پوسٹ تلاش کریں

اکٹھی3طلاق دی تو واپسی کا راستہ نہیں عثمانی

اکٹھی3طلاق دی تو واپسی کا راستہ نہیں عثمانی اخبار: نوشتہ دیوار

اکٹھی3طلاق دی تو واپسی کا راستہ نہیں عثمانی

قرآن سے7ایسے ٹھوس دلائل جن سے ثابت ہے کہ اکٹھے3طلاقوں کے باوجودبھی رجوع ہوسکتا ہے!

علماء ومفتیان کے ان7دلائل کی ترید جن سے وہ اکٹھی3طلاقوں کے بعد حلالہ کا ثبوت پیش کرتے ہیں!

مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ” نکاح و طلاق کے مسائل سے اس قدر جہالت ہے کہ کوئی حد و حساب نہیں۔ روزانہ ہمارے دار الافتاء میں مسائل اتنی کثرت سے آتے ہیں کہ دل بہت رنجیدہ ہوتا ہے۔ ذرا سا جھگڑا ہوگیا اٹھا کر3طلاقیں دیدیں اکھٹی، یہ پتہ نہیں کہ3طلاقیں دینا ناجائز ہے اگر کوئی دیدے تو پھر دوبارہ واپسی کا راستہ نہیں رہتا۔ عام طور پر سمجھتے ہیں کہ بغیر3کہے طلاق ہوتی نہیں۔ لہٰذا3سے کم پر بس نہیں کرتے۔ ایک مرتبہ کہیں تو سمجھتے ہیں کہ طلاق نہیں ہوئی۔ حالانکہ ایک طلاق دینے سے جو شریعت کا اصل حکم ہے کہ اول تو آپس میں نباہ کی کوشش کرو لیکن اگر نباہ نہ کرنا ہو ختم ہی کرنا ہو رشتے کو تو سوچ سمجھ کر ختم کرو تو ایک طلاق دیکر چھوڑ دو۔ عدت گزر جائے توعورت خود بخود نکاح سے نکل جائے گی۔3طلاقیں اکھٹی دینے کے گناہ کی سزا یہ ہے کہ دوبارہ آپس کی ملاپ کی صورت پیدا ہو اور جی چاہے کہ اس نکاح کو ہم دوبارہ قائم و استوار کرلیں تو3طلاقوں کے بعد راستہ نہیں رہتا۔ اب یہ مسئلے معلوم نہیں۔ روز ہمارے پاس دار الافتاء میں شاید ایک دہائی سوالات نکاح و طلاق سے متعلق ہوتے ہیں ”۔
دورِ جاہلیت میں اکٹھی تین طلاق پر حلالہ مذہبی حکم تھا جو قرآن نے حرف غلط کی طرح مٹادیا۔قرآن سے اس پر7زبردست دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل نمبر1:المطلقٰت یتربصن بانفسھن ثلاثة قروء ولا یحل لھن ان یکتمن ما خلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ الیوم اٰخر و بعولتھن احق بردھن فی ذٰلک ان ارادوا اصلاحًا
”طلاق والی عورتیں3ادوار تک خود کو انتظار میں رکھیں۔ اور ان کیلئے حلال نہیں کہ وہ چھپائیں جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کیا ہے اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں۔ اور ان کے شوہر اس (عدت) میں ان کو اصلاح کی شرط پر زیادہ لوٹانے کا حق رکھتے ہیں”۔ (البقرہ :آیت:228)
اس آیت میں دو کمال کی باتیں ہیں پہلی: باہمی اصلاح سے رجوع ہوسکتا ہے اور دوسری : باہمی اصلاح کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔ اور دو زوال کی باتوں کا خاتمہ ہے ۔ پہلی:اکٹھی تین طلاق سے رجوع کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔دوسری:عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع نہیں ہوسکتا۔لیکن افسوس یہ ہے کہ فقہاء نے اس آیت کے محرکات سے انحراف کرکے امت کو قرآن سے دور کردیا ہے۔
دلیل نمبر2:الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان ” طلاق دو مرتبہ ہے۔ پھر معروف طریقے سے روکنا ہے یا احسان کے ساتھ رخصت کرنا ہے”۔( آیت229)رسول اللہ ۖ سے صحابی نے پوچھ لیا کہ قرآن میں تیسری طلاق کہاں ہے؟۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ تسریح باحسان ہی تیسری طلاق ہے۔ اس آیت میں پہلی دو طلاقیں اکٹھی نہیں الگ الگ ہیں توپھر تیسری طلاق بھی الگ ہی ہے۔ یہ آیت گزشتہ آیت کی تفسیر ہے۔ عدت کے تین ادوار میں مرحلہ وار تین مرتبہ طلاق کی وضاحت ہے۔ حضرت عمر نے خبردی کہ عبداللہ نے بیوی کو حیض میں طلاق دی تو نبیۖ بہت غضبناک ہوگئے، پھر عبداللہ کو رجوع کا حکم دیا اور فرمایا کہ طہر میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے پھرطہر میں پاس رکھو یہاں تک کہ حیض آجائے پھراگررجوع کرناہو تو تو رجوع کرلو اورطلاق دینا ہو توہاتھ لگائے بغیر طلاق دو،یہی وہ عدت ہے جس میں اللہ نے اس طرح سے طلاق کا حکم دیا (بخاری کتاب التفسیر، سورۂ طلاق ) یہ واقعہ بخاری کی کتاب الاحکام، کتاب الطلاق اور کتاب العدت میں بھی ہے۔
دلیل نمبر3:فلایحل لکم ان تأخذوا مما اتیموھن شیئا الاان یخافا الا یقیما حدود اللہ فان خفتم الا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعدد حدود اللہ فاؤلئک ھم الظٰلمونOفان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ ……(آیت229اور230)
” پھرتمہارے لئے حلال نہیں جو کچھ ان کو تم نے دیا کہ اس میں سے کچھ بھی واپس لو۔ مگر جب دونوں کو خوف ہو کہ ( اگر کوئی دی ہوئی چیز واپس نہ کی) تو اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ پس اگر تمہیں خوف ہو ،( فیصلہ کرنے والو!) کہ وہ دونوں ( وہ چیز واپس کئے بغیر) اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے تو پھر اس کو عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں کوئی حرج دونوں پر نہیں ۔ یہ اللہ کے حدود ہیں۔ پس ان سے تجاوز مت کرو۔ جو اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔ پس اگر اس نے طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”۔
آیت229میں اللہ کی پہلی حد:تین مرتبہ طلاق کا تعلق مرحلہ وار عدت کے تین ادوار سے ہو۔ دوسری حد:جو چیزیں عورت کو دی ہیںاس میں کوئی چیز واپس لینا جائز نہیں ہے۔ تیسری حد:دونوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی تو دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ چوتھی حد:فیصلہ کرنے والوں کو خوف ہو کہ اگر وہ چیز واپس نہیں کی گئی تووہ دونوں اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ پھر عورت کی طرف سے فدیہ کرنے میں دونوں پر حرج نہیں ہے۔جواللہ کے ان حدود سے تجاوز کرے تو انہی کو اللہ نے ظالمین قرار دیا ہے۔
اس مقدمہ کے بعدیہ سوال پیدانہیں ہوتا کہ رجوع ہوسکتا ہے یانہیں ؟ بلکہ طلاق کے بعد عورت کا اپنے مستقبل کے نکاح کا آزادنہ فیصلے پر سوال آتا ہے کہ شوہراب پیچھا چھوڑے گا یا نہیں؟۔ اللہ نے اس شوہر کی دسترس سے باہر نکالنے کیلئے عورت پر ایسابڑا احسان کردیاکہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یہ خواتین پر اللہ کی طرف سے انعامات کی وہ بارانِ رحمت تھی جس کو مولوی نے قرآن میں معنوی تحریف کرکے آج بہت بڑی زحمت بنادیا ہے۔
آیت230میں حتی تنکح زوجًا غیرہ ” حتیٰ کہ وہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے”کا ہدف سابقہ شوہر سے آزادی تھی مگر فقہاء نے اس حدیث کو یہاں موضوع بحث بنایا۔ ” جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے ، باطل ہے ، باطل ہے”۔ حنفی مسلک میں اس آیت کے پیش نظر حدیث ناقابلِ عمل ہے اسلئے کہ قرآن میں عورت اپنے نکاح کیلئے آزاد ہے اور اس حدیث میں اس کو ولی کی مرضی کا پابند بنایا گیا ہے۔ جمہور کے نزدیک عورت کنواری ہو یا طلاق شدہ وبیوہ ۔ نکاح کیلئے ولی کی اجازت ضروری ہے اور حنفی مسلک میں عورت بالغ ہوتو اپنے نکاح کیلئے آزاد ہے لیکن اس آیت میں بالغ لڑکی کی بات نہیں بلکہ طلاق شدہ کا مسئلہ ہے۔ بیوہ اور طلاق شدہ کے احکام جدا نہیں ہیں اور بیوہ کو اس سے بھی زیادہ الفاظ میں اپنی مرضی کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ بہر حال آیت میں عورت کو سابقہ شوہر کی پابندی سے نجات دلائی گئی ہے اور لیڈی ڈیانا کو بھی طلاق کے بعد دوسرے سے شادی کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا اور قرآن نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے یہ مسائل حل کردئیے تھے۔
دلیل نمبر4:واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او سرحوھن بمعروف ……(آیت231البقرہ)
” اور جب تم عورتوں کو طلا ق دے چکے اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں توپھر ان کو معروف طریقے سے روک لو یا معروف طریقے سے چھوڑ دو……”۔
طلاق اور اس سے رجوع ریاضی نہیں معاشرتی معاملہ ہے ۔ اللہ نے عدت تک انتظار کا حکم دیا۔تاکہ دوسری جگہ نکاح کیلئے ایک مدت واضح ہوجائے لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ عدت کی تکمیل کے بعد رجوع کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ اگر عورت کی عدت حمل ہو اور بچہ آدھے سے کم نکلا ہو تو رجوع ہوسکتا ہے اور آدھے سے زیادہ نکلا ہو تو رجوع نہیں ہوسکتا ہے۔
اللہ نے واضح کردیا کہ عدت کی تکمیل کے بعد یعنی بچے کی پیدائش کے بعد بھی معروف رجوع ہوسکتا ہے۔ قرآن میں یہ جملہ چاربار ہے واذابلغن اجھلن ” اور جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں”۔ اس کے ترجمہ میں فرق قرآن کی تحریف ہے ۔مفتی تقی عثمانی نے اپنے ” آسان ترجمہ قرآن” میں تین جگہ سورہ بقرہ اور ایک جگہ سورہ طلاق میں اس کا بالکل متضاد ترجمہ کیا ہے۔
دلیل نمبر5:واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذا تراضوابیھم بمعروف….(آیت232البقرہ)
” اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دیدی اور وہ اپنی عدت کو پہنچ گئیں توپھر ان کو اپنے شوہروں کیساتھ نکاح کرنے سے مت روکو، جب وہ معروف طریقے سے آپس میں راضی ہوں”۔ ان تمام آیات میں اکٹھی تین طلاق پر ہی نہیں بلکہ حلالے کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے اسلئے کہ عدت میں اور عدت کی تکمیل کے بعد باہمی رضامندی اور معروف طریقے سے رجوع کی بار بار وضاحت ہے۔
دلیل نمبر6:یا ایھاالنبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن و احصواالعدة واتقوا اللہ ربکم ولاتخرجوھن من بیوتھن و لا یخرجن الا ان یاتین بفاحشة مبینة و تلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذٰلک امرًا (طلاق:1)
” اے نبی ! جب تم لوگ اپنی عورتوں کو چھوڑنا چاہو تو ان کی عدت تک کیلئے چھوڑدو۔اور عدت کو شمار کرکے پورا کرو۔ اور اپنے رب اللہ سے ڈرو۔ اور ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر جب کھلی فحاشی کا ارتکاب کریں۔ اور یہی اللہ کے حدود ہیں۔اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے تو اس نے تحقیق کہ اپنے نفس پر ظلم کیا۔ تمہیں نہیں پتہ کہ اسکے بعد نئی راہ بنا لے”۔
دلیل نمبر7:فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف واشھدوا ذوی عدل منکم واقیموا الشھادة للہ ذٰلکم یوعظ بہ من کان یؤمن باللہ والیوم الاٰخر ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجًا (سورہ طلاق آیت2)
”پس جب وہ (طلاق شدہ )عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو معروف طریقے سے روک لویا معروف طریقے سے الگ کرواور اس پر اپنوں میں سے دو عادل گواہ مقرر کرو۔ اور اللہ کیلئے گواہی قائم کرو۔ یہ وہ ہے کہ جسکے ذریعے اس کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو۔اور جو اللہ سے ڈرا تو اس کیلئے اللہ ( اس مشکل سے )نکلنے کا راستہ بنادے گا”۔
یہ سب وہ دلائل ہیں جس میں اکٹھی تین طلاق کے بعد رجوع کی نفی ہے۔ ابوداؤد شریف میں ہے کہ ام رکانہ کو ابورکانہ نے طلاق دی اور پھر ابورکانہ نے دوسری عورت سے نکاح کیا ، اس عورت نے نبیۖ سے شکایت کی کہ وہ نامرد ہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ اس کے بعض بچے اس سے کتنے مشابہ ہیں؟۔اور پھر فرمایا کہ ابورکانہ ام رکانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟۔ انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو تین طلاق دے چکاہے۔ نبیۖ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے اور پھر سورۂ طلاق کی ابتدائی آیات تلاوت فرمائی۔ سورہ طلاق کی پہلی آیت میں مرحلہ وار تین طلاق کا ذکر ہے ۔ پھر عدت کی تکمیل پر رجوع کی گنجائش ہے اور اگر فیصلہ کیا کہ چھوڑنا ہے تو دو گواہ بنانے کا بھی حکم ہے اور پھر اگر اللہ کا خوف کھایا ہو تو دوبارہ بھی اللہ نے راستہ نکالنے کی خوشخبری دی ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق وہی ہوا۔
اکٹھی تین طلاق کے بعد حلالہ کے بغیر چارہ نہ ہونے کے انتہائی لغو قسم کے 7دلائل اور ان کے زبردست لاجواب، بہترین اور دندان شکن جوابات ۔
دلیل نمبر1:حضرت عمر کا اکھٹے تین طلاق پر رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کرنا۔
جواب:حضرت عمر کے پاس ایک حکمران کی حیثیت سے تنازعہ آسکتا تھا۔ جب میاں بیوی طلاق کے بعد رجوع کیلئے راضی ہوں تو کسی حکمران اور قاضی کو درمیان میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ چادر اور چاردیواری کا مسئلہ اپنا اپنا ہوتا ہے۔ جس شخص نے اکٹھی تین طلاقیں دی تھیں تو اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی۔ جب حضرت عمر کے پاس تنازعہ آیا تو حضرت عمر نے ٹھیک فیصلہ دیا کہ اب رجوع کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس کی اصل وجہ تین طلاق نہیں بلکہ عورت کا راضی نہ ہونا تھا۔ جب عورت راضی نہ ہو تو قرآن کا یہی فیصلہ ہے کہ شوہر کیلئے پھر ایک طلاق کے بعدبھی رجوع کرنا حلال نہیں ہے۔
جنہوں نے اس کو ایک طلاق رجعی قرار دیا ہے تو وہ قرآن کی زیادہ مخالفت ہے اسلئے کہ قرآن میں ایسے طلاق رجعی کا کوئی تصور نہیں ہے جس کے بعد شوہر عورت کی رضامندی کے بغیر رجوع کرسکتا ہو۔ حضرت ابن عباس کی روایت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے کوئی تین طلاق دیتا تھا اور وہ ایک شمار ہوتی تھی تو باہمی رضا مندی کی صورت میں تین مرتبہ سے مراد یہ ہے کہ طلاق روزے کی طرح ایک فعل ہے۔ دن میں ایک مرتبہ روزہ رکھا جاتا ہے تو تین یا تیس روزے کہنے سے تیس نہیں ہوجائیں گے۔ صحابہ کرام نے اپنی طرف سے حلال وحرام پر اختلاف نہیں کیا تھا۔ ایک شخص نے حضرت علی سے کہا کہ اس نے بیوی کو حرام کہا ہے اور اس کی بیوی رجوع کیلئے راضی نہیں تھی تو حضرت علی نے رجوع نہ کرنے کا حکم دیا اور ایک شخص نے حضرت عمر سے کہا کہ اس نے بیوی کو حرام کہا ہے اور وہ رجوع پر راضی ہے تو حضرت عمر نے کہا کہ رجوع کرسکتے ہو۔ دونوں نے قرآن کے عین مطابق حکم جاری کیا لیکن بعد والوں نے بات کا بتنگڑ بنایا ہے۔ حضرت ابن عباس کے قول اور فتوے میں اور شاگردوں میں بھی کوئی تضاد نہیں تھا بلکہ انہوں نے امر واقع دیکھ لیا کہ عورت راضی ہے تو قرآن کے مطابق رجوع کا فتویٰ دیا اور جہاں دیکھا کہ عورت راضی نہیں ہے تو فتویٰ دیا کہ اب تم اپنا حق کھو چکے ہو۔ قرآن کی واضح آیات سے کم ازکم ان لوگوں نے ہرگز انحراف نہیں کیا تھا۔
دلیل نمبر2:علماء ومفتیان حلالے کا فتویٰ لکھتے ہیں تو قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہیں کہ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان آیت229البقرہ ”طلاق رجعی صرف دو مرتبہ ہے پھر معروف طریقے سے رکھنا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ نا ہے”۔ پھر فان طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجًا غیرہ آیت230البقرہ ” اگر تیسری طلاق دی تو اس کیلئے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور شوہر سے نکاح کرلے” ۔
جواب:حنفی مسلک میں اس تیسری مرتبہ طلاق کا تعلق پہلے دو مرتبہ طلاق سے نہیں ہے بلکہ اس کے بعد خلع کی صورت سے ہے۔حنفی عالم علامہ تمنا عمادی نے اس پر ”الطلاق مرتان” کتاب لکھی ہے جو ابھی دیوبندی مکتب کے ادریس اعوان نے بھی ”المیزان” سے شائع کردی ہے۔ اس فتوے کے ذریعے علماء ومفتیان قرآن کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں اور مسلک حنفی کی بھی مخالفت میں فتویٰ دیتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے فرمایا الذین جعلوا القراٰن عضین ”جن لوگوں نے قرآن کو بوٹیاں بنا ڈالا ہے”۔باقی آیات میں تفصیل سے اللہ کے حدود ہیں جن سے خلع مراد نہیں بلکہ طلاق کے بعد اللہ نے عورت کے حق کو محفوظ کیا ہے اور یہ جعلی خلع کا نام دے کر عورت کو بلیک میل کرتے ہیں۔ خلع کا حکم آیت19سورہ النساء میں ہے ۔ اس میں بھی معنوی تحریف کردی ہے۔
دلیل نمبر3:مفتی حلالہ کیلئے بخاری سے بھیانک حدیث پیش کرتے ہیں۔
جواب : امام اسماعیل بخاری نے یہ بہت خطرناک کام کیا ہے کہ اس باب ”من اجاز طلاق ثلاث” کے تحت یہ حدیث درج کی کہ رفاعة القرظی کی بیوی نے کہا کہ مجھے رفاعہ نے طلاق دی تو میری طلاق منقطع ہوگئی ۔ پھر عبدالرحمن بن زبیر القرظی سے نکاح کیا، اسکے پاس دوپٹے کے پلو کی طرح چیز ہے۔ نبی ۖ نے فرمایا کہ کیا آپ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟۔ پس نہیں۔ جب تک کہ آپ اس کا ذائقہ نہ چکھ لو اور وہ تیرا ذائقہ نہ چکھ لے”۔ صحیح بخاری نے امام ابوحنیفہ کے مؤقف کو غلط اور امام شافعی کے مؤقف ٹھیک ثابت کرنے کیلئے اس روایت کو درج کیا ۔ لیکن کیا اس واقعہ میں واقعی اکٹھی تین طلاق کا ثبوت ہے؟۔
پہلی بات:امام شافعی نے بھی اپنے مؤقف کیلئے اس حدیث کو دلیل نہیں مانا ہے اور بخاری نے بھی دوسری جگہ کتاب الادب میں واضح کیا ہے کہ رفاعہ نے اکٹھی تین طلاقیں نہیں دی تھیں تو پھر اس کو اکھٹی تین طلاق کیلئے پیش کرنا بڑا دھوکہ ہے جس سے خواتین کی عزتوں کو لوٹنے کا کام کیا جاتا ہے۔
دوسری بات:اگر اس روایت میں یہ ہوتا کہ رفاعہ القرظی نے اکٹھی تین طلاقیں دیں اور پھر دونوں میاں بیوی رجوع کرنا چاہتے تھے لیکن رسول ۖ نے فتویٰ دیا کہ پہلے عدت گزار لو ۔ پھر حلالہ کرلو تو بھی احناف کے نزدیک اس حدیث کو قرآن کی واضح آیت سے متصادم ہونے کی بنیاد پر قابل قبول نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ وفاق المدارس کے صدر محدث العصر مولانا سلیم اللہ خان نے لکھا کہ ان احادیث میں اتنی جان بھی نہیں ہے کہ قرآن کے لفظ نکاح پر جماع کا اضافہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ خبرواحد ہے۔ یہ تو ابھی علماء ومفتیان نے سوچا بھی نہیں ہے کہ جب قرآن بار بار باہمی اصلاح کی بنیاد پر رجوع کی وضاحت کرتا ہے اور کسی بھی حدیث سے اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے تو فتویٰ کس بات پر ہے؟۔
تیسری بات:رسول اللہ ۖ کی عظیم شخصیت تو بہت اعلیٰ وارفع ہے لیکن کیا یہ کم عقل وبدبخت علماء ومفتیان کسی عورت کو یہ فتویٰ دے سکتے ہیں کہ نامرد سے حلالہ کراؤ۔ جس میں صلاحیت نہ ہو اور اس کو مجبور کیا جائے کہ لذت اٹھاؤ۔ شرم ، حیاء ، غیرت اور ضمیر بھی کوئی چیز ہے جو دین فروشی نے بالکل ہی کھودی ہے۔
دلیل نمبر4:عویمر عجلانی نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا تو عویمر عجلانی نے اکٹھی تین طلاقیں دیں۔ یہ بخاری نے نقل کیا اور امام شافعی کی دلیل بھی ہے۔
جواب:امام بخاری کا مطلب یہ ہے کہ یہ اکٹھی تین طلاق کا جواز ہے اور امام شافعی نے بھی اس کو جواز کی حد تک تسلیم کیا ہے۔اکٹھی تین طلاق کو جائز کہنا الگ بات ہے اور اس کی وجہ سے قرآنی آیات کی منسوخی کا فتویٰ دینا الگ بات ہے۔ دونوں معاملات میں بہت فرق ہے۔ ایک شخص اکٹھی تین طلاق دے کر عورت کو فارغ کرتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے لیکن کیا اس کی وجہ سے رجوع نہیں ہوسکتا ہے؟۔ قرآن کہتا ہے کہ میاں بیوی باہمی اصلاح اور معروف طریقے سے رجوع کرسکتے ہیں۔ عدت کے اندر بھی کرسکتے ہیں، عدت کی تکمیل پر بھی کرسکتے ہیں اور عدت کی تکمیل کے کافی عرصہ بعد بھی کرسکتے ہیں تو اکٹھی تین طلاق کی وجہ سے قرآنی آیات کو منسوخ تو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عویمر عجلانی کے واقعہ میں قرآن کے ساتھ کوئی تضاد بھی نہیں ہے اسلئے کہ قرآن نے فحاشی کی صورت میں عورت کو گھر سے عدت میں بھی نکالنے اور نکلنے کی اجازت دی ہے۔
دلیل نمبر5:محمود بن لبید سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ۖ کو خبر دی کہ فلاں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو نبی ۖ غضبناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میری موجودگی میں تم قرآن کیساتھ کھیل رہے ہو؟۔ جس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا میں اس کو قتل نہ کردوں۔ اگر تین طلاق بڑا مسئلہ نہ ہوتا اور رجوع کی گنجائش ہوتی تو اس قدر سخت جملے اور معاملات کیسے ہوتے؟۔
جواب:دوسری روایات میںواضح ہے جو اس روایت سے زیادہ معتبر ہیں کہ خبر دینے والے بھی حضرت عمر تھے اور قتل کی پیشکش کرنے والے بھی حضرت عمر تھے اور طلاق دینے والے عبداللہ بن عمر تھے۔نبی ۖ کے غضبناک ہونے کی بات بخاری میں ہے جس کے بعد رجوع کا حکم بھی فرمایا اور اکٹھی تین طلاق کا ذکر صحیح مسلم میں ہے۔ اور وہ دونوں روایات اس سے زیادہ معتبر ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حیض میں طلاق دینا یا اکٹھی تین طلاق دینا قرآن فہمی کی کمی ہے جس پر غصہ اسلئے بنتا تھا کہ واضح آیات کو سمجھا کیوں نہیں؟۔ جس طرح پہلی قومیں جہالتوں کا شکار ہوگئیں تو امت مسلمہ کا بھی یہی خدشہ تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے قرآنی آیات سے متضاد فتوے دینے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی ہے۔
دلیل نمبر6:جامع ترمذی میں جمہور کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاق واقع ہونے کی دلیل کے عنوان سے فاطمہ بنت قیس کے واقعہ کو نقل کیا ہے۔
جواب:صحیح احادیث میں ہے کہ فاطمہ بنت قیس کے شوہر نے الگ الگ طلاقیں دی تھیں۔ لیکن جب جمہور کی طرف سے اس قسم کی احادیث کو نقل کیا جاتا ہے تو من گھڑت روایات کی بھی بھرمار ہوتی ہے۔ صحیح اور ضعیف روایات میں یہ تطبیق بھی ہوسکتی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی گئی ہیں لیکن شمار ایک کی گئی ہو اور پھر الگ الگ بھی دی گئی ہو۔لیکن کچھ روایات تو بہت زیادہ من گھڑت ہیں۔ مثلاً یہ جب حضرت علی کی شہادت ہوئی تو حسن کی بیوی نے کہا کہ تجھے خلافت مبارک ہو۔ حسن نے کہا کہ تجھے تین طلاق ۔ پھر فرمایا کہ اگر میں نے اپنے جد سے نہ سنا ہوتا کہ تین طلاق کے بعد رجوع نہیں ہوسکتا تو رجوع کرلیتا ۔مگر راوی کو جرو کلب کتے کا بچہ کہا گیا۔ ان بے بنیاد روایات کی وجہ سے قرآنی آیات سے انحراف کی گنجائش نہیں تھی جیسے سودی حیلہ کیلئے من گھڑت احادیث کا سہارا لیا گیا ہے تو حلالہ کیلئے بھی اس طرح احادیث گھڑی گئی ہیں۔
دلیل نمبر7:اکٹھی تین طلاق بدعت اور حنفی فقہاء کے نزدیک حلالہ ہے۔
جواب:حلالہ ہی بدعت ہے ۔ کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة وکل ضلالة فی النار مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ہم یوم آزادی مناتے ہیں میلاد النبی ۖ نہیں اسلئے کہ بدعت ہے۔ افغان طالبان نے میلادالنبی ۖ کا سرکاری اہتمام کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے دیوبندی اکابر جلوس نکالتے ہیں۔ فتویٰ فروشان اسلام کی وجہ سے جلوسوں پر دہشتگردانہ حملہ ہوتا ہے۔شادی بیاہ کی رسم میں لفافے کی لین دین کو سود اور اسکے کم ازکم گناہ کو ماں سے زنا قرار دینے والا دارالعلوم کراچی جامعہ بن گئی ،مجامعت سے عالمی سودی نظام اور جنرل ضیاء کے ریفرینڈم کو اسلامی قرار دیا مگر ابوبکر وعمر و عثمان وعلی کی خلافت کے قیام کا کوئی فتویٰ نہیںدیا ۔ جبکہ دارالعلوم کراچی کو حلالہ کی بدعت کا گھروندابنایا ہوا ہے۔ سید عتیق الرحمن گیلانی

اخبار نوشتہ دیوار کراچی
شمارہ اکتوبر 2023
www.zarbehaq.com
www.zarbehaq.tv
Youtube Channel: Zarbehaq tv

اس پوسٹ کو شئیر کریں.

لوگوں کی راۓ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔

اسی بارے میں

نماز تراویح پرمفتی منیر شاکر، مولانا ادریس اور علماء کے درمیان اختلاف حقائق کے تناظرمیں
پاکستان میں علماء دیوبند اور مفتی منیر شاکر کے درمیان متنازعہ معاملات کا بہترین حل کیا ہے؟
عورت مارچ کیلئے ایک تجویز