدکاری (خفیہ تعلق رکھنے پر)یا بغاوت ( کھل کربھاگ کر نکاح )پر مجبور مت کرو،اگر وہ نکاح کرنا چاہتی ہوں”۔
حدیث میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا گیاہے۔ قرآن کی آیت میں مسلکی اختلافات اور بہت پیچیدہ صورتحال کا بہترین حل ہے لیکن قرآن کی طرف توجہ نہیں
ہمارے معاشرے میں ایک طرف والدین بچیوں اور بچوں کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کردیتے تھے اور دوسری طرف بچے اور بچیاں بھی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر رشتہ ازدواج میںخود کو جوڑ لیتے ہیں۔ اسکے نقصانات کیاہیں؟۔
مغرب اور ترقی یافتہ دنیا نے نکاح کے حقوق کو قانونی تحفظ دیا ۔طلاق وخلع میں مشترکہ جائیدادبرابر برابر تقسیم ہوتی ہے۔ جائیدا د کی تقسیم کے خوف سے گرل و بوائے فرینڈز کا کلچر بن گیاہے۔اور یہ بھی ہے کہ جب تک شناختی کارڈ نہیں بنتا تو قانونی نکاح نہیں ہوسکتا ہے اسلئے کہ کم عمری میں طلاق کے قوانین جائیداد کی تقسیم کا معاملہ سخت ہے لیکن اس عمرتک پہنچنے سے پہلے جنسی آزادی دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں مشرقی مسائل ہیں لیکن قرآن سورۂ نور میں اللہ نے واضح کردیا کہ اسلام پر مشرق ومغرب کا ماحول اثر نہیں ہے۔ اس کی مثال طاق میں رکھے چراغ سے دی جو شیشہ میں بند ہو۔ مشرقی اور مغربی ہواؤں سے محفوظ ہو۔
عیسائیوں میں طلاق کا تصور نہیں تھا،پھر اجتہاد سے طلاق کی اجازت دی۔ ہندو بیو ہ عورت ستی کردی جاتی تھی۔ انگریز نے بیوہ کو زندہ جلانے پر قانوناًپابندی لگاکریہ رسم ختم کی۔ اسلام نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ کو نہ صرف کھل کر حق دئیے بلکہ انسانی معاشرے کو ترغیب دی کہ بیوہ وطلاق شدہ خواتین اورنیک غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ عربی میں الایم(بیوہ وطلاق شدہ) کے مقابلے میں بکر (کنواری )آتا ہے۔ بخاری کی حدیث میں بھی اس کی وضاحت ہے کہ شوہر دیدہ طلاق شدہ وبیوہ سے زبانی وضاحت پوچھ کر اس کا نکاح کیا جائے اسلئے کہ وہ شرماتی نہیں اور کنواری کی اجازت خاموشی کافی ہے۔ کنواری کو عربی میں فتاة اور شوہر والی کو محصنة کہتے ہیں۔ قرآن اور عربی کی عام زبان میں فتاة لونڈی اور محصنة پاکدامن کو بھی کہتے ہیں۔نوکرانی کی ضرورت ہو تو ”لڑکی چاہیے” سے مراد نوکرانی ہے اور ” ہماری لڑکیاں ” سے مراد بیٹیاں ہیں۔ نکاح کیلئے لڑکی چاہیے تو اس سے مراد کسی اور کی لڑکی ہے اور جہاں لونڈیوں کا ماحول ہو تو وہاں لڑکیوں سے لونڈیاں بھی ماحول کے مطابق ہیں۔
ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیوہ وطلاق یافتہ ، لونڈی ، غلام اور اپنی کنواری لڑکیوں کا جس طرح قرآن وسنت نے معاملہ حل کیا اگر اس پر عمل ہوتا تو پھر ہمارے معاشرے کو یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے کہ خود بھی پریشان ہیں اور دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ ہم تماشہ بن گئے اور دنیا ہمارا تماشہ دیکھ کر عبرت پکڑ رہی ہے۔ پہلے یورپ میںہمارا جیساہی ماحول تھا لیکن آج ان کی پوزیشن بالکل مختلف ہے اور ہم آج ان کیلئے قابلِ رشک بھی نہیں ہیں لیکن وہ بھی اپنے ماحول سے مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں۔ قرآن وسنت نے ہمیں جو بالکل فطری اسلام دیا تھا وہ تمام مسائل کا دنیا بھر کیلئے زبردست، بہترین اور واحد حل ہے۔
ایک طرف نبیۖ نے فرمایا کہ ” زبردستی سے عورت کا نکاح کرانا بالکل جائز نہیں ”۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے لڑکیوں کانکاح زبردستی سے کردیا تو اس نکاح اور اسکے اولاد کی حیثیت کیا ہے۔ جائز یا ناجائز؟۔ اس کا جواب قرآن نے بہت عمدہ انداز میں دیاہے کہ عورت پر اس کی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اس کی مجبوری کی وجہ سے یہ نکاح جائز اور اس کی اولاد درست ہے لیکن اس پر جبر والے معاشرے کی پکڑ ہوگی۔ اس کی زندگی اجیرن بنانے کے اثرات سے وہ دنیا وآخرت میں خلاصی نہ پاسکیں گے۔ ہمارے معاشرے کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ آج تک یہ مجرمانہ فعل موجود ہے اور اس کا ذمہ دار طبقہ صرف دنیاداراشرافیہ اور جاہل طبقہ نہیں بلکہ مولوی بھی ا سکا حصہ ہے۔ مفتی محمد تقی عثمانی کی بیٹی کا واقعہ دارالعلوم کراچی سے فارغ التحصیل عالم نے بتایا تھا۔ مسئلہ بتانا نہیں ہوتا بلکہ اس پر عمل کرنا ہوتاہے، معاشرے میں بیماری عام ہو تو خواص حصہ ہوتے ہیں۔ مولانا یوسف بنوری کی صاحبزادی ڈاکٹر حبیب اللہ مختار پرنسپل جامعہ بنوری ٹاؤن کی بیوہ کا کسی رانگ نمبر پر رابطہ ہوا، پھر معاملہ ضد کرکے شادی تک پہنچ گیا۔ اقارب نے سمجھایا کہ نوسر باز ہوسکتا ہے اور مدرسہ والوں نے سب کچھ سے تحریری طور پر اس کو دستبردار کروانے کے بعد اجازت دی تو اس کو زیادتی کرکے قتل کیا گیا تھا۔
نبیۖ نے فرمایا کہ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اسکا نکاح باطل ہے، باطل ہے ، باطل ہے”۔ اس حدیث کو حنفی مسلک والے قرآنی آیت سے متصادم قرار دیکر رد کرتے ہیں لیکن اس پر عمل کرتے ہیں اور اس کے خلاف عمل کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔جب علماء نے قرآن وسنت کو مسلک سے منسلک یا رد کرنے کو اپنا پیشہ بنالیا تو قرآن وسنت دل ودماغ سے نکل گئے اور ایک اچھے ماحول کی تشکیل کیلئے قرآن وسنت کورہنمائی کا ذریعہ نہیں بناسکے۔ میرے آباء واجدادمیں سید عبدالقادر جیلانی اور اوپر تک میں علماء ومشائخ آئے ہیں۔ ہمارا ماحول بھی عوام سے مختلف نہیں ہے۔ جب قرآن وسنت کے علوم کو پورے معاشرے میں رائج نہیں کیا جائے تو ایک گھر اور گھرانے میں اس کو رائج کرنے کا رواج ایک بہت مشکل کام ہے۔
اصل بات موضوع سے متعلق یہ ہے کہ ” جب ایک عورت یا کنواری لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اسکا قرآن وسنت میں کیا حکم ہے؟ اور دعا زہرہ کے نکاح پر کیا شرعی رہنمائی ہوسکتی ہے؟”۔ جب یہ بات مسلمہ ہے کہ لڑکی یا عورت پر زبردستی سے اپنی مرضی مسلط کرنے کا حق ولی کو نہیں ہے توپھر سب سے پہلے اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ لڑکی پر زبردستی مسلط نہیں کی گئی ہے اور کھلی عدالت میں ججوں کے سامنے معروضی حقائق کی روشنی میںحق بات تک پہنچنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگرلڑکی کا دعویٰ ہو کہ زبردستی مسلط کی گئی تھی تو آزاد ماحول میں حقائق تک پہنچنا مشکل نہیں ہے۔ لڑکی کیلئے دور استے ہیں۔ ایک یہ کہ ولی اجازت نہیں دیتا ہو تو وہ نکاح کے بغیر خفیہ تعلق رکھے اور بدکاری کرے اور دوسرا یہ کہ وہ کھل کر بغاوت کردے اور نکاح کرلے۔ دعا زہرہ نے بغاوت کا راستہ اختیار کیا ہے ، اس پر حرامکاری کا فتویٰ نہ لگاؤ۔اسکا اچھا اثر ہمارے ملکی قوانین پر بھی پڑیگا۔ متأثرہ لڑکی اور اس کے تمام متعلقین پر بھی پڑے گا۔ بغاوت جائز اور ناجائز ہوسکتی ہے لیکن حرامکاری جائز اور ناجائز نہیں ہوسکتی ہے۔
جہاں تک شیعہ مسلک کا تعلق ہے اور قانون کا معاملہ ہے تو قانون میں کھل کر والد صاحب کی طرف سے دعا زہرہ کو اجازت مل سکتی ہے کہ وہ جہاں چاہے رہ سکتی ہے۔ والد کی اجازت نہ ہو تو قانونی عمر تک پہنچنے کا دارلامان میں انتظار کرنا پڑیگا۔شیعہ کے ہاں متعہ کی بھی اجازت ہے ۔ جب والدراضی ہوگا تو والد مذہبی اور قانونی طور پر دعا زہرہ کو ظہیر کیساتھ جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔
سورہ نور کی آیت:32میں بیوہ وطلاق شدہ خواتین ، لونڈیوں اور غلاموں کا حکم بیان ہوا ہے اور پھر آیت33کے آخر میں جوان کنواری لڑکیوں کا بیان ہے ولا تکرھوا فتےٰتکم علی البغآء ان اردن تحصنًا لتبتغواعرض الحےٰوةالدنیاومن یکرھھُّن فان اللہ من بعد اکراھھن غفور رحیمO”اور اپنی لڑکیوں کو بدکاری یابغاوت پر مجبور مت کرو۔ اگر وہ خود نکاح کرنا چاہتی ہوں اسلئے کہ تم دنیا کی زندگی چاہو۔ اور ا گر کسی کو ان لڑکیوں میں سے مجبور کیا گیا تو اللہ ان کی مجبوری کے بعد غفور رحیم ہے۔ (سورہ نور آیت33)
آج اگر دعا زہرہ کے والد مہدی کاظمی نے اپنا ، سندھ حکومت اور شیعہ کی کمیونٹی کاپورازور استعمال کرتے ہوئے دعا زہرہ کی مرضی کے بغیر نکاح کردیا تویہ غلط اور قرآن کی خلاف ورزی ہوگی لیکن دعا زہرہ کیلئے اس میں گناہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ مجبور کی گئی ہوگی۔ اگر دعا زہرہ شادی کرنا چاہتی تھی اور اس کو اجازت نہ ملتی تو پھر چھپ کر تعلق کرنا بدکاری تھا اور اس کا ذمہ دار ولی بھی ہوتا۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ دعا زہرہ نے کھل کر بغاوت سے نکاح کیا تو اس پر بدکاری کا نہیں بلکہ بغاوت کا اطلاق ہوتا ہے۔ البغاء لفظ کی تفسیر میں دونوں معانی اپنی اپنی جگہ پر مراد ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مفسرین اور مترجمین نے اس آیت میں بہت بڑی معنوی تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ لکھا ہے کہ ” اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی لونڈیوں کو زبردستی سے بدکاری پر مجبور نہ کرو”۔ جبکہ اس سے ایک آیت پہلے اللہ نے فرمایا کہ لونڈیوں کا نکاح کراؤ۔ اور اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ آزاد مشرک مرد اور عورت سے نکاح کیلئے مؤمن غلام اور لونڈی بہتر ہے۔ مہدی علی کاظمی کے دکھ ، درد اور مشکلات کو ہر انسان سمجھ سکتا ہے اور دعا زہرہ پوری قوم کی بیٹی ہے،اس کی عزت پوری انسانیت کی عزت ہے۔ بیٹی اور بہو دعا زہرہ پر شیعہ سنی علماء حرامکاری کے نہیں بغاوت کے فتوے لگائیں۔ جج کا کام قانون کا پاس کرنا ہوتا ہے اور شریعت کی رہنمائی کرنا علماء کرام کا کام ہے۔
اگر معاشرے میں اسلام رائج ہوتا۔ بیٹیوں کو نکاح کیلئے بغاوت یا چھپ کر معاملہ نہ کرنا پڑتا تو ہم قابل رشک ہوتے۔ ایک طرف حدیث میں ایسے نکاح کو باطل قرار دیا گیا جو ولی کی اجازت کے بغیر ہو اور دوسری طرف قرآن نے اس کو بغاوت قرار دیا ۔ بغاوت و باطل کے الفاظ میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایسے میں لڑکی اپنے خاندان کی بہت بڑی سپورٹ سے محروم ہوجاتی ہے۔ خاندانوں میں مشترکہ بچوں کی مٹھاس کا مزہ کر کرا ہوجاتا ہے۔ پوتے اور نواسے اپنے دادا،دادی، نانا،نانی، چچا،پھوپھی، ماموں، خالہ اور اپنے مشترکہ رشتہ داروں سے محروم ہوں تو اس سے بڑھ کر باطل اور بغاوت کیا ہوسکتی ہے؟۔ قرآن وسنت نے صرف بغاوت سے نہیں روکا بلکہ اسکے اسباب کو ختم کیا ہے۔ جب لڑکی اورعورت پرمرضی مسلط نہیں کی جائے گی تو بغاوت اور باطل نکاح کی نوبت نہیں آئے گی۔ فقہ کی کتابوں میں ہے کہ ” اگر لڑکی اپنے خاندان سے نیچے کے طبقے میں شادی کرے تو اس کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا۔ اگر ولی مان گیا تو نکاح درست اور نہیں مانا تو نکاح نہیں ہوگا”۔ عدالت اس اونچ نیچ کو تسلیم نہیں کرتی۔ جن فقہاء نے ہمیشہ طاقتوروں کا ساتھ دیکر کمزوروں کے ہاتھ مزید باندھ دئیے ہیں ان کی اجتہادی صلاحیت بھی کسی کام کی نہیں ہوتی ہے۔ ان کے چیلے چپاٹے اور عقیدت مند ومرید بھی چمگادڑوں کی طرح اندھیر نگری میں رہنے کو پسند کرتے ہیں اور سورج کی روشنی کی طرح قرآن کے نور سے بھی ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ مفتی محمد تقی عثمانی کے مدرسے میں اس کا بہنوئی مفتی عبدالروف سکھروی خلیفہ مفتی محمد شفیع مریدوں کو تعلیم دیتا ہے کہ کیمرے کی تصاویر پر احادیث کی یہ یہ وعیدیں ہیں جبکہ مفتی محمد تقی عثمانی نے تصاویر کیلئے اپنے دانت نکلوادئیے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی عالمی سودی بینکاری کو جواز فراہم کررہا تھاتو مفتی عبدالروف سکھروی شادی بیاہ میں لفافے کے لین کو سود قرار دیکر اسکے کم ازکم گناہ کو اپنی سگی ماں سے زنا کرنے کے برابر قرار دیتا تھا جس کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اسلامی معاشرے کو ان کے ٹھیکے پر نہیں دیا جاسکتا ہے ورنہ مجھے قبر اور آخرت میں اپنے نانا جان رسول اللہ ۖ کا سامنا کرنے میں مشکل ہوگی جبکہ قرآن نے واضح کیا کہ آپ ۖ ہم پر اور ہم لوگوں پر گواہی دیں گے۔
جب راضی خوشی لڑکی کی شادی کرادی جاتی ہے تو بھی اسکا مستقبل غیرمحفوظ ہوتا ہے۔ اسلام نے نکاح کے بعد طلاق یا خلع کی صورت میں صنف نازک عورت کے مالی حقوق محفوظ بنائے مگر ملاؤں نے عورتوں کے تمام حقوق غصب کردئیے ہیں۔ شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی کتاب ” عصر حاضر حدیث نبوی ۖ کے آئینہ میں” بہت بہترین کتاب ہے جو مارکیٹ سے غائب کردی گئی ہے جس میں لکھا ہے کہ ” جب علماء اٹھ جائیں گے تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے”۔ مفتی تقی عثمانی نے اپنی کتاب ” تقلید کی شرعی حیثیت ” میں لکھ دیا ہے کہ ” اس حدیث کا اطلاق ائمہ مجتہدین کے بعد ہوتا ہے”۔ اسلئے تقلید کرنا ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ نے علم الکلام کی گمراہی سے توبہ کی تھی پھر کیوں اصول فقہ میں قرآن کے مصاحف کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار پڑھایا جاتا ہے؟۔مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتابوں ”فقہی مقالات جلد چہارم” اور” تکملہ فتح الملھم” سے سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کے جوازکا مسئلہ نکال دیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قاضی ابویوسف، صاحب الھدایہ، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ شامیہ نے لکھا کیوں ہے؟ عمران خان کے نکاح خواں مفتی سعیدخان نے2008میں کتاب ”ریزہ الماس” شائع کی ہے تو اس میں بھی سورۂ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” ضرورت کے وقت سؤر کھانا بقدر ضرورت حلال ہے جو جسم کا حصہ بنتاہے تو سورہ فاتحہ پیشاب سے لکھنا جسم کا حصہ بھی نہیں بنتا”۔
امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والوں کو ساری بکواسات سے توبہ کرنا چاہیے یہ بعد کی خرافات ہیں اور اب سودی بینکاری کے جواز تک بات پہنچادی گئی ہے۔
معاشرے میں زبردستی کی شادی کا رواج ختم ہوگا تو کوئی لڑکی گھر سے بھی نہیں بھاگے گی اور جب قرآن وسنت کے مطابق نکاح کے بعد عورت کو حقوق مل جائیںگے تو بیٹیوں کا رشتے دینے میںکسی قسم کے تحفظات نہیں ہوںگے اور عورت جب چاہے گی نہ صرف خلع لے سکتی ہے جس کی عدت صحیح حدیث کے مطابق ایک حیض یا ایک مہینہ ہے اور شوہر کی طرف سے دی ہوئی ہر لے جانے والی چیز بھی اس کی ہوگی البتہ غیرمنقولہ جائیداد گھر، فلیٹ، پلاٹ، باغ اور زمین وغیرہ سے دستبردار ہونا پڑے گا اور طلاق کی صورت میں شوہر کے اس گھر سمیت جس میں اس کو رہائش دی تھی تمام دی ہوئی جائیداد میں سے کچھ واپس نہ ہوگا۔
لوگوں کی راۓ